بستی کتنی دور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط نہم)
مکرم مولانا محمد صدیق گورداسپوری صاحب
جامعہ میں تعلیم کے دوران تو مکرم مولانا محمد صدیق گورداسپوری صاحب سے کوئی شناسائی نہ تھی البتہ ان کا نا م سنا ہوا تھا۔ اس کے بعد جب خاکسار گھانا گیا تو بیرون دنیا اور خصوصاً مغربی افریقہ کے ممالک میں خدمات سلسلہ بجا لانے والے مبلغین کا ذکر آپس میں ہوتا رہتا تھا۔ اور الفضل اور ’’ماہنامہ تحریک جدید‘‘ سے بھی بیرونی ممالک میں کام کرنے والے مبلغین کی مساعی کے بارے میں پتہ چلتا تھا۔
گھانا میں خدمات بجا لانے کے بعد خاکسار کی تقرری سیرالیون مغربی افریقہ میں ہوئی۔ اس وقت تین مبلغین کی تقرریاں ہوئی تھیں۔ گھانا سے مکرم حمید احمد ظفر صاحب جو کماسی مشن میں خدمات بجا لارہے تھے ان کے بارے میں اطلاع آئی کہ وہ پاکستان واپس جائیں اور وہاں سے فیملی ساتھ لے کر نائیجیریا کے لیے روانہ ہوں۔ مکرم غلام احمد خادم صاحب کا نائیجیریا کے لیے تقررہوا۔ تیسرا خاکسار تھا جس کے بارے میں کرم عبدالوہاب بن آدم صاحب نے بتایا کہ
"Shamshad proceed to Sierra Leone his family shall be sent in Sierra Leone”
پہلا مرحلہ سیرالیون کے ویزا کا حصول تھا۔ جب سیرالیون مشن کو خاکسار کے تقرراور وہاں میری فیملی کی آمدکی اطلاع ملی تو انہوں نے مرکز کو سیرالیون مشن کے مالی حالات کی وجہ سےکچھ پریشانی کا اظہار کیا۔ اس حوالےسے مکرم امیر صاحب سیرالیون مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری نے مرکز سے خط و کتابت کی جس میں ۳،۲ ماہ کا عرصہ لگ گیا۔ تاہم مرکز نے انہیں اطلاع دی کہ حضور ؒنے فیصلےکو برقرار رکھا ہے۔چنانچہ سیرالیون میں خاکسار کے ویزا کے حصول کی کارروائی کا آغاز ہوا۔ گھانا میں خاکسار روانگی کے وقت کو فوریڈوا ایسٹرن ریجن میںمتعین تھا۔چنانچہ میری سیرالیون روانگی کی تیاری مکمل ہونے پر مکرم رئیس علی آیو صاحب صدر جماعت سمیت تمام احباب نے بہت محبت کے ساتھ خاکسار کو رخصت کیا۔
مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری امیر و مشنری انچارج اپنے ایک ساتھی کے ساتھ خاکسار کو فری ٹاؤن سیرالیون کے لنگی ائیرپورٹ پر لینے آئے ہوئے تھے۔ ائیرپورٹ سے بذریعہ کار اور فیری فری ٹاؤن کے مشن ہاؤس پہنچے۔ جہاں دو تین دن محترم امیر صاحب کے ساتھ ہیڈ کوارٹر میں گذارے۔ اس دوران آپ کے ساتھ ایک دن قریبی شہر میں تربیتی و تبلیغی جماعتی دورہ پر بھی جانے کا موقع ملا۔ بعدازاں خاکسار کا تقرر نارتھ ریجن کے شہر مگبورکا میں کیا گیا۔
