خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍اکتوبر 2024ء
جبرئیلؑ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ نے ہتھیار اتار دیے۔ اللہ کی قسم! ہم نے ہتھیار نہیں اتارے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب سے آپؐ کا دشمن سے سامنا ہوا ہے تب سے فرشتوں نے اسلحہ نہیں اتارا اور ابھی تک ہم احزاب کے تعاقب سے واپس آ رہے ہیں
جنگِ خندق یااحزاب جو غیرمتوقع اور ناگہانی طورپر اختتام کو پہنچی ایک نہایت ہی خطرناک جنگ تھی۔ اس سے بڑھ کر کوئی ہنگامی مصیبت اس وقت تک مسلمانوں پر نہیں آئی تھی اور نہ ہی اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کوئی اتنی بڑی مصیبت ان پر آئی
بنوقریظہ کا سردار کعب بن اسد اپنی قوم کے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ اللہ کی قسم! تم پر ایک آزمائش آئی ہے جسے تم دیکھ رہے ہو۔ میں تمہارے سامنے تین باتیں پیش کرتا ہوں ان میں سے جس کو چاہو قبول کر لو، …ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کر لیں اور ان کو سچا مان لیں کیونکہ اللہ کی قسم !تمہیں معلوم ہو چکا ہے کہ وہ نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ …دوسری بات یہ ہے کہ آؤ! ہم اپنے بچوں اور بیویوں کو قتل کر دیں پھر تلواریں سونت کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ پر ٹوٹ پڑیں۔ …آج کی رات ہفتہ یعنی سبت کی ہے اور امید ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ اس رات ہماری طرف سے بے فکر ہوں گے۔ اس لیے تم ان پر حملہ کر دو۔ شاید کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کو دھوکا دے سکیں
غزوۂ خندق کی بعض تفاصیل اور غزوۂ بنوقریظہ کے حالات و واقعات کے تناظر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت کا ایمان افروز بیان
نیز پاکستان، بنگلہ دیش، الجزائر اور سوڈان کے احمدیوں کے لیے دعاؤں کی تحریک
اللہ تعالیٰ اسرائیلی حکومت اور امریکہ کی حکومت اور بڑی طاقتوں کے ہاتھوں کو روک سکتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں سب طاقت ہے لیکن اس کے لیے مسلمانوں کو بھی اپنے عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے ہوں گے اور بھائی بھائی ہونے کا نمونہ بننا ہو گا۔ آپس کے اختلافات کو ختم کرنا ہو گا جو نظر نہیں آ رہا۔ تب کہیں اللہ تعالیٰ کی مدد کا وعدہ بھی پورا ہو گا
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍اکتوبر 2024ء بمطابق 11؍اخاء 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آجکل
جنگِ احزاب کا ذکر
چل رہا ہے۔ یہ بیان ہوا تھا کہ کفار نے رات کو آندھی اور طوفان کی وجہ سے میدان خالی کر دیا۔
کفار کے میدان خالی کر جانے کے بعد کی تفصیل
میں تاریخ میں یوں بیان ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لشکروں کو واپس بھگا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اَلْآنَ نَغْزُوْھُمْ وَلَا یَغْزُوْنَنَا۔ یعنی آئندہ ہم قریش کے خلاف نکلیں گے مگر انہیں ہمارے خلاف نکلنے کی ہمت نہیں ہو گی۔ اور اس کے بعد واقعی ایسا ہوا۔ قریش کو ہمت اورجرأت نہیں ہوئی کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کریں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں مکہ فتح ہو گیا۔
بہرحال صبح ہوئی تو خندق کے پار کوئی مخالف موجود نہ تھا سب بھاگ چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اپنے گھروں کی طرف جانے کی اجازت دے دی۔ سب خوشی خوشی اپنے گھروں کو جانے لگے۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ389-390 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃبیروت 1993ء)
بیان کیا جاتا ہے کہ خندق کا محارہ پندرہ دن رہا یا ایک قول کے مطابق یہ محاصرہ بیس دن رہا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک ماہ کے قریب محاصرہ رہا۔
(امتاع الاسماء جلد1 صفحہ242مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
غزوۂ خندق میں نو افراد شہید ہوئے تھے۔
ایک سعد بن معاذؓ ہیں۔ یہ اس جنگ میں زخمی ہوئے تھے اور کچھ دنوں کے بعد وفات ہوئی۔ انس بن اوسؓ پھر عبداللہ بن سہلؓ، طفیل بن نعمانؓ،ثَعْلَبَہ بن عَنَمَہ بن عدیؓ، کعب بن زیدؓ، قیس بن زید بن عامرؓ، عبداللہ بن ابی خالدؓ، اَبُو سِنَان بن صَیْفِی بن صَخْرؓ۔ اور دو صحابہؓ دراصل پہلے شہید ہو گئے تھے جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے جو ابوسفیان کے لشکر کا پتہ کرنے گئے تھے اور وہاں شہید ہوئے۔ یوں کُل گیارہ شہید ہوئے۔ یہ دو جو تھے یہ سُلَیط ؓاور سُفْیَان بن عَوف اسلمی ؓتھے۔
مشرکین کے تین افراد مارے گئے جو عَمرو بن عَبْدِوُدّ، نَوفَل بن عبدُاللہ بن مُغِیرہ اور عُثمان بن مُنَبِّہ۔ اس کو خندق کے دن ایک تیر لگا تھا یعنی جس دن کفار نے پُرزور حملہ کیا تھا اور مسلمانوں نے بھی تیروں کا جواب تیروں سے دیا تھا جس کے زخم سے یہ مکہ جا کر مرا۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ364 ،365، 390 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
جنگِ احزاب کا معجزانہ انجام
