حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل مجلس عاملہ، زعمائے مجالس اور ریجنل ناظمین مجلس انصار اللہ بیلجیم کی ملاقات

آپ کو انصار کو بتانا پڑے گا کہ ہم اس نظام کا حصّہ ہیں ، ہم تمہارے بھائی ہیں، ہم تمہارے ہمدرد ہیں اور ہمیں نظام،خلافت کی طرف سے ہی ملا ہوا ہے، جس کی ہم پابندی کروانا چاہتے ہیں ، ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہے۔ اور ہمارا مقصد ہے تو یہ ہے کہ جو جماعتی پلان ہے، خلیفۂ وقت کا منصوبہ ہے، جو خلیفۂ وقت کی ہدایات ہیں، جو حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے جس کی ہمیں تعلیم دی ہے، جس کی الله تعالیٰ نے تعلیم قرآن کریم کے ذریعہ سے ہمیں بھیجی ہے، ہم اس پر عمل کرنے والے بنیں۔آپ انصار میں یہ روح پیدا کر دیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا

مؤرخہ ۲۰؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل مجلسِ عاملہ، زعمائے مجالس اور ریجنل ناظمین مجلس انصاراللہ بیلجیم کواسلام آباد (ٹلفورڈ) میں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ممبران عاملہ نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سے بیلجیم سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے سٹوڈیوز میں تشریف لا کر شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ پیش کیا نیز استفسار فرمایا کہ کیا یہ عاملہ ہے؟ اورآپ یہاں کس غرض سے آئے ہیں؟

صدر صاحب نے عرض کیا کہ یہ مجلس انصار اللہ بیلجیم کی عاملہ ہے اور اس کے ساتھ مختلف مجالس کے زعماء اور ریجنل ناظمین بھی موجود ہیں، اور ہم اپنے فرائض کے بارے میں راہنمائی لینے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔

ملاقات کا باقاعدہ آغاز دعا سے ہواجس کے بعد حاضرین کو حضورِانور کی خدمت میں اپنا تعارف پیش کرنے نیز اپنے متعلقہ شعبہ جات کے حوالے سے قیمتی راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

حضورِانور نے شرکاء کو مجلس انصار الله کے مقاصد کی روشنی میں تنظیمی ہدایات اور دستورِ اساسی کی پابندی کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے تلقین فرمائی کہ عاملہ ممبران کو چاہیے کہ جو دستورِ اساسی میں لکھا ہوا ہے اس کے مطابق کام کریں۔ جو لائحۂ عمل بناتے ہیں اس کے مطابق عمل کریں۔ عاجزی پیدا کریں اور تعاون اور تقویٰ سے کام لیں۔ جماعتی نظام سے بھی تعاون کریں۔ آپس میں بھی محبّت اور پیار کریں۔ اور یہی چیز ہے جو ایک احمدی میں ہونی چاہیے اور یہی چیز ہے جس کے لیے انصارالله بنائی گئی تھی۔

حضورِانور نے امسال مجلس انصار الله یوکے کے نیشنل اجتماع کے موقع پر اپنے فرمودہ خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے یاد دلایا کہ مَیں نےپچھلے دنوں تقریر کی تھی کہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ، ہم الله کے مددگار ہیں، کا نعرہ لگاتے ہیں تو پھر حقیقی مددگار بن کر بھی دکھائیں۔ یہی چیز ہے جو انصار کو چاہیے، اس عمر کو پہنچے ہوئے ہیں، بچے تو ہیں نہیں جہاں آپ کو انگلی پکڑ کر چلانا ہے۔ جو جاگ رہا ہے پہلے ہی، آنکھیں کھلی ہوئی ہیں، مچلا بنا ہوا ہے، اس کو تو نہیں جگایا جا سکتا۔ مچلے نہ بنیں۔ اگر حقیقت میں سوئے ہوئے ہیں تو پھر تو آپ کو ہلایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے بھی گائیڈ لائن ہے۔

حضورِانور نے اسی تناظر میں شاملینِ مجلس سے مزید دریافت فرمایا کہ پچھلے دنوں مَیں نے انصار الله یوکے، کے اجتماع پر جوتقریر کی تھی وہ آپ نے سن لی تھی؟ تمام شاملینِ مجلس نے اس پر اثبات میں جواب دیا تو آپ نے تاکید فرمائی کہ بس پھر وہی آپ کا لائحۂ عمل ہے۔

اسی طرح حضورِانور نے انصار اللہ کو اپنی اصلاح کی طرف خود توجہ دینے کی بابت فرمایا کہ بچوں کو تو مَیں سمجھاؤں، بڈّھوں کو مَیں کیا سمجھاؤں جن کی سفید داڑھیاں ہو گئی ہیں، ان کو تو خود اپنی فکر کرنی چاہیے۔

