حضرت مصلح موعود ؓ

تحریک جدید کے تین اہم مطالبات (قسط دوم)

(انتخاب خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۰؍دسمبر۱۹۳۵ء)

میں ایک دفعہ پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں جو لوگ اپنے بیکار بچہ کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا بچہ ہے ہمارے گھر سے روٹی کھاتا ہے کسی اور کواِس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے وہ ویسی ہی بات کہتے ہیں جیسے کوئی کہے کہ میرا بچہ طاعون سے بیمار ہے کسی اور کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے

[تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل۱۷؍اکتوبر۲۰۲۴ء]

(گذشتہ سے پیوستہ)پہلا بیکار اس لئے بنا تھا کہ اس کے والدین نے اس کے لئے کام مہیا نہ کیا لیکن دوسرے بیکار اس لئے بنیں گے کہ وہ ایک بیکار سے متأثر ہو کر اُس کے رنگ میں رنگین ہوجائیں گے۔اور اُس کی بدعادات کو اپنے اندر پیدا کر کے اپنی زندگی کا مقصد یہی سمجھیں گے کہ کہیں بیٹھے توگا لیا ،کہیں سرمار لیا، کہیں تاش کھیل لی،کہیں شطرنج کھیل لیا، کہیں جؤا کھیلنے لگ گئے۔

غرض بیکاروں کی تمام تر کوشش ایسے ہی کاموں کے لئے ہو گی جو نہ اُن کے لئے مفید، نہ سلسلہ کے لئے اور نہ مذہب کے لئے۔

پھر اقتصادی لحاظ سے بھی بیکاری ایک لعنت ہے اور جس قدر جلد ممکن ہو دُور کرنا چاہئے۔ہمارے ملک کی آمد پہلے ہی چھ پائی فی کس ہے اور یہ ہر شخص کی آمد نہیں بلکہ کروڑ پتیوں کی آمد ڈال کر اوسط نکالی گئی ہے اور ان لوگوں کی آمد ڈال کر نکالی گئی ہے جن کی دو دو تین تین لاکھ روپیہ ماہوار آمد ہے۔ورنہ اگران کو نکال دیا جائے تو ہمارے ملک کی آمد فی کس دو تین پائی رہ جاتی ہے۔جس ملک کی آمدنی کا یہ حال ہو اُس میں سمجھ لو کتنے بیکار ہوں گے۔ اگر ملک کے تمام افراد کام پر لگے ہوئے ہوتے تو یہ حالت نہ ہوتی۔لیکن اب تو یہ حال ہے کہ اگر کوئی دو آنے کماتا ہے تو اُس پر اتنے بیکاروں کا بوجھ ہوتا ہے کہ اپنے لئے اُس کی آمد دمڑی رہ جاتی ہے اور جوکماتا ہے اس کی آمد پر بھی اثر پڑتا ہے تو بیکاروں کی وجہ سے ایک تو دوسرے لوگ ترقی نہیں کر سکتے کیونکہ بیکار ان کے لئے بوجھ بنتے ہیں دوسرے جب ملک میں ایک طبقہ ایسا ہو جو آگے نہ بڑھنے والا ہو تو دوسرے لوگوں کا قدم بھی ترقی کی طرف نہیں بڑھ سکتا کیونکہ بیکار مزدوری کو بہت کم کر دیتے ہیں۔ بیکار شخص ہمیشہ عارضی کام کرنے کا عادی ہوتا ہے اور جب کسی کی بیکاری حد سے بڑھتی اور وہ بھوکوں مرنے لگتا ہے تو مزدوری کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے لیکن چونکہ اُسے سخت احتیاج ہوتی ہے اِس لئے اگر ایک جگہ مزدور کو چار آنے مل رہے ہوں تو یہ دو آنے لے کر بھی وہ کام کر دے گا اور اِس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سارے مزدوروں کی اُجرت دو آنے ہو جائے گی۔اور لوگ کہیں گے کہ جب ہمیں دو دو آنے پر مزدور مل جاتے ہیں تو ہم چار آنے مزدوری کیوں دیں۔پس وہ ایک بیکار ساری دنیا کے مزدوروں کی اُجرت کو نقصان پہنچاتا اور سب کو دو آنے لینے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن قوموں میں بیکاری زیادہ ہو اُن میں مزدوری نہایت سستی ہو تی ہے کیونکہ بیکار مجبوری کی وجہ سے کام کرتا اور باقی مزدوروں کی اُجرتوں کو نقصان پہنچا دیتا ہے۔لیکن جن قوموں میں بیکاری کم ہو اُن میں مزدوری مہنگی ہوتی ہے۔تو بیکار اقتصادی ترقی کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔بیکار شخص ہمیشہ مانگنے کا عادی ہو گا دوسروں پر بوجھ بنے گا اور اگر کبھی مزدوری کرے گا تو مزدوروں کی ترقی کو نقصان پہنچائے گا۔ …