ہوا جیسا کہ ہم نے تاریخ میں دیکھا۔ اس کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓنے لکھا ہے کہ ’’کم وبیش بیس دن کے محاصرہ کے بعد کفار کالشکر مدینہ سے بے نیل و مرام واپس چلا گیا اور بنوقریظہ جو ان کی مدد کے لیے نکلے تھے وہ بھی اپنے قلعہ میں واپس آگئے۔ اس لڑائی میں مسلمانوں کا جانی نقصان زیادہ نہیں ہوا۔ یعنی صرف پانچ چھ آدمی شہید ہوئے مگر قبیلہ اوس کے رئیس اعظم سعد بن معاذ کوایسا کاری زخم آیا کہ وہ بالآخر اس سے جانبر نہ ہو سکے اور یہ نقصان مسلمانوں کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان تھا۔ کفار کے لشکر میں سے صرف تین آدمی قتل ہوئے لیکن اس جنگ میں قریش کو کچھ ایسا دھکا لگا کہ اس کے بعد ان کو پھر کبھی مسلمانوں کے خلاف اس طرح جتھہ بنا کر نکلنے یا مدینہ پر حملہ آور ہونے کی ہمت نہیں ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی۔
لشکر کفار کے چلے جانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کو واپسی کا حکم دیا اور مسلمان میدانِ کارزار سے اٹھ کر مدینہ میں داخل ہو گئے …
جنگِ خندق یااحزاب جواس طرح غیرمتوقع اور ناگہانی طورپر اختتام کو پہنچی ایک نہایت ہی خطرناک جنگ تھی۔ اس سے بڑھ کر کوئی ہنگامی مصیبت اس وقت تک مسلمانوں پر نہیں آئی تھی اور نہ ہی اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کوئی اتنی بڑی مصیبت ان پر آئی۔
یہ ایک خطرناک زلزلہ تھا جس نے اسلام کی عمارت کو جڑ سے ہلا دیا اور جس کے مہیب مناظر کو دیکھ کر مسلمانوں کی آنکھیں پتھرا گئیں اور ان کے کلیجے منہ کوآنے لگ گئے اور کمزور لوگوں نے سمجھ لیا کہ بس اب خاتمہ ہے۔ اور اس خطرناک زلزلے کے دھکے کم وبیش ایک ماہ تک ان پر آتے رہے اور کئی ہزار خونخوار درندوں نے ان کے گھروں کا محاصرہ کر کے ان کی زندگیوں کوتلخ کیے رکھا اور اس مصیبت کی تلخی کو بنوقریظہ کی غداری نے دگنا کر دیا اور اس سارے فتنہ کی تہ میں بنونضیر کے وہ محسن کش یہودی تھے جن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کر کے ان کو مدینہ سے امن وامان کے ساتھ نکل جانے کی اجازت دے دی تھی۔ یہ انہی یہودی رؤساء کی اشتعال انگیزی تھی جس سے صحرائے عرب کے تمام نامور قبیلے عداوتِ اسلام کے نشے میں مخمور ہو کر مسلمانوں کوملیا میٹ کرنے کے لیے مدینہ پر جمع ہو گئے تھے اور یہ قطعی طورپر یقینی ہے کہ اگراس وقت ان وحشی درندوں کو شہر میں داخل ہو جانے کا موقع مل جاتا توایک واحد مسلمان بھی زندہ نہ بچتا اور کسی پاکباز مسلم خاتون کی عزت ان لوگوں کے ناپاک حملوں سے محفوظ نہ رہتی مگر یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی قدرت کاغیبی ہاتھ تھا کہ اس ٹڈی دل کو بے نیل مرام واپس ہونا پڑا اور مسلمان شکروامتنان کے ساتھ امن واطمینان کا سانس لیتے ہوئے اپنے گھروں میں واپس آ گئے مگر بَنُوقُریظہ کا خطرہ ابھی تک اسی طرح قائم تھا۔ یہ لوگ نہایت خطرناک صورت میں اپنی غداری کامظاہرہ کرکے اب امن وامان کے ساتھ اپنے قلعوں میں محفوظ ہوگئے تھے اور سمجھتے تھے کہ اب کوئی شخص ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن بہرحال ان کے فتنہ کا سدباب ضروری تھا کیونکہ ان کا وجود مدینہ میں مسلمانوں کے لیے ہرگز ایک مارِآستین سے کم نہ تھا‘‘ چھپے ہوئے دشمن سے کم نہیں تھا۔’’اور دوسری طرف بنو نضیر کا تجربہ بتاتا تھا کہ یہ سانپ ایسا ہے کہ اسے گھر سے باہر نکالنا بھی ایسا ہی خطرناک ہے جیسا کہ اسے اپنے گھر میں رہنے دینا۔
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ595۔596)
بہرحال اس کے سدِّباب کے لیے بنوقریظہ کے خلاف بھی کارروائی ہوئی جسے
غزوۂ بنوقریظہ
کہتے ہیں جو ذوالقعدہ پانچ ہجری بمطابق مارچ اور اپریل 627ء میں ہوا۔ قرآن کریم میں بھی اس بارے میں ذکر آیا ہے۔
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ597)
(حضورِانور نے زیرِلب تعوّذ پڑھا اور فرمایا)اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاَنۡزَلَ الَّذِیۡنَ ظَاہَرُوۡہُمۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مِنۡ صَیَاصِیۡہِمۡ وَقَذَفَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعۡبَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ وَتَاۡسِرُوۡنَ فَرِیۡقًا۔ وَاَوۡرَثَکُمۡ اَرۡضَہُمۡ وَدِیَارَہُمۡ وَاَمۡوَالَہُمۡ وَاَرۡضًا لَّمۡ تَطَـُٔوۡہَا ؕ وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرًا۔(الاحزاب:27۔28)
اور اس نے ان لوگوں کو جنہوں نے اہلِ کتاب میں سے ان کی مدد کی تھی ان کے قلعوں سے نیچے اتار دیا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ ان میں سے ایک فریق کو تم قتل کررہے تھے اور ایک فریق کو قیدی بنا رہے تھے۔ اور تمہیں ان کی زمین اور ان کے مکانوں اور ان کے اموال کا وارث بنا دیا اور ایسی زمین کا بھی جسے تم نے اس وقت تک قدموں تلے پامال نہیں کیا تھا اور اللہ ہرچیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔
بنوقریظہ کا مختصر تعارف
یہ ہے کہ بنوقُریظہ یہود کا ایک قبیلہ ہے۔ یہ قریظہ کی اولاد تھی جو مدینہ کے قریب چند میل کے فاصلے پر ایک مضبوط قلعہ میں اتری تھی اور پھر اسی کے نام سے منسوب ہونے لگی۔ قریظہ اور نضیر دو بھائی تھے جن کا تعلق حضرت ہارون کی اولاد سے تھا۔ ایک کی اولاد بنوقریظہ کہلائی اور دوسرے کی اولاد بنو نضیر۔
