بستی کتنی دور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط یازدہم)
محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب
سابق امیر و مبلغ بلاد مشرقی افریقہ، انگلستان و امریکہ
خاکسار جب جامعہ احمدیہ ربوہ میں زیر تعلیم تھا تو اس وقت مولانا صاحب کو ربوہ میں دیکھا تھا۔ آپ بہت خوبصورت اور وجیہ شخصیت تھے۔ سر پر ہمیشہ سفید پگڑی یا پھر لنگی باندھے دیکھا اور ہمیشہ اچکن بھی زیبِ تن رہی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے زمانہ میں آپ ربوہ میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر میں بھی پیش پیش رہے اور پھر حدیقۃالمبشرین کے سیکرٹری بھی رہے۔ ربوہ ہی میں مسجد مبارک میں آپ نے مجلس ارشاد میں ایک مقالہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی موجودگی میں پڑھا تھا، جس کا عنوان ’’خلیفہ خدا بناتا ہے‘‘ تھا۔ خاکسارکورمضان المبارک میں آپ کے درس القرآن سننے کا بھی موقع ملا ہے۔
آپ اُن دنوں سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن بھی تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے آپ کو سیکرٹری حدیقۃ المبشرین بھی مقرر فرمایا اور آپ نے ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی منظوری کے ساتھ مبلغین کرام کے لیے ریفریشر کورس کا انتظام کرایا۔ اس انتظام سے مبلغین کو اپنا علمی معیار بڑھانے کا موقع ملتا رہا۔ قرآن کریم کی سورتیں بھی حفظ کرائی جاتیں، مبلغین کو جماعتوں میں جو مشکلات پیش آتی تھیں اس ریفریشر کورس میں ان کی راہنمائی بھی ہو جاتی تھی۔ اسی طرح ریفریشر کورس میں جماعت کے پرانے مبلغین، علمائےکرام اور اساتذہ کے تجربات سے بھی فائدہ حاصل ہوتا رہا۔ خاکسار تین سال ان ریفرشر کورسز میں شامل ہوا۔ جو بزرگان تشریف لاتے تھےان میں قاضی محمد نذیر احمد صاحب لائل پوری، مولانا عبدالمالک خان صاحب، مولانا ابوالعطاء صاحب، ملک سیف الرحمٰن صاحب، مولوی خورشید احمد صاحب (خورشید یونانی دواخانہ والے) وغیرہ شامل ہیں۔
جب میری گھانا کی تقرری ہوئی تو محترم شیخ مبارک احمد صاحب نے ہی مجھے پہلے زبانی یہ خبر سنائی اور پھر خط کے ذریعہ بھی اطلاع دی۔بعد ازاں جب میری فیملی سیرالیون آئی تو راستہ میں دو دن لندن میں قیام تھا۔ خاکسار کی اہلیہ اور دونوں بیٹے اپنی والدہ کے ساتھ لندن مشن ہاؤس میں ٹھہرے اور محترم شیخ صاحب اور خالہ صفیہ (اہلیہ شیخ مبارک احمد صاحب) کی ضیافت اور مہمان نوازی سے حصہ پایا۔ خاکسار کی فیملی کے ساتھ مرزا محمد اقبال صاحب کی فیملی بھی سیرالیون آئی تھی۔
جب آپ انگلستان میں تھے تو انگلستان میں تربیتی سیمینار کرتے جن کی رپورٹس الفضل میں شائع ہوتیں۔ پہلی دفعہ غالباً بچوں کی ایک تربیتی کلاس مسجد فضل لندن میں دو ہفتوں کے لیے منعقد ہوئی۔ بچوں نے واپس جا کر اپنے اپنے تاثرات لکھ کر بھیجے جو الفضل میں شائع ہونے والی رپورٹ کا حصہ بنے۔ ایک بچے کا یہ تبصرہ بھی تھاکہ ’’مسجد کی جدائی بشدت محسوس ہوتی ہے‘‘۔یہ فقرہ خاکسار کے دل کو لگا۔چنانچہ اس حوالے سے خاکسار نے نماز باجماعت اورمسجد کی برکتوں سے متعلق ایک مضمون روزنامہ الفضل کو سیرالیون سے لکھ کر بھیجا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے شائع بھی ہوا۔
