ایشیا (رپورٹس)

پاکستان میں توہینِ مذہب کے قانون کا ناجائز استعمال (نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق (NCHR) پاکستان کی رپورٹ اکتوبر ۲۰۲۳ء تا اکتوبر ۲۰۲۴ء میں پیش کیے جانے والے بعض روح فرسا حقائق سے ماخوذ) (قسط اوّل)

((ابو حارث))

ریاستی آئین کسی بھی معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو ریاست میں شہریوں کے حقوق اور فرائض کو متعین کرنے کے ساتھ ساتھ قانون کے دائرے میں ہر فرد کو مساوی مقام اور حقوق فراہم کرتا ہے۔ قوانین انسانی اقدار اور فردِواحد کی شخصی آزادی کی حفاظت کو یقینی بناتےاور معاشرے میں انصاف، امن اور خوشحالی کو ممکن بناتے ہیں۔ آج کی دنیا میں جہاں ہر چیز میں وقوع پذیر ہونے والی جدّت نے ہر شعبے میں انقلاب برپا کر دیا ہے، جامع آئین و قانون کے بغیر صحت مند معاشرے کا قیام نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہو چکا ہے۔یہ بات بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ معاشرے میں جس قدر برداشت، انصاف اور انسانی اقدار کی پاسداری ہوگی اسی قدر معاشرہ مضبوط ہو گا اور خوشحالی اور ترقی اُس کے قدم چومے گی۔

پاکستانی آئین میں انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے مختلف قوانین کا تعین کیا گیا ہے، تاہم کچھ قوانین ایسے بھی ہیں جن کی آڑ میں پاکستانی معاشرہ بعض لوگوں کے بنیادی حقوق کو غصب کرنا عین عبادت خیال کرتا ہے جیسے کہ توہینِ مذہب کے قوانین کا موجودہ استعمال اور اس کے نتیجے میں عوام میں پیدا ہونے والی بے چینی اور عدمِ تحفظ کا شدید احساس اس امر کا عکّاس ہے۔

پاکستان میں توہینِ مذہب سے متعلقہ قوانین کی وجہ سے پیدا ہونے والی موجودہ صورتحال کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ حالیہ رپورٹ جسے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (NCHR) نے شائع کیا ہے ان قوانین میں پائی جانے والی خامیوں اور ان سے وابستہ مسائل کی جانب توجہ دلاتی ہے۔ اس تجزیے میں ہم اس رپورٹ کے اہم نکات، توہینِ مذہب کے قانون کے بے جا استعمال یا اس کے درست استعمال کے لیے وضع کیے جانے والے طریقہ کار کا لحاظ نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی خامیوں پر ایک اچٹتی نگاہ ڈالیں گے۔

مذکورہ رپورٹ میں مختلف جیلوں میں قید ملزموں سے انٹرویوز لینے کے بعد روح فرسا حقائق سامنے لائے گئے ہیں۔ ان حقائق سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اکثر ملزمان کو گرفتار کرنے سے قبل ضابطے کی کارروائی کو بالائے طاق رکھا گیا وہاں ایسے قرائن موجود ہیں جن سے ملزمان پر لگائے جانے والے الزامات کی صداقت پر شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً

سنٹرل اڈیالہ جیل راولپنڈی

میں قید زیادہ تر ملزمان کے خلاف درخواست گزار ایک ہی شخص ہے۔ مزید یہ کہ ایک قیدی جس سے انٹرویو لیا گیا اپنے اوپر لگائے جانے والے توہینِ مذہب کے الزام سے چند ماہ قبل بصارت سے محروم ہو چکا تھا۔ انتظامیہ کے بلائے جانے پر جب وہ حاضر ہوا تو اسے اُس پر لگائے جانے والے الزامات کی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا گیا اور اُس سے وہ والا موبائل طلب کیا گیا جس سے اُس نے گستاخانہ مواد سوشل میڈیا پر شیئر کیا تھا، وہ موبائل جس کا وجود ہی نہ تھا۔ اور ویسے بھی اُس کی طبی حالت اُسے کسی موبائل کے استعمال کی اجازت ہی نہ دیتی تھی۔ بہرکیف تفتیشی ٹیم نے ایک موبائل برآمد کرلیا جو اس قدر ٹوٹا ہوا اور خستہ حال تھا کہ اُس کا فرانزک معائنہ بھی ناممکن تھا۔ گویا اگرچہ وہ موبائل کسی بھی طرح ملزم کا ثابت نہیں ہو سکتا تھا، اس کے باوجود اُس کے خلاف کارروائی کر دی گئی اور اُسے رہا نہ کیا گیا۔