(تاريخ الاسلام ووفيات المشاہير والاعلام صفحہ 320دارالکتاب العربی 1990ء)
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 18مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
اس غزوہ کا پس منظر
جیسا کہ گذشتہ خطبات میں بھی بیان ہو چکا ہے اور غزوۂ خندق کی تفصیل میں بھی یہ بات گزر چکی ہے کہ بنوقریظہ نے عین جنگ کے دوران عہد شکنی کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف قریش کی مدد کی تھی اور ان معاہدوں کو توڑ دیا تھا جو اُن کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ خندق سے فارغ ہونے کے بعد واپس تشریف لائے تو آپؐ نے اور صحابہ نے ہتھیار اتار دیے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ کے گھر میں داخل ہوئے اور پانی منگوایا اور اپنا سر دھونے لگے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا اور خوشبو منگوائی اور ظہر کی نماز اد اکی۔ حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ ایک آدمی نے ہمیں سلام کیا جبکہ ہم گھر میں تھے۔ اس نے آواز دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے اس کی طرف گئے اور میں دروازے کے درمیان میں سے دیکھ رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ وہاں حضرت دِحْیَہ کَلْبِیؓ تھے، وہ اپنے چہرے سے غبار جھاڑ رہے تھے اور انہوں نے عمامہ باندھا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری کی گردن سے ٹیک لگا کر کھڑے تھے۔ اس نے کہا
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ نے ہتھیار اتار دیے۔ اللہ کی قَسم! ہم نے ہتھیار نہیں اتارے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب سے آپؐ کا دشمن سے سامنا ہوا ہے تب سے فرشتوں نے اسلحہ نہیں اتارا اور ابھی تک ہم احزاب کے تعاقب سے واپس آ رہے ہیں۔
بات اس نے کہی کہ فرشتوں نے اسلحہ نہیں اتارا یہاں تک کہ ہم حمراء الاسد تک پہنچ گئے اور اللہ نے ان کو شکست دی۔ اب آپ ادھر کا رخ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کدھر؟ تو اس نے اشارہ سے کہا اُدھر یعنی بنوقریظہ کی طرف۔ حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ میں اندر واپس آ گئی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ شخص کون تھا جس سے آپ بات کر رہے تھے؟ آپ نے فرمایا کیا تم نے اسے دیکھا تھا؟ تو میں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا تم نے اسے کس شخص کے مشابہ پایا تو میں نے کہا ۔ حضرت دِحْیَہ کَلْبِیؓ کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جبرئیل تھے۔ یہاں وہ بات ظاہر ہو گئی کہ فرشتوں نے ہتھیار نہیں اتارے۔
یہ جبرئیل تھے جو مجھے کہہ رہے تھے کہ میں بنوقریظہ کی طرف جاؤں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اعلان کروایا کہ بنوقریظہ کی طرف نکل پڑیں اور عصر کی نماز وہیں پڑھیں۔ چنانچہ اعلان سنتے ہی صحابہ تیزی سے نکل پڑے۔ صحابہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا یہ عالم تھا کہ راستے میں جب عصر کی نماز کا وقت آیا اور قریب تھا کہ نماز کا وقت ختم ہو جائے تو بعض صحابہ نے سوچ کر کہ نماز کا وقت جاتا ہے اس لیے نماز پڑھ لینی چاہیے اور نماز پڑھ لی اور بخاری کی شرح فتح الباری کے مطابق بعض صحابہ نے کہا کہ چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عصر کی نماز بنوقریظہ میں جا کر پڑھنی ہے اس لیے وقت جاتا ہے تو جائے ہم وہیں جا کر پڑھیں گے۔ روایات کے مطابق یہ لوگ اس وقت پہنچے جب سورج غروب ہو چکا تھا اور اس وقت انہوں نے وہاں پہنچ کر عصر کی نماز ادا کی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں گروہوں کو کچھ نہیں کہا۔ نہ انہیں جنہوں نے نماز فوت ہو جانے کے خدشہ کی بناپر راستے میں نماز پڑھ لی اور نہ انہیں جنہوں نے سورج غروب ہونے کے بعد بنوقریظہ میں پڑھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓکو بلایا اور ان کو لشکر کا سیاہ رنگ کا عقاب نامی جھنڈا دیا۔
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرجع النبیﷺ من الاحزاب …حدیث 4122،4119،4117)
( فتح الباری زیرحدیث کتاب المغازی جلد 7صفحہ 519-520 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 3, 4 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
(الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم ﷺ، جلد 12 صفحہ 10مطبوعہ المرکز الاسلامی للدراسات)
یہ تفصیل صحیح بخاری اور بعض تاریخی کتب میں بیان ہوئی ہے۔ مزید تفصیل یہ ہے کہ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓکو ایک جماعت کے ساتھ بطور ہراول دستے کے آگے روانہ فرما دیا اور پھر خود بھی ان کے پیچھے روانہ ہو گئے۔
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ جلد 3صفحہ 68، 69 دارالکتب العلمیۃ 1996ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس بارے میں یوں تحریر فرمایا ہے کہ
’’جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ خندق سے فارغ ہو کر شہر میں واپس تشریف لائے تو ابھی آپ بمشکل ہتھیار وغیرہ اتار کر نہانے دھونے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ آپ کوخدا کی طرف سے کشفی رنگ میں یہ بتایاگیا کہ جب تک بنوقریظہ کی غداری اوربغاوت کافیصلہ نہ ہو جاتا آپ کو ہتھیار نہیں اتارنے چاہیے تھے۔ اور پھر آپؐ کویہ ہدایت دی گئی کہ آپ بلاتوقف بنوقریظہ کی طرف روانہ ہو جائیں۔
