متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

(عابد وحید خان۔ انچارج پریس اینڈ میڈیا آفس)

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز

(دورہ ٔجرمنی و بیلجیم۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ پنجم)

احمدیوں کے جذبات

مَیں ایک اَور چھبیس سالہ احمدی تنویر احمد سے بھی ملا جو ربوہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک سال قبل چار ماہ کے ایک مشکل سفر کے بعد دبئی، لیبیا، اٹلی اور آسٹریا سے ہوتے ہوئے بالآخر جرمنی پہنچے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ جرمنی کے سفر کے دوران انہیں بہت سخت اور پریشان کن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم یہ سفر وسیلۂ ظفر تھا کیونکہ اس نے انہیں پاکستان میں ہونے والے شدید ظلم و ستم سے نجات دلائی۔

جب ہم بات کر رہے تھے تو تنویر صاحب نے اپنی پتلون کے پائنچہ کو کچھ انچ اوپر کیا اور مجھے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندوں کے حملے کے بعد کا ایک بہت بڑا زخم دکھایا۔

زخم دکھانے کے بعد تنویر صاحب نے کہا کہ انہوں نے مجھ پر ایک ہی وجہ سے حملہ کیا تھا کہ مَیں احمدی مسلمان تھا۔ حملے کے بعد بھی وہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے، بلکہ میرے والد صاحب کومسلسل دھمکاتے تھے کہ وہ ان کے دو بچوں کو زندہ جلا دیں گے۔ ہم نے صبر کیا کیونکہ یہی حضورِ انور کی ہدایت تھی۔ اگر حضور نے ہمیں اپنے دفاع کی اجازت دی ہوتی تو ہم ایک لمحے کے لیے بھی انتظار نہ کرتے، مگر پاکستان میں تمام احمدیوں کو یہی ہدایت ملتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھیں۔

تنویر صاحب نے کہا کہ الحمدللہ! اب ہم نے اس صبر کے ثمرات کا نظارہ کیا ہے۔ اب مَیں آزادی سے سانس لے سکتا ہوں۔ اب مَیں آزادی سے بات کر سکتا ہوں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب مَیں اپنے محبوب خلیفہ سے مل سکتا ہوں جیسا کہ آج ہوا۔ ان کے خوبصورت سراپے نے مجھے مسحور کر دیا، ان کی نورانیت میرے تصور سے بھی زیادہ تھی، وہ میرے لیے ایک پاکیزہ نمونہ ہیں۔

حضورِانورسے ملنے والے ایک اَور شخص سینتیس سالہ محمد جاوید تھے، جنہوں نے ١٩٩٠ء کی دہائی کے اواخر میں اپنے بھائیوں کے ہمراہ احمدیت قبول کی تھی۔

وہ نَو ماہ قبل پاکستان سے پیدل سفر کر کے جرمنی پہنچے تھے۔ مجھے ان کے سفر کے بارے میں سن کر حیرت ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ صبر آزماسفر دو سال اور چھ ماہ پر محیط تھا اور انہوں نے ایران، ترکی، یونان، مونٹینیگرو(Montenegro)، سربیا، کروشیا، اٹلی کا سفر کیا اور آخرکار جرمنی پہنچے۔

محمد جاوید صاحب نے بتایا کہ یقیناً جرمنی پہنچنا آسان نہیں تھا اور سب سے مشکل مرحلہ سربیا میں تھا جہاں بارڈر پر مجھے زدوکوب کیاگیا، مگر کسی طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے زندہ رہنے کی ہمت عطا فرمائی اور حضورِانور سے ملاقات نے تمام درد اور مشکلات کو قابلِ قدر بنا دیا۔ مَیں الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا اور دعا کرتا ہوں کہ میرا خاندان، جو پاکستان میں ہے جلد میرے پاس آ سکے اور خلافت کی برکتوں سے مستفیض ہو سکے۔

پاکستان میں بہت سے احمدی مسلمانوں کی مشکلات اور ان کی جانوں کو درپیش خطرات کا سن کر دل کو بہت تکلیف پہنچی کہ کس طرح بہت سے لوگوں نے ظلم و ستم سے بچنے اور حضورانور کی قربت کے لیے اپنی زندگیاں داؤ پر لگائیں۔

خوشی، خوشی اور مزید خوشی!