سیرالیون میں پہلے چند دن کھانے کا بڑا مسئلہ رہا۔ یہاں پر جو ڈبل روٹی ملتی تھی وہ میدے کی بنی ہوتی۔ پھر ابلےہوئے چاول کے ساتھ ایک قسم کا سالن جسے پلاسس (Palasas) کہتے ہیں ہوتا جس میں شکرقندی کے پتے ،کچھ وہاں کے گرین پتے،کساوا کے پتے کا سالن اورمرغی اور گوشت کھال سمیت ڈالتے تھے۔ اور قسم قسم کی دیگر سبزیاں بھی جیسے ٹماٹر، مرچیں اور بھنڈی وغیر ہ بھی ڈال لیتے تھے۔اس سالن میں پام آئل بھی ڈالتے جس کی وجہ سے سالن کا رنگ انتہائی سرخ ہو جاتا اور اسےکھانے کو طبیعت مائل ہی نہ ہوتی تھی۔ کچھ دن تو ایسے ہی نیم فاقہ کشی میں گذارے۔ پھر ایک دن محترم مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری فرمانے لگے کہ شمشاد دیکھو یہاں پر کھانا یہی ملنا ہے۔ اسے چاہے آج کھانا شروع کر دو،چاہے کل یا پرسوں۔یہ تمہاری اپنی مرضی ہے مگر ملے گا یہی۔بس پھر کیا تھا۔ اب یہ کھانا ایسا مزے دار لگا کہ سیرالیون کو چھوڑے ہوئے آج ۳۸؍ سال کا عرصہ گذرچکا ہے۔ مگر یہ کھانا اب بھی مزے دار لگتا ہے۔ اور یہاں امریکہ میں بھی اگر کوئی سیرالیونین پکا کر گھر بھجوا دے تو خاکسار بڑے شوق سے کھاتا ہے۔ بہرحال یہ تو ایک ضمنی مگر ضروری بات تھی۔
مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری مجھے خود گاڑی میں فری ٹاؤن سے مگبورکا مشن ہاؤس چھوڑنے آئے۔
یہاں برلب سڑک مسجد احمدیہ سے تھوڑی دور ایک چھوٹا سا مکان تھا جس میں نہ پانی تھا ،نہ کچن ،نہ صحن۔ بس دو چھوٹے سے کمرے اور ان میں ہسپتال کے بیڈز کی طرز کاایک ایک بیڈ تھا۔اس زمانے میں مربی کو خود ہی چندہ وصول کرنا ہوتا تھا اور اپنے اخراجات کا گوشوارہ بنا کر ہر ماہ چندے کی سٹیٹمنٹ لگا کر ہیڈکوارٹر کو بھجوانا ہوتا تھا۔ یہ پہلا تجربہ تھا کہ چندہ بھی خود لینا ہے اوراسی میں سے اخراجات کرنےہیں۔ اگر زائد از اخراجات چندہ ہوجاتا تو وہ ہیڈ کوارٹر بھجوا دیتا ورنہ ہیڈ کوارٹر مربی کو زائد رقم بھجوا دیتا۔
یہاں پر ان دنوں چندہ لوکل، ریجنل اور جلسہ سالانہ کے مواقع پر مالی قربانی کی تحریک کرکے اکٹھا کیا جاتا تھا۔ چند ایک بااثر اور بزرگ احباب اپنی اپنی مالی استطاعت کے لحاظ سے مالی قربانی کا آغازکرتے تھے اور پھر ریجنز کا مقابلہ ہوتا تھا۔ عام طور پر فری ٹاؤن ریجن، بو ریجن اور کینیما ریجن ہی اول، دوم،سوم آیا کرتا تھا۔ اوّل آنے والے ریجن کو علم انعامی بطور انعام بھی دیا جاتا تھا۔
شروع شروع میں خاکسار کا ریجن آخری نمبر پر ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار نے اپنے حلقہ اور ریجن کی تمام جماعتوں کے دورے شروع کیے۔ انہیں مالی قربانی کی اہمیت، برکات اور پھر علم انعامی جیتنے کی ترغیب دلائی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایااور ان کوششوں میں برکت ڈال دی اور آخری دو سال میں ہمارے ریجن نے بھی علم انعامی حاصل کیا۔
اس کے علاوہ ہمارے لوکل اور ریجنل اجتماعات میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے حیران کن مالی قربانی کی استعداد بڑھی۔ وذالک فضل اللّٰہ۔و الحمد للّٰہ رب العالمین۔
