حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

سیرت حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ بعض واقعات (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۳؍ مارچ ۲۰۱۵ء)

حضرت مصلح موعودؓ یہ بیان فرماتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ احمدی ہونے کے بعد ایک اَن پڑھ کو بھی کس طرح عقل دے دیتا ہے اور وہ حاضر جواب ہو جاتا ہے، ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’لدھیانہ کے علاقے کے ایک شخص میاں نور محمد صاحب تھے۔ انہوں نے ادنیٰ اقوام میں تبلیغ اسلام کا بیڑہ اٹھایا ہوا تھا۔ وہ خاکروبوں میں (صفائی کرنے والوں میں جن میں سے اکثریت عیسائی بھی تھی) تبلیغ کیا کرتے تھے۔ اور سینکڑوں خاکروب ان کے مرید ہو گئے تھے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور ان کے بعض مرید بعض دفعہ یہاں بھی آ جایا کرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حضرت مرزا صاحب ہمارے پیر کے پیر ہیں۔ یہاں ہمارے ایک رشتے میں چچا نے محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت اور آپ کے دعوے کا تمسخر اڑانے کے لئے اپنے آپ کو چوہڑوں کا پیر مشہور کیا ہوا تھا۔ (اور کچھ تو نہیں کر سکے چوہڑوں کا پیر مشہور کر دیا) اور ان کا دعویٰ تھا کہ میں لال بیگ ہوں یعنی خاکروبوں کا پیشوا ہوں۔ ایک دفعہ بعض وہ لوگ جو خاکروبوں سے مسلمان ہو چکے تھے یہاں آئے۔ انہیں حُقّے کی عادت تھی۔ (ان صاحب کی مجلس میں یعنی یہ جو اپنے آپ کو خاکروبوں کا پیر کہتے تھے ویسے مغل تھے۔ ان صاحب کی مجلس میں) جو انہوں نے حقّہ دیکھا تو حُقّے کی خاطر ان کے پاس جا بیٹھے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے (ان رشتے کے) چچا نے ان سے مذہبی گفتگو شروع کر دی اور کہا کہ تم مرزا صاحب کے پاس کیوں آئے ہو؟ تم تو دراصل میرے مرید ہو۔ مرزا صاحب نے تمہیں کیا دیا ہے۔ وہ لوگ اَن پڑھ تھے جیسے خاکروب عام طور پر ہوتے ہیں۔ (اس زمانے کی بات ہے جب بیان کر رہے ہیں۔ وہ بھی آج سے ستر سال پہلے کی۔) تو آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’آجکل تو پھر بھی خاکروب کچھ ہوشیار ہو گئے ہیں لیکن یہ آج سے چالیس سال پہلے کی بات ہے۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کی) اس وقت یہ قوم بالکل ہی جاہل تھی۔ لیکن جب ان سے ہمارے چچا نے سوال کیا کہ مرزا صاحب نے تم کو کیا دیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اور تو کچھ نہیں جانتے لیکن اتنی بات پھر بھی سمجھ سکتے ہیں کہ لوگ پہلے ہم کو چوہڑے کہتے تھے لیکن مرزا صاحب سے تعلق کی وجہ سے اب ہمیں مرزائی کہتے ہیں۔ گویا ہم چوہڑے تھے اب ان کے طفیل مرزا بن گئے۔ لیکن آپ پہلے مرزا تھے اور مرزا صاحب کی مخالفت کی وجہ سے چوہڑے بن گئے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :’’اب یہ باتیں ہیں تو بظاہر لطائف مگر ان کے اندر معرفت کا فلسفہ بھی موجود ہے۔ اِن اَن پڑھ لوگوں نے اپنی زبان سے اس مفہوم کو ادا کر دیا کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کے مخالفوں کو تباہ کر دیتا ہے اور ماننے والوں کو ترقی دیتا ہے۔ پس سچی بات یہ ہے کہ احمدی ہوتے ہی انسان کی عقل مذہبی امور میں تیز ہو جاتی ہے اور وہ علماء پر بھی بھاری ہوتا ہے۔ لیکن اس امر کو نظر انداز کر دو تو بھی کونسا ایسا احمدی ہے جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ اس کے طبقے کے لوگ دنیا میں موجودنہیں بلکہ ہر احمدی اپنی عقل اور سمجھ میں کم سے کم اپنے طبقے کے ہر عیسائی، ہندو، سکھ اور غیراحمدی سے زیادہ ہوشیار ہو گا‘‘ (یعنی مذہبی امور میں )۔ (خطبات محمود جلد۱۶صفحہ۷۹۶ تا ۷۹۸۔ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳دسمبر۱۹۳۵ء)