حضورِانور کے دورے کے دوران مَیں نے مختلف مواقع پر ایک تیس سالہ نوجوان مبلغ حافظ خلیق بشیر سے ملاقات کی۔ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ گھانا سے جرمنی جلسہ میں شرکت کے لیے آئے تھے۔

حالانکہ مَیں پہلی مرتبہ خلیق صاحب سے مل رہا تھا، لیکن ان سے پہلے اِی میل کے ذریعے رابطہ رہا تھا۔

خلیق صاحب فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں قرآن مجید حفظ کرنے کے لیے ربوہ چلے گئے اور پھر اپنے آبائی علاقے میں واپس آگئے۔ ٢٠٠٧ء سے ٢٠١٤ء تک انہوں نے جامعہ احمدیہ ربوہ میں تعلیم حاصل کی اور شاہد کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد ٢٠١٦ء میں انہیں گھانا بھیجا گیا، جہاں وہ اس وقت بچوں کو قرآن مجید حفظ کرانے کے لیے مدرسۃ الحفظ میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔

خلیق صاحب نے بتایا کہ اگرچہ وہ کم سن تھے لیکن انہیں مختلف مواقع پر ربوہ میں حضورِانور کو دیکھنا یاد تھا، جب حضورِانور خلیفہ بننے سے قبل بطور ناظرِ اعلیٰ خدمات سر انجام دے رہے تھے۔

خلیق صاحب نے بتایا کہ حضورِانور مدرسۃ الحفظ ربوہ کا معائنہ کرنے تشریف لایا کرتے تھے تاکہ مدرسے اور اس میں پڑھنے والے بچوں کی حالت کا معائنہ فرما سکیں۔

ایک واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے خلیق صاحب نے کہا کہ ایک مرتبہ حضور جب ناظر اعلیٰ تھے تو انہوں نے مدرسۃ الحفظ کا دَورہ کیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ حضورِانور نے سُوٹ اور جناح کیپ پہن رکھی تھی۔ اس وقت مَیں بہت کمزوری محسوس کر رہا تھا اور ایک طرف ہو کر بیٹھا ہواتھا۔ حضورِانور نے پرنسپل صاحب سے دریافت فرمایا کہ مَیں کیوں بیٹھا ہوں اس پر مَیں نے خود اُٹھ کر حضورِانور کو بتایا کہ مَیں بیمار ہوں۔ یہ سماعت فرما کر حضورِانور نے انتہائی محبّت سے اپنے دستِ مبارک کو میری پیشانی پر رکھا تاکہ بخار چیک کر سکیں اور پھر ذاتی طور پر میرے لیے ہومیوپیتھی دوائی تجویز فرمائی۔ یہی طریق تھا جس سے حضورِانور بچوں کا خیال فرمایا کرتے تھے۔

خلیق صاحب نے مزید کہا کہ معائنے کے بعد حضورِانور نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ مدرسۃ الحفظ میں داخل بچوں کے ہاسٹل کے اخراجات معاف کر دیے جائیں۔ پہلے ہمیں ایسی فیس دینا پڑتی تھی جو ہماری خوراک اور دیگر کچھ اخراجات کو پورا کرتی تھی۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی محسوس ہوا کہ حضورِانور کی تشریف آوری کے بعد ہمارے کھانے کے معیار میں بھی بہتری آئی اور یہ سب حضورِانور کی بچوں کے لیے ذاتی توجہ اور خیال کا نتیجہ تھا اور یہ کہ وہ چاہتے تھے کہ طلبہ ہر لحاظ سے آرام میں ہوں۔

خلیق صاحب نے مبلغ کی حیثیت سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ربوہ میں مختلف جماعتی دفاتر میں کچھ وقت تربیت حاصل کرنے میں گزارا، اس کے بعد انہیں اطلاع ملی کہ انہیں گھانا بھیجا جا رہا ہے۔ روانگی کے وقت ان کی اہلیہ جو خود بھی قرآن مجید حفظ کر چکی تھیں، چھ ماہ کی حاملہ تھیں۔