افریقہ سے واپسی کے بعد ۱۹۸۷ء میں خاکسار کا جب امریکہ کے لیےتقرر ہوا تو آپ اس وقت امریکہ مشن کے امیرو مبلغ انچارج تھے۔ آپ ۱۹۸۹ء میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اس ذمہ داری کو بطور احسن سرانجام دیتے رہے۔ آپ کے بعد مکرم صاحب زادہ مرزا مظفر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ امریکہ مقرر ہوئے۔
جس دن خاکسار کی پرواز لندن سے واشنگٹن کی تھی راستے میں خاکسار کی خوش قسمتی کہ لندن ایئر پورٹ پر حضرت صاحب زادہ مرزا مظفر احمد صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جو اسی فلائٹ سے مع اہلیہ (بی بی امۃ القیوم صاحبہ) واشنگٹن آرہے تھے۔ آپ نے دورانِ فلائٹ مجھ سے استفسار فرمایا کہ کیا تمہیں کوئی لینے کے لیے آرہا ہے؟ میں نے عرض کی کہ مشن کو اطلاع تو ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ میں تو پہلے باہر نکل جاؤں گا اور دیکھ لوں گا کہ کوئی آیا ہوا ہے یا نہیں ورنہ آپ کا انتظار کروں گا اور آپ کو مشن ہاؤس لے جاؤں گا۔
چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد جبکہ خاکسار امیگریشن کے لیے انتظار میں کھڑا تھا آپ تشریف لائے اور فرمایا کہ آپ کو شیخ مبارک احمد صاحب لینے آئے ہوئے ہیں اس لیے اب میں چلتا ہوں۔ امیگریشن کے بعد خاکسار باہر نکلا تو مولانا شیخ مبارک احمد صاحب اور مکرم عبدالرشید یحییٰ صاحب (جو شیخ صاحب کے ساتھ واشنگٹن مشن ہاؤس ہیڈکوارٹر میں مبلغ تھے) سے ملاقات ہوئی اورخاکسار ان کے ساتھ مشن ہاؤس آگیا۔ الحمدللہ
مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے خاکسار کو ہیڈکوارٹرہی میں چند ماہ رکھا۔ میری امریکہ آمد ۱۰؍ستمبر ۱۹۸۷ء کو ہوئی اور میری خوش قسمتی کہ اس ماہ کے آخر میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بھی امریکہ کے دورے پر تشریف لائے۔ چنانچہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار کو بھی نیشنل عاملہ اور دیگر مبلغین کرام کے ساتھ ایئرپورٹ پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے استقبال کی توفیق ملی۔
جنرل سیکرٹری جماعت امریکہ مکرم ملک مسعود احمد صاحب۔ (حال نائب امیر امریکہ) نے خاکسار کا ہاتھ پکڑا اور حضور رحمہ اللہ کے پاس لے گئے۔ ابھی یہ کہا ہی تھا کہ حضور یہ ہمارے نئے، اس پر حضورؒ نے فرمایا ہاں میں انہیں بچپن سے جانتا ہوں۔ میرے لیے وہ لمحہ بہت ہی بابرکت اور سعادت والا تھا کہ حضور نے فرمایا میں انہیں بچپن سے جانتا ہوں۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہ دورہ دو، تین ماہ کا تھا۔
مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے خاکسار کو بتایا کہ حضورؒنے سانفرانسسکو کے دورے کے دوران فرمایا کہ یہاں پر ایک مبلغ کا تقرر کریں تو شیخ صاحب نے حضورؒ سے عرض کی شمشاد صاحب حال ہی میں آئے ہیں ان کی ابھی تقرری نہیں ہوئی ۔ان کو میں یہاں بھجوا دوں؟ حضورؒ نے فرمایا کہ نہیں ان کی تقرری میں خود کروں گا۔
