بستی کتنی دور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط دوازدہم۔ آخری)
مکرم ڈاکٹر احسان اللہ صاحب ظفر
سابق امیر جماعت احمدیہ امریکہ
امریکہ جانے سے پہلے مکرم ڈاکٹر احسان اللہ صاحب ظفر سے خاکسار کی کوئی خاص واقفیت نہ تھی۔ جب امریکہ آیا تو نیشنل عاملہ کی میٹنگز میں آپ ولنگبرو سے تشریف لا کر شامل ہوتے۔ سادگی سے آتے، خاموشی سے میٹنگ میں بیٹھتے اور چلے جاتے۔ آپ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کے زمانہ سے ہی نائب امیر دوم تھے۔ نائب امیر اول مکرم ڈاکٹر مظفر احمد صاحب ظفر ہوتے تھے۔ کبھی کبھار شیخ صاحب آپ کو بعض جماعتوں میں دورے پر یا کسی خاص کام کے لیے بھجوا دیتے تھے۔ بس اتنا کچھ ہی ان کے بارے میں معلوم تھا۔
جب آپ حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی وفات کے بعد امیر امریکہ مقرر ہوئے تو اُس وقت سے آپ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ کی نیکی،تقویٰ، صلح جوئی اور نیک فطرت کا طبیعت پر گہرا اثر ہے۔
آپ میری لینڈ ہیڈکوارٹرز سے دُور ولنگبرو میں رہائش پذیر تھے لیکن جماعتی کاموں کی وجہ سے ہر جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو ہیڈ کوارٹر آتے۔ جب آپ کی صحت بگڑنے لگی تو پھر ہر دو ہفتوں اور پھر تین ہفتوں کے بعد آنے لگے۔ لیکن جماعتی کاموں میں رخنہ نہ آنے دیتے۔ سٹاف کا کوئی نہ کوئی ممبر بھی آپ کے پاس حسبِ ضرورت ولنگبرو چلا جاتا تھا جہاں آپ ڈاک بھی دیکھ لیتے اور حسبِ ضرورت ہدایات بھی دے دیتے۔
جب آپ امریکہ کے امیر مقرر ہوئے تو آپ نے میری لینڈہیڈ کوارٹر میں مجھے اہم حکومتی اور مذہبی شخصیات کے ساتھ رابطے بڑھانے کا کام سونپ دیا۔ دراصل مسجد بیت الرحمٰن جس بڑی شاہراہ پر واقع ہے وہاں چرچ اور غیراحمدی مسلمانوں کی مسجد وغیرہ مذہبی عمارات بہت زیادہ ہیں۔ ایک دفعہ گورنر اور لیفٹیننٹ گورنر غیراحمدی مسلمانوں کی مسجد میں تشریف لائے۔ خاکسار بھی وہاں مدعو تھا۔ خاکسار نے لیفٹیننٹ گورنر کو احمدیہ مسجد تشریف لانے کی دعوت دی تو خداتعالیٰ کے فضل سے وہ ہمارے جلسہ سالانہ پر تشریف لائیں۔ ان کے بعد دوسرے لیفٹیننٹ گورنر بھی خاکسار کی دعوت پر ہمارے پروگرام یعنی انٹرفیتھ کانفرنس میں مسجد بیت الرحمان تشریف لائے۔ مزید برآں گورنر نے بھی دو دفعہ ہماری جماعت کے رفاحی کاموں اور دوسرے مذاہب کے ساتھ ہم آہنگی کی کوششوں اور ہماری امن کی تعلیم کی وجہ سے اپنے دفتر سے خاکسار کے نام Proclamation جاری کیے۔
مکرم ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب کے امیر مقرر ہونے کے بعد پہلے نیشنل اجتماع مجلس انصاراللہ میں خاکسار نے آپ سے صدارت کی درخواست کی۔ آخر میں جب دعاہونی تھی تو آپ نے مجھے فرمایا کہ مَیں دعا کراؤں۔ خاکسار نے عرض کیا کہ آپ بحیثیت امیر دعا کرائیں یہ آپ کا مقام ہے۔ چنانچہ اس پر آپ نے دعا کرائی۔ اس سے آپ کی طبیعت میں پائی جانے والی عاجزی و انکساری کے ساتھ ساتھ مبلغ سلسلہ کے ساتھ ادب و احترام اور حُسن سلوک کا وصف بھی نمایاں ہوتا ہے۔
امریکہ کا جلسہ سالانہ جو ایک عرصہ تک مسجد بیت الرحمان میں منعقد ہوتا رہا اس موقع پر اڑھائی سو سے تین سو تک کی تعداد میں غیرمسلم مہمانان شریک ہوتے رہے جن میں حکومتی عہدیدار اور مذہبی لیڈرز وغیرہ بھی شامل ہیں۔ آپ نے جلسہ کے سیشن کے بعد ان مہمانوں کے ساتھ سوال و جواب کا پروگرام بھی رکھا۔ مہمانوں کے لیے ایک الگ مارکی لگائی جاتی تھی جس میں ان کے لیے ڈنر کا انتظام بھی ہوتا تھا اور پھر مکرم مختار چیمہ صاحب، مکرم انعام الحق کوثر صاحب اور خاکسار اُن کے سوالوں کے جواب دیتے تھے۔
