صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑکی ایمان افروز روایات
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲۴؍جون ۲۰۱۱ء)
ایک روایت ہے جناب حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کے بارہ میں ہے۔ مولوی مہر دین شاگرد مولوی صاحب نے بیان کی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب مرزا صاحب نے براہینِ احمدیہ کتاب لکھی (مولوی صاحب نے ان کو بتایا، اِنہوں نے آگے یہ روایت لکھی ہے)۔ تو مَیں نے اس کتاب کو پڑھا تو مَیں نے خیال کیا کہ یہ شخص آئندہ کچھ ہونے والا ہے یعنی اس کو بڑا رُتبہ اور مقام ملنے والا ہے اس لئے مَیں اُن کو دیکھ آؤں۔ مَیں اُن کو دیکھنے کے لئے قادیان پہنچا تو مجھے علم ہوا کہ آپؑ ہوشیار پور تشریف لے گئے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ بار بار آنا مشکل ہے اس لئے ہوشیار پور جا کر دیکھ آؤں۔ مَیں نے اُن کا پتہ پوچھا تو کسی نے بتلایا کہ اُن کی بہلی کے بیل سفید ہیں (بیل گاڑی جو ہے اُس کے بیل سفید ہیں ) وہ اب واپس آ رہی ہو گی، آپ راستے میں سے پتہ پوچھ لیں۔ جب ہم دریا پر پہنچے تو ہماری کشتی بہلی والے کی کشتی سے کچھ فاصلے پر تھی اس لئے کچھ دریافت نہ کر سکا۔ جب مَیں ہوشیار پور پہنچا تو مرزا اسماعیل بیگ حضورؑ کے ہمراہ بطور خادم تھے۔ حضور کو انگریزی میں الہام ہوا تھا، اُس کا ترجمہ کرانے کے لئے وہ جارہے تھے کہ مجھے راستے میں ملے۔ مَیں نے اُن سے پوچھا کہ مرزا صاحب کہاں ہیں اُنہوں نے کہا کہ شہر میں تلاش کرلیں، بتایا نہیں۔ معلوم نہیں حضرت صاحب نے منع کیا ہوا تھا یا کوئی اور بات تھی۔ آخر مَیں پوچھ کر آپ کے مکان پر پہنچا اور دستک دی۔ خادم آیا اور پوچھا کون ہے؟ مَیں نے کہا برہان الدین جہلم سے حضرت مرزا صاحب کو ملنے کے لئے آیا ہے۔ اُس نے کہا کہ ٹھہرو مَیں اجازت لے لوں۔ جب وہ پوچھنے گیا تو مجھے اُسی وقت فارسی میں الہام ہوا کہ جہاں تم نے پہنچنا تھا، پہنچ گیا ہے۔ اب یہاں سے نہیں ہٹنا۔ خادم کو حضرت صاحب نے فرمایا کہ ابھی مجھے فرصت نہیں ہے اُن کو کہہ دیں کہ پھر آئیں۔ خادم نے جب یہ مجھے بتلایا تو مَیں نے کہا کہ میرا گھر دُور ہے مَیں یہاں ہی بیٹھتا ہوں جب فرصت ملے گی، تب ہی سہی۔ (جب حضرت مسیح موعودؑ کو فرصت ہو گی تب مل لوں گا۔ ) جب خادم یہ کہنے کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت صاحب کو الہام ہوا کہ مہمان آوے تو مہمان نوازی کرنی چاہئے۔ اس پر حضرت صاحب نے خادم کو حکم دیا کہ جاؤ جلدی سے دروازہ کھول دو۔ میں جب حاضر ہوا تو حضور بہت خندہ پیشانی سے مجھے ملے اور فرمایا کہ ابھی مجھے یہ الہام ہوا ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ مجھے فارسی میں یہ الہام ہوا ہے کہ اس جگہ سے جانا نہیں۔ (ماخوذ ازروایات حضرت مولوی مہر دین صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ222تا224)اور اللہ تعالیٰ نے پھر آپؓ کو بیعت میں آنے کے بعدبہت بڑا مقام عطا فرمایا۔