میں نے تحریک کی تھی کہ ہماری جماعت میں جو لوگ بیکار ہیں وہ معمولی سے معمولی مزدوری کر لیں مگر بیکار نہ رہیں۔

لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے میری اِس نصیحت پر عمل نہیں کیا گیا اور اگر کیا گیا تو بہت کم حالانکہ اگر کوئی شخص بی۔اے۔ یا ایم۔اے ہے اور اُسے ملازمت نہیں ملتی اور وہ کوئی ایسا کام شروع کر دیتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ دو یا پانچ روپے ماہوار کماتا ہے تو اِس کا اُسے بھی فائدہ ہو گا اور جب وہ کام میں مشغول رہے گا تو دوسرو ں کو بھی فائدہ ہو گا اور اس سے عام لوگوں کو وہ نقصان نہیں پہنچائے گا جو بیکار شخص سے پہنچتا ہے۔ بلکہ محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اُس کے اخلاق درست ہوں گے۔ محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اُس کے ماں باپ کا روپیہ جو اُس پر صَرف کرتے تھے ضائع نہیں ہو گا اور محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اُس سے قوم کو بھی فائدہ پہنچے گا۔غرضیکہ وہ اپنی اخلاقی حالت کو بھی درست کرے گا اور اقتصادی حالت کو بھی۔ پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں جو لوگ اپنے بیکار بچہ کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا بچہ ہے ہمارے گھر سے روٹی کھاتا ہے کسی اور کواِس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے وہ ویسی ہی بات کہتے ہیں جیسے کوئی کہے کہ میرا بچہ طاعون سے بیمار ہے کسی اور کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔یا میرا بچہ ہیضہ سے بیمار ہے کسی اور کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔جس طرح طاعون کے مریض کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس کے متعلق کسی اور کو کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے بلکہ سارے شہر کو حق حاصل ہے کہ اس پر گھبراہٹ کا اظہار کرے اور اس بیماری کو روکے۔ جس طرح ہیضہ کے مریض کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس معاملہ میں کسی اور کو کہنے کی کیا ضرورت ہے بلکہ سارا شہر اِس بات کا حق رکھتا ہے کہ اسکے متعلق گھبراہٹ ظاہر کرے اور اس بیماری کو رو کے۔اسی طرح جو شخص بیکار ہے اُس کے متعلق تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اُسے ہم خود روٹی کھلاتے اور کپڑے پہناتے ہیں کسی اور کو اِس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے بلکہ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اس بیکاری کے مرض کو دُور کرنے کی کوشش کرے کیونکہ وہ طاعون اور ہیضہ کے کیڑوں کی طرح دوسرے بچوں کا خون چوستا اور اُنہیں بد عادات میں مبتلاء کرتا ہے۔تم ہیضہ کے مریض کو اپنے گھر میں رکھ سکتے ہو،تم طاعون کے مریض کو اپنے گھر میں رکھ سکتے ہو مگر تم ہیضہ اور طاعون کے کیڑوں کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتے۔ کیونکہ وہ پھیلیں گے اور دوسروں کو مرض میں مبتلاء کریں گے۔

اسی طرح تم یہ کہہ کرکہ ہم اپنے بچوں کو کھلاتے اور پلاتے ہیں اس ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے

جو تم پر عائد ہوتی ہے بلکہ تمہارا فرض ہے کہ جس قدر جلد ہوسکے اِس بیماری کو دُور کرو ورنہ قوم اور ملک اس کے خلاف احتجاج کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔پس یہ معمولی بات نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جا سکے۔اگرایک کروڑ پتی کا بچہ بھی بیکار ہے تو وہ اپنے گھر کو ہی نہیں بلکہ ملک کو بھی تباہ کرتا ہے۔

یاد رکھو تمام آوارگیاں بیکاری سے پیدا ہوتی ہیں

اور آوارگی سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی جرم نہیں میرے نزدیک چور ایک آوارہ سے بہتر ہے بشرطیکہ ان دونوں جرائم کو الگ الگ کیا جا سکے۔اور اگر چوری اور آوارگی کو الگ الگ کر کے میرے سامنے رکھا جائے تو یقیناً میں یہی کہونگاکہ چور ہونا اچھا ہے مگر آوارہ ہونا بُرا۔قتل نہایت ناجائز اور ناپسندیدہ فعل ہے لیکن اگر میری طرح کسی نے اخلاق کا مطالعہ کیا ہو اور اِن دونوں جرائم کو الگ الگ رکھ کر اس سے دریافت کیا جائے کہ ان میں سے کونسا فعل زیادہ بُرا ہے تو وہ یقیناً یہی کہے گا کہ قتل کرنا اچھا ہے مگر آوارہ ہونا بُرا۔کیونکہ ممکن ہے قاتل پر ساری عمر میں صرف ایک گھنٹہ ایسا آیا ہو جبکہ اُس نے جوش میں آکر کسی شخص کو قتل کر دیا ہولیکن آوارہ آدمی ساری عمر ذہنی طور پر قاتل بنا رہتا ہے اور