اس پر آپ نے صحابہ میں عام اعلان کروا دیا کہ سب لوگ بنوقریظہ کے قلعوں کی طرف روانہ ہو جائیں اور نماز عصر وہیں پہنچ کر ادا کی جاوے اورآپ نے حضرت علیؓ کوصحابہ کے ایک دستے کے ساتھ فوراً آگے روانہ کردیا۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 597)
پہلے حضرت عائشہؓ کے حوالے سے بھی یہ بیان ہو اہے۔ بہرحال یہ کشفی نظارہ تھا جیسے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی لکھا اور ہو سکتا ہے کہ یہ نظارہ حضرت عائشہ نے بھی کشفی حالت میں دیکھا ہو اور اس طرح ہو جاتا ہے۔
بنوقریظہ کی طرف روانگی کا ذکر
یوں ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پر حضرت ابن ام مکتوم ؓکو نگران مقرر فرمایا اور بنوقریظہ کی طرف بدھ کے دن نکلے اور ذوالقعدہ کے سات دن باقی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیار اور زرہ پہنی اور خود پہنا اور اپنے ہاتھ میں نیزہ لے لیا اور ڈھال گلے میں لٹکا لی اور اپنے گھوڑے لُحَیْف پر سوار ہوئے۔ مسلمانوں کے پاس چھتیس گھوڑے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ابن سعد کہتے ہیں کہ آپ کے ساتھ تین ہزار افراد تھے۔ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ حضرت علیؓ مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت کے ساتھ پہلے ہی بنوقریظہ کے پاس پہنچ چکے تھے۔ حضرت ابوقَتَادہ ؓکہتے ہیں کہ ہم بنوقریظہ کے پاس پہنچ گئے اور حضرت علیؓ نے قلعہ کے نیچے جھنڈا گاڑھ دیا۔ جب انہوں نے ہمیں دیکھا تو انہیں جنگ کا یقین ہو گیا۔ پھر وہ اپنے قلعوں میں بند ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی ازواج مطہرات کو گالیاں دینے لگے۔ حضرت ابوقتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم خاموش رہے اور ان گالیوں کا کوئی جواب نہیں دیا اور کہا کہ اب تمہارے اور ہمارے درمیان تلوار ہی فیصلہ کرے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بنوقریظہ تک پہنچ گئے اور بنوقریظہ کے پہاڑ کےدامن میں بِئْرِ اُنَّا پر ان کے قلعہ کے قریب ٹھہر گئے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ57، دارالکتب العلمیۃ 1990ء)
(سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ 5-6 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
اسے بِئْرِ اَنَّابھی کہا جاتا ہے اور یہ بنوقریظہ کے کنوؤں میں سے ایک کنواں ہے۔
(معجم البلدان جلد 1صفحہ 355دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اس بارے میں سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو تفصیل لکھی ہے یوں ہے کہ ’’جب حضرت علیؓ وہاں پہنچے توبجائے اس کے کہ بنوقریظہ (جن میں غزوۂ خندق کے بعد بنونضیر کا رئیسِ اعظم اور فتنہ کا بانی مبانی حُیَیِّ بن اخطب بھی اپنے وعدہ کے مطابق آکر شامل ہوگیا تھا) اپنی غداری وبغاوت پر اظہارِ ندامت کر کے عفو اور رحم کے طالب بنتے انہوں نے برملا طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اورکمال بے حیائی اور کمینگی کے طریق پر ازواجِ مطہرات کے متعلق بھی نہایت ناگوار بدزبانی کی۔
حضرت علیؓ اور ان کے دستے کے روانہ ہوچکنے کے تھوڑی دیر بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسلح ہوکر مدینہ سے روانہ ہوئے۔ اس وقت آپؐ ایک گھوڑے پرسوار تھے اور صحابہ کی ایک بڑی جماعت آپ کے ساتھ تھی۔ جب آپؐ بنوقریظہ کے قلعوں کے قریب پہنچے تو حضرت علیؓ نے جو تھوڑی دور تک آپ کے استقبال کے لیے واپس آگئے تھے آپؐ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ! میرے خیال میں آپ کو خود آگے تشریف لے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم لوگ انشاء اللہ کافی ہوں گے۔ آپ سمجھ گئے اور فرمانے لگے ’’کیا بنوقریظہ نے میرے متعلق کوئی بدزبانی کی ہے؟ ‘‘ دیکھا کہ حضرت علیؓ روک رہے ہیں تو یقینا ًکوئی غلط باتیں کی ہوں گی۔ ‘‘حضرت علی نے عرض کیا کہ ہاں یارسول اللہ! آپؐ نے فرمایا خیر ہے، چلو۔
قَدْ اُوْذِیَ مُوْسٰی بِاَکْثَرَمِنْ ھٰذَا۔
یعنی ’’موسیٰؑ کو ان لوگوں کی طرف سے اس سے بھی زیادہ تکالیف پہنچی تھیں۔‘‘
غرض آپ آگے بڑھے اوربنوقریظہ کے ایک کنوئیں پرپہنچ کر ڈیرہ ڈال دیا۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 597، 598)
ایک روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ان میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ میرے سامنے مجھے برا بھلا کہیں۔ اور بڑے اطمینان اور وقار کے ساتھ آگے بڑھے۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5 صفحہ5-6 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃبیروت 1993ء)
مسلمانوں کے اس غزوہ میں کھانے کا بھی ایک ذکر ملتا ہے کہ تمام صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عشاء کے وقت تک جمع ہو گئے اور حضرت سعد بن عبادہ ؓنے کھجوروں کا ایک اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لیے بھیجا۔ اس روز
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھجور کیا ہی اچھا کھانا ہے!