مکرم مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری بڑے ہمدرد اور شفیق امیر تھے۔ آپ نےخوفِ خدا اور تعلق باللہ کی صفت سے وافر حصہ پایا تھا۔ میں نے اکثر راتوں کو انہیں تہجد پڑھتے دیکھا۔ آپ ایک دعائیں کرنے والے بزرگ انسان تھے۔ وقتی طور پر حالات کی وجہ سے اگرغصہ آبھی جاتا تو بڑی جلدی رفو بھی ہوجاتا تھا۔
میں اپنی فیملی کے آنے سے پہلے مشن ہاؤس کو ان کے رہنے کے قابل بنا نا چاہتاتھا۔ چنانچہ برآمدہ کو باپردہ بنانے ،پانی کے لیے ایک کنواں کھدوانے اور صحن کے پیچھے ایک دیوار بنانے کے لیے تخمینہ لگا کر مکرم امیر صاحب کو دیا گیا جو آپ نے ازراہِ شفقت منظور فرمایا۔ لیکن ساتھ یہ ہدایت بھی دی کہ چندے میں اضافہ کیا جائے۔ اس زمانے میں جماعت سیرالیون کی مالی حالت خاطرخواہ نہ تھی۔ اس وجہ سے اخراجات بڑے سوچ سمجھ کر کرنے پڑتے تھے۔ جائز ضرورتوں کے لیے بھی بڑا لمبا عرصہ انتظار کرنا پڑتا تھا۔
ایک دفعہ خاکسار گرمی کے موسم میں قریباً ڈیڑھ میل دور پیدل چل کر علاقہ کے ہائی کمشنر کو ملنے گیا۔ جب اُن کے دفتر پہنچا تو پتا لگا کہ وہ کہیں دورے پر گئے ہیں۔ خاکسار پھر اسی طرح پیدل چل کر واپس مشن ہاؤس آیا۔ گرمی بہت زیادہ تھی۔ اس سے قدرے طبیعت بھی خراب ہوگئی۔ ان دنوں شہر میں فون کی سہولت موجود تھی۔ خاکسار نے ایک احمدی دوست مسٹر کمارا صاحب سے درخواست کی کہ اس طرح حکومتی افسران کو ملنے جانا ہوتا ہے اور جب وہ نہیں مل پاتے تو وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور پریشانی الگ۔ اس لیے آپ مشن ہاؤس میں فون لگوا دیں۔ ان دنوں ۸۰؍لیون ٹوٹل فون لگوانے کے اخراجات آئے تھے۔ خاکسار نے تحریک کی اور مسٹر کمارا صاحب نے حامی بھرلی۔ فون لگانے والوں کا دفتر بھی ان کے گھر کے ساتھ ہی تھا۔ انہوں نے انہیں کہہ دیا کہ ہمارے مشن میں جا کر فون کا کنکشن لگا دیں۔ چنانچہ فون کا کنکشن لگ گیا۔
خاکسار نے برکت کے طور پر سب سے پہلے امیر مولانا محمد صدیق صاحب کو فون کیا اور مشن میں فون لگنے کی خوشخبری سنائی۔ محترم امیر صاحب مجھ سے ناراض ہوگئے کہ آپ نے فون کیوں لگوایا ہے؟ اس سےاخراجات بڑھ جائیں گے۔ میں نے بھی چونکہ فون لگوانے سے پہلے اجازت نہ لی تھی اس لیے مجھے محترم امیر صاحب کی بات سے شدید پریشانی ہوئی اور اسی پریشانی میں بخار اور نہایت کمزوری ہوگئی۔ ابھی اس واقعے پر دو دن گذرے تھے کہ ڈاکٹر ساجد احمد صاحب جو مسنگبی ہسپتال کے انچارج تھے وہ اچانک مجھ سے ملنے کے لیے آگئے۔ انہوں نے جب میری حالت غیر دیکھی اور سبب پوچھا تو خاکسار نے انہیں سب کچھ بتا دیا۔ وہ خاموشی سے سنتے رہے اور پھر مجھے کہنے لگے کہ میں نے ساتھ کے شہر مکینی میں دوائیاں لینے جانا ہے میں دوائیاں لے کر واپس آتا ہوں۔ مکینی چھ میل کے فاصلہ پر تھا۔ مکرم ڈاکٹر صاحب مجھے انجیکشن اور دوائی وغیرہ دے کر مکینی چلے گئے۔ اور پھر تین چارگھنٹے بعد واپس آئے اور کہنے لگے کہ اِن شاء اللہ آپ کی طبیعت بہتر ہوجائے گی فکر نہ کریں۔ یہ کہہ کر مسنگبی واپس اپنے ہسپتال چلے گئے۔ ابھی شام کا اندھیرا ہونے ہی والا تھا کہ ہمارے مشن ہاؤس کے باہر کار آکر رکی۔ دیکھا تو محترم امیر صاحب فری ٹاؤن سے تشریف لائے اور آتے ہی مزاج پُرسی فرمائی اوربڑے ہی عجز و انکسار سے کہنے لگے کہ میری باتوں کا مطلب پریشان کرنا نہ تھا بس مشن کی مالی حالت ہی کچھ ایسی ہے کہ ہر وقت یہی فکر رہتا ہے کہ اخراجات کس طرح پورے ہوں گے۔ آپ فکر نہ کریں جو ہونا تھا ہوگیا۔
بعد میں معلوم ہوا کہ مکرم ڈاکٹر ساجد احمد صاحب جب مکینی گئے تھے تووہاں سے ہی انہوں نے محترم امیر صاحب کو فون کر کے میری حالت کا بتا دیا تھا جس پر آپ فوری طور پر وہاں سے خاکسار کی عیادت کے لیے تشریف لے آئے۔
جیسا کہ میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ محترم مولانا محمد صدیق صاحب بہت ہمدرد، نرم مزاج اورولی اللہ بزرگ تھے۔ بس مشن کی مالی حالت ہی اس وقت کچھ ایسی تھی کہ احتیاط کرنی پڑتی تھی۔ تاہم یہ ایک واقعہ ان کی ایک مبلغ کے ساتھ ہمدردی پر بھی دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔
جب آپ سیرالیون مشن سے الوداع ہو کر ربوہ واپس تشریف لے گئے تو آپ نے بطور نائب وکیل التبشیر خدمات سرانجام دیں۔ خاکسار کا اُن کے ساتھ محبت کا تعلق قائم رہا اور بذریعہ خط و کتابت رابطہ رہتا۔ آپ ازراہ شفقت میرے ہر خط کا جواب دیتے۔ آپ چونکہ امریکہ میں بھی امیر رہے تھے اس لیے گاہے گاہے یہاں کی جماعتوں کے افراد کے حالات بھی دریافت فرماتے رہتے اور اپنی قیمتی نصائح سے بھی نوازتے تھے۔
جب حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی وفات ہوئی تب بھی آپ نے خاکسار کو تعزیتی خط لکھا اور ان کے بارے میں اپنی یادداشتوں پر مشتمل الفضل میں مضمون بھی لکھا۔ اسی طرح محترم برادر مظفر احمد صاحب ظفر نائب امیر کی وفات پر بھی آپ نے ایساہی کیا۔
آپ نے ۸۷؍سال کی عمر میں ربوہ میں وفات پائی۔ آپ کی ساری زندگی خدماتِ دینیہ، اور اطاعتِ خلافت سے معمور ہے۔ آپ منکسرالمزاج، بے نفس، بے ریا، محنتی اور خاموش خدمت گزار وجود تھے۔ گہرا علم اور تحریر کا ذوق تھا۔
روزنامہ الفضل ۱۹؍فروری ۲۰۱۵ء صفحہ۷پر آپ کے حوالے سے یہ لکھتا ہے کہ ’’حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے مقام نعیم پر فائز افریقہ کے مربیان کا تذکرہ فرمایا تو آپ کو بھی اُن خوش قسمت مربیان میں شامل فرمایا۔ اطاعت امام اور اطاعت نظام آپ کی سیرت کا حسین پہلو ہے۔ آپ عبادت گذار، پنجوقتہ نمازی اور تہجد میں کبھی ناغہ نہ کرتے تھے۔‘‘
٭…٭…(باقی آئندہ )…٭…٭