اپنی عمر کے ہر گھنٹہ میں اپنی روح کو ہلاک کرتا ہے

تم ایک قاتل کو نیک دیکھ سکتے ہو لیکن تم کسی آوارہ کو نیک نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ہو سکتا ہے ایک شخص نیک ہو لیکن اُس کی عمر میں ایک گھنٹہ ایسا آجائے جب وہ جوش میں آکر کسی کو قتل کر دے اور قتل کے بعد اپنے کئے پرپشیمان ہو اور دوسر ے گھنٹہ میں ہی وہ اپنے ربّ کے سامنے جھک جائے اور کہے کہ اے میرے ربّ! مجھ سے غلطی ہوئی مجھے معاف فرمائیںپس ہو سکتا ہے وہ معاف کر دیا جائے لیکن آوارہ شخص خداتعالیٰ کی طرف نہیں جھکتا کیونکہ وہ مُردہ ہوتا ہے اُس میں کوئی روحانی حِسّ باقی نہیں ہوتی۔ میرے نزدیک دنیا کا خطرناک سے خطر ناک جُرم آوارگی سے کم ہے۔اور آوارگی مجموعہ جرائم ہے۔ کیونکہ جرم ایک جزو ہے اور آوارگی تمام جرائم کا مجموعہ۔ایک بادشاہ کے ہاتھ کی قیمت بادشاہ کی قیمت سے کم ہے، ایک جرنیل کے ہاتھ کی قیمت جرنیل سے کم ہے اسی طرح ہر جُرم کی پاداش آوارگی سے کم ہے کیونکہ جُرم ایک جزوہے اور آوارگی اس کا کُل ہے۔تم دنیا سے آوارگی مٹا ڈالو تمام جرائم خود بخود مٹ جائیں گے۔ تمام جرائم کی ابتداء بچپن کی عمر سے ہوتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بچہ آوارگی میں مبتلاء ہوتا ہے تم بچے کوکُھلا چھوڑ دیتے ہو اور کہتے ہو یہ بچہ ہے اس پر کیا پابندیاں عائد کریں۔اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خطرناک جرائم کا عادی بن جاتا ہے۔

اگر دنیا اپنے تمدن کو ایسا تبدیل کر دے کہ بچے فارغ نہ رہ سکیں تو یقیناً دنیا میں جرائم کی تعداد معقول حد تک کم ہو جائے۔

لوگ اصلاحِ اخلاق کے لئے کئی کئی تجویزیں سوچتے اور قسم قسم کی تدبیریں اختیار کرتے ہیں مگر وہ سب نا کام رہتی ہیں اس کے مقابلہ میں اگر بچوں کو کام پر لگا دیا جائے اور بچپن کی عمر کو فارغ عمرنہ قرار دیا جائے تو نہ چوری باقی رہے نہ جھوٹ،نہ دغا، نہ فریب اور نہ کوئی اور فعلِ بد۔باِلعموم لوگ بچپن کی عمر کو بیکاری کا جائز زمانہ سمجھتے ہیں حالانکہ وہ بیکاری بھی ویسی ہی ناجائز ہے جیسے بڑی عمر میں کسی کا بیکار رہنا۔ چنانچہ ہماری شریعت نے اس کو خصوصیت سے مد نظر رکھا ہے اور رسول کریم ﷺ نے اِس کے متعلق اُمتِ محمدیہ کو ہدایت دی ہے۔پاگل اور دیوانے کہتے ہیں کہ یہ بے معنی حکم ہے۔حالانکہ یہ بہترین تعلیم ہے جو بچوں کے اخلاق کی اصلاح کے لئے رسول کریم ﷺ نے دی۔ آپ فرماتے ہیں جب بچہ پیدا ہو تو اُس کے دائیں کان میں اذان کہو اور بائیں میں اقامت۔وہ بچہ جو ابھی بات نہیں سمجھتا، وہ بچہ جو آج ہی پیدا ہؤا ہے رسول کریم ﷺ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ تم آج ہی اس سے کام لو اور پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دو۔کیا تم سمجھتے ہو کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی تمہیں اس کے کان میں اذان دینی چاہئے لیکن دوسرے اور تیسرے دن نہیں۔کیا پہلے دن بچہ اذان کو سمجھ سکتا تھا مگر مہینہ کے بعد کم فہم ہو جاتا ہے کہ تم اِس حکم کو نظر انداز کر دیتے ہو یا سمجھتے ہو کہ پہلے دن تو وہ اِس قابل تھا کہ اس سے کام لیا جاتا لیکن سال دو سال گزرنے کے بعد وہ نا قابل ہو گیا ہے۔جو شخص ہمیں یہ نصیحت کرتا ہے کہ تم بچہ کے پیدا ہوتے ہی اُس کے کان میں اذان دو یقیناً وہ اس تعلیم کے ذریعہ ہمیں اس نکتہ سے آگاہ کرتا ہے کہ

