اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آؤ
خُذُوا الرِّفْقَ اَلرِّفْق فَاِنَّ الرِّفْقَ رَأْسُ الْخَیْرَاتِ۔ نرمی کرو۔ نرمی کرو کہ تمام نیکیوں کا سِر نرمی ہے۔… اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں وہ ان کی کنیز کیں نہیں ہیں۔درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے۔پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغاباز نہ ٹھہرو۔اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَعَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ (النساء:۲۰) یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی کرو۔اور حدیث میں ہے خیرکم خیرکم باھلہٖ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے۔سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو۔ان کے لئے دُعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے۔ جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندہ برتن کی طرح جلد مت توڑو۔
(اربعین نمبر ۳ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۲۸)
جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ ظلم اور شرارت کا برتاؤ رکھتا ہے ممکن نہیں کہ وہ دوسروں سے بھی بھلائی کرسکے کیونکہ خدا نے آدم کو پیدا کرکے سب سے پہلے آدم کی محبت کا مصداق اس کی بیوی کو ہی بنایا ہے۔پس جوشخص اپنی بیوی سے محبت نہیں کرتا اوریا اس کی خود بیوی ہی نہیں وہ کامل انسان ہونے کے مرتبہ سے گرا ہوا ہے اور شفاعت کی دو شرطوں میں سے ایک شرط اس میں مفقود ہے۔اس لئے اگر عصمت اس میں پائی بھی جائے تب بھی وہ شفاعت کرنے کے لائق نہیں لیکن جو شخص کوئی بیوی نکاح میں لاتا ہے وہ اپنے لئے بنی نوع کی ہمدردی کی بنیاد ڈالتاہے کیونکہ ایک بیوی بہت سے رشتوں کا موجب ہو جاتی ہے اور بچے پیدا ہوتے ہیں ان کی بیویاںآتی ہیں اور بچوں کی نانیاں اور بچوں کے ماموں وغیرہ ہوتے ہیں اور اس طرح پر ایسا شخص خواہ نخواہ محبت اور ہمدردی کا عادی ہو جاتا ہے اور اس کی اس عادت کا دائرہ وسیع ہو کر سب کو اپنی ہمدردی سے حصہ دیتا ہے لیکن جو لوگ جوگیوں کی طرح نشوونما پاتے ہیں ان کو اس عادت کے وسیع کرنے کا کوئی موقع نہیں ملتا۔اس لئے ان کے دل سخت اور خشک رہ جاتے ہیں۔
(عصمت انبیاء،روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۶۱،۶۶۰)