حاصل مطالعہ
وحی اور کشف میں عجیب امتیازی فرق
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’کشف کیا ہے یہ رؤیا کا ایک اعلیٰ مقام اور مرتبہ ہے اس کی ابتدائی حالت کہ جس میں غیبتِ حِس ہوتی ہے۔ صرف اس کو خواب (رؤیا)کہتے ہیں۔ جسم بالکل معطل بیکار ہوتا ہے اور حواس کا ظاہری فعل بالکل ساکت ہوتا ہے۔ لیکن کشف میں دوسرے حواس کی غیبت نہیں ہوتی۔ بیداری کے عالم میں انسان وہ کچھ دیکھتا ہے جو کہ وہ نیند کی حالت میں حواس کے معطل ہونے کے عالم میں دیکھتا تھا… جیسے گُڑ سے شکر بنتی ہے اور شکر سے کھانڈ اور کھانڈ سے اور دوسری شیرینیاں لطیف در لطیف بنتی ہیں۔ ایسے ہی رؤیا کی حالت ترقی کرتی کرتی کشف کا رنگ اختیار کرتی ہے اور جب وہ بہت صفائی پر آجاوے تو اس کا نام کشف ہوتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد۷صفحہ ۳۲۰ ،۳۲۱ ایڈیشن۱۹۸۴ء)
کامیابی اور خوشی کے وقت تقویٰ
آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں:’’مبارک وہ ہے جو کامیابی اور خوشی کے وقت تقویٰ اختیار کرے۔‘‘(ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۹۹۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
قرآن کریم کس طرح پڑھنا چاہئے
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’میں نے دیکھا ہے کہ جب کبھی کسی تصنیف میں مشغول ہونے یا کسی اور وجہ سے قرآن کریم نہ پڑھا جائے تو دل تکلیف محسوس کرتا اور دوسری عبادتوں میں بھی اس کا اثر محسوس ہوتا ہے۔ اوّل: تو قرآن کریم روزانہ پڑھنا چاہئے۔ دوم: چاہئے کہ قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھا جائے اور اس قدر جلدی جلدی نہ پڑھا جائے کہ مطلب سمجھ میں نہ آئے۔ ترتیل کے ساتھ پڑھنا چاہئے تاکہ مطلب بھی سمجھ میں آئے اور قرآن کریم کا ادب بھی ملحوظ رہے۔ سوم: جہاں تک ہوسکے قرآن کریم پڑھنے سے پہلے وضو کر لیا جائے گو میرے نزدیک بے وضو پڑھنا بھی جائز ہے۔ ہاں بعض علماء نے بے وضو تلاوت قرآن کو ناپسند کیا ہے۔ میرے نزدیک اس طرح پڑھنا ناجائز نہیں مگر مناسب یہی ہے کہ اثر اور ثواب کو زیادہ کرنے کے لئے وضو کر لیا جائے۔‘‘(ذکرِ الٰہی صفحہ ۵۰۲ ،۵۰۳)
تبلیغ ایک لازمی فریضہ ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کرنے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا :’’جہاں تک تبلیغ کاتعلق ہے… فریضہ ہے اور ایسی شدّت کے ساتھ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تُو نے رسالت کو ہی ضائع کر دیا اگر تبلیغ نہ کی تو۔ آپ کی امت بھی جوابدہ ہے، ہم میں سے ہر ایک جوابدہ ہے۔ پیغام رسانی لازماً ایک ایسا فریضہ ہے جس سے کسی وقت انسان غافل ہو نہیں سکتا۔ اجازت نہیں ہے کہ غافل رہے۔‘‘(خطبات طاہر جلد چہارم صفحہ ۶۳۱تا ۶۳۲)
خلیفۂ وقت کی آواز پر لبیک
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء کے موقع پر سیرت النبی ﷺ کے جلسوں کے انعقاد کی تحریک فرمائی۔ ۱۷؍جون ۱۹۲۸ء کو ہندوستان بھر میں ان جلسوں کا انعقاد ہوا۔ ڈاکٹر سید شفیع احمد صاحب محقق دہلوی ان دنوں کسی کام سے کراچی آئے ہوئے تھے اور کراچی کے جلسہ میں شامل ہونا چاہتے تھے لیکن ۱۷؍جون کو ہی واپسی کی سیٹ تھی۔ اپنے امام سے لیکچر دینے کا وعدہ وفا کرنے کا یہ نرالا طریق اختیار کیا کہ آپ نے ٹرین میں ہی اپنی سیٹ پر کھڑے ہو کر سیرت النبی ﷺ پر لیکچر دینا شروع کر دیا۔ جب بھی اگلا اسٹیشن آتا، ٹرین رکتی تو آپ اگلے ڈبے میں سوار ہو کر لیکچر دینا شروع کر دیتے یوں آپ نے سات ڈبوں میں اپنے امام کے حکم کی اطاعت میں لیکچر دیا اور ہر لیکچر کی ابتدا میں بتاتے کہ میرے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے حکم سے ہندوستان بھر میں آج لیکچر ہو رہے ہیں اور چونکہ میں کسی جلسہ میں شرکت نہیں کر سکا اس لیے اپنے گناہ کا کفارہ آپ صاحبان کی خدمت میں پیش کرنے کے واسطے کھڑا ہوا ہوں۔ یوں آپ نے آٹھ سو سے زیادہ افراد کو اپنے امام کا پیغام پہنچایا۔(الفضل ۶ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷)
شہنشاه ایران کا ایک کشف
ہزمیجسٹی شہنشاہ ایران جناب محمد رضا شاہ پہلوی نے اپنی مشہور اور مفصل کتاب Mission for My Country مطبوعہ لندن ۱۹۶۱ء میں اپنی چھوٹی عمر کے (جبکہ وہ ولی عہد بن چکے تھے) تین رؤیا اور کشف ذکر فرمائے ہیں۔ پہلے خواب میں آپ نے حضرت امام علی کرم اللہ وجہہ کو دیکھا اور دوسرے میں حضرت عباسؓ کو۔ اور تیسرے کشف میں آپ نے جاگتے ہوئے شمیران کے شاہی محل کے علاقے میں دورانِ سیر حضرت امام آخرالزّمانؑ کو دیکھا ہے۔ آپ کو اپنے اس کشف پر پورا یقین ہے۔ اس نظارہ کے وقت آپ کے ہمراہ آپ کے اتالیق بھی تھے مگر انہیں یہ نظارہ نظرنہیں آیا۔ تاہم شہنشاہِ معظم کواپنے اس کشف کی صحت پر کامل یقین ہے۔
وہ اس تیسرے نظارہ کا بایں الفاظ ذکر فرماتے ہیں :
“The third event occurred while I was walking with my guardian near the royal palace in Shimran, Our path lay along a picturesque cobbled street. Suddenly I clearly saw before me a man with a halo around his head-much as in some of the great paintings, by Western mästers, of Jesus. As we passed one another, I knew him at once. He was the Imam or descendant of Mohammed who, according to our faith, disappeared but is expected to come again to save the world.
I asked my guardian, ‘Did you see him?’
‘But whom?’ he inquired.
‘No one was here. How could I see someone who was not here?’
I felt so certain of what I had seen that his reply did not bother me in the least. I was self confident enough not to be bothered by what my guardian, older and wiser though he was, might think.”
(Mission for My Country, Page. 55)
(ماہنامہ الفرقان ربوہ جنوری ۱۹۷۷ء صفحہ ۲ اداریہ)