بچہ کا ہر دن تعلیم کا دن ہے۔

اور ہر روز اُس کی تربیت کا تمہیں فکر کرنا چاہئے۔ مگر اُمتِ محمدؐیہ میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اس نکتہ کو سمجھا۔ہمیں خدا تعالیٰ نے ایسا معلّم دیا تھا جس کاہر ہر لفظ اس قابل تھا کہ دنیا کے خزانے اُس پر نچھا ور کر دیئے جائیں۔اُس نے ہمیں معرفت کے موتی دئیے،علوم کے خزانے بخشے،اور ایسی کامل تعلیم دی جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے مگر افسوس لوگوں نے اُس کی قدر نہ کی۔تم میں سے کوئی شخص ایسانہیں پیدا ہؤا مگر اُس کے کان میں اذان نہ کہی گئی۔پھر کیوں تم نے اب تک یہ نکتہ نہیں سمجھا کہ رسول کریم ﷺ نے بیکاری کو تو سب سے بڑی لعنت قرار دیا ہے اور تمہارا فرض ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اِس لعنت سے بچائو۔تم دنیا میں دیکھتے ہو کہ جب کارخانہ والوں کے سپرد کوئی مزدور کیا جاتا ہے تو وہ اُس کا نام رجسٹر میں درج کر لیتے ہیں اور اُس سے کام لینا شروع کر دیتے ہیں۔کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ کارخانہ والوں نے کسی مزدور کا نام رجسٹر میں درج کر لینے کے بعد اُسے دو چار سال کے لئے کھلا چھوڑ دیا ہو۔اگر نہیں تو رسول کریم ﷺ نے تمہارے منہ سے کسی بزرگ کے ذریعہ تمہارے بچوں کے کانوں میں اذان دِلا کر کہا کہ اب اِس کا نام میری اُمت کے رجسٹر میں درج ہو گیا۔تم نے اس بچے کا نام رجسٹر میں درج تو کرا لیا مگر پھر اسے کارخانہ سے چھٹی دے دی پس اِس غفلت اور کوتاہی کا تم پر الزام عائد ہوتا ہے رسول کریم ﷺپر نہیں۔ ہر نبی اپنی اُمت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔جب رسول کریم ﷺ نے اپنی اُمت کو یہ تعلیم دے دی کہ جب کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کے کان میں اذان کہو تو اِس کے بعد قیامت کے دن اگر محمد ﷺ سے خداتعالیٰ پوچھے کہ اے محمد یہ تیری اُمت کے بیکار جو چور،قاتل،جھوٹے،اور دغا باز، فریبی،اور مکّار بن گئے اور خون چوسنے والی جو نکوں کی طرح انہوں نے ظلم سے دوسروں کی اولادوں کو بھی تباہ کیا ان کی ذمہ داری کس پر ہے؟ تو رسول کریم ﷺ کہہ دیں گے اے خدا !اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں میں نے تو اُنہیں کہہ دیا تھا کہ جس دن بچہ پیدا ہو اُسی دن اس کے کان میں اذان دو جس کا یہ مطلب تھا کہ اُسی دن بچوں کو کام پر لگا دو اور اُن کی نگرانی کرو۔رسول کریم ﷺ تو یہ جواب دے کر اپنی فرض شناسی کا ثبوت دے دیںگے مگر ذمہ داری اُن لوگوں پر عائد ہو جائے گی جن کے گھروں میں بیکار بچے رہے اور انہوںنے اُن کی بیکاری کو دُور کرنے کا کوئی انتظام نہ کیا۔ پس یہ غلطی ہے کہ ہمارے ملک میں بچپن کے زمانہ کوبیکاری کا زمانہ سمجھتے ہیں حالانکہ اگربچپن کا زمانہ بیکاری کا زمانہ ہے تو پھر چوری چوری نہیں اور فریب فریب نہیں۔تمام بدکاریاں اور تمام قسم کے فسق و فجور بچپن میں ہی سیکھے جاتے ہیں۔اور پھر ساری عمرکے لئے لعنت کا طوق بن کر گلے میں پڑ جاتے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button