ڈسٹرکٹ جیل لاہور

کے حالات بھی کم برے نہیں۔ NCHR کی ٹیم نے جیل کی کا دورہ کیا جہاں زیادہ تر توہینِ مذہب کے الزام میں محبوس قیدیوں کو اسی طرح اس جال میں پھانسا گیا جیسے کہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے کیسز میں دیکھا گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لاہور اور اسلام آباد میں سرگرم نیٹ ورک کا ایک مخصوص طریقہ کار ہےجو باقاعدہ ایک پلاننگ کے تحت معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا کر ان قوانین کے تحت گرفتار کرواتا ہے۔ مثلاً اکثر کیسز میں ایک جیسے خواتین کے فرضی نام استعمال کیے جاتے ہیں۔ اکثر قیدیوں نے بتایا کہ کسی انجان لڑکی نے اُن سے رابطہ کیا جو ایک اسپینش نمبر یا جعلی فیس بک آئی ڈی کے ذریعے بات کرتی ہے۔ اس کے بعد انہیں توہین آمیز اور فحش مواد والے گروپس میں شامل کر دیا جاتا ہے جہاں انہیں بعض لالچیں دے کر مجبور کیا جاتا ہے کہ اس مواد کو آگے شیئر کریں۔

یہ قیدی عام طور پر ملازمت، کاروباری مواقع، امیگریشن، یا دوستی کے لالچ میں کسی عوامی جگہ جیسے ریستوران وغیرہ میں بلائے گئے جہاں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ابتدائی گرفتاریاں زیادہ تر پرائیویٹ افراد کے ذریعے ہوتی ہیں جو انہیں ذاتی گاڑیوں میں نامعلوم مقامات پر لے جاتے ہیں جہاں قیدیوں کے مطابق اُن پر جسمانی تشدّد کر کے ان کی ویڈیو ریکارڈنگز کی جاتی ہیں اور بعض کو تو بجلی کے جھٹکے بھی دیے جاتے ہیں۔ قیدیوں کا کہنا ہے کہ انہیں خالی کاغذات پر زبردستی دستخط یا انگوٹھے کے نشانات دینے پر مجبور کیا گیا۔ اس ابتدائی عمل کے بعد، انہیں FIA کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

گرفتاریوں میں ملوث افراد بااثر ہونے کی وجہ سے اکثر وکلاء پر دباؤ ڈالتے ہیں، ججوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور قیدیوں کےگھروالوں کو اُن سے قطع تعلقی پر مجبور کرتے ہیں۔

قیدیوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے فونز کی مناسب فورنزک معائنہ نہیں کیا گیا جس سے ان کی معصومیت ثابت ہو سکتی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ فیس بک گروپس میں لوگوں کو بغیر ان کی مرضی کےشامل کیا جاسکتا ہے ۔

یہ امر بھی سامنے آیا کہ ان کیسز میں ملزمان کی گرفتاریاں مختلف شہروں میں کی گئیں، کچھ قیدیوں نے بتایا کہ انہیں پشاور، اسلام آباد اور فیصل آباد سے بلایا یا اٹھایا گیا۔ بیشتر کیسز میں پولیس رپورٹ (چالان) NCHR کے دورے کے وقت تک جمع نہیں کروائی گئی تھی۔

قیدیوں کے بیانات کے مطابق، تحقیقات ڈائریکٹر کی سطح پر نہیں کی گئیں جبکہ سیکشن 156-A آف کرمنل پروسیجر کوڈ (CrPC) کے تحت دفعہ 295-C کے ملزمان کی تحقیقات کے لیے لازم ہے کہ کم از کم سپرنٹنڈنٹ کے عہدے کے افسر سے کروائی جائیں۔

لاہور میں قید ایک ملزم کی والدہ سے انٹرویو کیا گیا۔ شائستہ(فرضی نام) جو اپنے بیٹے اور خاندان کے لیے تنہا جدوجہد کر رہی ہیں، ان بھیانک مسائل سے نبرد آزما ہیں جنہوں نے ان کے خاندان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان کا بیٹا، عزیر (فرضی نام)ایک محنتی نوجوان تھا جو ایک اسلامی یونیورسٹی میں MBA کے فائنل امتحانات کی تیاری کر رہا تھا۔ اس دوران وہ فیس بک پر ایک خرید و فروخت کے گروپ میں شامل ہوا جہاں اس کی ملاقات ’ایمان‘ نامی لڑکی سے ہوئی۔ایمان نے عزیر سے دوستانہ اور ہمدردانہ انداز میں بات چیت شروع کی اور جلد ہی اس کے مالی مسائل اور نوکری کی مشکلات سے آگاہی حاصل کرلی۔ ایمان نے خود کو FIA کی ملازمہ ظاہر کیا اور عزیر کو نوکری کا وعدہ کرتے ہوئے اسے ملاقات کے لیے تیار کیا۔ کچھ ماہ کے دوران اس نے عزیر کا اعتماد جیت لیا۔ جب عزیر اپنی تعلیمی دستاویزات کے ساتھ سنٹورس میں ایمان سے ملنے پہنچا تو وہاں اسے علم ہوا کہ اُس کے گرد ایک جال بنا جا چکا ہے۔ اسے اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد FIA کے حوالے کر دیا گیا جہاں اس پر توہینِ مذہب کا الزام لگا دیا گیا۔

