کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

قرآنی علوم کے انکشاف کے لئے تقویٰ شرط ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ اور دوسری جگہ کہا لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ (الواقعۃ:۸۰) مُطَھَّرُوْن سے مراد وہی متّقین ہیں جو ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ میں بیان ہوئے ہیں۔ اس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ قرآنی علوم کے انکشاف کے لئے تقویٰ شرط ہے۔ علوم ظاہری اور علوم قرآنی کے حصول کے درمیان ایک عظیم الشان فرق ہے۔ دنیوی اور رسمی علوم کے حاصل کرنے کے واسطے تقویٰ شرط نہیں ہے۔صرف و نحو، طبعی، فلسفہ، ہیئت و طبابت پڑھنے والے کے واسطے یہ ضروری امر نہیں ہے کہ وہ صوم و صلوٰۃ کا پابند ہو۔ اوامر الٰہی اور نواہی کو ہر وقت مد نظر رکھتا ہواپنے ہر فعل و قول کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی حکومت کے نیچے رکھے۔ بلکہ بسا اوقات کیا عموماً دیکھا گیا ہے کہ دنیوی علوم کے ماہر اور طلب گار دہریہ منش ہوکر ہر قسم کے فسوق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں۔آج دنیا کے سامنے ایک زبردست تجربہ موجود ہے۔ یورپ اور امریکہ باوجودیکہ وہ لوگ ارضی علوم میں بڑی بڑی ترقیاں کر رہے ہیں اور آئے دن نئی ایجادات کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی روحانی اور اخلاقی حالت بہت کچھ قابل شرم ہے۔ لنڈن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے حالات جو کچھ شائع ہوئے ہم تو ان کا ذکر بھی نہیں کرسکتے۔ مگر علومِ آسمانی اور اسرارِ قرآنی کی واقفیت کے لئے تقویٰ پہلی شرط ہے۔ اس میں توبۃ النصوح کی ضرورت ہے۔جب تک انسان پوری فروتنی اور انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کو نہ اٹھالے اور اس کے جلال اور جبروت سے لرزاں ہو کر نیاز مندی کے ساتھ رجوع نہ کرے قرآنی علوم کا دروازہ نہیں کھل سکتا اور روح کے ان خواص اور قویٰ کی پرورش کا سامان اس کو قرآن شریف سے نہیں مل سکتا جس کو پا کر روح میں ایک لذّت اور تسلّی پیدا ہوتی ہےقرآن شریف اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اس کے علوم خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ پس اس کے لئے تقویٰ بطور نردبان۱کے ہے۔پھر کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے کہ بے ایمان، شریر، خبیث النفس، ارضی خواہشوں کے اسیر اِن سے بہرہ ور ہوں۔ اس واسطے اگر ایک مسلمان مسلمان کہلا کر خواہ وہ صرف و نحو، معانی و بدیع وغیرہ علوم کا کتنا ہی بڑا فاضل کیوں نہ ہو دنیا کی نظر میں شیخ الکُل فی الکُل بنا بیٹھا ہو لیکن اگر تزکیہ نفس نہیں کرتا قرآن شریف کے علوم سے اس کو حصہ نہیں دیا جاتا۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۸۴-۳۸۵، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)

قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرے۔ یہ یاد رکھو کہ قرآن شریف میں ایک عجیب و غریب اور سچا فلسفہ ہے۔ اس میں ایک نظام ہے جس کی قدر نہیں کی جاتی۔ جب تک نظام اور ترتیب قرآنی کو مدّنظر نہ رکھا جاوے اوراس پر پورا غور نہ کیا جاوے، قرآن شریف کی تلاوت کے اغراض پورے نہ ہوں گے۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۲۸۵، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

۱: زینہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button