اس کے بعد قائد تعلیم نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کیاکہ انصار اللہ کے لیے جو لٹریچر مقرر کیا جاتا ہے، اس میں کوئی مخصوص کتاب شامل ہوتی ہے اور اس کا ایک پرچہ بھی ہوتا ہے، جسے حل کروانا مقصودہوتا ہے۔ لیکن دوست اس کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں دیتے اور نہ ہی مقررہ کتاب یا عمومی جماعتی لٹریچر کو پڑھنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں کہ ہم ان میں جماعتی لٹریچر کے مطالعے کا شوق کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟

حضورِانور نے اس پر ہدایت فرمائی کہ اگر دلچسپی نہیں لیتے تو پہلے ان میں دلچسپی پیدا کریں۔ شعبہ تربیت پہلے ان میں روح پیدا کرے کہ بیلجیم میں آگئے، مغربی ممالک میں آگئے تو دنیا کمانا مقصد نہ بناؤ۔ دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کا عہد کرتے ہو تو دین تو مقدّم اسی وقت ہو سکتا ہے جب پتا ہو کہ دین ہے کیا؟ اور دین کا پتا کرنے کے لیے کہ کیا ہے، اس کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ الله تعالیٰ کی عبادت کر کے، نمازیں پڑھ کے، الله تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے کہ ہمیں دین سکھائے، وہاں دین کی تعلیم حاصل کرنا بھی ضروری ہے اور قرآنِ کریم اس کے لیے بنیادی چیز ہے۔ اس لیے قرآن کریم اور اس کا ترجمہ پڑھنا ضروری ہے۔ پھر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی کُتب ہیں جو اس کی تشریح ہیں۔

تو لوگوں کو تربیت کا شعبہ بتائے اور آپ بھی جب ان کو کوئی کتاب پڑھنے کے لیے دیتے ہیں تو ان کو کہیں کہ تم لوگ یہ پڑھو، یہ ضروری ہے، اس کی طرف توجہ کرو، یہی چیز ہے جوہمیں مقدّم ہونی چاہیے اور ہم اس کا عہد کرتے ہیں اور اپنے عہدوں کو ہمیں پورا کرنا چاہیے۔ لہٰذااپنے تربیت کے شعبہ کے ساتھ collaborateکر کے، آپس میں مل کے اور معیّن پروگرام بنا کے تو پھر اس کی طرف توجہ دلائیں۔

حضورِانور نے آغاز میں اپنی فرمودہ نصیحت کا اعادہ فرمایا کہ مَیں نے تو یہی کہا ہے کہ سوئے ہوئے کو تو جگایا جا سکتا ہے، جاگتے کو کون جگائے؟ بڈّھی عمر میں تو پہنچ کر آپ پہلے ہی جاگ رہے ہوتے ہیں۔ اور جو سوئے ہوئے ہیں ان کو جگائیں، ان کو پیار سے اور اپنی مثالیں قائم کر کے بتائیں کہ دین کیا ہے۔

حضورِانور نے اپنے نمونے قائم کرنے اور ذاتی اصلاح کی بابت مزید توجہ دلائی کہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ کی نیشنل عاملہ اور مقامی مجالس کے عاملہ ممبران مل کر اپنی اصلاح کر لیں اور اس طرف توجہ دیں کہ ہم نے دین سیکھنا ہے اور اس کے لیے ہمیں کتابیں بھی پڑھنی چاہئیں، قرآن کریم بھی پڑھنا چاہیے، الله تعالیٰ سے مدد بھی مانگنی چاہیے، تو تبدیلی پیدا ہو جائے گی۔

آپ کےپچاس فیصد لوگ تو اسی طرحcover ہو جائیں گے۔ اگر عاملہ کے ممبران، نائبین یا جو کسی بھی رنگ میں خدمت کر رہے ہیں ان کو یہ توجہ پیدا ہو جائے، پہلے دوسروں کو دیکھنے کی بجائے اپنے نمونے قائم کر لیں۔ نیشنل عاملہ اپنا نمونہ قائم کرے، مقامی عاملہ اپنے نمونے قائم کرے،زعماء اپنے نمونے قائم کریں، تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس لیے آپ لوگوں کے پیچھے نہ جایا کریں،جن کے پاس کچھ نہیں، پہلے اپنی اصلاح دیکھیں۔ اپنی عاملہ کے ممبران کتنے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں استِثنا حاصل ہو گیا، ہمارا دین کا علم بہت ہو گیا۔

