تحریک جدید کے تین اہم مطالبات (قسط سوم۔آخری)
(انتخاب خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۰؍دسمبر۱۹۳۵ء)
ہر شخص کو میری طرح یہ کہنا چاہئے تھا کہ اگر ساری دنیا الگ ہو جائے اور کوئی بھی ہمارے ساتھ نہ رہے پھر بھی احمدیت دنیا کے کناروں تک پھیلا کر چھوڑیں گے کیونکہ یہ خدا کا سلسلہ ہے اور کوئی نہیں جو اسے روک سکے
پس بیکاری کا ایک دن بھی موت کا دن ہے جب تک ہماری جماعت اس نکتہ کو نہیں سمجھتی حالانکہ خدا تعالیٰ نے اِس کو سمجھا نے والے دئیے ہیں اُس وقت تک وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتی۔دیکھو! رسول کریم ﷺ نے یہ بات کہی مگر لوگوں نے نہ سمجھی۔اب میں نے بتائی ہے اور یہ میں آج ہی نہیں کہہ رہا۔ بلکہ میں مختلف رنگوں اور مختلف پیرائوں میں کئی دفعہ اِس بات کو دُہرا چکا ہوں۔مجھے اللہ تعالیٰ نے ایسا ملکہ دیا ہے کہ میں
اسلام کے کسی حکم کو بھی لوں،اُسے ہر دفعہ نئے رنگ میں بیان کر سکتااور نئے پیرایہ میںلوگوں کے ذہن نشین کر سکتا ہوں۔
مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ تم مختلف رنگوں میں ایک بات کو سنو، مزے لو اور عمل نہ کرو۔اس کے نتیجہ میں تمہارا جرم اور بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ تمہیں ایک ایسا شخص ملا جس نے ایک ہی بات مختلف دلکش اور مؤثر پیرائوںمیں تمہارے سامنے رکھی مگر پھر بھی تم نے اس کی طرف توجہ نہ کی۔پس تحریک جدید میں مَیں نے ایک یہ نصیحت کی تھی کہ بیکاری کو دُور کیا جائے مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی۔
(۳)میں نے اس کا ایک مرکز بنانے کے لئے بورڈنگ تحریک جدید قائم کیا ہے۔میں خوش ہوں کہ جماعت نے اِس بورڈنگ میں اپنے لڑکے داخل کرنے کے متعلق میری تحریک پر عمل کیا اور اِس وقت ساٹھ سے اوپر طالب علم بورڈنگ تحریک جدید میں داخل ہیں لیکن یہ تعداد ابھی کافی نہیں۔اور پھرمیرے مد نظر تحریک جدید کا صرف ایک بورڈنگ نہیں بلکہ دو ہیں۔ایک تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ساتھ اور دوسرا مدرسہ احمدیہ کے ساتھ۔پھر میرے مد نظریہ بھی ہے کہ اسی طرز پر لڑکیوں کے لئے بھی ایک بورڈنگ قائم کیا جائے اور میرا منشاء یہ ہے کہ جماعت کے کسی لڑکے اور لڑکی کو فارغ نہ رہنے دیا جائے۔میرے پاس بورڈنگ تحریک جدید کے سپرنٹنڈنٹ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ لڑکوں کے پاس اتنا کام ہے کہ اور زیادہ کام کے لئے ان کے پاس کوئی وقت نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں اگر اوقات کا صحیح استعمال کیا جائے تو کام نہایت قلیل عرصہ میں ختم ہو سکتا ہے اور باقی وقت اَور کاموں کے لئے بچ سکتا ہے۔میں دیکھتا ہوں وہی کام جو میں تھوڑے سے وقت میں کر لیتا ہوں اگر کسی دوسرے کے سپرد کروں تو وہ دوگنا بلکہ بعض دفعہ چوگناوقت لے لیتا ہےبلکہ بعض کام جو میں دو گھنٹے میں کر لیتا ہوں اگر کسی اور کے سپرد کروں تو وہ ۲۴ گھنٹے خرچ کر دیتا ہے۔