ستمبر تا دسمبر خاکسار مسجد فضل واشنگٹن میں ہی رہا۔اس دوران مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ساتھ ساتھ مکرمہ خالہ صفیہ (اہلیہ شیخ مبارک احمد صاحب جنہیں سب ہی خالہ جان کہتےتھے)کی پُر تکلف مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے کا بھی موقع ملا۔ آپ خاکسار کے لیے سالن اور چپاتی بناتی تھیں، انہیں کسی طرح علم ہو گیا تھا کہ میرے لیے ڈبل روٹی یا بازار کی بنی ہوئی روٹی کھانا مشکل ہے۔ اس کے علاوہ مکرم عبدالرشید یحییٰ صاحب جو ہیڈ کوارٹر میں تھے کے اہلِ خانہ نے بھی خاکسار کی بہت خدمت کی۔اللہ تعالیٰ سب کو بہترین جزا عطا فرمائے۔
دسمبر ۱۹۸۷ء میں لندن سے مولانا مبارک احمد صاحب ساقی کا خط آیا کہ حضور نے خاکسارکاتقررڈیٹن اوہایو میں فرمایا ہے۔ وہ مظفر احمد صاحب کے ساتھ مل کر مڈ ویسٹ میں تبلیغ کاکام کریں گے۔ چنانچہ خاکسار برادرم مظفر احمد صاحب کے ہمراہ جو اس وقت نائب امیر اول تھے اورایک نیشنل عاملہ کی میٹنگ کے لیے واشنگٹن تشریف لائے ہوئے تھےڈیٹن اوہایو چلا گیا۔ برادرم مکرم حبیب شفیق بھی ساتھ تھے۔ ڈیٹن میں بہت پرانا مشن تھا اور یہاں پر پرانے بزرگ مبلغین کرام متعین رہے ہیں جیسے صوفی مطیع الرحمٰن صاحب بنگالی، میجر عبدالحمید صاحب اور ماسٹر محمد ابراہیم صاحب جمونی۔
ڈیٹن میں مشنری کی رہائش کے لیے کوئی گھر نہ تھا۔ اس لیے مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے خاکسار کو فرمایا کہ وہاں مسجد کے ساتھ کسی گھر کو خرید لیا جائے۔ چنانچہ یہ ڈیوٹی خاکسار اور برادر م مظفر احمد ظفر صاحب (صدر جماعت ڈیٹن و نائب امیر امریکہ)کی لگی۔ آپ علاقے میں بہت اثر ورسوخ رکھتے تھے۔ ہر کوئی آپ کو جانتا تھا۔ اپریل ۱۹۸۸ء میں مسجد کی ہمسائیگی میں ایک گھر ۲۴؍ہزار ڈالرز میں خرید لیا گیا۔ جنوری تا اپریل ۱۹۸۸ء خاکسار ایک احمدی دوست برادر بلال احمد صاحب کے گھر رہائش پذیر رہا۔ ان کا گھر مسجد سے قریباً دو اڑھائی میل کے فاصلے پر تھا۔ خاکسار برادر بلال کے ساتھ بھی مسجد آجاتا لیکن اکثر پیدل ہی آجاتا کیونکہ انہوں نے تو نماز کے وقت ہی آنا ہوتا تھاجبکہ خاکسار صبح پیدل مسجد آتا، دفتر میں کام کرتا اور شام کو عشاء کے بعد ان کے ساتھ واپس گھر آجاتا۔ اللہ تعالیٰ برادر بلال کو بھی جزا دے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔ انہوں نے بھی خاکسار کی بے لوث خدمت کی۔
برادرم مظفر صاحب کے ساتھ خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہدایت کے مطابق سارے مڈویسٹ کے دورے بھی کیے جس میں ملکواکی، شکاگو، ڈیٹن، کلیولینڈ، ایتھنز، یارک(ہیرس برگ)، پٹس برگ وغیرہ کی جماعتیں شامل تھیں۔
مکرم شیخ صاحب بہت عمدہ اخلاق کے مالک، عالم باعمل اور بزرگ وجود تھے۔ مبلغین کے ساتھ حسنِ سلوک فرماتے لیکن سلسلے کے کاموں میں عدم توجہی برداشت نہ کرتے۔ طبیعت میں عفو اور درگذر کا پہلو نمایاں تھا۔
آپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد مسجد بیت الرحمٰن میں مجلس انصاراللہ کا نیشنل اجتماع منعقد ہوا۔ صدر انصاراللہ مکرم کریم اللہ زیروی صاحب کی طرف سے خاکسار کے ذمہ تبلیغی ورکشاپ لگائی گئی۔ چنانچہ جب میری باری آئی تو خاکسار نے دیکھا کہ مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سامعین میں پیچھے بیٹھے ہیں۔ خاکسار نے درخواست کی کہ شیخ صاحب تشریف لائیں اور اس سیشن کی صدارت کریں تو شیخ صاحب نے بیٹھے بیٹھےوہاں سے فرمایا کہ میں ریٹائرڈ ہوچکا ہوں۔ خاکسار نے عرض کی کہ آپ انجمن کی ڈیوٹی سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں،تبلیغ اور تربیت کی ڈیوٹی سے نہیں۔ اس پر سب ہنس پڑے اور مکرم مولانا صاحب آگےتشریف لے آئے، صدارت کی اور انصار کو قیمتی نصائح سے نوازا۔ آپ نے اپنی خودنوشت ’’کیفیاتِ زندگی ‘‘ میں یہ واقعہ بھی درج فرمایا ہے۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ آپ احباب کو مالی قربانی کی مؤثر تحریک فرماتے۔ مساجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر و توسیع کے سلسلے میں آپ نے امریکہ میں بہت کام کیا۔ صاحب زادہ مرزا مظفر احمد صاحب امیر جماعت امریکہ نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آپ کی ڈیوٹی اس کام کے لیے لگائی۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ کو فرمایا تھا کہ امریکہ میں پانچ بڑی مساجد اور مشن ہاؤس بنائے جائیں۔ چنانچہ اس ارشاد کی برکت سے لاس اینجلس، ڈیٹرائٹ، میری لینڈ، نیویارک اور شکاگو میں مساجد اور مشن ہاؤسز بنے۔
آپ کے دورِامارت میں کلیولینڈ میں عیسائیوں کا ایک چرچ مسجد کے لیے خریدنے کی بات چلی تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس شرط کے ساتھ اجازت عطا فرمائی کہ مالکان تحریری طور پر لکھ کر دیں کہ انہیں اس عمارت کے بطور مسجد استعمال پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے یہ تحریر لکھ دی۔ احتیاطاً پہلے مکرم ڈاکٹر جعفر علی صاحب نے یہ بلڈنگ خریدی اور بعد میں جماعت کو منتقل کر دی۔ اب یہ جگہ بطور مسجد استعمال ہورہی ہے۔ اس مسجد کا نام حضورؒ نے بیت الاحد رکھا۔ اس وقت یہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھی بڑی، مخلص جماعت قائم ہو چکی ہے۔ ۱۹۹۰ء اور ۱۹۹۱ء میں جماعت امریکہ کی مجلس مشاورت بھی یہاں ہی منعقد ہوئی۔
۵؍ مئی ۱۹۹۱ء کو شوریٰ پر کلیو لینڈ میں ہی شیخ صاحب کی الوداعی تقریب بھی منعقد ہوئی تھی جس میں شوریٰ میں شامل ہونے والے تمام احباب نے شرکت کی۔ محترم صاحب زادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے اس موقع پر خصوصی ایڈریس پیش کیا جس میں مکرم شیخ صاحب کی خدمات کا تذکرہ تھا۔ مکرم امیر صاحب نے اپنے ایڈریس میں فرمایا کہ آپ نے امریکہ میں سات سال تک بطور امیر اور مشنری انچارج خدمات سرانجام دیں۔ اس کے علاوہ انگلستان اور امریکہ میں آپ نے تبلیغی مراکز اور مساجد کے قیام پر خصوصی توجہ دی اور حضرت خلیفۃالمسیحؒ کی جانب سے جاری کردہ تحریکات کو کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ مکرم امیر صاحب نے فرمایا کہ ’’اپنی تمام زندگی اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دینا ایک مقدس عہد اور عظیم بار امانت ہے۔ جس کی قدرو منزلت ہر احمدی کے دل میں جاری و ساری رہنی چاہیے۔ واقفین زندگی اسلام کے سپاہی ہیں وہ پیغام حق کوتمام لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور احمدیوں کی تربیت اس رنگ میں کرتے ہیں کہ وہ اپنے گرد دَاعِینِ الٰی اللّٰہ کا ایک گروہ جمع کر لیتے ہیں تاکہ ان کی محنت مزید تقویت پکڑے اور ترقی پذیر رہے۔ اس طرح وہ ہر ایک احمدی کو اسلام کا سفیر بنانے میں کوشاں رہتے ہیں۔اس میں بھی وہی جوش و خروش پیدا کرتے ہیں جو احمدی مبلغین کا حقیقی امتیازی نشان ہے۔ ہم تمام مبلغین کرام کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور خصوصاً آج کے دن جناب مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کی گرانقدر خدمات کا اعتراف و اظہار کرتے ہیں جو کہ اسلام و احمدیت کی ایک لمبے عرصہ تک خدمت کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ میں قدم رکھ رہے ہیں۔‘‘