انصار ہونے کے باوجود مجھے پتا ہے کہ بہت سارے ایسے ہیں جو کہ پانچ نمازیں پوری نہیں پڑھتے، جو باقاعدہ قرآن کریم نہیں پڑھتے، تلاوت نہیں کرتے، جو روزانہ ایک آدھ پیرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب کا نہیں پڑھتے۔ تو جب خود ہم عمل نہیں کرتے تو دوسروں کو کیا کہیں گے؟قرآن کریم تو کہتا ہے کہ جو تم خود نہیں کرتے وہ دوسروں کو نہ کہو۔ لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصف:۳)، وہ بات دوسروں کو کیوں کہتے ہو جو تم خود نہیں کر رہے؟

مزید برآں حضورِانور نے تمام شاملینِ مجلس کی جانب اپنے دستِ مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ یہ جو سارے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ان کی اصلاح کر لیں تو باقیوں کی اصلاح ہو جائے گی۔ اور قرآن کریم کا جو حکم ہے کہ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى (المائدہ:۳)،نیکی اور تقویٰ میں جو تعاون ہے اس میں بڑھنے کی کوشش کریں۔ جماعت میں یہ روح پھونک دیں کہ تعاون ہم نے کرنا ہے۔ یہ چیز پیدا ہو جائے گی تو باقی خود بخود آ جائیں گی۔

حضورِانور نے شعبہ تربیت کے فعّال ہونے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ تربیت کا شعبہ فعّال ہوجائے گا تو تعلیم کا شعبہ بھی فعّال ہو جائے گا، مال کا شعبہ بھی فعّال ہو جائے گا، امورِ عامہ کے شعبہ کو بھی مشکلات پیدا نہیں ہوں گی، تبلیغ کے میدان میں بھی آپ کو آسانیاں پیدا ہو جائیں گی کیونکہ خود لوگوں کو شوق ہو گا ۔اور جب تک کسی میں شوق نہ ہو تو اس وقت تک کسی سے زبردستی کام نہیں لیا جا سکتا، تو وہ شوق پیدا کرنے کی ضرورت ہے، وہ شوق پیدا کر دیں تو سب ٹھیک ہے۔ اب ہر ایک کا مزاج مختلف ہے، ہر ایک کے مزاج کے مطابق آپ کو دیکھنا ہو گا، ایک ہی پروگرام بنا لیا اور اُسی لاٹھی سے سب کو ہانکتے رہیں، یہ درست نہیں ہو گا۔

حضورِانور نےصفِ اوّل اور صفِ دوم کے حوالے سےعلیحدہ پروگرام بنانے کی جانب توجہ دلائی کہ جو چالیس سال سے پچپن سال تک کے انصار ہیں، اسی لیے ان کی صفِ دوم بنائی گئی تھی، ان کے لیے علیحدہ پروگرام بنائیں،انہیں بتائیں، ان کے دماغ ابھی تازہ ہیں، کچھ نہ کچھ یادداشت ان کی بہتر ہے۔ جب ساٹھ سال سے اوپر چلے جاتے ہیں تو یادداشتیں کمزور ہو جاتی ہیں، تو اِن کے لیے کچھ اَور پروگرام بنا نا ہے کہ ان کو کس طرح یاد کرانا ہے؟ تو ہر ایک کو مختلف لحاظ سے treatکرنا ہے۔ سختی سے نہیں، نرمی اور پیار سے ہر ایک سے بات کریں، دوستانہ ماحول بنائیں، آپس میں اس طرح رہیں جس طرح ایک سوسائٹی ہوتی ہے۔

عہدیداروں کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم عہدیدار ہیں، بطورِ افسر ہم نے بات کر دی ہے تو اگلے نے ماننی ہے، یا کسی نے اختلافِ رائے کیا تو اس کا ہم نے برا منا لینا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں مَیں نے خطبے میں بھی ذکر کیا تھا، پرسوں ہی کیا تھا، کہ اختلافِ رائے تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ ایک اچھی بات ہے۔ یہ ترقی کی علامت ہے۔ اختلافِ رائے ہونا چاہیے۔ لیکن اختلافِ رائے کو ذاتی اَنا والی بات نہیں بنا لینا چاہیے۔اگر سمجھ آ جائےتو اس کے لیے اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ تو جس سے اختلاف ہے اس کو بھی چاہیے، افسران کو، صدر صاحب کو بھی، باقیوں کو بھی، قائدین کو بھی، ناظمین کو بھی، زعماء کو بھی کہ لوگوں کو پیار سے سمجھائیں۔ اختلافِ رائے ہے تو ان کو دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کریں، اگر ان کی دلیل اچھی ہے، تو بغیر کسی اَنا کو سامنے رکھے اس کو مان لیں۔