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5 صفحہ6 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃبیروت 1993ء)
مسلمانوں کے بنوقُریظہ پر محاصرے کی مزید تفصیل
یوں بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سحری کے وقت آگے بڑھے اور تیر انداز دستے کو آگے رکھا۔ انہوں نے یہودیوں کے قلعوں کا احاطہ کر لیا اور ان پر تیر اندازی کی اور پتھر برسائے اور وہ یہودی بھی، اپنے قلعوں سے تیر اندازی کرتے رہے، یہاں تک کہ شام ہو گئی۔ پھر قلعوں کے ارد گرد رات گزاری اور مسلمان یہود پر باری باری حملہ کرتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل ان پر تیر اندازی کرواتے رہے یہاں تک کہ یہود نے ہلاکت کا یقین کر لیا اور مسلمانوں پر تیر اندازی چھوڑ دی اور کہنے لگے کہ ہمیں چھوڑ دو ہم تم سے بات چیت کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے۔ انہوں نے نَبَّاشْ بن قَیس کو آپؐ کے پاس بھیجا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ انہیں یہاں سے چلے جانے کی اجازت دے دیں جیسے بنو نضیر یہاں سے گئے تھے اور آپؐ اموال اور ہتھیار لے لیں اور ہمارے خون معاف فرما دیں۔ ہم آپؐ کے شہر سے اپنی عورتوں اور بچوں کے ساتھ نکل جائیں گے۔ یہ یہود کی طرف سے پیشکش ہوئی۔ اور ہمارے لیے وہ سامان ہو گا جس کوہمارا ایک اونٹ اٹھا سکے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا اور پھر نَبَّاشْ نے کہا کہ ہمیں اموال کی ضرورت نہیں جس کو ہمارے اونٹ اٹھائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا کہ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق اترنا ہو گا لیکن اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر اترنے سے انکار کر دیا اور اپنی قوم میں واپس چلا گیا۔
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 6، دارالکتب العلمیۃ 1993ء)
اس کے بعد بنوقریظہ کے سرداروں نے آپس میں مشاورت کی، مشورے کیے۔ جب نَبَّاشْ نے اپنی قوم میں آ کر ان کو تمام حالات کی خبر دی اور محاصرہ اب طول پکڑنے لگا تو
بنوقریظہ کا سردار کعب بن اسد اپنی قوم کے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ اللہ کی قسم !تم پر ایک آزمائش آئی ہے جسے تم دیکھ رہے ہو۔ میں تمہارے سامنے تین باتیں پیش کرتا ہوں ان میں سے جس کو چاہو قبول کرلو۔
انہوں نے کہا کہ وہ کیا ہیں ؟ کعب بن اسد نے کہا کہ
ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کر لیں اور ان کو سچا مان لیں کیونکہ اللہ کی قَسم! تمہیں معلوم ہو چکا ہے کہ وہ نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں
اور یہ وہی شخص ہیں جن کا ذکر تم اپنی کتابوں میں پڑھتے ہو۔ او رہمارے ایمان لانے کی وجہ سے تمہارا خون تمہارے مال اور تمہاری عورتیں محفوظ ہو جائیں گی۔ بخدا تم جانتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ شامل ہونے سے صرف اس بات نے روکا ہے کہ وہ عرب سے ہیں اور بنی اسرائیل سے نہیں۔ پس اب جہاں وہ ہے اللہ نے ہی اس کو نبی بنایا ہے۔ یعنی اب تو وہ جو بھی ہیں انہیں ہی نبی بنایا ہے۔ یہ تو بڑا واضح ہے۔ اور کہنے لگا کہ مَیں تو عہد بھی توڑنا پسند نہیں کرتا تھا لیکن یہ مصیبت اور آزمائش اس حُیَیِّ بن اخطب کی طرف سے ہے۔ وہ پاس بیٹھا ہوا تھا۔
پھر کعب نے کہا کیا تمہیں یاد ہے کہ ابن جَوَّاسْ، یہ یہود کا ایک قدیم عالم تھا اس نے تمہیں کیا کہا تھا جب وہ تمہارے پاس آیا تھا؟ اس نے کہا تھا کہ مَیں نے شراب، سِرْکے اور کھجور کی سرزمین یعنی بیت المقدس کی سرزمین چھوڑ دی اور میں پانی کھجور اور جَو کی سرزمین میں آ گیا ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ ایسا کیوں؟ تب کعب بن اسد نے کہا کہ اس بزرگ نے یہ کہا تھا کہ اس بستی سے ایک نبی کا ظہور ہو گا اور اس وقت اگر میں زندہ ہوا تو اس کی اتباع اور مدد کروںگا اور اگر وہ میرے بعد آیا تو تم محتاط رہنا کہ کوئی تمہیں اس کے بارے میں دھوکے میں نہ ڈال دے۔ یعنی تم قبول کر لینا۔ انکار نہ کرنا۔ اس کی اتباع کرنا اور مددگار اور دوست بن جانا۔ میں تو دونوں کتابوں پر ایمان لے آیا ہوں پہلی پر بھی اور آخری پر بھی۔ یعنی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والی کتاب ہے اس پر بھی اور میرا سلام اسے پہنچا دینا اور اسے کہنا کہ میں نے اس کی تصدیق کی تھی۔
پھر کعب کہنے لگا پس آؤ! ہم ان یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور تصدیق کریں تو یہ سن کر بنوقریظہ کے لوگ کہنے لگے۔ ہم تورات کے فیصلے سے یعنی تورات کا جو فیصلہ ہے اس سے کبھی بھی جدانہیں ہوں گے جو حضرت موسیٰ کی کتاب ہے اور اس کو کسی اور کتاب سے ہرگز نہیں بدلیں گے۔
اس پر کعب نے کہا جب تم میری بات نہیں مانتے تو
دوسری بات یہ ہے کہ آؤ! ہم اپنے بچوں اور بیویوں کو قتل کر دیں