شیخ صاحب ریٹائرڈ تو ہوگئے مگر ہر پروگرام میں شامل ہوتے اورجہاں تک ممکن رہا اور صحت نے اجازت دی خدماتِ سلسلہ میں پیش پیش رہے۔آپ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے داماد مکرم خواص بھٹی صاحب اور بیٹی فریدہ شیخ صاحبہ کے پاس رہتے تھے جن کی شادی ۱۹۸۹ء میں ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں تین بچوں سے نوازا۔
۱۹۹۱ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے کلیولینڈ تشریف لانا تھا تو مسجد سے ملحق ایک باموقع مکان برائے فروخت ہو گیا۔ مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے اُس وقت کے صدر جماعت ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب کو تحریک کی کہ وہ گھر ذاتی طور پر خرید لیں۔ چنانچہ آپ نے وہ گھرخرید کر اس کی ضروری مرمت وغیرہ کروالی۔ بعد ازاں حضورؒاپنے دورے کے دوران اسی گھر میں رہائش پذیر رہے اور اسے متبرک فرمادیا۔ یہ گھر تادمِ تحریر ڈاکٹر صاحب کی ملکیت ہے۔
ستمبر ۱۹۸۷ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ امریکہ کے دورے پر تشریف لائے تو آپؒ کی رہائش حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے ہاں تھی۔ لیکن حضورؒ نمازوں، مجالسِ عرفان اور ملاقاتوں کے لیے مسجد فضل واشنگٹن تشریف لاتے۔ مجالس عرفان اور ملاقاتوںکا انتظام مولانا شیخ مبارک احمد صاحب امیر و مشنری انچارج فرماتے تھے۔ ایک دفعہ مجلسِ عرفان نماز عشاء کے بعد شروع ہوئی اور رات گئے تک جاری رہی۔ شیخ صاحب کو اونگھ آگئی تو حضرت صاحب ان کی طرف دیکھ کر مسکرادیے۔ شیخ صاحب کہنے لگے کہ حضور اب مجلس عرفان کو بہت دیر ہوگئی ہے آپ آرام فرما لیں۔ حضورؒ مسکراتے ہوئے فرمانے لگے کہ میرا آرام تو یہی ہے کہ مَیں احباب کے ساتھ ملوں۔
مکرم شیخ صاحب چند دن کی بیماری کے بعد ۹؍مئی ۲۰۰۱ء کو امریکہ میں مولائے حقیقی سے جاملے۔ آپ کی نماز جنازہ مسجد بیت الرحمان میں ادا کی گئی جس کے بعد آپ کے جسدِ خاکی کو ربوہ لے جایا گیا جہاں بہشتی مقبرہ میں آپ ابدی نیند سو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ امریکہ
حضرت صاحبزادہ صاحب کے ساتھ خاکسار کا کوئی تعارف بالکل نہ تھا۔ نام بہرحال سنا ہوا تھا۔ خاکسار لکھ چکا ہے کہ امریکہ جاتے ہوئے ہیتھرو ایئرپورٹ پر خاکسار کی صاحبزادہ صاحب سے ملاقات ہوئی۔ یہ میری آپ سے پہلی ملاقات تھی جس کا طبیعت پر آج تک اثر ہے اور یہ ملاقات اس وقت بھی گویا آنکھوں کے سامنے ہے۔ خاکسار کے ساتھ آپ نے ہمیشہ ہی شفقت کا سلوک فرمایا۔
جب خاکسار کی تقرری ڈیٹن میں ہوئی تو آپ سے ہونے والی خط و کتابت میں آپ ہمیشہ کام کو سراہتے اور تبلیغ نیز افریقن بھائی بہنوں کے ساتھ رابطے رکھنے اور ان کی تربیت کی طرف خصوصی توجہ دلاتے رہتے تھے۔ آپ کے لکھے ہوئے خطوط خاکسار کے پاس اب بھی محفوظ ہیں۔