حضورِانور نے مسائل کے حل کے لیے باہمی گفت و شنید اور مل بیٹھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ یہ چیزیں تو آپس میں مل بیٹھ کر حل کرنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر مل بیٹھ کے آپ نے حل نہیں نکالنا تو پھر ڈکٹیٹر شپ تو یہاں ہے کوئی نہیں۔پھر دوسرا کہے گا کہ تم کون اور مَیں کون؟ اگر کسی نے بیعت کی ہوئی ہے تو وہ کہے گا کہ مَیں نے تمہاری بیعت نہیں کی، مَیں نے تو مسیح موعودؑ کو مانا ہے، مَیں نے خلیفہ سے بیعت کی ہوئی ہے، تم کون ہو؟

حضورِانور نے فرمایا کہ آپ کو بتانا پڑے گا کہ ہم اس نظام کا حصّہ ہیں، ہم تمہارے بھائی ہیں، ہم تمہارے ہمدرد ہیں اور ہمیں نظام ،خلافت کی طرف سے ہی ملا ہوا ہے، جس کی ہم پابندی کروانا چاہتے ہیں، ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہے۔ اور ہمارا مقصد ہے تو یہ ہے کہ جو جماعتی پلان ہے، خلیفۂ وقت کا منصوبہ ہے، جو خلیفۂ وقت کی ہدایات ہیں، جو حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے جس کی ہمیں تعلیم دی ہے، جس کی الله تعالیٰ نے تعلیم قرآن کریم کے ذریعہ سے ہمیں بھیجی ہے، ہم اس پر عمل کرنے والے بنیں۔آپ انصار میں یہ روح پیدا کر دیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جہاں افسر بن کے رہیں گے وہاں سب کچھ خراب ہو جائے گا۔

صدر صاحب کو بھی چاہیے کہ وہ عاجزی دکھائیں۔قائدین کو بھی چاہیے کہ عاجزی دکھائیں۔ زعماء کو بھی چاہیے کہ عاجزی دکھائیں اور یہی چیز ہے جس کا الله تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو الہاماً فرمایا تھا اور مَیں بھی ہمیشہ ہر جگہ باربار کہتا ہوں کہ ‘‘تیری عاجزانہ راہیں اُس کو پسند آئیں۔’’ (تذکرہ صفحہ۶۷۵۔ایڈیشن۲۰۲۳) وہ عاجزانہ راہیں اختیار کریں گے تو کامیابیاں ملیں گی۔ نہیں تو آپ جتنا مرضی زور لگا لیں، آپ کی نہ اتنی طاقت ہے اور نہ آپ کا اتنا علم ہے اور نہ اتنے اختیارات ہیں کہ آپ اپنے زور سے کچھ کر سکیں۔ جو ہونا ہے الله تعالیٰ کے فضل سے ہونا ہے۔ اس لیے الله کے فضل کو حاصل کرنے کے لیے ان لوگوں کے لیے روزانہ دعا بھی کیا کریں۔ ایک آدھ سجدہ تو کیا کریں کہ الله تعالیٰ ہمیں ایسے انصار عطا فرمائے جو تعاون کرنے والے ہوں اور حقیقت میں انصار الله ہوں، نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ کا نعرہ لگانے والے ہوں۔

ان قیمتی نصائح کے اختتام پر حضورِانور نے فرمایا کہ توآپ کے سوال کا جواب دیتے ہوئےمَیں نے تربیت کے شعبہ، شعبہ مال اور دیگر تمام متعلقہ ذمہ داران کو بھی توجہ دلا دی ہے۔

پھر صدر صاحب مجلس نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا کہ انصار الله کو نمازوں میں بہتری پیدا کرنے کی ترغیب کیسے دلائی جا سکتی ہے؟

اس پر حضورِانور نے اس بات کا اعادہ فرمایا کہ مَیں نے یہی تو بتایا ہے کہ اپنے نمونے قائم کریں۔دعا کریں۔ ان کے لیےنفل پڑھیں ۔ ان کے لیے خاص طور پر دو سجدے کریں اور ان کو بتائیں کہ نماز کی اہمیت کیا ہے؟