حضرت مستری اللہ دتہ صاحب ولد صدر دین صاحب سکنہ بھانبڑی ضلع گورداسپور کہتے ہیں کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا دوست اگر تمہارے پاس آیا کرے تو اس کی خاطر تواضع کیا کرو۔ ذمہ دار مہمان قادیان میں آ گئے تھے، گرمیوں کے دن تھے اُس وقت صبح آٹھ بجے کا وقت ہوگا۔ حضرت صاحب نے باورچی سے پوچھا کچھ کھانا اِن کو کھلایا جائے۔ باورچی نے کہا کہ حضور! رات کی بچی ہوئی باسی روٹیاں ہیں۔ حضور نے فرمایا کچھ حرج نہیں لے آؤ۔ یعنی جب بھی کوئی دوست آئیں، اُن کو کھانا کھلایا کرو۔ روٹیاں اگر فوری تیار نہیں ہو سکتیں وہی باسی لے آؤ۔ چنانچہ باسی روٹیاں لائی گئیں۔ حضور نے بھی کھائیں اور ہم سب مہمانان نے بھی کھا لیں۔ غالباً وہ مہمان قادیان سے واپس اپنے گاؤں اٹھوال جانے والے تھے۔ حضور نے فرمایا کہ باسی کھا لینا سنت ہے۔ (ماخوذ از روایات حضرت مستری اللہ دتہ صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 4صفحہ 106)
اب بعض دفعہ بعض لوگ ناراض ہو جاتے ہیں یہاں تو خیر Pita Bread یا جو بڑی بنی بنائی روٹی ملتی ہے وہ ویسے بھی مشینوں کی بنی ہوئی بازاروں میں ہوتی ہے اور باسی ہوتی ہے لیکن پھر بھی سالن وغیرہ کے لئے بعض دفعہ ہوتا ہے لیکن باسی سالن کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ انتظامیہ باسی سالن سڑا کران کو کھلانا شروع کر دے۔
روایات حضرت محمد علی اظہر صاحب جالندھر، مولوی غلام قادر صاحب کے بیٹے ہیں، کہتے ہیں کہ 1906ء کا جلسہ سالانہ مسجد اقصیٰ میں ہوا تھا جس کا صحن بھرتی ڈال کر بہت وسیع کر لیا گیا تھا۔ اس کے جنوب مشرقی کونے پر اس محلّہ کے ساتھ جس میں آج کل سلسلہ کے دفاتر ہیں کسی ہندو برہمن کا ایک کچا مکان تھا۔ جگہ کی تنگی کی وجہ سے کچھ دوست اس مکان کی چھت پر بھی نماز کے لئے کھڑے ہو گئے تھے۔ اُس پر صاحبِ مکان نے حضرت اقدسؑ کو اور جماعت کو گالیاں دینی شروع کیں۔ ہندو تھا گالیاں دینی شروع کر دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نماز سے فارغ ہوتے ہی جماعت کو صبر کی تلقین کی اور اس چھت پر جانے سے منع فرمایا۔ مزید احتیاط کے لئے منڈیر پر اونچی دیوار بنوا دی گئی۔ کچھ عرصے کے بعد تار کا جنگلہ لگوا دیا گیا تا کہ کوئی دوست اس چھت پر بھول کر بھی نہ جائے۔ آخر وہ مکان برباد ہوا، وہ بھی ایک الہام تھا اور مالکوں کو اس کو فروخت کرنا پڑا اور جماعت نے وہ خریدا اور اب وہ مسجد اقصیٰ کا ایک جزو ہے۔ (ماخوذ از روایات حضرت محمد علی اظہر صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 5صفحہ 13)
پہلے تو وہ ایک حصہ تھا صحن کے ساتھ دفاتر تھے۔ اب دو سال پہلے اللہ کے فضل سے وہاں جب مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی ہے وہ سارا حصہ اس میں آ گیا ہے اب مسجد کے اُس حصے میں ہی تقریباً دو اڑھائی ہزار آدمی نماز پڑھ لیتا ہے۔
حضرت چراغ محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد چوہدری امیر بخش صاحب کھارے کے رہنے والے تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضورؑ نے مسجد اقصیٰ میں ایک بڑی لمبی تقریر فرمائی۔ ظہر کے بعد کا وقت تھا۔ مَیں مسجد کی شمالی جانب کی دیوار پر بیٹھا تھا۔ میرے ساتھ گاؤں کا ایک اول درجے کا مخالف تھا جس کے زیرِ سایہ اس وقت گاؤں کا ایک آدمی تھا جو سخت مخالف تھا۔ جوں جوں حضور تقریر فرماتے جاتے تھے وہ بار بار سر ہلاتا اور سُبحان اللہ سُبحان اللہ کہتا تھا اور ساتھ یہ بھی کہتا جاتا تھا کہ میں اب حضور کی مخالفت نہیں کروں گا۔ حضور جو فرما رہے ہیں سب سچ ہے۔ دو چار دن بعد میں اُسے ملا اور دریافت کیا کہ بتاؤ اب کیا رائے ہے؟ کہنے لگا معلوم نہیں، اُس وقت تو مجھے حضور کی ہر بات درست معلوم ہوتی تھی اور اب نہیں۔ (ماخوذاز روایات حضرت چراغ محمد صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 5صفحہ 15)
٭…٭…٭