متفرق مضامین

بستی کتنی دور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط دہم)

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

خاکسار کو مگبورکا سیرالیون میں ۱۹۸۶ء تک خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا۔ وہاں سے الوداع ہو کرہم کچھ دن مبارک احمد طاہر صاحب (حال سیکرٹری نصرت جہاں)کے ہاں رہے اور ان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوئے کیوں کہ یہ میری اہلیہ کے پھوپھی زاد بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ رکھے۔ ان کی بیگم محترمہ بشریٰ صاحبہ اور بچیوں نے بہت خندہ پیشانی سے ہماری خدمت اور مہمان نوازی کی۔

یہاں سے فارغ ہو کر ہم فری ٹاؤن مشن ہاؤس میں کچھ دن ٹھہرے۔ اور پھریکم فروری ۱۹۸۶ء کو لندن پہنچ گئے۔ ایک مہینہ یہاں پر قیام کیا اور پھر ربوہ کے لیے عازم سفر ہوئے۔ فروری ۱۹۸۶ء کا پورا مہینہ خاکسار نے اپنی فیملی سمیت لندن مشن میں گذارا اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی اقتدا میں نمازیں پڑھنے اور پھر کچھ انگلستان کی سیر کرنے کا موقع بھی ملا جو حضورؒکے ہی ارشاد پر کی گئی تھی۔

مکرم مبارک احمد ساقی صاحب

لندن میں اُن دنوں مکرم مبارک احمد ساقی صاحب مرحوم ایڈیشنل وکیل الاشاعت تھے۔ آپ بہت اعلیٰ ظرف کے انسان تھے۔ بہت شفیق اور ہمدرد بڑی مسکراہٹ کے ساتھ ملتے تھے۔اگلے آدمی کا دل موہ لیتے تھے۔آپ کی باتیں اور نصائح بھی اس رنگ میں ہوتی تھیں کہ وہ دل میں اتر جاتیں۔ بہرکیف انہوں نے خاکسار کے ساتھ بہت ہمدردانہ ومشفقانہ سلوک فرمایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے انہیں فرمایا تھا کہ شمشاد افریقہ سے آیا ہے یہاں سردی کا موسم ہے اس کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ساتھ ہیں اس لیے ہر چیز کا خیال رکھیں۔

ایک دفعہ آپ اپنے بیٹے منصور ساقی صاحب کے ساتھ مجھے ملنے آئے اور اپنے بیٹے سے کہنے لگے کہ یہ ہمارے مبلغ ہیں۔ افریقہ سے آئے ہیں۔ انہیں اپنے لیے دعا کے لیے کہو۔ حالانکہ آپ خود ایڈیشنل وکیل الاشاعت تھے اور مجھ سے کہیں زیادہ سینئر بھی تھے۔

بہرحال ایک ماہ لندن میں بہت خوب گذرا۔ مکرم نسیم احمد باجوہ صاحب مبلغ سلسلہ نے ایک دن خاکسار سے کہا کہ ایک دن میرے پاس بھی آئیں۔ ان دنوں آپ کرائیڈن میں مبلغ کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ میں نے کہا حضورؒ سے پوچھ کر بتاؤں گا۔ خاکسار نے حضور رحمہ اللہ سے روزانہ صبح کی سیر پر ساتھ جانے کی اجازت لی ہوئی تھی ایک تو وہ مِس کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا ووسرے اجازت لینا ضروری تھا۔ خاکسار نے اگلے دن صبح کی سیر کے دوران ہی حضورؒ سے ذکر کیا مکرم نسیم باجوہ صاحب دعوت کرنا چاہتے ہیں۔ حضور سے اجازت چاہیے۔آپؒ نے فرمایا ہاں ہاں ضرور جائیں۔ وہاں کا مشن بھی دیکھیں۔ چنانچہ ایک دن ہم نے ان کے ساتھ گزارا۔ انہوں نے لندن کی کئی چیزیں دکھائیں اور کئی جگہ کی معلومات بھی دیں۔ یہاں اس طرح کام ہوتے ہیں وغیرہ۔

انہوں نے ہمیں ایک پارک کی بھی سیر کرائی۔ فروری کا مہینہ بہت سرد تھا اور سردی کے علاوہ متعدد مرتبہ برف باری بھی ہوچکی تھی اورہمارا تو یہ پہلا موقع تھا برف باری دیکھنے کا!