قرآنِ کریم کی آیات ہیں، ان کو نکال نکال کے ہر ہفتے ایک آیت سرکلر کر کے، میسج کر کے، آجکل ہر ایک کے پاس واٹس ایپ(WhatsApp) ہوتا ہے، اس میں بھیج دیں۔ ایک حدیث، نماز کی اہمیت کے بارے میں ہے، وہ نکال کے ہر ہفتے بھیج دی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس ہے، وہ نکال کے بھیج دیا۔ خلفاء کے فرمودات ہیں، کوئی نہ کوئی quote نکال کے بھیج دیا۔ ہر ہفتے اس طرح اگر آپ باقاعدگی سے ایک میسج بھیجتے رہیں، نیا نیا میسج آتا رہے، تو سال کے باون ہفتوں میں قرآن، حدیث، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کے ارشادات پر مبنی باون میسج چلے جائیں گے۔ وہ جب چلے جائیں گے تو کسی نہ کسی پر تو اس کا اثر ہو گا ۔

ہمیں تو الله تعالیٰ کا یہی حکم ہے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو ذَکِّرْ کا حکم ہوا، اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ (الغاشیہ:۲۲)کہ تم تو نصیحت کرنے والے ہو، نصیحت کرتے چلے جاؤ۔ لَسۡتَ عَلَیۡھِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ (الغاشیہ:۲۳)، تم ان پر داروغہ نہیں بنائے گئے۔ آپ داروغہ نہیں ہیں، ڈنڈے کے زور سے آپ کہہ دیں کہ مَیں کسی کو قائل کر لوں گا۔ ہاں! پیار سے، محبّت سے سمجھائیں، اپنی مثالیں قائم کریں، ان کے لیےدعا کریں تو ٹھیک ہو جائے گا۔

نائب صدر صاحب نے راہنمائی طلب کی کہ عرفانِ الٰہی کس طرح حاصل ہو سکتا ہے اور ہمیں کیسے پتا لگے گا کہ واقعی عرفانِ الٰہی حاصل ہوا ہے کہ نہیں؟

اس پر حضورِانور نے توجہ دلائی کہ ہر چیز الله تعالیٰ بتادے تو آپ وہیں رک جائیں گے۔ وہیں آپ بریک لگا دیں گے کہ ہمیں عرفانِ الٰہی حاصل ہو گیا،ہم بزرگ بن گئے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثّانی رضی الله عنہ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک بندہ ان کے پاس آیا۔ وہ اپنے آپ کو بڑا پیر سمجھتا تھا کہ مَیں عرفانِ الٰہی کے بڑے اعلیٰ معیار تک پہنچا ہوا ہوں، نمازیں وغیرہ بھی اس نے پڑھنی چھوڑ دیں، اس لیے کہ مَیں الله کے قریب پہنچ گیا ہوں، مجھے اب کسی چیز کی کیا ضرورت ہے ؟

تو حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے اسے سمجھایا کہ نہیں! الله تعالیٰ کی عبادت اور دعا کرتے رہو۔ عرفان حاصل کرنے کے لیے اس کاعلم، اس کی طاقتیں اور اس کی معرفت لامحدود ہیں۔ جب وہ لامحدود ہیں تو تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ مَیں نے یہاں پہنچ کے وہ سب کچھ حاصل کر لیا ہے۔

اس شخص نے مثال دی کہ اگر ایک شخص کشتی پر بیٹھا جا رہا ہو اور وہاں آگے خشک زمین آ جائے یا جزیرہ آ جائے یا ایک جگہ آ جائے جہاں اسے اُترنا ہے، تو وہاں اس جزیرے پر وہ نہ اُترے، تو اسے آپ بے وقوف نہیں کہیں گے؟ جہاں پہنچنا تھا اسے، وہ وہاں پہنچ گیا؟ تو حضرت مصلح موعودؓ نے اسے کہا کہ تم جسے خشک زمین سمجھے ہو، اگر وہ تمہاری نظر کا دھوکا ہو اَور تم وہاں کشتی سے اُترو اور تمہارا اگلا پاؤں پڑے اورایک دَم گہرا پانی آ جائے تو وہیں تم ڈوب جاؤ گے۔ عقلمندی تو یہ ہے کہ تم چلتے رہو، جب تک تم دیکھتے نہ ہو کہ بالکل وسیع پیمانے پر خشکی آ گئی۔

الله تعالیٰ کی قدرت اور عرفان تو لا محدود ہے، تم ایک جگہ اُتر کر کہہ دو کہ مَیں نے حاصل کر لیا، تو وہ نہیں ہوسکتا۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہو۔ دعا کرتے رہو ۔ اس کے لیے الله تعالیٰ سے ایک تعلق پیدا کرو اور الله تعالیٰ سے جب تعلق پیدا ہوتا ہے تو الله تعالیٰ دل کو تسلی بھی دے دیتا ہے۔ خود انسان کو تسلی ہو جاتی ہے۔ انسان کی دعاؤں کا جواب مل جاتا ہے اور اس سے اثر پیدا ہو جاتا ہے۔