مسجد بیت الرحمان میں تبلیغ اور تعلقاتِ عامہ کے فروغ کے لیے ایک ٹیم بنی ہوئی تھی جس میں مکرم ڈاکٹر امجد چوہدری صاحب، مکرم اقبال خان صاحب، مکرم مجیب اللہ خان صاحب، مکرم اسلم پرویز صاحب، مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب اور مکرم محمود بھٹی صاحب شامل تھے۔ یہ ٹیم نہ صرف یہ کہ ہر وقت تبلیغ کے لیے تیار رہتی بلکہ مہمانوں کے لیے مسجد بیت الرحمان میں کھانا بھی تیار کرتی۔ اس ٹیم نے خاکسار کو کہا ہوا تھا کہ آپ جتنے بھی باہر سے مہمان لائیں گے اور جس وقت بھی لائیں گے ہم سب کی مہمانی کریں گے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک ایک وقت میں اسّی سے سو تک افراد بطور مہمان آتے، سکولوں اور کالجوں سے طلبہ آتے تھے جن کے ساتھ اسلام احمدیت کا تعارف اور سوال و جواب کی دلچسپ مجلس لگتی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان ہی کاوشوں کی بدولت کچھ لوگوں کو قبولِ احمدیت کی توفیق بھی ملی۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک وجزاھم اللہ احسن الجزاء
مسجد بیت الرحمٰن میں دس سال خدمات بجا لانے کے بعد خاکسار کا تبادلہ شکاگو کی جماعت میں ہوا۔ یہاں پر خاکسار کو مربی جماعت اور صدر جماعت کے طور پر تین سال خدمت کی توفیق ملی۔ جب خاکسار یہاں آیا تو مسجد تو تھی لیکن مربی کی رہائش کرائے کے مکان میں ہوا کرتی تھی۔ خاکسار کے شکاگو پہنچنے کے دو تین دن بعد رمضان المبارک بھی شروع ہونے والا تھا۔ خاکسار نے یہاں آکر مسجد کے ایک کمرے میں اپنا بستر لگا لیا اور ایک کمرہ بطور دفتر استعمال کرنے لگا اور کچھ عرصے بعد کرائے کے مکان میں منتقل ہو گیا۔ رمضان المبارک میں خاکسار نے محترم امیر صاحب کو ایک خط لکھا جس میں انہیں مربی ہاؤس کی تعمیر کی تحریک کی نیز اجازت طلب کی کہ رمضان المبارک میں مربی ہاؤس کے لیے احباب کو مقامی فنڈ کی مد میں چندہ دینے کی تحریک کردی جائے۔ آپ نے فوری جواب عنایت فرمایا اور مربی ہاؤس کے لیے رقم اکٹھی کرنے کی اجازت بھی مرحمت فرمادی۔ خاکسار نے احباب کو مذکورہ تحریک کی تو رمضان المبارک کے ایام میں ہی تیس، چالیس ہزار ڈالرز اکٹھے ہوگئے۔
خاکسار اور منعم نعیم صاحب (نائب امیر)کسی کام کے لیے میری لینڈ محترم امیر صاحب کی ملاقات کے لیے گئے تو خاکسار نے امیر صاحب کو بتایا کہ خداتعالیٰ کے فضل سے چالیس ہزار ڈالر رقم جمع ہوگئی ہے، آپ اجازت دیں تو مربی ہاؤس کے لیے نقشہ وغیرہ تیار کروا کر اجازت کی کارروائی شروع کی جائے؟ آپ نے تسلی کے ساتھ بات سنی۔ پھر پنجابی میں کہنے لگے کہ چن! مسجد کے قریب کوئی بنابنایا مکان خریدلو، اس سے مسجد کی جگہ بچ جائے گی بلکہ مزید جگہ مل جائے گی۔(آپ نے پیار سے جب کسی معاملہ کو سمجھانا ہوتا تو مخاطب شخص کو چَن کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ محبت اور شفقت کا آپ کا ایک اندازتھا۔)
اگرچہ ابتدا میں خاکسار کو اس پر اس لیے کچھ انقباض تھا پتہ نہیں کب کوئی مکان فروخت کے لیے آئے اور اگر آئے بھی تو ہماری ضروریات کو پورا کرنے والا ہو ، نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن کی بات پوری کر دی اور جماعت کو بعینہٖ اُن کی خواہش کے مطابق باموقع گھر مل گیا جو جماعت کی ضروریات بھی بہترین انداز میں پوری کررہا ہے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ شام کو ہم شکاگو واپس پہنچے اور اسی رات منعم نعیم صاحب نے خاکسار کو فون کیا کہ مربی صاحب! مسجد کے بالکل ساتھ والا مکان جس کا صحن مسجد کی پارکنگ لاٹ کے ساتھ ملحق ہے، برائے فروخت ہے، مَیں نے ابھی ابھی دیکھا ہے۔ میں نے جب تفصیلات پوچھیں تو مجھے بھی بہت اچھی جگہ لگی۔ اگلے دن ہم دونوں نے مکان کو دیکھا اور پسند بھی کر لیا۔ پانچ کمرے،کچن، ڈائننگ ایریا، دو جگہ مردوں اور عورتوں کےبیٹھنے کی الگ الگ جگہیں موجود تھیں۔ گھر سے نکل کر صحن میں آؤ تو ساتھ ہی مسجد کی پارکنگ لاٹ!