پھر تلواریں سونت کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ پر ٹوٹ پڑیں۔
ہمارا پیچھےکوئی بوجھ نہ ہو گا۔ حتی کہ اللہ ہمارے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان فیصلہ کر دے۔ اگر ہم مارے گئے تو ہم ہی ہلاک ہوں گے ہمارے پیچھے پوری نسل نہیں ہو گی جس کے بارے میں ہمیں خدشہ ہو گا اور اگر ہم غالب آ گئے تو میری عمر کی قَسم! اولاد اور بیویاں تو ہمیں اور بھی مل جائیں گی۔ لوگوں نے کہا کہ کیا ہم ان مسکینوں کو قتل کر دیں۔ ان کے بعد زندگی میں کیا لذت رہ جائے گی۔
پھر کعب نے کہا اگر تم میری یہ بات بھی نہیں مانتے تو
آج کی رات ہفتہ یعنی سبت کی ہے اور امید ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہؓ اس رات ہماری طرف سے بے فکر ہوں گے۔ اس لیے تم ان پر حملہ کر دو۔ شاید کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ ؓکو دھوکا دے سکیں۔
وہ کہنے لگے کہ ہم اپنے سبت کو خراب کر دیں اور اس میں ایسا کام کریں جو ہم سے پہلے کسی نے نہیں کیا سوائے اس کے جس کو تُوجانتا ہے اور پھر اس کا مسخ ہو جانا بھی تجھ پر مخفی نہیں اور یوں کعب کی تینوں باتوں میں سے کسی کو بھی ماننے سے انکار کر دیا۔ کعب کے بعد ایک اور یہودی عَمْرْو بن سُعْدٰینے کہا۔ اے یہود کے گروہ! تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کیا اور تم نے اپنے اس وعدے کو توڑ دیا جو تمہارے اور ان کے درمیان تھا۔ نہ میں تمہارے اس معاہدے میں شامل ہوا تھا اور نہ ہی میں تمہارے ساتھ تمہارے دھوکے میں شریک ہوں۔ اگر تم ان کے دین میں داخل ہونے سے انکار کرتے ہو تو یہودیت پر تو ثابت قدم رہو۔ اگر ان کا انکار کرنا ہے تو یہودیت کی جو تعلیم ہے اس پر تو ثابت قدم رہو اور ان کو جزیہ دے دو۔ اللہ کی قسم !میں نہیں جانتا کہ وہ اس کو قبول کریں گے یا نہیں۔ وہ کہنے لگے کہ ہم عرب کو اپنی گردنیں چھڑوانے کے لیے خراج نہیں دیں گے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا۔ ہم نے یہ نہیں دینا۔ اس سے بہتر تو قتل ہے۔ تو عمرو نے کہا پھر میں تم سے بری ہوں اور وہ اسی رات قلعہ سے باہر نکل گیا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہرے داروں کے پاس سے گزرا۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ ان پر نگران تھے۔ انہوں نے کہا کون ہے؟ اس نے کہا عَمْرْو بن سُعْدٰی۔حضرت محمد بن مسلمہؓ نے کہا کہ گزر جاؤ اور کہا اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنِیْ اِقَالَۃَعَثَرَاتِ الْکِرَامِ۔ یعنی اے اللہ! مجھے شریفوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے نیک عمل سے محروم نہ کرنا۔ اور اس کا رستہ چھوڑ دیا۔ اور وہ نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں آ گیا اور وہیں صبح کی اور صبح کے وقت وہ وہاں سے چلا گیا۔ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کہاں گیا۔ اس کا ذکر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ایسا آدمی ہے جسے اللہ نے اس کی وفا کی وجہ سے نجات دے دی۔
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 6 تا 8، دارالکتب العلمیۃ 1993ء)
اسی طرح کعب کی یہ باتیں سن کر تین اَور افراد اسی رات قلعہ سے اتر آئے اور اسلام لے آئے اور اپنی جانیں اپنے خاندان اور اپنے اموال بچا لیے۔
(ماخوذ از سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 6 تا 8، دارالکتب العلمیۃ 1993ء)
حضرت ابولُبَابہؓ کا واقعہ
بیان ہوا ہے۔ اس بارے میں لکھا ہے کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قلعوں پر سختی بڑھا دی۔ جب ان پر محاصرہ تنگ ہو گیا تو انہوں نے سبت کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھیجا کہ حضرت ابولُبَابہ بن عبدالمُنْذِرؓ کو ہماری طرف بھیج دیں تاکہ ہم ان سے اپنے معاملے میں مشورہ کر لیں۔ یہ بنوقریظہ کے حلیف قبیلہ اوس کے ایک معزز فرد تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھیج دیا۔ جب انہوں نے حضرت ابولُبَابہؓ کو دیکھا تو مرد ان کی طرف آنے لگے اور عورتیں اور بچے ان کے سامنے رونے لگے۔ حضرت ابولُبَابہ ان کے لیے نرم ہو گئے۔ ان کے دل میں ان کے لیے نرمی پیدا ہوئی۔ یہ چال انہوں نے چلی تھی۔ کعب بن اسد نے کہا کہ اے ابو لُبَابہ! ہم نے صرف آپ کو چنا ہے۔ بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا فیصلہ قبول کرانے کے سوا کسی بات پر تیار نہیں ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم ان کے فیصلے کو قبول کر لیں تو حضرت ابولُبَابہؓ نے جواب دیا ہاں اور اپنے ہاتھ سے اپنے گلے کی طرف ذبح کا اشارہ کیا۔ یوں گردن پر ہاتھ پھیرا۔
حضرت ابولُبَابہؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم !میرے قدم ابھی تک اپنی جگہ پر تھے کہ میں نے محسوس کیا کہ میں نے اللہ اور اس کے رسولؐ سے خیانت کی ہے۔