احمدیوں کے اخلاص کے انوکھے انداز اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کو پورا کرنے کی خواہش اور پھر احمدیت کی وجہ سے دشمنی کا سامنا اور احمدیت کی وجہ سے ہی دشمنی کا محبت میں بدل جانے کا ایک واقعہ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’مجھے اپنے بچپن کے زمانے میں ضلع گجرات کے لوگوں کا یہاں آنا یاد ہے (یعنی قادیان آنا)۔ اس وقت سیالکوٹ اور گجرات سلسلے کے مرکز سمجھے جاتے تھے۔ گورداسپور بہت پیچھے تھا کیونکہ قاعدہ ہے کہ نبی کی اپنے وطن میں زیادہ قدر نہیں ہوتی۔ اس زمانے میں سیالکوٹ اول نمبر پر تھا اور گجرات دوسرے نمبر پر۔ مجھے گجرات کے بہت سے آدمیوں کی شکلیں اب تک یاد ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ بہت سے اس اخلاص کی وجہ سے کہ تا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کو پورا کرنے والے بنیں کہ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق۔ نہ اس وجہ سے کہ انہیں مالی تنگی ہوتی، پیدل چل کر قادیان آتے۔ (مالی تنگی کی وجہ سے نہیں بلکہ الہام پورا کرنے کے لئے سیالکوٹ اور گجرات سے پیدل چل کر قادیان آتے تھے۔ ) ان میں بڑے بڑے مخلص تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قرب رکھتے تھے۔ یہ بھی ضلع گجرات کے لوگوں کا ہی واقعہ ہے جو حافظ روشن علی صاحب مرحوم سنایا کرتے تھے اور میں بھی اس کا ذکر کر چکا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں ایک جماعت ایک طرف سے آرہی تھی اور دوسری دوسری طرف سے (پیدل چل کے آ رہے تھے)۔ حافظ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا وہ دونوں گروہ (جو ایک طرف سے آ رہا تھا، ایک دوسری طرف سے آ رہا تھا وہ دونوں گروہ) جب ایک دوسرے کو ملے تو رونے لگ گئے۔ میں نے پوچھا تم کیوں روتے ہو؟ کہنے لگے کہ ایک حصہ ہم میں سے وہ ہے جو پہلے ایمان لایا۔ (ان آنے والے دو گروپوں میں سے ایک حصہ وہ تھا جو پہلے ایمان لایا) اور اس وجہ سے دوسرے حصے کی طرف سے اسے اس قدر دکھ دیا گیا۔ (اسی علاقے کے رہنے والے تھے) اور اتنی تکالیف پہنچائی گئیں کہ آخر وہ گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ پھر ہمیں ان کی کوئی خبر نہ تھی کہ کہاں چلے گئے۔ کچھ عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے احمدیت کا نور ہم میں بھی پھیلایا اور ہم جو احمدیوں کو اپنے گھروں سے نکالنے والےتھے, (مخالفین تھے) خود احمدی ہو گئے۔ (پہلے بیعت کرنے والوں کو نکالنے کے بعد وہ بھی جو مخالفین تھے پھر احمدی ہو گئے۔) کہتے ہیں اب ’’ہم یہاں جو پہنچے تو اتفاقاً اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ہمارے وہ بھائی جنہیں ہم نے اپنے گھروں سے نکالا تھا دوسری طرف سے آ نکلے۔ جب ہم نے ان کو آتے دیکھا تو ہمارے دل اس درد کے جذبے سے پُر ہو گئے کہ یہ لوگ ہمیں ہدایت کی طرف کھینچتے تھے مگر ہم ان سے دشمنی اور عداوت کرتے تھے یہاں تک کہ ہم نے ان کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ آج خد انے اپنے فضل سے ہم سب کو اکٹھا کر دیا۔‘‘ (اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف۔ انوار العلوم جلد ۱۳صفحہ ۸۶، ۸۷) پس اس وجہ سے ہم جذباتی ہو کے رو رہے تھے۔

پس یہ احمدیت کی برکات ہیں کہ بچھڑے ہوؤں کو اکٹھا کرتی ہے۔ شیطان جن کے بیچ میں رخنہ ڈالتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت پھر ان کو ملا دیتی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اب بھی ایسے نظارے ہوں گے۔

مولویوں نے جو یہ غلط تأثر عامۃ المسلمین کو دیا ہوا ہے کہ حضرت مسیح ہاتھ سے پرندے بناتے تھے اور پھر ان میں جان ڈالتے تھے اور وہ عام پرندوں کی طرح اڑنے لگ جاتے تھے یہ قرآن کریم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ روحانی قابلیت کے لوگوں کو تربیت دے کر اس قابل بنادیتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف روحانی پرواز کرنے لگ جائیں۔ بہر حال ایک ایسے نظریہ رکھنے والے مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گفتگو کر رہے تھے۔ تو حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ ایک مولوی سے پوچھا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ حضرت مسیح پرندے پیدا کیا کرتے تھے تو جو پرندے ہمیں دنیا میں نظر آتے ہیں ان میں سے کچھ خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہوں گے اور کچھ مسیح کے۔ کیا آپ ان دونوں میں کوئی امتیازی بات بتا سکتے ہیں جس سے معلوم ہو سکے کہ کون سے خدا کے پیدا کردہ ہیں اور کون سے مسیح کے۔ اس پر وہ مولوی صاحب پنجابی میں بولے۔ ’ایہہ تے ہُن مشکل اے اوہ دونوں رَل مل گئے نیں‘۔ یعنی یہ کام تو اب مشکل ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ اور مسیح کے پیدا کئے ہوئے پرندے آپس میں مل جُل گئے ہیں۔ اب ان دونوں میں امتیاز مشکل ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۶صفحہ ۹۶)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button