خلاصہ خطبہ جمعہ

غزوۂ بنو قریظہ کے تناظر میں سیرت نبویﷺ کا بیان: خلاصہ خطبہ فرمودہ یکم نومبر۲۰۲۴ء

٭… بنو قریظہ کے متعلق جس فیصلے کو ظالمانہ کہا جاتا ہے وہ سعد بن معاذؓ  کا فیصلہ تھااور جب وہ آپؐ کا فیصلہ ہی نہیں تھاتو اس کی وجہ سےآپؐ پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا

٭… جس شخص کے متعلق بھی آپؐ کے سامنے رحم کی اپیل پیش ہوئی آپؐ نے اُسے فوراً قبول کرکے نہ صرف ایسے لوگوں کی جان بخشی بلکہ ان کے بیوی بچوں اور اموال وغیرہ بھی اُنہیں واپس کردیے

٭… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود کے درمیان معاہدے کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر یہود کے متعلق کوئی اَمرقابل تصفیہ پیدا ہوگا تو اُس کا فیصلہ خود اُنہی کی شریعت کے ماتحت کیا جائے گا

٭…یہ واقعہ آپؐ کے اخلاق فاضلہ،حسن انتظام اور آپؐ کے فطری رحم و کرم کا ایک نہایت بین ثبوت ہے

٭…سعد ؓکا فیصلہ گو اپنی ذات میں سخت سمجھا جاوے مگر وہ ہرگز عدل و انصاف کے خلاف نہیں تھا اور پھر یہ فیصلہ یہودی شریعت کے عین مطابق تھا

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم نومبر۲۰۲۴ء بمطابق یکم نبوت۱۴۰۳ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ یکم نومبر۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

غزوہ بنو قریظہ کی مزید تفصیل یوں ہےکہ

اس غزوہ میں دو مسلمان حضرت خلاد بن سویدؓ اور حضرت منذربن محمدؓ  شہید ہوئےجبکہ

بنو قریظہ کے یہود کے قتل ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے

مختلف روایات میں چھ سو، سات سو، آٹھ سو، نو سوکی تعداد بیان ہوئی ہے لیکن حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ  تحقیق کے مطابق لکھتے ہیں کہ کم و بیش چار سو آدمی اُس دن سعدؓ کے فیصلے کے مطابق قتل کیے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ ؓکو حکم دے کر ان مقتولین کو اپنے انتظام میں دفن کروایا۔

مخالفین اسلام مبالغہ کی حد تک تعداد بیان کر کے اسلام کو ظالم مذہب ہونا قرار دیتے ہیں۔

اس زمانے کے ایک احمدی سکالر سید برکات صاحب نے بھی اس پہ بڑی تحقیق کرکے اپنی کتاب رسول اکرمؓ اور یہود حجاز میں لکھا ہے کہ آنکھیں بند کر کے سب روایات کو مانتے چلے جانا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔چھ سو سے نو سوقتل ہونے والے مردمع اُن کی عورتوں اور بچوں کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ چھ ہزار سے کم نہیں ہوگی۔ مدینہ میں ان کو رسیوں سے باندھ کر لایا گیا،دو گھروں میں رکھا گیا،اُن کے کھانے پینے کی سہولیات، قضائے حاجت کے لیے اتنی بڑی تعداد کو لے جانا، کسی کا بھی فرار ہونے کی کوشش نہ کرنااور راتوں رات مدینے کے ایک بازار میں چھ سوافراد کے قتل کے لیے گڑھے کھدوا دینا، حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ  کا ہی ان سب کو قتل کرنا،ان دونوں اصحاب کا کبھی بھی اس واقعے کا ذکر نہ کرنااوربخاری اور مسلم میں مقتولین کی تعداد کا ذکر نہ کرنا۔ اس طرح کی کچھ اور دیگر باتیں راہنمائی کرتی ہیں کہ

ان روایات پرازسرنو غور کیے جانا کہ کہیں زیادہ ہی مبالغہ آمیزی سے کام نہ لیا گیا ہو۔ بخاری میں لفظ مقاتلۃ استعمال ہوا یعنی جنگ کرنے والے قتل کردیے جائیں