ربوہ میں آمد، قیام اور امریکہ کے لیے تقرری

ایک ماہ گزارنے کے بعد ہماری واپسی کی ٹکٹیں ہو گئیں اور ہم کراچی پاکستان آگئے میرے اباجان اور امی جان ہمیں لینے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ دو تین دن کراچی کے گیسٹ ہاؤس میں قیام رہا اور کراچی سے بذریعہ چناب ایکسپریس ہم ربوہ آگئے اور دفتر میں حاضری لگوائی۔ مکرم محترم نواب منصور احمد خان صاحب اُن دنوںوکیل التبشیر تھے۔چھٹی گذار کر خاکسار واپس دفتر میں باقاعدہ حاضر ہونے لگا۔

ربوہ دفتر تبشیر

اُن دنوں وکالت تبشیر میں افریقہ کے مختلف ممالک کی تاریخ لکھی جارہی تھی اور اس کےلیے مختلف مربیان و مبلغین کرام اُن ممالک میں خدمات بجا لانے والے مبلغین کی ارسال کردہ رپورٹس کی فائلز دیکھتے اور ان سے ضروری نوٹس لیتے۔ اس طرح روزانہ کی بنیاد پر کام ہو رہا تھا۔خاکسار کے ذمہ بھی یہی کام لگا اور غالباً گھانا اور سیرالیون کی تاریخ مرتب کرنے میں خاکسار کو بھی خدمت کی توفیق ملی۔ اُن دنوں میں دفتر تبشیر میں جو مبلغین اور واقفین کام کر رہے تھے ان میں سے چند بزرگان سمیت ربوہ کی بعض شخصیات کا ذکرِ خیر کچھ یوں ہے۔

۱۔ مکرم سید داؤد مظفر شاہ صاحب

آپ حضرت مصلح موعودؓ کے داماد، ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خُسر، اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے بہنوئی تھے۔ آپ ’’بہشتی ٹبر ‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ بڑے ہی سادہ، صوفی منش انسان تھے۔ آپ کے ہونٹوں پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی۔ ہم کبھی کبھی جب اپنی فائلوں کے انبار سے تھک جاتے تو ایک دوسرے کے پاس چند منٹ کے لیے کھڑے ہو کر سستا لیتے اور بات کر لیتے۔ آپ کی بےشمار خوبیوں میں سے ایک خصوصیت یہ یاد ہے کہ وقت پر دفتر تشریف لاتے اور آتے ہی وقت کا ضیاع کیےبغیر اپنے کام میں مصروف ہوجاتے۔ کبھی کبھار ہنسی مذاق، لطیفہ وغیرہ بھی کرلیتے تھے۔ بہت نرم طبیعت کے مالک تھے۔ نہ ہی کسی کے کام میں دخل دیتے تھے اور نہ ہی تجسس، اپنے کام سے کام اور ہر کسی کے ساتھ مسکراتے چہرہ کے ساتھ ملنا آپ کا وصف تھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کی وفات پر اپنے خطبہ جمعہ ۱۱؍ مارچ ۲۰۱۱ء میں تفصیلی ذکرِ خیر فرمایا جو پڑھنے لائق ہے۔ حضورِانور نے اپنے خطبے کے آخر میں فرمایا: ’’یہ تھے وہ بزرگ جن کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کسی سے بُغض، حسد اور کینہ نہیں رکھتے بلکہ نقصان پہنچانے والے سے بھی جب اُس نے معافی مانگی تو شفقت کا سلوک ہی فرمایا۔ یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حقیقی رنگ میں تزکیہ نفس کیا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ ۱۱؍مارچ ۲۰۱۱ء خطبات مسرور جلد نہم صفحہ ۱۱۸-۱۲۴)