آپ مبلغین کرام کا بہت احترام کرتے تھے۔مجھے ایک واقعہ نہیں بھولتا۔ بات کچھ یوں ہے کہ نیو جرسی میں مسجد خریدی گئی اور وہاں پر جماعت احمدیہ امریکہ کی شوریٰ منعقد ہوئی۔ آپ فنانس کی سب کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ کسی نے میرا نام بھی سب کمیٹی کے لیے لکھوا دیا۔ آپ نے فقط اس لیے کہ خاکسار ایک مبلغ ہے ازراہِ شفقت کرسی منگوا کر مجھے اپنے پہلو میں بیٹھنے کا ارشاد فرمایا۔ الحمدللہ
آپ نے ۱۹۹۶ء میں خاکسار کی تقرری ہیوسٹن سے مرکزی ہیڈکوارٹر مسجد بیت الرحمان میں کی جہاں خاکسار کو ۲۰۰۴ء تک، آٹھ سال خدمت کا موقع ملا۔ ان سالوں میں مَیں نے آپ کو بہت قریب سے دیکھا۔ ہر قدم پر آپ کی راہنمائی اور شفقت شامل حال رہی۔
ایک دفعہ جب خاکسار ڈیٹن میں متعین تھا تو بیمار ہوگیا۔ متعدد ڈاکٹروں کو دکھایا مگر انہیں بیماری کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ ایک احمدی ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ آ پ کچھ دن آرام کریں، ٹھیک ہو جائیں گے، ان شاءاللہ۔ خاکسار نے فون پر امیر صاحب کو سب ماجرا بیان کر دیا۔ امیر صاحب کہنے لگے کہ آپ میرے پاس یہاں آجائیں اور آرام کریں۔ میں نے کہا کہ امیر صاحب اگر آرام ہی کرنا ہے تو مجھے کچھ عرصہ کے لیے بچوں کے پاس پاکستان ہی بھجوا دیں۔ ان سے مل بھی لوں گا اور گھر میں آرام بھی ہوجائے گا۔ کہنے لگے ٹھیک ہے۔ اور پھر خود ہی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے خاکسار کے لیے دو ماہ کی چھٹی کی منظوری لے کر مجھے پاکستان بھجوادیا۔ الحمدللہ
آپ تبلیغ کے کاموں میں کبھی کسی چیز کو روک نہ بننے دیتے تھے۔ مَیں ابھی مسجد بیت الرحمان میں نیا نیا آیا ہی تھا کہ میں نے سکولوں میں رابطہ شروع کیا۔ ایک سکول کے ٹیچر نے بیس، پچیس طلبہ اسلام سے تعارف کے لیے دو بجے دوپہر مسجد لے کر آنے کا وعدہ کیا۔ محترم امیر صاحب نے اسی روز دو بجے دوپہر ایک ضروری انتظامی میٹنگ مسجد کے اندر قائم اپنے دفتر میں رکھی ہوئی تھی جس میں آپ نے خود تشریف لانا تھا۔ میٹنگ میں نیشنل جنرل سیکرٹری اور دو تین اَور خدمت بجا لانے والے احباب بھی تھے۔ نماز ڈیڑھ بجے تھی جو کچھ تاخیر سے ادا کی گئی۔ چنانچہ ابھی میٹنگ شروع ہی ہوئی تھی کہ خاکسار نے امیر صاحب کو ایک چٹ پر لکھ کر دیا کہ میں نے سکول کے طلبہ کو دو بجے کا وقت دیا ہوا ہے اور اب دو بجنے میں صرف چند منٹ باقی ہیں۔ میں اس میٹنگ سے اجازت چاہتا ہوں۔ میرے ذمہ جو کام لگائے جائیں گے وہ میں ان شاءاللہ کردوں گا۔ آپ نے چٹ پڑھ کر مجھے میٹنگ سے رخصت دے دی۔ جب میٹنگ شروع ہوئی تو آپ نے شاملینِ میٹنگ سے سوال کیا کہ فلاں کام کون کرے گا؟ کسی نے کہا کہ شمشاد صاحب۔آپ نے پھر پوچھا کہ فلاں کام کون کرے گا؟ حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ شمشاد صاحب کے ذمہ لگا دیں۔ پھر تیسری مرتبہ کسی اَور کام کے بارے میں پوچھا تو پھر قرعہ میرے نام کا نکلا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر سبھی کام اس نے کرنے ہیں تو آپ لوگوں نے کیا کرنا ہے؟ شمشاد کو میں نے جماعت کی تربیت اور تبلیغ کے لیے یہاں لگایا ہے۔ اسے وہ کام کرنے دیں اور یہ سارے کام آپ احباب کے ذمہ ہوں گے۔