الله تعالیٰ کی بعض باتیں انسان کی سمجھ میں نہیں آتیں، اس کے سمجھانے کے طریقے الله تعالیٰ بتا دیتا ہے، قرآن کریم کی آیات سے عرفان حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ آپ کو عرفان کا الہام ہو گا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں، وہاں سے آپ کو ایک نکتہ مل جائے گا کہ ہاں! اس کا یہ جواب مل گیا۔ خلفاء کی کُتب پڑھ رہے ہیں، خطبات سن رہے ہیں، وہاں سے آپ کو جواب مل جائے گا ۔ کسی بزرگ کی بات سن رہے ہیں، پرانے علماء، صحابہؓ  کی باتیں سن رہے ہیں، وہاں سے آپ کو جواب مل جاتے ہیں۔ احادیث سے آپ کو جواب مل جاتے ہیں۔ تو ان چیزوں سے آپ کو پتا لگے گا کہ ہاں! یہ عرفان مجھے حاصل ہو رہا ہے۔اس میں الله تعالیٰ کی تائید ہے، جو میرے لیے، ان ان باتوں کے سمجھنے کے ذریعے نکال رہا ہے۔

الله تعالیٰ تو ذرائع پیدا کرتا ہے، یہ تو نہیں کہ الہام کر کے ہر ایک کو ولی الله بنا دے، آپ کو نبیوں کی طرح ہر بات کا الہام ہونا شروع ہو جائے۔ الله تعالیٰ کے ہاں ہر ایک کے لیےاس کے معیارکے مطابق مختلف ذرائع ہوتے ہیں ۔ تو اس لیے عرفانِ الٰہی کو حاصل کرنے کے لیے مسلسل عبادت اور علم حاصل کرتے چلے جانا اور اس کے حل نکالتے چلے جانا اور الله تعالیٰ کی طرف سے اس کا فضل مانگتے چلے جانا، یہ اصل چیز ہے۔ یہ کہنا کہ مجھے عرفانِ الٰہی حاصل ہو گیا اور بس مَیں بڑا بزرگ ہو گیا، یہ بات ہوگی تو سمجھو وہ ختم ہو گیا، وہ پانی میں اس پیر کی طرح ڈوب گیا۔

اس کے بعد ایک ناصر نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا کہ جب یورپی لوگوں کو تبلیغ کی جاتی ہے تو وہ اکثر کم دلچسپی ظاہر کرتے ہیں، ایک یا دو بار تو سنتے ہیں لیکن پھر لاپروا ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے؟

اس پر حضورِانور نے جواب دیا کہ ہمارا کام تبلیغ کرنا ہے۔ قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو فرمایا کہ تم تبلیغ کرو، ہدایت دینا الله تعالیٰ کا کام ہے۔ ہم اپنے کام کیے جائیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ؂

ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج
جس کی فِطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار

نیک فطرت لوگ آتے ہیں، ہر ایک تو مانتا بھی نہیں ۔الله تعالیٰ نے آدمؑ کو پیدا کیا تو کہا تھا کہ نیک باتیں بتاؤ۔ شیطان نے سجدہ کرنے یا بات ماننے یا آدمؑ کی فرمانبرداری کرنے سے انکار کیا تھا تو ساتھ ہی شیطان نے یہ بھی الله تعالیٰ کو کہہ دیا تھا کہ تُو مجھے مہلت دے، تُو کہتا ہے کہ مَیں آدمؑ کی اطاعت کروں، مجھے اجازت دے کہ مَیں اپنی طرف بھی لوگوں کو لے کے آؤں۔ تو الله تعالیٰ نے یہ نہیں کہا تھا کہ مَیں نے آدمؑ کو پیدا کر دیا،اب سارے آدمؑ کے پاس ہی جائیں گے اور تمہاری طرف کوئی نہیں آئے گا۔

الله میاں نے کہا کہ تمہیں اجازت ہے کہ ٹھیک ہےتم لوگوں کو بھٹکاؤ، اپنی طرف لے کر آؤ۔ پھر اس شیطان نے یہ چیلنج دیا کہ لوگوں کی اکثریت مجھے followکرے گی، آدمؑ یا نیک باتوں کو follow نہیں کرے گی۔ الله تعالیٰ نے یہ نہیں کہا تھا کہ نہیں کرے گی بلکہ کہا تھا کہ ٹھیک ہے ایسا کریں گے تو تمہیں بھی اور تمہارے ساتھیوں کو بھی مَیں پھرضرورجہنّم سے بھر دوں گا۔ یہی قرآن کریم میں سارے واقعات لکھے ہیں۔