عام مؤرخین، شارحین اور سیرت نگاروں نے اس لفظ کو وسیع کرتے ہوئے اس کا ترجمہ جنگ کے قابل سے مُراد ہر بالغ مرد لے لیا گیا لیکن جن کا رجحان تھوڑی تعداد کی طرف گیا ہے انہوں نے مقاتلۃ کےلفظ کا ترجمہ محدود رکھا ہے اور مُراد صرف اس جنگ میں شامل ہونے والے مرد لیے جو کہ ان کی تحقیق کے مطابق بیس سے زیادہ نہیں اوریہ کسی حد تک معقولیت کا پہلولیے ہوئے ہے۔

بعض باتیں ان کی بہرحال معقول ہیں اور ان کوتحقیق میں بنیاد بنایا جا سکتا ہے

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے غزوہ بنو قریظہ میں قتل ہونے والے یہودیوں کی تعداد پر ہونے والے غیر مسلم مؤرخین کے اعتراضات کے جواب میں بیان فرمایا ہے کہ بنو قریظہ کے واقعہ کے متعلق بعض غیر مسلم مؤرخین نے نہایت ناگوار طریقے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حملےکیے ہیں اور ان کم و بیش چار سو یہودیوں کی سزائے قتل کی وجہ سے آپؐ کو ایک نعوذ باللہ ظالم و سفاک فرمانروا کے رنگ میں پیش کیا ہے۔ اس اعتراض کی بنا مذہبی تعصب پر واقع ہے۔بعض مسلمان بھی ان کے زیرِ اثر آگئے۔

اس اعتراض کے جواب میں اوّل تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بنو قریظہ کے متعلق جس فیصلے کو ظالمانہ کہا جاتا ہے وہ سعد بن معاذؓ کا فیصلہ تھااور جب وہ آپؐ کا فیصلہ ہی نہیں تھاتو اس کی وجہ سے آپؐ پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے یہ فیصلہ حالات پیش آمدہ کے ماتحت ہرگز غلط اور ظالمانہ نہیں تھا۔ تیسری بات یہ کہ اس عہد کی وجہ سے جو سعدؓ نے فیصلہ کے اعلان سے قبل آپؐ سے لیا تھاآپؐ اس بات کے پابند تھے کہ بہرحال اس کے مطابق عمل کرتے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ جب خود مجرموں نے اس فیصلے کو قبول کیا اور اس پر اعتراض نہیں اُٹھایا اور جیسا کہ حیی بن اخطب کے قتل کیے جانے کے وقت اُس کے الفاظ سے ظاہر ہے اُسے اپنے لیے خدائی تقدیر سمجھاتو اس صورت میں آپؐ کا یہ کام نہیں تھا کہ خوانخواہ اس میں دخل دینے کے لیے کھڑے ہو جاتے۔

سعدؓ کے فیصلے کے بعد اس معاملے کے ساتھ آپؐ کا تعلق صرف اس قدر تھا کہ آپؐ نے اپنی حکومت کے نظام کے ماتحت اس فیصلے کو ایسے رنگ میں جاری فرمایا کہ جو رحمت و شفقت کا بہترین نمونہ سمجھا جا سکتا ہے۔جس شخص کے متعلق بھی آپؐ کے سامنے رحم کی اپیل پیش ہوئی آپؐ نے اُسے فوراً قبول کرکے نہ صرف ایسے لوگوں کی جان بخشی بلکہ ان کے بیوی بچوں اور اموال وغیرہ بھی اُنہیں واپس کردیے۔

اس سے بڑھ کر ایک مجرم کے ساتھ رحمت اور شفقت کا سلوک کیا ہو سکتا ہے۔ پس نہ صرف بنوقریظہ کے واقعہ کے متعلق آپؐ پر قطعاًکوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا بلکہ حق یہ ہے کہ

یہ واقعہ آپؐ کے اخلاق فاضلہ،حسن انتظام اور آپؐ کے فطری رحم و کرم کا ایک نہایت بین ثبوت ہے۔