در حقیقت انسانی دماغ میں اللہ تعالیٰ نے یہ قابلیت رکھی ہے کہ اگر انسان چوکس اور ہو شیار ہو کر بات سنے اور اس پر عمل کرے تو وہ اتنی جلد بات سمجھ لیتا اور کام کو پورا کر دیتا ہے کہ دوسرے حیران رہ جاتے ہیں۔پس اگر تحریک جدید کے بورڈروں کو ہوشیار بنایا جائے اور ان میں چستی اور بیداری پیدا کی جائے تو ان کا دن ۲۴ گھنٹے کا نہ رہے بلکہ ۴۸ یا ۷۲ گھنٹے کا بن جائے یا اس سے بھی زیادہ کا۔تو در حقیقت وقت کی زیادتی آپ ہی آپ ہو سکتی ہے۔ اگر لڑکے کو چست بنایا جائے اسے جلدی جلدی لکھنے کی عادت ڈال دی جائے،جلدی جلدی بات سمجھنے کی قابلیت اس میں پیدا کی جائے،اور اُس کے تمام عقلی قویٰ کو تیز کر دیا جائے تو وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ۲۴ گھنٹے میں کام ختم نہیں ہوتا شکوہ کریں گے کہ ہمارے پاس وقت ہے مگر کام نہیں۔لیکن
جلدی سے مراد بے وقوفی نہیں بلکہ سو چ کر اور سمجھ کر جلدی کام کرنا مراد ہے۔
وہ لوگ جنہیں خدا تعالیٰ نے روحانی آنکھیںدی ہوئی ہوتی ہیں وہ جانتے ہیں کہ جلدباز ی اور جلدی سے کام کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
…پس بچوں کو جلدی کام کرنے اور جلدی سو چنے کی عادت ڈالی جائے۔مگر جلدی سے مراد جلدبازی نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر تیزی سے کام کرنا ہے۔جلد باز شیطان ہے لیکن سوچ سمجھ کر جلدی کا کام کرنے والا خدا تعالیٰ کا سپاہی ہے۔ پھر میرا منشاء ہے کہ نہ صرف موجودہ بورڈنگ تحریک جدید کو ترقی دی جائے بلکہ ایسا ہی ایک بورڈنگ مد رسہ احمدیہ کے ساتھ قائم کیا جائے اور اسی طرح کا ایک بورڈنگ لڑکیوں کے لئے بنایا جائے اور میرا منشاء ہے کہ آہستہ آہستہ لڑکوں کو اتنا تیز کام کرنے کا عادی بنایا جائے کہ وہ علاوہ تعلیم کے دوسرے کاموں کے بھی وقت نکال سکیں اور ہو سکے تو اپنے لئے غلّہ بھی خود پیدا کریں،سبزیاں خود پیداکریں یعنی کھیتی باڑی کا کام بھی کریں۔اِس سے دو فائدے ہو نگے ایک تو یہ کہ ان میں سے کِبر مٹ جائے گا اور دوسرے یہ کہ بڑے ہو کر وہ نوکریوں پر نظر نہیں رکھیں گے بلکہ پیشوں کی طرف توجہ دیں گے۔ پھر اس کا یہ بھی فائدہ ہو گا کہ ان کی صحت اچھی رہے گی۔ابھی ہمارے پاس اتنی جگہ نہیں کہ لڑکوں سے کھیتی باڑی کا کام لیا جائے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ بورڈنگ میں یہ نقص ہے کہ اِس کے اِردگرد عمارتیں بن گئی ہیں اور کھیتی باڑی کے لئے کوئی زمین نہیں رہی۔
…حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے دیکھا ہے کہ آپؑ دن بھر گھر کے اندر کام کرتے لیکن روزانہ ایک دفعہ سیر کے لئے ضرور جاتے اور ۷۴۔۷۵ برس کی عمر کے باوجود سیر پر اِس قدر باقاعدگی رکھتے کہ آج وہ ہم سے نہیں ہو سکتی۔ہم بعض دفعہ سیر پر جانے سے رہ جاتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام ضرور سیر کے لئے تشریف لے جاتے تو
کھلی ہوا کے اندر چلنا پھرنا اور اُس سے فائدہ اُٹھانا دماغ کے لئے بہت مفید ہوتا ہے