۲۔ مکرم بشارت احمد امروہی صاحب

یہ بھی افریقہ کے ممالک میں بطور مبلغ رہ چکے تھے۔ اور اب دفتر تبشیر میں ہی کام کر رہے تھے۔ آپ بھی بہت سادہ مزاج تھے۔ بڑے انہماک سے کام کرتے تھے۔

۳۔ عبداللطیف پریمی صاحب

آپ بھی باہر کے ممالک میں بطور مبلغ رہ چکے تھے۔ اور آپ کے ذمہ بھی یہی کام تھا جس کا خاکسار اوپر ذکر کر چکا ہے۔ غالباً ریٹائر منٹ کے بعد امریکہ ہی آگئے تھے۔

۴۔ ملک محمد اکرم صاحب

آپ بھی مبلغ تھے۔ نائیجیریا میں بطور مبلغ خدمات سرانجام دیتے رہے۔دفتر تبشیر میں آمد و رفت میں خدمات سرانجام دیتے تھے۔ اس کے بعد آپ کی تقرری انگلستان میں ہوئی اور پھر آخر دم تک وہیں خدمات کی توفیق پاتے رہے۔

۵۔ سید جواد علی شاہ صاحب

دفتر تبشیر ربوہ میں ایک اور مسکراتا چہرہ ہمارے مربی اور واقف زندگی مکرم سید جواد علی شاہ صاحب کا ہے۔ آپ حضرت سید سمیع اللہ شاہ صاحب کے بیٹے اور حضرت سید میر حامد علی شاہ صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ کے نواسے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ جب کبھی سیالکوٹ تشریف لاتے تو حضرت میر حامدعلی شاہ صاحبؓ کے گھر پر قیام فرماتے۔ مکرم جواد علی شاہ صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تحریک پر خدمتِ اسلام کے لیے زندگی وقف کی۔

آپ امریکہ میں مبلغ بھی رہے اور ڈیٹن میں بھی آپ کا قیام رہا۔ اس کے علاوہ کچھ عرصہ نیویارک میں بھی بطور مبلغ رہے۔واشنگٹن میں بطور مبلغ انچارج بھی رہے۔ امریکہ میں آپ کی خدمات کا عرصہ قریباً سولہ سال بنتا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں آپ واپس پاکستان گئے۔ ۱۹۷۲ء میں آپ ڈنمارک گئے۔ ۱۹۷۴ء کے آخر میں واپس تشریف لائے اور پھر دفتر تحریک جدید میں خدمات بجا لاتے رہے۔

آپ کے بارے میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ آپ نہایت سادہ اور شگفتہ مزاج تھے۔ جماعت کے کام کرنے میں انہماک رکھتے تھے۔ ہر ایک کے ساتھ پیار اور نرمی کا سلوک فرماتے تھے۔ جماعت اور خلافت کے شیدائی تھے۔ ۱۹۹۲ء میں آپ ریٹائرڈ ہوئے اور ۱۶؍اگست ۱۹۹۴ء کو آپ کی وفات ہوئی۔ آپ نے اپنا وقف بہت اخلاص کے ساتھ نبھایا۔ میں نے کبھی ان کی طبیعت میں سختی نہ دیکھی۔ آپ کے ایک بیٹے امریکہ میں رہتے ہیں۔

۶۔ سید ولی اللہ شاہ صاحب

سید جواد علی شاہ صاحب کے ساتھ ایک اور بزرگ سید ولی اللہ شاہ صاحب کا ذکر کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جو واقفِ زندگی تھے۔ آپ سید جواد علی شاہ صاحب کے برادرِ نسبتی(اہلیہ کے بھائی) تھے۔

آپ ان پندرہ خوش نصیب واقفین میں سے تھے جنہیں حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت پر ۱۹۴۶ء میں مشرقی افریقہ جانے کی سعادت ملی۔ ۱۹۶۰ء میں آپ نے واپس آکر گول بازار ربوہ میں ’’نیروبی ہاؤس‘‘ کے نام سے جنرل سٹور کھولا تھا۔ ۱۹۸۴ءتک یہ دکان گولبازار میں اور پھر دارالعلوم وسطی ربوہ میں اُن کے گھر شفٹ ہوگئی۔ دس سال تک آپ مسجد لطیف میں امامت بھی کرواتے رہے۔ ۱۹۶۵ءمیں آپ کی دوسری شادی سیدہ محمودہ بیگم بنت سیدناظر حسین شاہ صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ سے ہوئی جس میں سے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ آپ رمضان المبارک ۲۰۰۶ء میں فوت ہوئے۔

