آریوں کا پرمیشر قادر نہیں ہے
آریہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن شریف میں لکھا ہے خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ (البقرۃ:۸) کہ خدا نے دلوں پر مہر کر دی ہے تو اس میں انسان کا کیا قصور ہے؟ یہ ان لوگوں کی کوتاہ اندیشی ہے کہ ایک کلام کے ما قبل اور ما بعد پر نظر نہیں ڈالتے ورنہ قرآن شریف نے صاف طور پر بتلایا ہے کہ یہ مُہر جو خدا کی طرف سے لگتی ہے یہ دراصل انسانی افعال کا نتیجہ ہے کیونکہ جب ایک فعل انسان کی طرف سے صادر ہوتا ہے تو سنّت اللہ یہی ہے کہ ایک فعل خدا کی طرف سے بھی صادر ہو جیسے ایک شخص جب اپنے مکان کے دروازے بند کر دے تو یہ اس کا فعل ہے اور اُس پر خدا کا فعل یہ صادر ہوگا کہ اس مکان میں اندھیرا کر دے کیونکہ روشنی اندر آنے کے جوذریعے تھے وہ اس نے خود اپنے لیے بند کر دیئے۔اسی طرح اس مہر کے اسباب کا ذکر خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں دوسری جگہ کیاہے جہاں لکھا ہے فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ (الصّف:۶) کہ جب انہوں نے کجی اختیار کی تو خدا نے ان کو کج کر دیا۔اسی کا نام مُہر ہے لیکن ہمارا خدا ایسا نہیں کہ پھر اس مہر کو دُور نہ کرسکے چنانچہ اس نے اگر مہر لگنے کے اسباب بیان کئے ہیں تو ساتھ ہی وہ اسباب بھی بتلا دیئے ہیں جن سے یہ مہر اٹھ جاتی ہے جیسے کہ یہ فرمایا ہے فَاِنَّهٗ كَانَ لِلْاَوَّابِيْنَ غَفُوْرًا(بنی اسرآئیل: ۲۶) لیکن کیا آریوں کا پرمیشر ایسا ہے کہ تناسخ کی رو سے جو مہر وہ ایک انسان پر لگا تا ہے پھر اسے اٹھا سکے؟ گناہ کا یہ نتیجہ ضرور ہوتا ہے کہ وہ دوسرے گناہ کی انسان کو جرأ ت دلا تا ہے اور اس سے قساوت قلبی پیدا ہوتی ہے حتی کہ گناہ انسان کو مرغوب ہو جاتا ہے لیکن ہمارے خدا نے تو پھر بھی توبہ کے دروازے کھولے ہیں کہ اگر کوئی شخص نا دم ہو کر خدا کی طرف رجوع کرے تو وہ بھی رجوع کرتا ہے مگر آریوں کے لیے یہ کہاں نصیب؟ ان کا پرمیشر جو مہر لگا تا ہے اسے اکھا ڑ نے پر تو وہ خود بھی قادر نہیں ہے پس اس میں مسئلہ تقدیر کا اعتراض آریوں پر ہے نہ کہ اہل اسلام پر۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۲۶۹ تا ۲۷۰۔ مطبوعہ ۲۰۱۶ء)