اور جب تحریک جدید کے بورڈر کھلی ہوا میں رہ کر مشقّت کا کام کریں گے تو جہاں ان کی صحت اچھی رہے گی وہاں ان کا دماغ بھی ترقی کرے گا اور وہ دنیا کے لئے مفید وجود بن جائے گا۔
پس یہ تحریک آج میں پھر کرتا ہوں کہ جماعت کے احباب اپنے بچوں کو بورڈنگ تحریک جدید میں داخل کریں۔خدا تعالیٰ کے فضل سے جو نو جوان بچوں کے لئے سپرنٹنڈنٹ مقرر ہیں وہ بچوں کی تعلیم اور ترقی میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں اور تندہی کے ساتھ اپنے فرض کو ادا کر رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ہر لحاظ سے پورا کام کر رہے ہیں ابھی ان کے لئے بھی ترقی کی بہت گنجائش ہے لیکن بہرحال وہ اس کام میں دلچسپی لے رہے ہیں اور چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ انہیں بچپن سے دین کی طرف رغبت ہے اس لئے امید ہے کہ اگر انہوں نے اس میں ترقی کرنے کی کوشش کی تو وہ خود بھی فائدہ حاصل کر سکتے اور بچوں کو بھی فائدہ پہنچا سکتے ہیں علاوہ ازیں اس ذریعہ سے بیکاری کا بھی ایک حد تک ازالہ ہو سکتا ہے۔
پس یہ تین تحریکیں آج میں پھر دُہراتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ دوست ان کی طرف توجہ کریں گے تمام دو ستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ کام ہمیشہ کرنے سے ہوتے ہیں باتیں کرنے سے نہیں ہوتے۔ میں نے پچھلے دو خطبوں میں ایک پچھلے جمعہ کے خطبہ میں اور ایک چار پانچ پہلے جمعوں میں سے کسی ایک جمعہ کے خطبہ میں بیان کیا تھا کہ
اگر تم سب کے سب مجھے چھوڑ دو تب بھی خدا تعالیٰ غیب سے سامان پیدا کردے گا۔
لیکن یہ ہو نہیں سکتا کہ جو بات خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہی اور جس کا نقشہ اُس نے مجھے سمجھا دیا ہے وہ نہ ہو وہ ضرور ہو کر رہے گی خواہ دوست دشمن سب مجھے چھوڑ جائیں۔ اِس پر بعض دوستوں نے شکوہ کیا ہے کہ آپ نے یہ الفاظ کیوں کہے ہمیں اِن سے تکلیف ہوئی ہے ہم تو آپ پر اپنی جان اور اپنا مال سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن یہ الفاظ اس قابل نہیں تھے کہ اس پر انہیں تکلیف ہوتی بلکہ اس قابل تھے کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کے دین کے متعلق اِسی قسم کے الفاظ کہتے۔ یہ خداتعالیٰ کا معاملہ ہے اور خدا تعالیٰ کے معاملہ میں رقابت کی ضرورت ہوتی ہے۔میں تو چاہتا ہوں کہ ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہ ہو جس کے دل میں یہ احساس نہ ہو کہ خواہ ساری دنیا احمدیت کو چھوڑ دے پھر بھی وہ خدا کے سلسلہ کو پھیلا کر رہے گا۔پس یہ صدمہ والی بات نہ تھی بلکہ رقابت والی بات تھی اور تم میں سے ہر شخص کو میری طرح یہ کہنا چاہئے تھا کہ اگر ساری دنیا الگ ہو جائے اور کوئی بھی ہمارے ساتھ نہ رہے پھر بھی احمدیت دنیا کے کناروں تک پھیلا کر چھوڑیں گے کیونکہ یہ خدا کا سلسلہ ہے اور کوئی نہیں جو اسے روک سکے۔میں نے اس کے ساتھ ایک مثال بھی دی تھی اور بتایا تھا کہ خداتعالیٰ اور اس کے رسولوں کے قرب میں چھوٹے اور بڑے کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ وہ یہ تھی کہ رسول کریم ﷺ کی عادت تھی کہ آپ جو کام بھی شروع فرماتے دائیں طرف سے شروع کرتے۔