آپ چونکہ مالی امور کے ماہر تھے اس لیے ہمیشہ جماعت کے اندر بھی سلیقہ شعاری کے ساتھ پیسہ خرچ کرنے کا احساس پیدا کرنے کی کوشش فرماتے رہتےمثلاً ہیڈکوارٹر زمیں سب کام کرنے والوں کو خاص طور پر ہدایت تھی کہ بجلی کا خرچہ کم کیا جائے۔
ایک دفعہ نیشنل عاملہ کی میٹنگ کے دوران ایک بزرگ میرے دفتر میں کوئی چیز لینے گئے اور واپسی پر لائٹ کے ساتھ ساتھ دروازہ بند کرنا بھی بھول گئے۔ لائٹ جلتی دیکھ کر محترم امیر صاحب نے مجھے فرمایا کہ یہ دیکھیں آپ کے دفتر کی لائٹ جل رہی ہے۔ خاکسار نے خاموشی سے آپ کی نصیحت سن لی اور ان بزرگ کا نام نہ لیا جن سے یہ غلطی ہوئی تھی۔ بہر کیف اگرچہ بظاہر یہ بہت معمولی بات ہے لیکن اس سے یہ پتا لگتا ہے کہ جماعتی فنڈز کا ضیاع آپ کو بالکل بھی قبول نہ تھا۔
خاکسار کاآپ سے متعلق ایک مضمون روزنامہ الفضل ربوہ نے شائع کیا جو آپ کے بارے میں مرتب کی جانے والی کتاب ’’ایم ایم احمد شخصیت اور خدمات‘‘ کے صفحہ ۷۴تا ۹۰ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
صاحب زادی امۃ القیوم بیگم صاحبہ
یہ مضمون نامکمل رہے گا اگر میں اس وقت حضرت صاحب زادہ مرزا مظفر احمد کے اعلیٰ اخلاق اور صفاتِ حمیدہ کے ساتھ ساتھ آپ کی اہلیہ صاحب زادی امۃ القیوم بیگم صاحبہ کا ذکر نہ کروں۔ جیسا کہ خاکسار نے بتایا کہ محترم میاں صاحب کے ساتھ تو ملاقات ہیتھرو ایئر پورٹ پر ہوئی تھی۔ بی بی امۃ القیوم صاحبہ کے ساتھ اس سے قبل خاکسار کی کوئی واقفیت نہ تھی۔ جب خاکسار مسجد بیت الرحمٰن میں خدمت کے لیے مقرر ہوا توحضرت میاں صاحب کے گھر اکثر جانا ہوتا۔ اس طرح آپ کی خدمت میں دعا کی درخواست کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔
ایک دفعہ خاکسار آپ کے گھر کسی کام کے لیے گیا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ چند کاغذات مجھے دیے اور کہنے لگیں کہ یہ پڑھ لیں اور جب آپ مناسب سمجھیں اس بارے میں خطبہ جمعہ میں لوگوں کو نصیحت کردیں۔
اُن کاغذات میںحضرت مصلح موعودؓ کےخطبات و خطابات میں سے کچھ ارشادات تھے جن میں حضورؓ نے احبابِ جماعت کو یورپ اور مغرب میں اسلام احمدیت کے پھیلنے کی خوش خبری عطا فرماتے ہوئے بعض امور کی طرف توجہ دلائی تھی کہ مغرب میں اسلام پھیلے گا اور ضرور پھیلے گا لیکن خیال رہے کہ اسلام کی شکل تبدیل نہ ہوجائے۔ نیز حضورؓ نے پردے پر خاص زور دیا تھا۔
آپ خود بھی بہت پردہ کرنے والی خاتون تھیں اور جماعت کی خواتین اور بچیوں کو جب کبھی بے پرد دیکھتیں تو بہت کرب اور تکلیف محسوس کرتیں۔ اسی وجہ سے مجھے حضرت مصلح موعودؓ کے وہ اقتباسات خود لکھ کر دیے کہ جب میں مناسب سمجھوں احباب کو اس طرف توجہ دلا دوں۔ خاکسار نے اگلے ہی جمعے وہ اقتباسات خطبے میں سنادیے۔ خاکسار اس قسم کے ضروری حوالہ جات کا انگریزی ترجمہ ظاہر احمد صاحب سے کرالیتا تھا جنہیں گھر میں بتو میاں کہہ کر پکارا جاتا تھا۔
حضرت سیدہ بی بی امۃ القیوم بیگم صاحبہ بچوں اور بچیوں کی تربیت پر خاص زور دیتیں۔ آپ مسجد میں ناصرات اور لجنہ کی میٹنگز میں بھی شرکت کرتیں اور ضروری باتیں تربیت کے حوالہ سے کرتیں۔