اب رہا اصل فیصلہ کا سوال۔سو تاریخ سے پتا لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےاُس وقت مدینہ میں آباد یہودیوں کے تین قبیلوں بنو قینقاع، بنو نضیراور بنو قریظہ کے ساتھ امن وامان کا ایک معاہدہ کیا جس کے مطابق مسلمان اور یہودی امن و امان کے ساتھ مدینہ میں رہیں گے،ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے،ایک دوسرے کے دشمنوں کو کسی قسم کی مدد نہیں دیں گے، اگر کسی بیرونی قبیلہ یا قبائل کی طرف سے مدینہ پر کوئی حملہ ہوگا تو سب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے،اگر معاہدہ کرنے والوں میں سے کوئی شخص یا گروہ اس معاہدہ کو توڑے گا یا فتنہ وفساد کا باعث بنے گا تو دوسروں کو اُس کے خلاف ہاتھ اُٹھانے کا حق ہوگا، تمام اختلافات اور تنازعات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوں گے اورآپؐ کا فیصلہ سب کے لیے واجب التعمیل ہوگا مگر یہ ضروری ہوگا کہ ہر شخص یا قوم کے متعلق اُسی کے مذہب اور اُسی کی شریعت کے مطابق فیصلہ کیا جاوے۔

اس معاہدہ پر سب سے پہلے قبیلہ بنو قینقاع نے بدعہدی کی اور مسلمانوں سے جنگ کی طرح ڈالی مگر جب وہ مسلمانوں کے سامنے مغلوب ہوئے تو آپؐ نے اُنہیں معاف فرما دیا اورصرف اس قدر احتیاطی تدبیر پر اکتفا کیا کہ وہ مدینہ سے نکل کر کسی دوسری جگہ جا کر آباد ہو جائیں تاکہ شہر کا امن برباد نہ ہو اور مسلمان اُن کے شر سے محفوظ ہو جائیں۔

زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ یہود کے دوسرے قبیلہ بنو نضیر نے بھی سَراُٹھایا اور سب سے پہلے اُن کے ایک رئیس کعب بن اشرف نے معاہدہ توڑ کر قریش اور دوسرے قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف ساز باز شروع کی اور بالآخرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی۔جب آپؐ کے حکم سے یہ شخص اپنے کیفر کردار کو پہنچا تو اُس کےقبیلہ نےآپؐ کے قتل کا منصوبہ باندھا۔ اُن کے خونی ارادوں کا علم ہونے پرجب آپؐ نے اُن کی تنبیہ اور سزا کا طریق اختیار کیا تو وہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کو تیار ہو گئے اور اس جنگ میں بنو قریظہ نے اُن کی اعانت کی۔

جب بنو نضیر مغلوب ہوئے تو آپؐ نے بنو قریظہ کو تو بالکل ہی معاف فرما دیا اور بنو نضیر کو مدینہ سے امن و امان کے ساتھ چلے جانے کی اجازت دے دی۔اس احسان کا بدلہ بنو نضیر نے یہ دیا کہ مدینے سے باہر جا کر مختلف قبائل عرب کے ساتھ مل کر ایک ٹڈی دل لشکر مدینہ پر چڑھا لائےاور سب سے یہ پختہ عہد لیا کہ جب تک اسلام کو نیست و نابود نہ کر لیں گے واپس نہیں جائیں گے۔ایسے خطرناک وقت میں یہود کے تیسرے قبیلہ بنوقریظہ نے عین اس وقت غداری کی جبکہ تین ہزار مسلمان نہایت بے سروسامانی اور بے بسی کی حالت میں کفار کےدس پندرہ ہزار جرار اور خونخوار لشکر سے گھرے ہوئے بیٹھے تھے اور موت اُنہیں اپنے سامنے دکھائی دیتی تھی۔بنو قریظہ مسلمان مستورات اور بچوں پر عقب سے حملہ آور ہو گئے۔

بنو قریظہ کا یہ فعل ایک بد عہدی اور غداری ہی نہیں تھا بلکہ ایک خطرناک بغاوت تھی۔

ایسے حالات میں ان کی بد عہدی غداری بغاوت اور اقدام قتل کے جرموں پر ان کی سزا سوائے اس کے کیا ہو سکتی تھی جو دی گئی۔ظاہر ہے کہ امکانی طور پر صرف تین سزائیں ہی دی جا سکتی تھیں اول مدینہ میں ہی قید یا نظر بندی، دوسرے جلا وطنی اور تیسرے جنگجو آدمیوں کا قتل اور باقیوںکی قید یا نظر بندی۔