شائستہ اس اذیت کو تنہا جھیل رہی ہیں جبکہ ان کے شوہر کئی سو کلومیٹر دور بلوچستان میں اپنی نوکری کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ شائستہ کو اپنے تین بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے بےپناہ جسمانی اور ذہنی دباؤ کا سامنا ہے۔ اپنی بیماری اور جسمانی کمزوری کے باوجود وہ اپنے چھوٹے بچوں کو تسلی دینے سے قاصر ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے انصاف کی امید میں اپنے تمام وسائل مہنگے وکیلوں پر خرچ کر چکی ہیں مگر انہیں انصاف کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ عزیر کی منگیتر بھی اسی اذیت میں مبتلا ہے جبکہ خاندان اور دوست رفتہ رفتہ ان کے ساتھ تعلقات منقطع کر رہے ہیں کیونکہ معاشرے میں توہینِ مذہب کے الزام اچھوت کی بیماری سے کم نہیں۔

شائستہ کے بھائی نے جو کہ ایک پولیس افسر ہیں، بھی اس معاملے میں ان سے تعاون کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ الغرض شائستہ اور ان کے خاندان کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ شائستہ کے لیے یہ بوجھ ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے اور ان کی آخری امید یہ ہے کہ ان کے بیٹے کی آزمائش ختم ہو اور ان کا خاندانی وقار دوبارہ بحال ہو سکے۔ مگر جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے یہ امید بھی ان کے لیے خواب بنتی جا رہی ہے۔

سنٹرل جیل کراچی

NCHR کی ٹیم نے خصوصی طور پر ان قیدیوں کا انٹرویو کیا جو FIAکی جانب سے توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت سنٹرل جیل کراچی میں قید ہیں۔ متعدد کیسز میں ۲۰۲۳ء میں درج کی گئی رپورٹوں کے تحت گرفتاریاں شامل ہیں۔ ایک کیس میں گیارہ قیدی ایف آئی آر نمبر ۱۳ کے تحت، چھ قیدی ایف آئی آر نمبر ۲۰۵ کے تحت اور تین قیدی ایف آئی آر نمبر ۴۳ کے تحت قید ہیں۔ یہ افراد مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے اور گرفتاری سے قبل ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔

ان گرفتاریوں میں ایک خطرناک رجحان پایا گیا: چار، پانچ خواتین نے ایک ہی نام اور فون نمبروں کا استعمال کر کے ملزمان کو ’ہنی ٹریپ‘ کے ذریعے ان معاملات میں الجھایا۔ ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ یہ خواتین سوشل میڈیا، خصوصاً فیس بک پر نوجوان مردوں سے دوستی کرکے آہستہ آہستہ انہیں غیراخلاقی مواد کی حامل ویب سائٹس کی طرف متوجہ کرتیں۔ اس کے بعد ان افراد کو کوئی نہ کوئی لالچ دے کر ایک خاص مذہبی توہین آمیز imageشیئر کرنے پر آمادہ کرتیں جسے ان کی گرفتاری کے بعد بطور ثبوت استعمال کیا گیا۔

یہ سب کر چکنے کے بعد خواتین ملزمان کو شادی، امیگریشن، مالی امداد یا قیمتی تحائف کے وعدے کر کے عوامی جگہوں پر ملنے کی دعوت دیتیں۔ جب ملزم مقررہ جگہ پر پہنچتے تو انہیں سادہ لباس میں موجود افراد اغوا کر کے نامعلوم مقامات پر لے جاتے جہاں ان کے فونز ’ثبوت‘ کے طور پر ضبط کر لیے جاتے اور انہیں سخت تفتیش اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا۔

گرفتار شدہ افراد کی عمر سترہ سے تینتیس سال کے درمیان تھی، جبکہ ایک ملزم کی عمر پینتالیس سال بھی تھی۔ ان قیدیوں کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تھا، جیسے طالب علم، دیہاڑی دارمزدور، دندان ساز، اکاؤنٹنٹ، سیلز مین، وغیرہ۔ غالب اکثریت کا تعلق ضرورت مند طبقے سے تھا۔

انہیں بھی بجلی کے جھٹکے دیے گئے اور اس جیل میں محبوس قیدیوں نے بھی الزام لگایا کہ ان سے زبردستی خالی کاغذات پر دستخط لیے گئے اور کچھ افراد کو قانونی مدد بھی میسر نہیں تھی۔