میں شرمندہ ہوا کہ مَیں نے یہ کیا اشارہ کر دیا ہے اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھا۔ میں نیچے اترا تو میری داڑھی آنسوؤں سے تر تھی۔ لوگ میرے لَوٹنے کا انتظار کر رہے تھے۔ مَیں نے قلعہ کے پیچھے سے ایک دوسرا راستہ لیا اور مسجد میں آ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں گیا۔ مَیں نے اپنے آپ کو ستون سے باندھ دیا۔ سزا کے طور پر باندھ دیا، پھر مَیں نے کہا میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا یہاں تک کہ مر جاؤں یا اللہ میرے اس فعل پر میری توبہ قبول کر لے اور مَیں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ میں بنوقریظہ کی زمین میں کبھی پاؤں نہیں رکھوں گا اور نہ اس بستی کو دیکھوں گا جس پر مَیں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خیانت کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب میرے چلے جانے اور میرے اس فعل کی خبر پہنچی تو فرمایا اس کو چھوڑ دو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں جو چاہے فیصلہ کر دے۔ اگر وہ میرے پاس آتا تو مَیں اس کے لیے استغفار کرتا۔ جب وہ میرے پاس نہیں آیا اور چلا گیا تو اس کو چھوڑ دو۔
حضرت ابولُبَابہؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں بڑی تکلیف میں تھا۔ کئی راتیں مَیں نے نہ کچھ کھایا اور نہ کچھ پیا اور یہی کہتا رہا کہ میں اسی حال میں رہوں گا اور یہاں تک کہ میں دنیا کو چھوڑ جاؤں یا اللہ میری توبہ قبول کر لے۔
اور میں اپنا خواب یاد کرتا تھا جو میں نے دیکھا تھا جب ہم نے بنوقریظہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا کہ گویا میں بدبودار سیاہ مٹی میں ہوں اور میں اس سے نکل نہیں پا رہا۔ قریب تھا کہ میں اس کی بدبو سے مر جاتا پھر میں نے ایک نہر دیکھی اور دیکھا کہ میں نے اس میں غسل کیا یہاں تک کہ مَیں صاف ہو گیا اور پھر میں نے اچھی خوشبو پائی۔ میں نے اس کی تعبیر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھی تو انہوں نے کہا کہ تم ایک ایسے معاملے میں مبتلا ہو گے جس کی وجہ سے تم غمگین ہو جاؤ گے پھر تمہیں اس سے نجات مل جائے گی۔ پس میں بندھا ہوا حضرت ابوبکرؓ کے قول کو یاد کرتا تھا اور امید کرتا تھا کہ اللہ میرے لیے توبہ نازل کر دے گا۔ آپ کہتے ہیں کہ میں اسی حال میں رہا یہاں تک کہ کمزوری کی وجہ سے آواز بھی نہیں سن سکتا تھا۔ بندھا ہوا تھا pillarکے ساتھ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھا کرتے تھے۔ ابنِ ہشام کہتے ہیں کہ وہ چھ راتوں تک بندھے رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابولُبَابہ کی توبہ کے متعلق آیت نازل فرمائی۔ وَاٰخَرُ وۡنَ اعۡتَرَفُوۡا بِذُنُوۡبِہِمۡ خَلَطُوۡا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّئًا ؕ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (التوبۃ :102) اور کچھ دوسرے ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا۔ انہوں نے اچھے اعمال اور دوسرے بداعمال ملا جلا دیئے۔ بعید نہیں کہ اللہ ان پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھکے۔ یقینا ًاللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
حضرت ابولُبَابہؓ کی توبہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سحری کے وقت آیت نازل ہوئی تھی۔ آپؐ حضرت ام سلمہؓ کے گھر میں تھے۔
حضرت ام سلمہ ؓفرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سحری کے وقت مسکراتے ہوئے دیکھا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ آپؐ کو ہمیشہ ہنستا مسکراتا رکھے آپؐ کس وجہ سے مسکرا رہے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ابولُبَابہ کے لیے خوشخبری ہے۔
میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا میں ان کو خوشخبری نہ دے دوں۔ فرمایا کیوں نہیں اگر چاہو تو خوشخبری دے دو۔ پھر وہ اپنے حجرے کے دروازے پر کھڑی ہو گئیںاور پھر فرمانے لگیں کہ اے ابولُبَابہ! خوش ہو جاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول کر لی ہے۔ لوگ ان کو کھولنے کے لیے ان کی طرف گئے تو حضرت ابولُبَابہؓ نے کہا نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی مجھے کھولیں گے۔ کہنے لگے نہیں اب تو مَیں بندھا ہوا ہوں۔ اب کھولنا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی کھولنا ہے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے لیے تشریف لائے تو اپنے دستِ مبارک سے انہیں کھول دیا۔ حضرت ابولُبَابہؓ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری توبہ تو یہ ہے کہ میں اپنی قوم کے ان گھروں کو بھی چھوڑ دوں جن میں مجھ سے گناہ سرزد ہو اہے اور میں اپنے سارے کا سارا مال اللہ اور اس کے رسولؐ کی راہ میں صدقہ کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابولُبَابہ !تمہارے لیے ایک تہائی کافی ہے۔