خاکسار نے محترم امیر صاحب سے فون پر رابطہ کیا اور پھر منعم نعیم صاحب نے انہیں آن لائن مکان بھی دکھادیا۔ محترم امیر صاحب کو بھی مکان پسند آیا۔ قیمت بس تھوڑی زیادہ تھی۔ آپ نے فرمایا کہ قیمت اگر کچھ کم ہوجائے تو بہتر ہے ورنہ مکان خرید لیا جائے۔ ہم نے جماعت کو یہ مژدہ سنایا اور دوستوں کو فنڈز اکٹھا کرنے کی پھر سے تحریک کی۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے چند دنوں میں مزید رقم پیش کردی تو ہم نے مکان کی مالکہ سے ملاقات کی اور اپنی آفر ڈال دی۔ چنانچہ ان سے معاملات طے ہونے لگے۔ اگرچہ انہوں نے ہماری خواہش کے مطابق مکان کی قیمت کچھ کم کر دی لیکن ایک شرط یہ عائد کر دی کہ وہ مکان ہمیں مارچ میں دیں گی اور اس عرصے کا کوئی کرایہ بھی نہ دیں گی۔ ہمیں یہ شرط اس لیے بھی منظور ہوئی کہ ہمارے پاس اگلے سال جون تک مکان کا انتظام تھا کیونکہ جو مکان خاکسار نے رہائش کے لیے کرایہ پر لیا تھا اس کی لیز جون میں ختم ہو رہی تھی۔ اس لحاظ سے ہمیں بہرحال فائدہ ہی ہوا۔جماعت کو مزید تحریک کرنے سے خدا تعالیٰ کےفضل سے دسمبر تک معقول رقم اکٹھی ہوگئی اور بقیہ رقم محترم امیر صاحب نے نیشنل فنڈز سے کردی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے مکان خرید لیا گیا۔ اگرچہ مکان کی خرید میں ساری جماعت نے دل کھول کر چندہ دیا۔ لیکن فوری طور پر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے درج ذیل احباب نے باقی احباب سے بڑھ چڑھ کر قربانی کی: مکرم منعم نعیم صاحب، مکرم ملک یاسر مبشر صاحب، مکرم ڈاکٹر انوار احمد صاحب اورمکرم ڈاکٹر عبدالوحید صاحب۔
اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور اگلے سال یعنی ۲۰۱۵ء میں ہمیں مکان مل گیا۔ خاکسار نے مکان کی چابی حاصل کرتے ہی خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بھی اس کی اطلاع دے دی۔ حضور کی طرف سے دعاؤں بھرا جواب بھی موصول ہوگیا۔ الحمدللہ
مکان کی بیسمنٹ ٹھیک نہ تھی۔ خاکسارنے ایک دوست مکرم میجر نعیم صاحب آف شکاگو کو تحریک کی کہ وہ مکان کی بیسمنٹ میں دو کمرے، غسل خانہ اور ایک بیت الخلا بنوادیں تاکہ مہمانوں کو ٹھہرانے کا بھی انتظام ہوسکے۔ مکرم میجر نعیم صاحب نے مارچ سے مئی تک یہ سارا کام سرانجام دیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے بیسمنٹ میں مہمانوں کے ٹھہرانے کے لیے بہت مناسب انتظام ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
مکرم ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ امریکہ میں کوئی ایسی باموقع جگہ بھی خریدی جائے جہاں ہمارا جلسہ سالانہ اور دیگر جماعتی اجتماعات منعقد ہوں۔ اس کے لیے مسجد بیت الرحمان سے کچھ فاصلے پر ایک جگہ ’’وکٹر و‘‘ میں ایک زرعی زمین فروخت کے لیے آئی ، غالباً ۲۲۶ا یکٹر اراضی تھی۔
مالک تو اراضی ہمیں فروخت کرنے کے لیے تیار تھا مگر کاؤنٹی انتظامیہ اور وکٹروِل کے مکین مسلمانوں کو یہ جگہ نہیں دینا چاہتے تھے۔ ہم نے گھر گھرجا کر احمدیت کا تعارف کرایا کہ ہمارےعقائد کیا ہیں نیز یہ کہ ہم پُرامن لوگ ہیں اور اسلام کی تعلیمات پرصحیح رنگ میں عمل کرنے والے ہیں۔ خود ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب بھی اس کمپین میں شامل ہوئے۔ ہماری خبریں بھی پریس اور میڈیا میں خوب آئیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کا موقف ہر طرح واضح کیا گیا۔
ایک دفعہ جبکہ پبلک hearing میں محترم امیر صاحب کے ساتھ چند اَور احباب ساتھ تھے، خاکسار بھی لاس اینجلس سے خصوصی طور پر حاضر ہوا۔ محترم امیر صاحب نے مجھے چند عیسائی پادریوں کو بھی ساتھ لانے کے لیے کہا جو مسجد بیت الرحمان میری لینڈ کے ہمسائے تھے اور متعدد مرتبہ ہمارے جلسہ سالانہ اور دیگر انٹرفیتھ میٹنگزمیں شامل ہوچکے تھے۔ سب کچھ خداتعالیٰ کے فضل سے ہماری توقعات کے مطابق ہوا مگر ہمیں کسی خدائی حکمت کے تحت یہ جگہ نہ مل سکی۔ ہم اگر چاہتے تو یہ کیس عدالت میں لے جاسکتے تھے۔ ہمارے وکیلوں نے کہا کہ مذہبی امتیاز برتنے کی بنیاد پر وکٹروِل کے باشندوں کو بہت زیادہ ہرجانہ بھی ادا کرنا پڑ سکتا ہے مگر جماعت نے ایسانہ کیا۔
