بچوں کا الفضل

مجلس اطفال الاحمدیہ۔ ایک تعارف

حضرت مصلح موعودؓ نے اطفال الاحمدیہ کے قائم کرنے کا ارشاد 15؍اپریل 1938ء کو بیت اقصیٰ قادیان میں خطبہ جمعہ کے دوران ان الفاظ میں فرمایا: ’’ہر مقام کے احمدی نوجوان جہاں خود خدام الاحمدیہ میں شامل ہوں۔ وہاں سات سے پندرہ سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے مجلس اطفال الاحمدیہ قائم کریں۔‘‘(الفضل قادیان22 اپریل 1938ء)

اطفال کے معنے ہیں لڑکے یا بچے۔

پھر 26 جولائی 1940ء کو حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے ’’ مجلس اطفال الاحمدیہ‘‘ کو منظم کرنے کے لیے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ (الفضل یکم؍اگست 1940ء)

ملکی سطح پر مہتمم اطفال صدر مجلس خدام الاحمدیہ کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔ خدام الاحمدیہ کی ہر مقامی تنظیم مقامی طور پر (لوکل،ضلع اور علاقہ کی مجلسِ عاملہ میں) ایک خادم کو بطور ناظم اطفال مقرر کرتی ہے۔ دیگر عہدیدار سیکرٹری کہلاتے ہیں۔

اس کے علاوہ بڑی عمر کے کسی شخص کو مربی اطفال کے طور پر مقرر کیا جاتا ہے۔ ملکی سطح پر اطفال الاحمدیہ کا سربراہ مہتمم اطفال جبکہ مقامی سطح پر ناظم اطفال کہلاتا ہے۔ کام میں مزید آسانی کے لیے اطفال الاحمدیہ میں شامل لڑکوں کو دو معیار میں تقسیم کیا گیا ہے۔

معیار صغیر: 7 سے 12 سال

معیار کبیر: 13 سے 15سال

مجلس اطفال الاحمدیہ کی اغراض و مقاصد

اطفال الاحمدیہ کی اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: میں نے انصار اللہ، خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ تین الگ الگ جماعتیں قائم کی ہیں۔تاکہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی نقل کا مادہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ پیدا ہو۔ بچے بچوں کی نقل کریں، نوجوان نوجوانوں کی نقل کریں اور بوڑھے بوڑھوں کی نقل کریں۔ جب بچے اور نوجوان اور بوڑھے سب اپنی اپنی جگہ یہ دیکھیں گے کہ ہمارے ہم عمر دین کے متعلق رغبت رکھتے ہیں وہ اسلام کی اشاعت کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اسلامی مسائل کو سیکھنے اور ان کو دنیا میں پھیلانے میں مشغول ہیں۔ وہ نیک کاموں کی بجاآوری میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں تو ان کے دلوں میں بھی یہ شوق پیدا ہو گا کہ ہم بھی ان نیک کاموں میں حصہ لیں اور اپنے ہم عمروں سے نیکی کے کاموں میں آگے نکلنے کی کوشش کریں۔ دوسرے وہ جو رقابت کی وجہ سے عام طور پر دلوں میں غصہ پیدا ہوتا ہے وہ بھی پیدا نہیں ہوگا۔ جب بوڑھا بوڑھے کو نصیحت کرے گا، نوجوان نوجوان کو نصیحت کرے گا اور بچہ بچے کو نصیحت کرے گا تو کسی کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوگا کہ مجھے کوئی ایسا شخص نصیحت کر رہا ہے جو عمر میں مجھ سے چھوٹا یا عمر میں مجھ سے بہت بڑا ہے۔ وہ سمجھے گا کہ میرا ایک ہم عمر جو میرے جیسے خیالات اور میرے جیسے جذبات اپنے اندر رکھتا ہے مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس وجہ سے اس کے دل پر نصیحت کا خاص طور پر اثر ہوگا اور وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائے گا۔مگر یہ تغیّر اسی صورت میں پیدا ہوسکتا ہے جب جماعت میں یہ نظام پورے طور پر رائج ہوجائے۔(مشعل راہ جلد اول صفحہ 370)

علیم و تربیت اور نگرانی

حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ ’’اگر یہ تین عادتیں ان میں پیدا کردی جائیں تویقینا ًجوانی میں ایسے بچے بہت کارآمد اور مفیدثابت ہوسکتے ہیں پس بچوں میں محنت کی عادت پیدا کی جائے،سچ بولنے کی عادت پیدا کی جائےاورنمازوں کی باقاعدگی کی عادت پیدا کی جائے۔ ‘‘(مشعل راہ جلد چہارم صفحہ61)

فرمایا کہ’’اطفال کے لیے میں نے ضروری امر قرار دیا ہے کہ انہیں موٹے موٹے دینی مسائل سکھائے جائیں اور وہ باتیں بتائی جائیں جو مذہب کی بنیاد ہوتی ہیں۔ اس طرح میرا مقصد اطفال الاحمدیہ کے قیام سے یہ ہے کہ کھیل کود میں بچوں کی نگرانی کی جائے۔‘‘ (مشعل راہ جلد چہارم صفحہ199)

جماعت احمدیہ کی ایک دیوار

حضرت مصلح موعودؓ اطفال الاحمدیہ کو جماعتی عمارت کی ایک دیوار قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’میری غرض انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم سے یہ ہے کہ عمارت کی چاروں دیواروں کو میں مکمل کردوں۔ ایک دیوار انصار اللہ ہیں۔ دوسری دیوار خدام الاحمدیہ ہیں اور تیسری دیوار اطفال الاحمدیہ اور چوتھی دیوار لجنات اماء اللہ ہیں۔ اگر یہ دیواریں ایک دوسری سے علیحدہ علیحدہ ہو جائیں تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوسکے گی۔‘‘ (الفضل 30جولائی 1945ءصفحہ 5)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button