حضرت خُبیبؓ کی شہادت (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۳۱؍مئی ۲۰۲۴ء)
حضرت خبیبؓ کے شہید کیے جانے کا ذکر ہو رہا تھا۔اس کی مزید تفصیل میں یہ لکھا ہے کہ یہ پہلے صحابی تھے جن کو لکڑی پر باندھ کر شہید کیا گیا۔یعنی صلیب کی طرح لٹکا کر شہید کیا گیا۔ علامہ ابن اَثِیرجزری لکھتے ہیں کہ حضرت خبیبؓ پہلے صحابی تھے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر صلیب دیے گئے۔ (اسد الغابہ جلد ۲صفحہ۱۵۶ دار الکتب العلمیۃ بیروت ۲۰۰۳ء)
ایک روایت میں ہے کہ قریش نے حضرت خبیبؓ سے کہا کہ اگر تم اسلام سے رجوع کر لو تو ہم تمہارا راستہ چھوڑ دیں گے لیکن اگر تم نے رجوع نہ کیا تو ہم تمہیں قتل کر دیں گے۔ حضرت خبیبؓ نے کہا:
اللہ کے راستے میں میرا قتل تو ایک معمولی بات ہے۔پھر گویا ہوئے:اے اللہ! یہاں کوئی ایسا نہیں جو اس وقت تیرے رسولؐ تک میرا سلام پہنچا دے اس لیے اے خدا! تُو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا سلام پہنچا دے اور آپؐ کو بتا دے جو یہاں ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ (سیرت حلبیہ جلد۳ صفحہ ۲۳۵دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو وحی نازل ہونے کے وقت طاری ہوا کرتی تھی۔ ہم نے آپؐ کو فرماتے ہوئے سنا:وَعَلَیْہِ السَّلَامُ ورَحْمَۃُاللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ یعنی اُس پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سے وحی کے آثار ختم ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :یہ جبرئیل تھے وہ مجھے خبیب کا سلام پہنچا رہے تھے۔ خبیب کو قریش نے قتل کر دیا۔
روایت ہے کہ قریش نے ایسے چالیس آدمیوں کو حضرت خبیبؓ کے قتل کے وقت بلایا جن کے باپ دادا جنگِ بدر میں قتل ہوئے تھے۔ پھر قریش کے ان لوگوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک نیزہ دے کر کہا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے تمہارے باپ داد ا کو قتل کیا تھا۔ (سیرت حلبیہ جلد۳ صفحہ ۲۳۶دارالکتب العلمیۃ بیروت)
تو ان لوگوں نے خبیب کو اپنے نیزوں کے ساتھ ہلکی ہلکی ضربیں لگائیں اس پر حضرت خبیبؓ صلیب پر بے چین ہونے لگے۔ پھر خبیب پلٹے تو ان کا چہرہ کعبہ کی طرف ہو گیا۔ انہوں نے کہا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میرے چہرے کو اپنے قبلہ کی جانب کر لیا جو اس نے اپنے لیے پسند کیا ہے۔
پھر مشرکین نے خبیب کو قتل کر دیا۔ (سبل الھدیٰ جلد۶، صفحہ۴۴ دارالکتب العلمیۃ بیروت)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین نے پہلے حضرت خبیب ؓکو نیزے چبھوئے، شدید اذیّت دی اور پھر قتل کیا۔ جبکہ بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خبیبؓ نے جب اپنے اشعار ختم کیے تو عُقْبہ بن حارث ان کے پاس آیا اور اس نے حضرت خبیبؓ کو قتل کر دیا۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع … حدیث ۴۰۸۶)
عُقْبہ بن حارث کی کنیت ابو سِروَعہ بیان ہوئی ہے۔اور بعض روایات میں ذکر ہے کہ ابو سروعہ عقبہ بن حارث اس وقت چھوٹا تھا۔ اس کے ہاتھ میں نیزہ دیا گیا مگر وار ابو مَیْسَرہ عَبْدَرِی نے کیا۔ یعنی بچے کے ہاتھ میں بدلہ لینے کے لیے نیزہ پکڑایا لیکن اس پہ زور دوسرے بڑے آدمی نے لگایا۔ بعض علماء نے ابوسروعہ الگ نام ذکر کیا ہے اور عقبہ بن حارث کو اس کا بھائی لکھا ہے۔ جب ابومیسرہ نے وار کیا تو کارگر ثابت نہ ہوا جس پر ابوسروعہ نے آگے بڑھ کر نیزے سے کام تمام کر دیا۔ بعد میں عقبہ بن حارث نے جو کہ فتح مکہ کے وقت اسلام لے آئے تھے انہوں نے بیان کیا کہ مَیں ابھی چھوٹا تھا اور ابومیسرہ عَبْدَرِی نے میرے ہاتھ میں برچھی یا نیزہ دیا اور خود میرے ہاتھ کے ذریعہ سے خبیب کو مارا۔ (دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد ۷صفحہ۱۴۸-۱۴۹ مطبوعہ بزم اقبال لاہور)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کےبارےمیں لکھا ہے کہ’’رؤسائے قریش کی قلبی عداوت کے سامنے رحم وانصاف کا جذبہ خارج از سوال تھا۔ چنانچہ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ بنو الحارث کے لوگ اوردوسرے رؤساء قریش خبیب کو قتل کرنے اوراس کے قتل پر جشن منانے کے لئے اسے ایک کھلے میدان میں لے گئے۔ خبیب نے شہادت کی بُو پائی تو قریش سے الحاح کے ساتھ کہا کہ مرنے سے پہلے مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ قریش نے جو غالباً اسلامی نماز کے منظر کو بھی اس تماشہ کاحصہ بنانا چاہتے تھے اجازت دے دی اور خبیب نے بڑی توجہ اورحضورِقلب کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کی اور پھر نماز سے فارغ ہوکر قریش سے کہاکہ’’میرا دل چاہتا تھا کہ مَیں اپنی نماز کو اَور لمبا کروں، لیکن پھرمجھے یہ خیال آیا کہ کہیں تم لوگ یہ نہ سمجھو کہ مَیں موت کو پیچھے ڈالنے کے لئے نماز کو لمبا کر رہا ہوں۔‘‘
اور پھر خبیب یہ اشعار پڑھتے ہوئے آگے جھک گئے
وَمَا اَنْ اُبَالِیْ حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا
عَلٰی اَیِّ شِقٍّ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ
وَذَالِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِلٰہِ وَاِنْ یَّشَاء
یُبَارِکْ عَلٰی اَوْصَالِ شَلْوٍ مُمَزَّعِ
یعنی ’’جبکہ مَیں اسلام کی راہ میں اورمسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے یہ پرواہ نہیں ہے کہ مَیں کس پہلو پرقتل ہوکر گروں۔ یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے اور اگر میرا خدا چاہے گا تو میرے جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکات نازل فرمائے گا۔‘‘ غالباً ابھی خبیب کی زبان پران اشعار کے آخری الفاظ گونج ہی رہے تھے کہ عقبہ بن حارث نے آگے بڑھ کر وار کیا اور یہ عاشقِ رسولؐ خاک پر تھا۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ قریش نے خبیب کوایک درخت کی شاخ سے لٹکا دیا تھا اورپھر نیزوں کی چوکیں دے دے کر قتل کیا۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ۵۱۵)
حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ’’جب ان کے قتل کا وقت آن پہنچا توخبیبؓ نے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ قریش نے ان کی یہ بات مان لی اور خبیبؓ نے سب کے سامنے اِس دنیا میں آخری بار اپنے اللہ کی عبادت کی۔ جب وہ نماز ختم کر چکے تو انہوں نے کہا کہ مَیں اپنی نماز جاری رکھنا چاہتا تھا مگر اس خیال سے ختم کر دی ہے کہ کہیں تم یہ نہ سمجھو کہ مَیں مرنے سے ڈرتا ہوں۔پھر آرام سے اپنا سر قاتل کے سامنے رکھ دیااور ایسا کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے۔
وَلَسْتُ اُبَالِیْ حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا
عَلٰی اَیِّ جَنْبٍ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ
وَذٰلِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِلٰہِ وَاِنْ یَّشَأْ
یُبَارِکُ عَلٰی اَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعٖ
یعنی جبکہ مَیں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے پرواہ نہیں ہے کہ مَیں کس پہلو پر قتل ہو کر گروں۔ یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے اور اگر میرا خدا چاہے گا تو میرے جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکات نازل فرمائے گا۔ خبیبؓ نے ابھی یہ شعر ختم نہ کئے تھے کہ جلاد کی تلوار ان کی گردن پر پڑی اور ان کا سر خاک پر آگرا۔ (دیباچہ تفسیر القرآن،انوار العلوم جلد ۲۰صفحہ۲۶۲)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضرت خبیبؓ پہلے تھے جنہوں نے قتل سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کی سنّت قائم کی تھی۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع … حدیث ۴۰۸۶)