اس میٹنگ پر جاتے ہوئے میں نے محترم ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب سے پوچھا کہ واپسی پر دیر ہوجائے گی کیا گھر میں کھانے کا کہہ دوں؟ آپ نے کہا کہ نہیں۔ میں نے ایک دفعہ پھر پوچھا، کہنے لگے کہ نہیں۔ وہاں ہمیں دیر ہوگئی بلکہ رات کے قریباً گیارہ بجے وکٹر وِل سے فراغت ہوئی۔ خاکسار نے واپسی پر پھر پوچھا کہ کھانا کسی نے بھی نہیں کھایا۔ گھر میں کہہ دوں کہ ہمارے آنے تک کھانا تیار کرلیں؟ پہلے تو فرمانے لگے کہ رہنے دیں لیکن پھر میرے عرض کرنے پر کہ امیر صاحب میں دال روٹی پکوانے لگا ہوں کہنے لگے کہ ٹھیک ہے۔ خاکسار کی اہلیہ بھی لاس اینجلس سے میرے ساتھ آئی تھیں اور مسجد بیت الرحمان سے چند قدم کے فاصلے پر میرے بیٹے کے گھر رہائش پذیر تھیں۔ میں نے اپنی اہلیہ کو فون کیا کہ فوری طور پر چار، پانچ احباب کے لیے دال اور روٹی بنالیں۔ ہم کوئی نصف گھنٹے تک پہنچ جائیں گے۔اہلیہ نے کہا ٹھیک ہے۔ اہلیہ نے دال کے ساتھ گوشت بھی بنا لیا۔ کھانا جب پیش کیا گیا تو امیر صاحب کہنے لگے کہ یہ کیا کیا؟ میں نے کہا مَیں نے تو گھر صرف دال روٹی کا ہی کہا تھا۔ آپ نے تمام احباب کے ہمراہ کھانا کھایا اور کہا کہ دال میں مکھن بھی ڈال دیں۔ مکھن کے بارے میں کہنے لگے کہ اگر مکھن کچا استعمال کیا جائے تو زیادہ نقصان دہ نہیں ہے۔ لیکن جب اسے آگ پر گرم کرلیا جائے اور اس کا گھی بن جائے تو پھر یہ تکلیف دیتا ہے یعنی کولیسٹرول وغیرہ اور موٹاپا کرتا ہے۔
خاکسار کی بڑی پوتی عزیزہ سیدہ صباحت نے جب قرآن ختم کیا تو اس کی آمین کرنی تھی۔ ان دنوں مکرم ڈاکٹر احسان اللہ ظفربھی آئے ہوئے تھے۔ خاکسار نے آپ سے ذکر کیا کہ امیر صاحب میری پوتی کی آمین کرادیں۔ آپ عموماً مربیان کی موجودگی میں نہ نماز پڑھاتے تھے اور نہ ہی خطبہ دیتے تھے اور نہ ہی آمین وغیرہ۔ فرمایا کرتے تھے کہ یہ مبلغین اور مربیان کا کام ہےوہ کریں۔ میری درخواست کو انہوں نے قبول کیا اور میری پوتی کی آمین بھی کرائی۔میری بیٹی کی شادی میں بھی امیر صاحب مع اہلیہ شامل ہوئے۔ دعا بھی کرائی۔ اور ان کی اہلیہ نے خاکسار کی بیٹی کو قیمتی تحفہ بھی دیا۔
مکرم ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ جماعتی میٹنگز کے لیے آپ مسجد بیت الرحمان آئے ہوئے تھے۔ مسجد کے احاطہ میں جو گھر تھا اس میں آپ ٹھہرتے تھے۔ اُن دنوں آپ شدید بیمار تھے۔ ایک دن نماز فجر کے لیے مسجد آئے حالانکہ آپ کے لیے مسجد آنا اپنی بیماری کی وجہ سے کافی مشکل تھا۔ واپسی پر آپ کے گھر کی چابی گم ہوگئی۔ بہت تلاش کی گئی مگر چابی نہ ملی۔ صبح کا وقت تھا، کوئی Lock Smith بھی نہ مل سکتا تھا اور نہ ہی کوئی ایسا آدمی میسر تھا جو اس مشکل کو حل کرتا۔ تو آپ نے نسیم رحمت اللہ صاحب کو بتایا کہ شیطان بار بار مجھ پر حملہ آور ہوا کہ دیکھا تم مسجد گئے، نماز پڑھی،تبھی تمہاری چابی گم ہوگئی اور تمہیں تکلیف ہوئی۔ کہنے لگے کہ شیطان ہر وقت تاڑتا رہتا ہے کہ کب اُسے بہکانے کا موقع ملے۔ چنانچہ آپ کہتے ہیں کہ پھر میں نے بہت استغفار اور لاحول ولا قوۃ پڑھا۔
اُن کا جواں سال بیٹا ابراہیم اور اُس کی نئی نویلی دلہن شادی کے چند دن بعد کار کے حادثہ میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اس صدمے کو انہوں نے بڑی ہمت اور صبر کے ساتھ برداشت کیا اور بس اِنَّا للّٰہ و انا الیہ راجعون ہی پڑھتے رہے۔ جو لوگ آپ کے پاس تعزیت کے لیے آتے انہیں بھی صبر کی تلقین کرتے۔ ولنگبرو میں جنازہ بھی خود ہی پڑھایا۔
ایک دن ایک نوجوان مبلغ آپ کی گاڑی چلا رہے تھے۔ آپ اگلی سیٹ پر براجمان تھےجبکہ خاکسار اور ظہیر باجوہ صاحب پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ کار کی رفتار کچھ تیز ہوئی تو ہم نے مربی صاحب سے کہا کہ آہستہ چلائیں، پولیس بھی پکڑلیتی ہے۔ اس پر بےساختہ کہنے لگے کہ کاش میرے بیٹے کو اس وقت پولیس پکڑلیتی تو جان تو بچ جاتی۔ (یعنی وہ گاڑی تیز چلا رہا تھا۔ جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا)۔