پہلی سزا میں ایک دشمن قوم کا اپنے شہر میں قید رکھنا اس زمانہ کے لحاظ سے بالکل بیرون ازسوال تھا کیونکہ فتنہ انگیزی اور مفسدہ پردازی،شرارت اور خفیہ ساز باز کے لیے اُن کو وہی آزادی حاصل رہتی جو پہلے تھی البتہ اُن کے اخراجات کی ذمہ داری مسلمانوں پر آجاتی جس کے برداشت کرنے کی اُن میں ہرگز طاقت نہیں تھی۔

دوسری سزا یعنی جلاوطنی یعنی یہود کو مدینہ سے باہر نکل جانے کی اجازت دے دینا سوائے اس کے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا کہ نہ صرف یہ کہ عملی اور جنگجو معاندین اسلام کی تعداد میں اضافہ ہو جائے بلکہ دشمنان اسلام کی صف میں ایسے لوگ جا ملیں جو اپنے خطرناک اشتعال انگیز،معاندانہ پروپیگنڈا،خفیہ اور سازشی کارروائیوں کی وجہ سے ہر مخالف اسلام تحریک کے لیڈر بننے کے لیے بے چین تھے۔اُس زمانے کے حالات کے ماتحت مسلمانوں کا یہ فعل ہرگز خودکشی سے کم نہ ہوتا۔ مگرکیا دنیا کے پردے پر کوئی ایسی قوم ہے جو دشمن کو زندہ رکھنے کے لیے آپ خود کشی پر آمادہ ہو سکتی ہے۔اگر نہیں تو یقیناً مسلمان بھی اس وجہ سے زیر الزام نہیں سمجھے جاسکتے۔ پس یہ ہر دو سزائیں ناممکن تھیں اور ان میں سے کسی کو اختیار کرنا اپنے آپ کو یقینی تباہی میں ڈالنا تھا اور ان دو سزاؤں کو چھوڑ کر صرف وہی راستہ کھلا تھا جو اختیار کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ

مارگولیس جیسا مؤرخ بھی جو ہرگز اسلام کے دوستوں میں سے نہیں ہےاس موقع پر وہ بھی اس اعتراف پر مجبور ہوا ہے کہ سعدؓ  کا فیصلہ حالات کی مجبوری پر مبنی تھا جس کے بغیر چارہ نہیں تھا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود کے درمیان معاہدے کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر یہود کے متعلق کوئی اَمرقابل تصفیہ پیدا ہوگا تو اُس کا فیصلہ خود اُنہی کی شریعت کے ماتحت کیا جائے گا۔ تورات پر نگاہ ڈالیں تو وہاں اس قسم کے جرائم کی سزا جس کے مرتکب بنو قریظہ ہوئےبعینہٖ وہی لکھی ہوئی ہےجو سعد بن معاذؓ نے بنو قریظہ پر جاری کی۔ خلاصہ کلام یہ کہ

سعد ؓکا فیصلہ گو اپنی ذات میں سخت سمجھا جاوے مگر وہ ہرگز عدل و انصاف کے خلاف نہیں تھا اور پھر یہ فیصلہ یہودی شریعت کے عین مطابق تھا۔

مگر جو کچھ بھی تھا یہ فیصلہ سعدبن معاذؓ کا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں تھا۔آپؐ کا تعلق بحیثیت صدر حکومت صرف اس قدر تھا کہ آپؐ اس فیصلے کو اپنی حکومت کے انتظام کے ماتحت جاری فرما ویں اور آپؐ نے اسےایسے رنگ میں جاری فرمایا جو موجودہ زمانے کی مہذب سے مہذب اور رحم دل سے رحم دل حکومت کے لیے بھی ایک بہترین نمونہ سمجھا جا سکتا ہے۔

یہ جواب ہے آج کل کے ان لوگوں کو جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بعض ہمارے لوگ متاثر ہو جاتے ہیں۔بنو قریظہ کوجواز بناکر کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کے خلاف کارروائی بھی جائز ہے حالانکہ اس کی اس وقت جو حالت ہے اس کی تو نسبت ہی کوئی نہیں ہے آج کل کے حالات سے۔ بہرحال یہ سب قصوربھی مسلمانوں کا ہی ہے جنہوں نے اپنے مفادات کے لیے اسلام کی ساکھ ختم کر دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی عقل عطا فرمائے۔(آمین)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button