تو اس کا مطلب ہے کہ جو بد لوگ ہیں، شیطان کے پیچھے چلنے والے لوگ ہیں، نہ ماننے والے لوگ ہیں، وہ زیادہ ہوں گے۔ زیادہ رہیں گے یا اتنی تعداد میں رہیں گےکہ لوگوں کو متأثر کر سکیں۔

ہاںایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب نیک فطرت لوگ ایک علاقے میں، ایک جگہ میں زیادہ ہو جاتے ہیں تو ان پر الله تعالیٰ فضل بھی فرماتا رہتا ہے۔ لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ ساری دنیا میں ایک ہی طرح ہر جگہ ہو جائے گا کہ صرف نیک ہی نیک لوگ ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں بےشک فرمایا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ اکثریت قبول کرلے گی۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سارے علاقوں میں بہت بڑی اکثریت قبول کر لے گی۔ یہ نہیں فرمایا کہ ساری دنیا مجھے قبول کر لے گی۔ اسلام کا یہ دعویٰ ہی نہیں، اگر یہ دعویٰ ہوتا تو کافروں کے متعلق قرآن کریم میں حکم کیوں ہوتے، اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ پر چلنے کا حکم کیوں ہوتا؟غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡھِمۡ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ جو کہا گیا، وہ کہنے کی ضرورت کیا تھی؟ جب مغضوب علیہ اور گمراہ لوگ ضالین جو ہیں وہ بھی نہ ہوتے تو لوگوں کو پھر پتاکس طرح لگتا؟ اس کا مطلب ہے کہ ہمیشہ ہر وقت یہ لوگ رہیں گے۔

لیکن ہمارا کام تبلیغ کرتے رہنا ہے اور اگر کوئی تبلیغ میں دلچسپی لیتا ہے تو الحمد لله! اور اگر آپ کا کوئی بہت خاص دوست ہے تو اس کو سمجھائیں کہ دیکھو! مَیں تمہیں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو، وہ دوسرے کے لیے پسند کرو، تو مجھے یہ چیز پسند ہے اور مَیں اس کوصحیح سمجھتا ہوں ۔ اس لیے مَیں تمہاری بہتری کے لیے تمہیں بتا رہا ہوں۔ مانو نہ مانو، تمہارا فعل ہے، یہ چیز آپ بتا دیں ۔ اگر وہ مان لے گا تو الحمدلله! نہیں تو کوئی دوسرا لے لیں۔ بعض اَڑے ہوتے ہیں، ان پر ہی آپ وقت ضائع کرتے جائیں کہ نہیں! مَیں نے منوا کے ہی چھوڑنا ہے، نہیں منوا سکتے۔ الله تعالیٰ نے اس لیے قرآن شریف میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو فرمایا کہ آپؐ تبلیغ کریں جو تعلیم آپؐ کو نازل کی گئی، ہدایت دینا الله کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے لیے دعا کرتے رہیں۔ فطرت نیک ہو گی تو قبول کر لے گا۔

ہم نے اپنا کام نہیں چھوڑنا۔ہمارا کام یہی ہے کہ بُلاتے چلے جانا۔ آدمؑ کو الله تعالیٰ نے یہی کہا تھا کہ تم نے اپنا کام نیکیوں کی تلقین کرتے رہنا ہے۔ شیطان کو کہا ٹھیک ہے کہ مَیں تمہیں تمہارے کام کی اجازت دیتا ہوں کہ تم برائیوں کی طرف بلاتے رہو۔ دونوں کو کھلی چھٹی دے دی۔ یہ کہیں نہیں کہا کہ مَیں شیطان باندھ دوں گا۔ ہاں! رمضان کے دنوں میں شیطان ان لوگوں کے لیے باندھا جاتا ہے جو مومن ہوتے ہیں۔ کیونکہ نفسِ امّارہ جو ہے وہ بعض دفعہ بگڑ جاتا ہے، اس لیے نفسِ لوّامہ کی صورت پیدا ہوتی ہے اور اس میں پھر رمضان میں ملامت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اور اگر نیت نیک ہو توپھر شیطان کو باندھ کر الله تعالیٰ نیکیاں کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ اگر نیت نیک نہیں ہے تو بہت سارے کلمہ پڑھنے والے بھی ہیں،جن کے شیطان کھلے رہتے ہیں۔ رمضان میں ساروں کے شیطان تو نہیں بند ہوجاتے ۔ یہ تو پھر نیت اور ارادے پر منحصر ہے، ارادہ اور نیت ہو گی تو ٹھیک، ارادہ اور نیت نہیں ہو گی تو پھر ختم۔