خاکسار نے جب بھی حضرت میاں صاحب اور بی بی قیوم صاحبہ کو گھر کھانے کے لیے بلایا، آپ نے ہمیشہ دعوت کو قبول کیا۔بس میاں صاحب ایک بات پوچھتے کہ ’’کیا موقعہ ہے؟‘‘ خاکسار عرض کرتا کہ بس آپ بزرگوں کی برکت اور دعائیں لینے کا موقع نکالا ہے۔اس پر اچھا کہتے اور ازراہِ شفقت تشریف لاتے۔ اور بی بی صاحبہ تو کوئی نہ کوئی تحفہ بھی ساتھ لاتیں۔
ایک دفعہ خاکسار کا گلا خراب ہوگیا اور قریباً تین ماہ کے لیے آواز بالکل بند ہوگئی جس کی وجہ سے بہت تکلیف رہی۔ انہی دنوں آپ ڈاکٹر کے ہاں گئیں تو محترم میاں مظفر احمد صاحب کا خاکسار کو فون آیا کہ میں بی بی کو ڈاکٹر کے کلینک سے اپنے گھر (مسجد بیت الرحمان) لے آؤں ، بتو میاں تھوڑی دیر بعد انہیں گھر لے جائیں گے۔ خاکسار نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ جب بتو میاں آپ کو لینے آئے تو خاکسار کے گھر سے نکلتے ہوئے ہاتھ میں پان دان پکڑ رکھا تھا۔ میں نے پوچھا بی بی یہ کیا ہے؟ فرمانے لگیں کہ پان دان ہے۔ میں نے کہا کہ میرا گلا خراب رہتا ہے اگر آپ ایک پان مجھے بھی لگا دیں ہوسکتا ہے اس سے میرا گلا بھی ٹھیک ہوجائے۔ آپ نے گاڑی میں بیٹھتے ہی دو پتے پان دان سے نکال کر ان پر کتّھا، چونا اور چھالیہ ڈال کر مجھے دیے۔ میں نے جب ایک پان منہ میں رکھا تو اندازہ ہوا کہ وہ پان نہ تھا۔ پان کے پتے یہاں کبھی کبھار ملتے تھے اور وہ بھی مشکل سے۔ بی بی سلاد کے پتے پر چونا اور کتھا لگا کر استعمال کرتی تھیں۔ وہ دن اور پھر اس کے بعد وفات تک آپ کا یہی طریق رہاکہ میں جب بھی گھر ملنے گیا آپ نے مجھے کبھی دو کبھی تین پان بنا کر دیے۔ خاکسار کا تبادلہ لاس اینجلیس ہوجانے کے بعد بھی اگر کبھی میں یہاں آتا تو آپ کو ملنے جاتا۔ آپ باوجود بیماری، پیرانہ سالی اور کمزوری کے خود دوسری منزل سے نیچے آتیں اور پان عنایت فرماتیں۔ میں بھی سعادت سمجھ لیتا اور استعمال کرتا۔ یہ میرے لیے ایک اعزاز تھا۔ آپ ازراہِ شفقت خاکسار کا حال اور جماعت کے کاموں کی بابت بھی پوچھتیں۔
ایک دفعہ بی بی باچھی (سیدہ امۃ الباسط بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت سید میر داؤد احمد مرحوم پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ) واشنگٹن آئی ہوئی تھیں اور حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے گھر ہی قیام تھا۔ خاکسار کی دعوت پر تین بزرگ ہستیاں (حضرت صاحب زادی بی بی امۃ القیوم بیگم صاحبہ۔ حضرت صاحب زادی امۃ الباسط بیگم صاحبہ اور حضرت صاحب زادی امۃ الرشید بیگم صاحبہ)میرے غریب خانے پر تشریف لائیں۔ اس موقع پر بی بی باچھی نے خاکسار کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی قمیص کا ایک ٹکڑا بھی تبرکاً عطا فرمایا۔ نیز اس کے ساتھ ایک تحریربھی لکھ کر دی۔ فجزاہااللہ احسن الجزاء۔(یہ تبرک خاکسار کے پاس اب تک محفوظ ہے۔ الحمدللہ)
اللہ تعالیٰ ان سب بزرگان کے درجات بلند فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور ہمیں ان کی نیکیوں کو قائم کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔
(باقی آئندہ)
اگلی قسط: بستی کتنی دُور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط دوازدہم)
گذشتہ قسط: بستی کتنی دُور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط دہم)