اس وقت کے بارے میں بتاتے ہوئے خلیق صاحب نے بیان کیا کہ جب میری اہلیہ حاملہ تھیں تو انہیں چھوڑ کر جانا آسان نہیں تھا اور اپنی بیٹی کی ولادت کے بعد مَیں انہیں چھ ماہ تک مل بھی نہیں سکا تھا۔ تاہم ایک طرح سے مجھے ان سے جدا ہونے پر فخر اور خوشی محسوس ہوئی کیونکہ مَیں جانتا تھا کہ ہم جماعت کی خاطر جدا ہو رہے ہیں اور مَیں اسے ایک اعزاز سمجھتا تھا۔ میری اہلیہ کو بھی اس حقیقت کا ادراک حاصل تھا کہ مَیں ایک مبلغ ہوں اور اس طرح کی جدائیاں اور آزمائشیں ہماری زندگی کا حصّہ ہو تی ہیں۔

خلیق صاحب نے مزید کہا کہ سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ مَیں اس ملک میں خدمت بجا لا رہا ہوں جہاں حضورِانور رَہ چکے ہیں اور جس سے آج بھی ان کو بہت محبّت ہے۔ بظاہر وہاں کے حالات پاکستان سے زیادہ مشکل ہیں، لیکن مَیں کبھی ایسی چیزوں کی فکر نہیں کرتا اور ہمیشہ سوچتا ہوں کہ آج گھانا میں حالات اتنے آسان ہیں، جتنے پینتیس برس قبل حضورِانور اور آپا جان کے یہاں قیام کے دوران نہیں تھے۔

مَیں نے خلیق صاحب سے پوچھا کہ انہوں نے گھانا میں اپنے مختصر وقت میں کیا سیکھا یا کیا مشاہدہ کیا؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ سب سے بڑھ کرمَیں نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ گھانا میں افراد جماعت کی خلافت کے لیے محبّت اور عقیدت کے جذبات بہت زیادہ ہیں۔شاید پاکستان کے احمدیوں سے بھی بڑھ کر ہوں۔ اطاعتِ خلافت کے معیار ناقابلِ یقین ہیں۔مَیںحالانکہ ایک مبلغ ہوںلیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے مَیں گھانا کے لوگوں سے پیچھے ہوں۔

جرمنی کے دَورے کے دوران خلیق صاحب اور ان کی اہلیہ کو پہلی مرتبہ حضورِانور سے ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ملاقات کے بعد خلیق صاحب نے بتایا کہ مَیں نے کئی سالوں سے آپ کی ڈائریاں پڑھی ہیں اورایم ٹی اےپر بے شمار بار حضورِانور کی زیارت بھی کی ہے، لیکن مجھے آج پتا چلا کہ حضورِانور کی بالمشافہ زیارت کرنا بالکل ہی مختلف اور ایک الگ ہی بات ہے۔حضورِانور ہمارے ساتھ محبّت بھرے انداز سے پیش آئے اور حضورِانور کو بے تکلف انداز میں دیکھ کر مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی۔ حضورِانور نے ہم سے اس طرح گفتگو فرمائی کہ ہمیں لگا کہ وہ ہمیں بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔

خلیق صاحب نے مزید کہا کہ غالب احساس خوشی ہے! خوشی، خوشی اور مزید خوشی! ہمیشہ میرا خواب اور خواہش تھی کہ حضورِانور کو میرے بارے میں علم ہو۔ یہ میرے لیے کافی تھا اور مجھے لگتا ہے کہ اب حضورِانور مجھے پہچانتے ہیں اور میرا نام جانتے ہیں۔ اس سے بڑا اِعزاز اور کیا ہو سکتا ہے کہ اللہ کی سب سے محبوب ہستی کو میرا نام معلوم ہو!

(مترجم:قمر احمد ظفر۔انتخاب:مظفرہ ثروت)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button