حضورِانور نے قرآنی تعلیم کی روشنی میں اس بات کا اعادہ فرمایا کہ آپ کا اور ہمارا کام تبلیغ کرنا ہے۔ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ ّ(المائدۃ:۶۸)۔ تبلیغ کرو جو اُتارا گیا ہے تم پر۔ ہدایت دینا الله تعالیٰ کا کام ہے۔

ایک ناصر نے حضورِانور سے دریافت کیا کہ آپ کے خطبات اور خطابات سے مؤثر انداز میں کس طرح سےاستفادہ کیا جا سکتا ہے؟

اس کے جواب میں حضورِانور نے استفہامیہ انداز میں استفسار فرمایا کہ کیا آپ ان سے کوئی سبق حاصل کرتے ہیں؟ کیا آپ نے کبھی کچھ سیکھا ہے؟کیا آپ نے کبھی یہ محسوس کیا کہ آپ ان سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں؟ یہی تو اصل اہمیت ہے۔ اس سے زیادہ مَیں آپ کو اَور کیا بتا سکتا ہوں؟

حضورِانور نے خطبات کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اس لیے بتاتا ہوں کہ آپ لوگوں کو تاریخِ اسلام کا بھی پتا لگے۔ جو واقعات ہو رہے ہیں ان کا بھی پتا لگے۔ جو واقعات ماضی میں ہوئے ان کا بھی پتا لگے۔ جس طرح صحابہؓ نے قربانیاں کیں ان کا بھی پتا لگے۔ انہی خطبات میں بعض نصائح آ جاتی ہیں۔ آنحضرت صلی الله کی لوگوں سے وابستہ توقعات آجاتی ہیں۔ لوگوں کے اپنے عمل آ جاتے ہیں۔ ان کا سب کو پتا لگے۔ پتا لگے کہ ہمارے بزرگوں نے کتنی قربانیاں کی تھیں اور کس طرح قربانیاں کر کےاسلام کو سنبھالا اور سینچا اور اب اس زمانے میں الله تعالیٰ نے جو ہمیں سہولتیں دے دی ہیں، اس کے بعد ہماری ذمہ داری کتنی ہے کہ ہم اس کو کس طرح سنبھالیں اور سینچیں۔اپنے ایمانوں کو مضبوط بھی رکھیں اور اپنی نسلوں کے ایمانوں کو بھی مضبوط رکھیں اور اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے آگے اسلام کی تبلیغ اور پیغام کو بھی پہنچاتے رہیں۔ اور حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے الله تعالیٰ سے تعلق میں بھی بڑھیں۔ اس طرح بہت ساری نصیحتیں انہی میں آ جاتی ہیں۔اوّل تو مَیں نے پہلے سولہ، سترہ سال تربیت پر بے شمار خطبے دیے ہیں، ان تربیتی خطبات کو دیکھیں تو آپ کو تربیت سے متعلق باتیں پتا لگ جائیں گی۔ پھر تاریخ پر مَیں نے خطبات کا سلسلہ اس لیے شروع کیاکہ پتا لگے کہ تربیت کی صرف باتیں نہیں ہیں، بلکہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہ صحابہؓ نے کام کر کے دکھائے۔ یہ کوئی ایسی باتیں نہیں تھیں کہ صرف الله تعالیٰ نے حکم دے دیا بلکہ ان میں تبدیلی پیدا کی۔ اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے آ کے جاہل اور اُجڈ لوگوں کی، جو بالکل اَن پڑھ تھے، ہم تو پھر اپنے آپ کو بڑے پڑھے لکھے کہتے ہیں، اور گاؤں کے لوگوں کی تربیت کی اور ان کو انسان بنایا۔ پھر انسان سے تعلیم یافتہ انسان بنایا، پھر تعلیم یافتہ انسان سے باخدا اِنسان بنایا جو الله تعالیٰ کی طرف جھک گئے۔ تو اگر وہ ساری چیزوں کے باوجود باخدا بن سکتے تھے تو مَیں نے جو تربیت کی باتیں بتائی ہیں، وہ سیکھ کے جو ہم تھوڑے بہت پڑھے لکھے ہیں، ہم کیوں باخدا انسان نہیں بن سکتے؟

تو یہی سبق خطبوں میں ملتے ہیں، اگر لینا چاہیں تو! نہیں لینا چاہیں تو کہہ دیں کہ ٹھیک ہے خطبہ سنا تھا، بڑا مزا آیا، بس بات ختم ہو گئی ۔

ملاقات کے اختتام پر شاملین کو حضورِانور کے ہمراہ گروپ تصویر بنوانے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔

آخر پر حضورِانور نے سب شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ پیش کرتے ہوئے الوداع کہا اور یوں یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button