NCHR کی رپورٹ کے مطابق ان قیدیوں کو پکڑوانے والا یہ نیٹ ورک خاص طور پر لاہور سے تعلق رکھتا ہے اور ایک بڑے گروہ کا حصہ ہے جو پاکستان میں معصوم لوگوں کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کرنے کے لیے متحرک ہے۔ یہ نیٹ ورک لوگوں کو سفر کے اخراجات ادا کر کے لاہور بلانے کی کوشش کرتا ہے اور اگر کوئی لاہور آنے کی حامی نہ بھرے تو اُس کے ساتھ دیگر شہروں جیسے کراچی اور سکھر میں ملاقاتوں کا انتظام کرتا ہے۔ اس تمام معاملے میں ملوث لڑکیوں کے ذریعے افراد کو غیراخلاقی اور توہین آمیز مواد بھیجا جاتا ہے اور پھر انہیں مختلف چیزوں کا لالچ دے کر اس مواد کو سوشل میڈیا گروپس میں شیئر کرنے کی تحریک کی جاتی ہے۔

محسوس ہوتا ہے کہ ایف آئی اے کے کچھ اہلکار اس نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ شامل ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ بےخوفی سے اپنا کام انجام دیتے ہیں۔

مدیحہ(فرضی نام) اپنے چھوٹے بھائی بہرام(فرضی نام) کی زندگی میں شروع ہونے والے تاریک دور کی کہانی بیان کرتی ہیں۔ بہرام ایک انتہائی ذہین نوجوان تھا جو بطور سول انجینئر ایک عمدہ کیریئر کا حامل تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی تعلیم میں بہترین کارکردگی دکھاتا رہا۔ مگر ایک خاتون ’ایمان‘ کے بھیجے ہوئے واٹس ایپ پیغامات کی وجہ سے اُس کی امیدوں کا چراغ گویا گُل ہوکر رہ گیا۔

ایمان نے بہرام کو بتایا کہ وہ حال ہی میں اسپین سے واپس آئی ہے، اسے اُس کے شوہر نے چھوڑ دیا ہے اور وہ ایک ’اعلیٰ پوسٹ‘ پر کام کرتی ہے۔ ایمان نے بہرام پر مسلسل فحش مواد بھیجنے کے لیے زور ڈالا۔ بہرام نے اس سے دُور رہنے کی کوشش کی مگر وہ باز نہ آئی۔

۲؍ جون ۲۰۲۳ء کو صبح کے وقت ایف آئی اے کی ایک ٹیم نے سرچ وارنٹ سمیت ان کے گھر چھاپہ مارا۔ انہوں نے بہرام کا فون اور دیگر الیکٹرانک چیزیں ضبط کیں اور صبح ساڑھے نو بجے تک اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاچکی تھی۔ اس کے گھر والوں کو کچھ علم نہ تھاکہ اچانک یہ کیا ہوگیا۔ انہیں خاموش رہنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ انہیں ’سنگین نتائج‘ سے ڈرایاگیا۔

اس واقعہ سے بہرام کے والدین کی تو دنیا ہی اندھیر ہوگئی، وہ مسلسل گھبراہٹ کے دوروں کا شکار ہیں۔ ہر دن ان کے لیے ایک جدوجہد سے کم نہیں کہ وہ کسی طرح سے خود کو سنبھال سکیں۔ وہ اپنی زندگی کی نصف سے زائد savings خرچ کر چکے ہیں، اور پھر بھی ہر ماہ انہیں جیل میں بہرام کی ضروریات یعنی کھانے وغیرہ کے لیے ستر، اسّی ہزار روپے جمع کروانے پڑتے ہیں۔ اُن کا سارا خاندان ایک انجانے خوف میں زندگی گزار رہا ہے۔ نہ وہ مسجد جا سکتے ہیں اور نہ ہی نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔

بہرام، جو چار بہن بھائیوں میں سے ایک ہے، اب بھی جیل میں ہے، جبکہ اس کا خاندان ہر روز معاشرے میں توہینِ مذہب کے جھوٹے الزام کی وجہ سے پیدا ہونے والے شدید دباؤ اور بدنامی کا سامنا کرنے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ان کی زندگی میں چھائے ہوئے خوف نے انہیں نڈھال اور مایوس کر دیا ہے۔ اس بے بنیاد الزام کی وجہ سے وہ ایک ایسے ڈراؤنے خواب میں پھنس چکے ہیں جس سے نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آ رہی۔

(جاری ہے)

اگلی قسط: پاکستان میں توہینِ مذہب کے قانون کا ناجائز استعمال (قسط دوم ۔آخری)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button