ایک دفعہ آپ مجلس میں تشریف رکھتے تھے کہ کوئی شخص دودھ لایا۔آپ نے تھوڑا سا پی کر چاہا کہ باقی تبرک حضرت ابو بکر ؓکو دیں مگر وہ اُس وقت آپ کے بائیں طرف تھے اوردائیں طرف ایک نو جوان بیٹھا تھا۔ آپ نے دائیں طرف منہ کر کے اُس نو جوان سے پوچھا کہ میاں! اگر تم اجازت دو تو میں یہ دودھ ابو بکر ؓکو دے دوں۔ اُس نے کہا یا رسول اللہؐ یہ آپ کا حکم ہے یا آپ مجھے اختیار دیتے ہیں کہ میں جو چاہوں کہوں۔ آپ نے فرمایا حکم تو نہیں۔وہ کہنے لگا تو پھر اِدھر لایئے۔تبرک کے معاملہ میں مَیں کسی کو اپنے آپ پر ترجیح نہیں دے سکتا۔(بخاری کتاب المساقاۃ باب ما جاء فی الشرب) تو
خدا تعالیٰ کے معاملہ میں سارے بندے رقیب ہیں ہر بندے کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ دوسرے سے اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو۔
پس میں وہ الفاظ کہہ کر صرف اپنا احساس بیان نہیں کر رہا تھا بلکہ میں چاہتا تھا کہ تم میں سے ہر شخص کے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کے سلسلہ کی اشاعت کا وہی ذمہ دار ہے۔اور اگر ایسا احساس تم میں پیدا ہو جائے تو پھر نہ وعظ کی ضرورت ہے نہ لمبے خطبوں کی۔ پھر اتنی ہی ضرورت ہو گی کہ میں کھڑا ہو کر سورۃ فاتحہ کی تلاوت کر کے مختصر سے مختصر خطبہ بیان کر دوں کیونکہ مجھے علم ہو گا کہ ہر شخص اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا نمائندہ سمجھتا ہے اور اسے کسی وعظ کی ضرورت نہیں۔ پس جس دن تم یہ سمجھنے لگ جائو گے کہ تم دنیا میں خدا تعالیٰ کے نمائندہ ہو اور تمہارے سپرد ہی یہ کام ہے کہ تم ساری دنیا میں احمدیت پھیلائو اُس دن کسی نصیحت،کسی لیکچر کی ضرورت نہ رہے گی۔تم خود خدا تعالیٰ کی چلتی پھرتی تلواریں ہو گے جو آپ ہی آپ ضلالت اور کفر و شرک کی گردنیں کاٹتی پھریں گی۔یادرکھو! وعظ و نصیحت سے اُسوقت تک کچھ نہیں بنتا جب تک دلوں میں تغیر پیدا نہ کیا جائے۔اور جب تک یہ سمجھا نہ جائے کہ ہم پر اشاعت دین کی ذمہ داری ہے۔ جب تک یہ تغیر پیدا نہیں ہو تا وعظ و نصیحت کی ضرورت رہتی ہے۔اور جب لوگ یہ سمجھنے لگ جائیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے نمائندہ ہیں اور ہمارا اپنا کام ہے کہ بغیر کسی تحریک کے خودبخود کام کرتے چلے جائیں۔وہ دن ترقی کاہو تا ہے اور اس دن اسے جماعت کو بیدار کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
میں نے تحریک جدید کے مالی حصہ کے لئے چندہ کی اپیل کی تھی