خاکسار کو محترم ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ایک لمبا عرصہ خدمات بجا لانے کا موقع ملا۔ سرِدست یہ چند واقعات تھے جو ذہن میں آئے تو قلم بند کر دیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے۔ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کی وفات پر اپنے خطبہ جمعہ ۱۹؍اپریل ۲۰۲۴ء میں تفصیلی ذکرِ خیر فرمایا جسے پڑھ کر آپ کے مقام کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ (بحوالہ الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍مئی ۲۰۲۴ء)
محترم چودھری منیر احمد صاحب (مبلغ سلسلہ)
ڈائریکٹر مسرور ٹیلی پورٹ امریکہ
ایک روز ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد عبدالرشید انور صاحب مشنری انچارج کینیڈاکا فون آیا کہ چودھری منیر صاحب کا کیا حال ہے؟ میں نے کہا دوتین دن پہلے بات کی تھی۔ ٹھیک ہی ہوں گے۔ کہنے لگے کہ نہیں پتہ کرکے بتائیں۔ مجھے کچھ تشویش سی ہوئی۔ ویسے دو، تین گھنٹے قبل تو خاکسار نے انہیں فون کیا مگر جواب آیا تھا کہ میسج کردیں، ابھی میں بات نہیں کرسکتا۔ خاکسار نے دفتر میری لینڈ میں مکرم اقتدار علی باجوہ صاحب کو کال کی تو انہوں نے چودھری منیر صاحب کے بارے میں دریافت کرنے پر انا للّٰہ و انا الیہ راجعون پڑھا اور کہا کہ ابھی تھوڑی دیر قبل ہی ان کی وفات ہوئی ہے۔ خاکسار کو یقین ہی نہیں آیا۔ خبر سن کر ایسا لگا کہ جسم میں جان نہیں رہی، آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھاگیا۔ کرسی پر سے اٹھنا بھی مشکل ہورہا تھا۔ بہرحال یہ خدا کی مرضی تھی جو پوری ہوئی۔ خاکسار نے اپنے آپ کو سنبھالا اور پھر مکرم چودھری منیر احمد صاحب کے جاننے والوں اور اپنے چند دوستوں کو اطلاع دی۔ اس کے بعد تو فون کالز کا تانتا بندھ گیا۔ سارے ملک سے ایک دوسرے کو تعزیتی فونز ہونے لگے۔ ہر شخص سوگوار تھا۔ ہر شخص چودھری صاحب کے اوصاف بیان کرتا تھا۔ خاکسار اپنی اہلیہ کے ہمراہ چودھری صاحب کے گھر ان کی اہلیہ اور بچوں سے ملنے اور تعزیت کرنے پہنچا۔اُن کے جنازے اور تدفین پر ملک بھر سے لوگ اکٹھے ہوئے اور کینیڈا سے بھی پورا وفد آیا۔مولانا اظہر حنیف صاحب مشنری انچارج امریکہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اور مقبرہ موصیان میری لینڈ میں آپ کی تدفین ہوئی۔ تدفین پر بھی بہت سارے غمگساروں کا مجمع تھا۔ ہلکی ہلکی بارش بھی ہورہی تھی۔ ہم نے خود آپ کے تابوت کو قبر میں اتارااور اپنے ہاتھ سے مٹی ڈالی۔ مگر پھر بھی یہ یقین نہیں آرہا تھا کہ آپ وفات پاگئے ہیں۔
ان کی ہر وقت مسکرا کر ملنے کی عادت تھی، وفات کے بعد بھی یونہی لگ رہا تھا گویا مسکراہٹ آپ کے چہرے پر سجی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلندفرمائے۔
جنازے سے قبل نیشنل جنرل سیکرٹری مکرم مختار ملہی صاحب نے مسجد بیت الرحمان میں آپ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ کیا اور مکرم امیر صاحب امریکہ صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب کے تاثرات بھی پڑھ کر سنائے۔
سیدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍مئی ۲۰۲۴ء میں تفصیل کے ساتھ مکرم چودھری منیر احمد صاحب کی صفات حمیدہ کا تذکرہ فرمایا تھا جو کہ الفضل ۱۶؍جون ۲۰۲۴ء میں شائع شدہ ہے۔ حضورِانور نے فرمایا: ’’مَیں نے دیکھا ہے بڑی وفا کے ساتھ انہوں نے اپنا وقف نبھایا اور بے لوث ہوکر انہوں نے ایم ٹی اے کو امریکہ کے براعظم میں پہنچانے کی بھرپور کوشش کی۔ جو ایمانداری سے سمجھا اس کے بارے میں بڑے اچھے مشورے دیے۔ مجھے بھی لکھتے رہتے تھے۔ آگے آ کے اپنی اہمیت بتانے کا شوق نہیں تھا۔ بس ایک لگن تھی کہ جو کام خلیفہ وقت کی طرف سے مجھے سپرد کیا گیا ہے اسے مَیں احسن رنگ میں پورا کرنے کی کوشش کروں۔اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے درجات بلند فرمائے۔‘‘