آپ بہت نرم طبیعت کے تھے۔ ہمیشہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھتے۔ ایک واقعہ کی وجہ سے خاکسار کے دل و دماغ پر ان کے تقویٰ اور ہمدردی کا آج تک اثر ہے۔

بات کچھ یوں ہے کہ جب میں نے ۱۹۶۶ء میں وقف کرکے جامعہ میں داخلہ لیا تو ان دنوں ہمارے مالی حالات کچھ اچھے نہ تھے۔ اپنی روزمرہ کی ضروریات کے لیے ہمیں گھر سے پیسے بھی منگوانے پڑتے تھے اور بعض اوقات رقم آنے میں تاخیر بھی ہو جاتی جس کی وجہ سے ادھار لینے تک نوبت آ جاتی۔ سید ولی اللہ شاہ صاحب کی دکان گول بازار میں تھی۔ خاکسار اپنی ضرورتوں کے لیے انہی سے خریداری کرتا تھا کیونکہ بوقتِ ضرورت آپ ہمیں ادھار بھی دے دیا کرتے تھے۔ مجھے جامعہ میں چند سال گزارنے کے بعدجب کیوبیکل ملا تو مجھے ٹیبل لیمپ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اتنی رقم میرے پاس نہیں تھی کہ ٹیبل لیمپ خرید لیا جائے۔ حسبِ معمول ہی میں ان کی دکان پر چلا گیا اور ٹیبل لیمپ دیکھنے لگا۔ جہاں ٹیبل لیمپ ۵ روپے سے لے کر ۳۰روپے تک کی قیمت میں دستیاب تھے۔ میں نےکوئی بیس یا پچیس روپے والا ٹیبل لیمپ پسند کیا اور اسے خریدنے کے لیے اٹھا لیا۔ آپ چونکہ مجھے جانتے تھے، کہنے لگے کہ شمشاد! تم واقفِ زندگی ہو اتنا مہنگا ٹیبل لیمپ تمہارے لیے کچھ مناسب نہیں ہے۔ تم یہ پانچ روپے والا خرید لو۔ اس نے بھی اتنی ہی روشنی دینی ہے جتنی اس ۲۵-۳۰ روپے والے نے دینی ہے۔ فینسی لے کر تم پر صرف قرضہ ہی چڑھے گا۔ تمہاری ضرورت پانچ روپے والا ٹیبل لیمپ بھی اسی طرح پوری کرے گا جس طرح کہ مہنگے والا۔

اس واقعہ کا مجھ پر آج تک بہت اثر ہے۔ یہ واقعہ ہمارے ربوہ کے دکانداروں کا تقویٰ اور خدا خوفی کا بھی معیار بتلاتا ہے۔ کاروباری لحاظ سے وہ مجھے یہ مشورہ نہ بھی دیتے تو ان پر کوئی حرف نہ آتا لیکن انہوں نے ایک واقفِ زندگی بچے کو ہمیشہ کے لیے یہ سبق دے دیا کہ کفایت شعاری کرنی ہے، اپنی آمد کے مطابق خرچ کرنا ہے، فضول خرچی سے بچنا ہے اور ادھار کی رقم کو جتنا کم سے کم رکھا جا سکے رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔ آمین

مکرم سید ولی اللہ شاہ صاحب کے والد سید محمد لطیف شاہ صاحب کو بطور انسپکٹر بیت المال صدر انجمن احمدیہ میں خدمت کی سعادت نصیب ہوئی۔

(باقی آئندہ)

اگلی قسط: بستی کتنی دور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط یازدہم)

گذشتہ قسط: بستی کتنی دور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط نہم)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button