اس کے متعلق میں نے دیکھا ہے جو لوگ بیدار اور ہوشیار تھے انہوں نے اس بات کی ضرورت نہیں سمجھی کہ کب ان کی جماعت کی طرف سے مجموعی طور پر چندہ کی فہرست جاتی ہے بلکہ اُنہوں نے تحریک سنتے ہی اپنے وعدے لکھوا دئیے اور جن جماعتوں میں ایسے آدمی کم تھے اُن کی طرف سے اب آہستہ آہستہ اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کرنام پہنچ رہے ہیں۔ مگرجوجوشیلے تھے اُنہوں نے جھٹ پٹ اپنے نام بھجوادیے اور سمجھ لیا کہ بعد میں جماعت کے چندہ د ہندگان میں بھی اپنا نام لکھا دیں گے سستی کر کے اپنے ثواب کو کیوں کم کریں۔ یہ آگ جس دن ایک یادو کے دل میں نہیں بلکہ تمام لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جائے گی اُس دن تمام وعظ دل سے پیدا ہونگے اور خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہارے دلوں میں بیٹھ کر آپ تمہاری راہنمائی کریں گے مگر وہ جن کے دلوں میں یہ آگ نہیں وہ ایک بیل گاڑی کی طرح ہیں جسے کھینچنے کے لئے بیلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یا گھوڑے گاڑی کی طرح ہیں جس کے آگے جب تک گھوڑے نہ جوتے جائیں حرکت نہیں کر سکتی۔ مگر جن کے دلوں میں آگ پیدا ہو جائے وہ انجن کی طرح ہو جائیں گے جو کسی بیرونی تحریک کے محتاج نہ ہونگے بلکہ اُن کے اندر کی آگ خود بخود اُنہیں قربانیوں پر آمادہ کرے گی۔پس یہ باتیں صرف سُن لینے سے کام نہیں چلتا بلکہ کام اُس آگ کے ذریعہ ہو گا جو تمہارے دلوں میں پیدا ہو گی جب تک جماعت کے افراد کے دلوں میں یہ احساس پیدا نہ ہو کہ سلسلہ کے کاموں کے وہ خود ذمہ دار ہیں وہ یہ نہ دیکھیں کہ اُن کا سیکرٹری اور پریذیڈنٹ کیا کرتا ہے بلکہ اگر سیکرٹری یا پریذیڈنٹ سستی کرتا ہے تو خود اُس کی بجائے کام کریں،اُس وقت تک حقیقی معنوں میں ترقی نہیں ہو سکتی۔
میں نے دیکھا ہے کہ جس جماعت کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ صاحب خود چندہ نہ دینا چاہیں وہ کام کوپیچھے کرتے چلے جاتے ہیں۔حالانکہ اگر جماعت کا ہر فرد اپنے آپ کو سلسلہ کے کاموں کے لئے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ سمجھے تو وہ اپنے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ کی سستی کی وجہ سے ثواب سے محروم نہ رہے بلکہ اگر وہ سست ہوں تو اُن کی بجائے آپ جماعت میں چندہ کی تحریک شروع کر دے اور سیکرٹری اور پریذیڈنٹ کے کاموں کا بھی خود ثواب لے لے۔میں نہیں سمجھ سکتا اگر تحریک جدید کے چندہ کے فارم لے کر کوئی شخص چل پڑے اور لوگوں سے وعدے لینا شروع کر دے تو اسکے متعلق کوئی شخص کہہ سکے کہ یہ مجرم ہے، سیکرٹری یا پریذیڈنٹ کو یہ کام کرنا چاہئے تھا۔اگرسیکرٹری یا پریذیڈنٹ چاہتا ہے کہ ثواب لے تو اُس کا فرض ہے کہ دوسروں سے پہلے کام کرے۔اور اگر وہ کام نہیں کرتا اور جماعت کاکوئی اور فرد لوگوں سے چندہ لینا یا چندے کے وعدے لکھوانا شروع کر دیتا ہے تو خد ا تعالیٰ کے نزدیک وہی سیکرٹری اور وہی پریذیڈنٹ ہے۔
غرض تحریکیں ہی کتنی اعلیٰ ہوں جب تک کام نہ شروع کیا جائے اور اُس میں سرگرمی نہ دکھائی جائے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔پس اپنے اندر وہ آگ پیدا کرو جو تمہیں انجن بنادے۔تم بیل گاڑی نہ بنو جو بیلوں کی محتاج ہوتی ہے بلکہ تم انجن بنو جو دوسروں کو بھی کھینچ کرلے جاتا ہے۔جس دن اِس قسم کے لوگ جماعت میں پیدا ہو جائیں گے تمام کام خود بخود سہولت سے ہوتے چلے جائیں گے۔… (الفضل ۲۵؍دسمبر ۱۹۳۵ء)
٭…٭…٭