چودھری منیر احمد! ہمارے دوست! تمہیں مبارک ہو کہ خلیفۃ المسیح نے تمہارا اتنا پیارا ذکر خیر فرمایا اور تمہارا جنازہ پڑھا، تمہاری مغفرت کے لیے دعا کی۔ اس سے بڑھ کر تمہاری اور کیا سعادت اور خوش قسمتی ہوسکتی ہے۔ اس دنیا سے تو سب نے جانا ہی ہے مگر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کا انجام بخیر ہو۔
ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب جو مکرم چودھری منیر صاحب کے ساتھ بہت دوستانہ تعلق رکھتے تھے نے بتایا کہ انہیں چودھری صاحب کے ساتھ ۱۹۹۵ء سے کام کرنے کا موقع ملا۔ (ڈاکٹر صاحب امریکہ کے نیشنل سیکرٹری سمعی و بصری ہونے کے ساتھ ساتھ ایم ٹی اے امریکہ کے سیکرٹری بھی تھے۔) انہوں نے کہا کہ چودھری صاحب کو اللہ تعالیٰ نے حیران کن صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مشکل سے مشکل چیز کا حل بھی بڑی جلدی نکال لیا کرتے تھے۔ جس کام کو بھی آپ کے ذمہ لگایا گیا اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسے جلد سرانجام دے دیتے۔ خلافت کے بڑے مطیع اور فرمانبردار تھے۔ مشورہ کرنے پر ہمیشہ بہترین رائے دیا کرتے تھے۔ آپ بہت مہمان نواز بھی تھے۔
خاکسار کی امریکہ آنے سے پہلے چودھری منیر صاحب سے خاطرخواہ واقفیت نہ تھی۔ وہ جامعہ احمدیہ میں مجھ سے پانچ سال جونیئر تھے۔ میدانِ عمل میں بھی مختلف جگہوں پر متعین رہے یہاں تک کہ جب خاکسار ۱۹۸۷ء میں امریکہ آیا تو آپ لاس اینجلس میں تھے جہاں مسجد کے افتتاح کے مبارک موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ تشریف لائے ہوئے تھے۔ خاکسار ان کی انتظامی صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوا۔ چودھری صاحب نے ہم چند مربیان کے لیے اِدھر اُدھر گھومنے اور سیر کا بھی پروگرام بنایا تھا۔ یہیں ان سے پہلی تفصیلی ملاقات ہوئی۔مسجد بیت الرحمان میری لینڈ (ہیڈکوارٹر) میں میرے تقرر کے بعد مجھے آٹھ سال تک آپ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ مسکراتے چہرے سے ملنے والے ہمدرد انسان تھے۔ خاکسار کو ہیلتھ انشورنس کے حوالہ سے یا کسی اور بات میں کوئی بھی الجھن ہوتی تو آپ سے مشورہ کرنے سے کافی مشکلات کا حل نکل آتا۔
جن سالوں میں خاکسار امریکہ کے ہیڈکوارٹر میں متعین تھا جہاں کم و بیش ہر ماہ نیشنل عاملہ کی میٹنگز ہوتی تھیں جن میں مبلغین کرام بھی تشریف لاتے تھے۔ ان سب کا قیام مربی ہاؤس میں ہوتا تھا ۔ اسی مناسبت سے ان کے قیام و طعام کی ڈیوٹی بھی خاکسار کے ذمہ ہوتی تھی۔ اس موقع پر چودھری صاحب بھی تشریف لاتے اور ہم سب مبلغین اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کے تجربات سے خوب فائدہ حاصل کرتے۔ ہم زیادہ تر اپنے بزرگ اساتذہ کا ذکرِخیر کرتے اور ان کے بتائے ہوئے تربیت اور تبلیغ کے طریقوں کو اپنے تجربات کی روشنی میں زیرِگفتگو لاتے۔
جن اساتذہ کرام اور بزرگان کا کثرت سے ذکر ہوتا ان میں حضرت سید میر داؤد احمد صاحب، مکرم ملک سیف الرحمان صاحب، مکرم غلام باری صاحب سیف، مکرم مولانا محمد احمد جلیل صاحب، مکرم قریشی نور الحق تنویر صاحب، مکرم مرزا غلام احمد صاحب، مکرم مرزا خورشید احمد صاحب، مکرم محمود احمد بنگالی صاحب (سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ )، مکرم مرزا مظفر احمد صاحب، مکرم احسان اللہ ظفر صاحب، مکرم شیخ مبارک احمد صاحب، مکرم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب، مکرم چودھری بشیر احمد صاحب (سابق صدر عمو می ربوہ)، مکرم چودھری حمیداللہ صاحب (سابق وکیل اعلیٰ تحریک جدید)، مکرم میر محمود احمد ناصر صاحب (اطال اللہ عمرہ و برکاتہ) شامل ہیں۔