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5صفحہ 8، 9دارالکتب العلمیۃ 1993ء)
بہرحال یہ واضح ہو کہ ابولُبَابہؓ کے متعلق جو مذکورہ واقعہ بیان ہوا ہے اس کی یہ تفصیل جو ہے صحاح ستہ میں نہیں ملتی ۔ممکن ہے کہ حضرت ابولُبَابہؓ کا لوگوں کے قتل کا اشارہ محض ان کی اپنی سوچ کا نتیجہ ہو لیکن بہرحال تاریخوں میں یہ ذکر ہوا ہے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اس واقعہ کی تفصیل بیان کی ہے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ ’’آخر جب بنوقریظہ محاصرہ کی سختی سے تنگ آگئے تو انہوں نے یہ تجویز کی کہ کسی ایسے مسلمان کو جو ان سے تعلقات رکھتا ہواوراپنی سادگی کی وجہ سے ان کے داؤ میں آسکتا ہو اپنے قلعہ میں بلائیں اور اس سے یہ پتہ لگانے کی کوشش کریں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے متعلق کیا ارادہ ہے تاکہ وہ اس کی روشنی میں آئندہ طریق عمل تجویز کر سکیں۔ چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ایلچی روانہ کرکے یہ درخواست کی کہ ابولُبَابہ بن مُنْذِر انصاری کوان کے قلعہ میں بھجوایا جاوے تاکہ وہ اس سے مشورہ کر سکیں۔ آپؐ نے ابولُبَابہ کو اجازت دی اوروہ ان کے قلعہ میں چلے گئے۔ اب رؤساء بنوقریظہ نے یہ تجویز کی ہوئی تھی کہ جونہی ابولُبَابہ قلعہ کے اندرداخل ہو سب یہودی عورتیں اوربچے روتے اور چِلّاتے ہوئے ان کے اردگرد جمع ہوجائیں اوراپنی مصیبت اورتکلیف کاان کے دل پر پورا پورا اثر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ ابولُبَابہ پر یہ داؤ چل گیا اور وہ قلعہ میں جاتے ہی ان کی ’’مصیبت‘‘کا شکار ہو گئے اور بنوقریظہ کے اس سوال پر کہ اے ابولُبَابہ! توہمارا حال دیکھ رہا ہے۔ کیا ہم محمدؐ کے فیصلہ پراپنے قلعوں سے اتر آویں؟ ابولُبَابہ نے بے ساختہ جواب دیا’’ہاں‘‘مگر ساتھ ہی اپنے گلے پرہاتھ پھیر کر اشارہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے قتل کاحکم دیں گے۔ حالانکہ یہ بالکل غلط تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعاً کوئی ایسا ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا مگر ان کی مصیبت کے مظاہرہ سے متاثر ہو کر ابولُبَابہ کاخیال آلام ومصائب کی رو میں ایسا بہاکہ موت سے ورے ورے نہیں ٹھہرا اور ابولُبَابہ کی یہ غلط ہمدردی (جس کی وجہ سے وہ بعد میں خود بھی نادم ہوئے اوراس ندامت میں انہوں نے اپنے آپ کو جا کر مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معاف کرتے ہوئے خود جاکر انہیں کھولا ) بنوقریظہ کی تباہی کاباعث بن گئی اور وہ اس بات پر ضد کرکے جم گئے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر نہیں اتریں گے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 598، 599)
بہرحال یہ تفصیل جاری ہے۔ انشاء اللہ باقی آئندہ۔
پاکستان کے احمدیوں کو خود بھی اپنے لیے دعا کرنی چاہیے۔
آجکل ان پر زمین تنگ سے تنگ تر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی انہیں پہلے سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے کیونکہ حالات بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں جیسا کہ میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ فضل اور رحم فرمائے۔
اسی طرح دنیا میں بسنے والے جو پاکستانی احمدی ہیں وہ بھی خاص طور پر اپنے پاکستانی بھائیوں کے لیے دعا کریں۔
اللہ تعالیٰ ان کو مشکلات سے نجات دے۔ اسی طرح
بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں اور وہ خود بھی
اپنے لیے دعا کریں۔
اللہ تعالیٰ ہر شر سے انہیں بھی بچائے۔ وہاں بھی احمدی بہت مشکلات میں گرفتار ہیں۔
الجزائر کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہر شر سے بچائے
ان پہ بھی جرمانے اور قیدیں ہورہی ہیں، ان کوبھی پکڑا جا رہا ہے۔ ان کا ایمان اللہ تعالیٰ مضبوط رکھے۔
سوڈان کے احمدی بھی وہاں کے جنگی حالات کی وجہ سے بُرے حالات میں ہیں ان کے لیے بھی دعا کریں۔
ہر جگہ کلمہ گو،کلمہ گو کے ہاتھوں مشکلات میں گرفتار ہے اور یہی وجہ ہے کہ غیر جو اسلام مخالف لوگ ہیں بےدھڑک مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بہت دعا کریں۔
اللہ تعالیٰ اسرائیلی حکومت اور امریکہ کی حکومت اور بڑی طاقتوں کے ہاتھوں کو روک سکتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں سب طاقت ہے لیکن اس کے لیے مسلمانوں کو بھی اپنے عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے ہوں گے اور بھائی بھائی ہونے کا نمونہ بننا ہو گا۔ آپس کے اختلافات کو ختم کرنا ہو گا جو نظر نہیں آ رہا ۔ تب کہیں اللہ تعالیٰ کی مدد کا وعدہ بھی پورا ہو گا۔
اس کے بغیر تو نہیں ہو سکتا۔ ایک مومن بن کے مسلمانوں کو رہنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور تمام مسلمانوں کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائے۔
٭…٭…٭