متفرق مضامین

با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب (حصہ اول)

(عائشہ چودھری۔ جرمنی)

وَاعۡبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّبِذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنِ وَالۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡجَارِ الۡجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَمَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ(النساء:37) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیررشتہ دار ہمسایوں سے بھی۔ اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مَثَلُ الَّذِي يَتَعَلَّمُ الْعِلْم فِي صِغَرِه ِکَالنَّقْشِ عَلَی الحَجَر(الجامع الصغیر سیوطی )یعنی بچپن کا سکھایا ہواپتھر پر نقش کی طرح ہوجاتا ہے۔

اسلام ہمیشہ زندہ رہنے والا مذہب ہے۔ وہ مذہب جس میں زندگی گزارنے کے ہر طریقہ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح اٹھنا بیٹھنا ہے،کس طرح کھانا پینا ہے،کس طرح پہننا ہے سونا اور جاگنا ہے اور کس طرح ایک دوسرے سے گفتگو کرنی ہے ایک دوسرے کی عزت و احترام کرنا ہے چاہے وہ چھوٹا ہے یا بڑا۔ انسانی حقوق کا جتنا احترام اور اخلاقیات کی تاکید ہمیں اسلام میں ملتی ہے شائد ہی کسی اور مذہب میں ملتی ہو۔ لیکن بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انسان جتنا ترقی کی طرف قدم اٹھا رہا ہے اتنا ہی اپنی اخلاقیات اور روایات کو بھولتا جا رہا ہے۔آج خاکسار جس بات کو آپ کے سامنے رکھنا چاہے گی وہ ہے بڑوں کا ادب و احترام۔ اردو میں ایک کہاوت ہے کہ ’با ادب با نصیب،بے ادب بے نصیب‘۔ یعنی اپنے بڑوں کا ادب و احترام کرو گے تو یقیناً اُن کی دعائیں پاؤ گے اور اُن کی ہی دعائیں تمہارے نصیب کے دروازے کھولیں گی۔بڑوں کا ادب نہیں کرو گے، ان سے احترام سے پیش نہیں آؤ گے تو اللہ تعالیٰ چونکہ حکم دیتا ہے کہ والدین، رشتہ داروں سے حسن سلوک کرو تو اُس کی ناراضگی کا باعث بنو گے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے تو دین بھی گیا دنیا بھی جائے گی۔

پرانے زمانے میں دنیا بھر میں ادب آداب کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔ چاہے وہ برصغیر ایشیا کا کوئی ملک ہو، یورپ ہو یا امریکہ، ہمارے سامنے لکھنؤ کے آداب اور انگریزوں کے mannersکی مثال موجود ہے۔ ہر جگہ بچپن سے ہی بچوں کو مختلف آداب سکھائے جاتے تھے اور یہ بھی سکھایا جاتا تھا کہ بڑوں سے کس طرح احترام سے بات کی جاتی ہے۔ بچے اپنے والدین کے سامنے ادب کی وجہ سے خاموش رہتے تھے۔ والدین کچھ سمجھاتے تھے تو خاموشی سے سنتے تھے اور اگر اپنی کسی بات پر والدین کو قائل کرنا ہوتا تھا تو ایک تمیز کے دائرے میں رہ کر بات کرتے تھے۔ کوئی بزرگ آتا تھا تو احترام سے اُن کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے، اُن کے لیے کرسی پر جگہ چھوڑ دیتے تھے تاکہ وہ بیٹھ جائیں، آگے بڑھ کر اُن کو چلنے میں مدد دیتے تھے، کھانے کی میز پر پہلے اُن کو کھانا پیش کرتے تھے،اُن کو کسی بھی مدد کی ضرورت ہوتی تو اُن کی مدد کیا کرتے تھے،وہ رخصت ہوتے تھے تو دروازے تک انہیں خدا حافظ کہنے جاتے تھے۔ نانی دادی گھر میں ہوتی تھیں تو اُن کے پاس بیٹھ کر اُن سے باتیں کیا کرتے تھے،ان کے چھوٹے چھوٹے کام کر کے خوش ہوتے تھے اور وہ ہمیشہ دعائیں دیا کرتی تھیں۔ یہ سب کچھ ہمیں ہماری ماؤں نے سکھایا تھا اور اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو یہ آگے سکھائیں۔ یہ یاد رکھیں کہ اگر ہم آج اپنے بچوں کو بڑوں کا ادب کرنا نہیں سکھائیں گے تو کل کو آنے والی نسل ہمارا بھی احترام نہیں کرے گی کیونکہ انہوں نے یہ چیز سیکھی ہی نہیں ہو گی۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button