متعدد مرتبہ چودھری صاحب نے یہ بات کی ہوگی کہ مبلغ /مربی یا واقف ِزندگی کو کبھی از خود ریٹائرمنٹ نہیں لینی چاہیے کیونکہ اس نے تاحیات اور بلا شرط وقف کیا ہے۔ کبھی کبھی اس وقف فارم کا ذکر بھی آجاتا جو ہم نے جامعہ احمدیہ میں داخلہ کے وقت پُر کیا تھا کہ ہم یہ نہ کریں گے اور ہم تاحیات بلاشرط خدمتِ سلسلہ کریں گے وغیرہ۔اللہ کی شان اور قدرت ہے کہ جس طرح چودھری صاحب کی خواہش تھی آپ تادمِ واپسیں خدماتِ سلسلہ بجا لاتے رہے۔
مکرم مختار احمد ملہی صاحب (نیشنل جنرل سیکرٹری امریکہ) نے بتایا کہ جب چودھری صاحب کو MTAارتھ سٹیشن امریکہ کا انچارج بنایا گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ کو ہدایت فرمائی تھی کہ ارتھ سٹیشن پر کام کرنے کے لیے ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات لیں۔ آپ نے اس نصیحت پر آج تک عمل کیا۔ چنانچہ جن دنوں خاکسار کے والد مکرم سید شوکت علی صاحب میرے پاس قیام پذیر تھے۔ وہ غالباً چوتھی جماعت پاس ہیں یعنی کوئی خاص تعلیم بھی نہیں۔ انگریز ی سے تو بالکل نابلدتھے۔ چودھری صاحب نے ابا جان کو بھی اپنے پاس ارتھ سٹیشن پر رکھ لیا۔ ابا جان نے کہا کہ مجھے تو کچھ علم نہیں ہے مَیں کس طرح یہ کام کر سکتا ہوں۔ چودھری صاحب نے ابا جان کو حوصلہ دیا اور کہا کہ شاہ صاحب !فکر نہ کریں آپ بہت جلد سیکھ لیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ مکرم چودھری صاحب نے اباجان کو سارا سسٹم سمجھا دیا اور ابا جان اسی کے مطابق کام کرنے لگے۔ ابا جان نے ہمیں بتایا کہ انہیں اس وقت مشکل کا سامنا ہوتا جب باہر سے کسی کمپنی کا فون آتا۔ وہ یا تو انگریزی بولتے تھے یا سپینش یا فرانسیسی اور ابا جان کو ان میں سے کسی زبان کا علم نہ تھا۔ چودھری صاحب نے ابا جان کو کچھ انگریزی فقرات اردو میں لکھ کر دے دیے کہ ابا جان اُن سے ابتدائی معلومات اور فون نمبر وغیرہ لے سکیں۔ پھر چودھری صاحب خود ہی اُن سے رابطہ کر لیتے۔ اس طرح کام چلتا رہتا۔ ابا جان نے بھی کئی مرتبہ بتایا کہ چودھری صاحب ماشاء اللہ بہت اچھے منتظم تھے۔
چودھری صاحب اور ان کی فیملی کے ساتھ ہم سب کا ذاتی تعلق بن گیا۔خاکسار چودھری صاحب کی وفات کے بعد جب ان کےگھر تعزیت کے لیے گیا تو آپ کی دو بہنوں محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ اور محترمہ فرحت بیگم صاحبہ نے خاکسار کو بتایا کہ چودھری منیر احمد صاحب ایک مثالی واقفِ زندگی تھے جن کی وجہ سے ہمارے بچوں نے وقف کیا اوراب میدان عمل میں وہ بطور مربی سلسلہ خدمات بجا لارہے ہیں۔
مکرم مبارک احمد طاہر صاحب سیکرٹری نصرت جہاں نے خاکسار کو بتایا کہ ۱۹۷۴ء میں ان کے ساتھ مکرم چودھری منیر احمد صاحب کو بھی اسیرِ راہ مولیٰ بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔
ایک دفعہ خاکسار بیمار ہواتو ڈاکٹر نے جو دوائی تجویز کی اس کےمضرات بہت تھے اس لیے خاکسار نے ابتداءً اسے لینے سے گریز کیا۔ جب خاکسار نے چودھری صاحب کو بتایا تو کہنے لگےکہ نہیں! دوائی ضرور لینی ہے اور پھر بالآخر خاکسار کو مختلف طریقوں سے دوائی کے استعمال کرنے کے لیے Convinceکیا۔
ایک واقعہ جو چودھری صاحب اکثر سنایا کرتے جو سیرتِ داؤد کے صفحہ ۱۰۵ پر شائع ہے مبلغین و مربیان کے استفادے کے لیے ذیل میں درج کیے دیتا ہوں:’’ایک دن حضرت میرداؤد صاحب نے جامعہ احمدیہ میں نوٹس لگایا کہ بعض طلباء مجھے ملتے نہیں۔ وہ مجھ سے ملا کریں۔ جب دوستوں میں اس کا تذکرہ ہوا تو مکرم ناصر احمد صاحب ملہی اور مکرم منور احمد خان صاحب متعلم جامعہ احمدیہ کہنے لگے کہ میر صاحب کو ضرور ملنا چاہئے۔ ہم نے پروگرام بنایاکہ وقفہ میں میر صاحب سے ملاقات ہو جائے۔ وقفہ میں جب ہم تینوں میر صاحب سے ملاقات کے لیے دفتر گئے اور تھوڑا سا دروازہ کھول کر اندر آنے کی اجازت طلب کی تو اس وقت میر صاحب کچھ لکھ رہے تھے اور اپنے کام میں مشغول تھے۔ ہماری آواز سن کر میر صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں عینک ایک لمحہ کے لیے اتاری اور ہمیں دیکھ کر شفقت بھری مگر رعب دار آواز میں فرمانے لگے:آجائیں۔ ہم تینوں میر صاحب کے سامنے کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر اپنے کام میں محور ہنے کے بعد ہماری طرف توجہ کی اور فرمانے لگے: ’’بتائیں کیا کام ہے؟ اس پر ہم میں سے کسی دوست نے کہا کہ ہم آپ سے ملاقات کرنے آئے ہیں، کچھ نصائح فرمائیں۔اس پر میر صاحب فرمانے لگے:خاص طور پر جامعہ کے طلباء کو کسی وقت بھی مجلس کے کام سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔ میں جامعہ کے طالب علموں کو ہرفن مولا بنانا چاہتا ہوں۔ اور میں تو دوسرے اداروں سے کہتا ہوں کہ تم اپنے طلباء کے ساتھ میرے جامعہ کے طلباء کا جس چیز میں مرضی مقابلہ کروالو۔ انشاء اللہ میرے طلباء ہی جیتیں گے۔ پھر فرمانے لگے کہ کسی طالب علم کو بھی کسی کام کرنے میں کسی قسم کی عارمحسوس نہیں کرنی چاہئے۔ ہر کام میں حصہ لینا چاہئے۔ میں گُلی ڈنڈا کھیلتارہاہوں اور اب بھی کھیل سکتا ہوں۔ اگر مجھے کہا جائے ڈھول بجاؤ تو میں ڈھول بجا سکتا ہوں۔ اگر مجھے گدھے دیئے جائیں اور کہا جائے کہ ہانکو تو میں گدھے ہانک سکتا ہوں۔ اس پر مجھے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ ‘‘(سیرت داؤد صفحہ ۱۰۵)
مکرم چودھری صاحب جب امریکہ تشریف لائے تو غالباً ان دنوں مولانا عطاء اللہ صاحب کلیم امیر و مشنری انچارج تھے۔ آپ ان کی سیرت کے کئی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالتے۔ آپ سنایا کرتے تھے کہ مولانا عطاء اللہ صاحب کلیم کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے براعظموں میں خدمت کی توفیق دی۔ اور امریکہ میں آپ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ بےحد سادہ مگر نفیس طبیعت کے مالک، متقی اور ہمدرد انسان تھے۔ ماتحتوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت اور درگذر کا سلوک فرماتے اور دل کی گہرائی سے ان کے لیے خیر چاہتے تھے۔ اسی لیے ان کی ناراضگی میں بھی غصّے کے باوجود محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی تھی۔ اگرچہ آپ اپنے دل کو فوراً صاف کر کے ناراضگی کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے مگر اصول اور دینی غیرت کو کبھی قربان نہ کرتے تھے۔
مکرم چودھری منیر احمد صاحب نے مولانا عطاء اللہ صاحب کلیم اور ان کی اہلیہ محترمہ نسیم بیگم صاحبہ کے بارے میں لکھا کہ ’’ہم سب مبلغین کے ساتھ تعلق اس طرح تھا جیسا کہ وہ اپنے حقیقی بچوں سے کرتے تھے۔ جب کبھی مبلغین شوریٰ یا مجالس عاملہ کی میٹنگ کے لیے آتے تو مسجد فضل واشنگٹن ہی میں قیام ہوتا۔ اس وقت عید کا سماں بن جاتا۔ خالہ جان قسم قسم کے کھانے پکاتیں۔ ہر کھانے کے بعد اگلے کھانے کی تیاری میں لگ جاتیں۔ سب کا حال احوال پوچھتیں اور کہتیں کہ میں دعا کرتی ہوں کہ آپ سب کے بیوی بچے جلد پاکستان سے آجائیں۔ مولوی صاحب کو بھی بار بار کہتیں کہ مرکز لکھیں کہ ان مبلغین کے بیوی بچوں کوجلد بھجو ا دیں۔ مبلغین کی آمد پر دونوں بزرگان خوش ہوتے اور جانے پر رنجیدہ ہوجاتے۔‘‘(سرگذشت کلیم)
خاکسار نے یہ دونوں واقعات جو بیان کیے ہیں وہ بےمقصد نہیں ہیں۔ ان بزرگوں کے تذکرے ہماری مجالس میں ہوتے تھے۔ اور ان بزرگوں سے سیکھی ہوئی باتیں چودھری صاحب نے اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنائیں اور اُن پر عمل کر کے دکھایا۔ یہ ساری باتیں آج بھی تمام مبلغین کے لیے مشعل راہ ہیں۔ مبلغین کو مہمان نوازی، انتظامی قابلیت، حسنِ معاشرت اور عبادت کے معیار بلند رکھنے کی طرف خاص توجہ کرنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ مکرم چودھری منیر احمد صاحب کے درجات بلند فرمائے۔ اُن کے ہل و عیال کا حافظ و ناصر ہو اور ہم سب کو خلافت کا جانثار اور سلطانِ نصیر بنائے اور جب بھی ہم میں سے کسی کی واپسی کا وقت آئے تو وَلَاتَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ کی آواز پر ہمارا انجام بخیر ہو۔ آمین
گذشتہ قسط: بستی کتنی دور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط یازدہم)