حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مرتبۂ شہادت کی پُرمعارف تشریح (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۴؍دسمبر ۲۰۱۲ء)

عام طور پر شہید کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو جائے۔ بیشک ایسا شخص جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کرتا ہے، شہید کا مقام پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ لیکن شہید کے معنی میں بہت وسعت ہے۔ یہ معنی بہت وسعت لئے ہوئے ہے، اور بھی اس کے مطلب ہیں۔ اس لئے آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات اور بعض احادیث کے حوالے سے اس بارے میں کچھ کہوں گا۔

یہاں ان ممالک میں پلنے اور بڑھنے والے بچے اور جوان یہ سوال کرتے ہیں، کئی دفعہ مجھ سے سوال ہو چکا ہے۔ گزشتہ دنوں ہیمبرگ میں واقفات نَو کی کلاس تھی تو وہاں بھی غالباً ایک بچی نے سوال کیا کہ جب آپ شہداء کے واقعات بیان کرتے ہیں تو اکثر کے واقعات میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ وہ اپنے قریبی عزیزوں کو کہتے ہیں کہ دعا کرو کہ مَیں شہید ہو جاؤں یا شہید کا رتبہ پاؤں یا شہادت تو قسمت والوں کو ملا کرتی ہے۔ تو شہید ہونے کی دعا کے بجائے سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ دشمن پر فتح پانے کی دعا کا کیوں نہیں کہتے اور یہ کیوں نہیں کرتے؟

یقیناً دشمن پر غلبہ پانے کی جو دعاہے یہی اوّل دعا ہے اور الٰہی جماعتوں سے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی ہے کہ غلبہ اُنہی کو حاصل ہونا ہے۔ فتوحات انہی کی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی متعدد مرتبہ اللہ تعالیٰ نے کامیابی اور فتوحات کی اطلاع دی اور غلبہ کی خبر دی۔ اور ہمیں یقین ہے کہ اس کے واضح اور روشن نشانات بھی جماعت احمدیہ دیکھے گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے آثار بھی ہم دیکھ رہے ہیں بلکہ ہر سال باوجود مخالفت کے لاکھوں کی تعداد میں بیعت کر کے جو لوگ احمدیت میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں اور اُن ملکوں میں بھی بیعتیں ہو رہی ہیں جہاں مخالفت بھی زوروں پر ہے تو یہ سب چیزیں ترقی اور فتوحات ہی ہیں جس کے نظارے ہم دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح جماعت جو دوسرے پروگرام کرتی ہے اور اسلام کی خوبصورت تصویر پیش کر کے غیر اسلامی دنیا کے شکوک و شبہات دُور کررہی ہے۔ یہ جوبات ہے یہ کامیابیوں اور فتوحات کی طرف قدم ہی توہیں جو جماعت احمدیہ کے اُٹھ رہے ہیں جو ایک وقت میں آ کر انشاء اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک غیر معمولی انقلاب پیدا کریں گے اور اس کے لئے ہر احمدی کو کوشش بھی کرنی چاہئے اور دعا بھی کرنی چاہئے۔

بہر حال بڑے مقاصد کے حصول کے لئے قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں، جان کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے اور جماعت احمدیہ کے افراد جہاں بھی ضرورت ہو، ہر قسم کی قربانیاں دیتے ہیں اور اس کے لئے تیار بھی رہتے ہیں۔ اس میں جان کی قربانی بھی ہے جو اُن قربانی کرنے والوں کو شہادت کا رتبہ دلا رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں یہ لوگ داخل ہو رہے ہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ شہادت صرف اسی قدر نہیں ہے، شہید کا مطلب صرف اسی قدر نہیں ہے، اس کی گہرائی جاننے کے لئے اُن نوجوان سوال کرنے والوں کو ضرورت ہے اور بڑوں کو بھی ضرورت ہے، تاکہ شہادت کے مقام کے حصول کی ہر کوئی کوشش کرے۔ اس دعا کی روح کو سمجھے اور خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں داخل ہو…

اللہ تعالیٰ نے بھی انسان کا جومقصدِ پیدائش بیان فرمایا ہے وہ عبادت ہی بیان فرمایا ہے۔

پس ایک حقیقی مومن کاپیدائش کا مقصد صرف ایک دفعہ کی زندگی قربان کرنا نہیں ہے بلکہ مسلسل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش ہے اور ہر قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہنا ہے۔ ہاں یہ بھی احادیث میں آتا ہے کہ ایک مومن جنگ کی خواہش نہ کرے۔ لیکن جب زبردستی اُسے اس میں گھسیٹا جائے، جب دین کے مقابلے پر ایک مومن کی جان لینے کی کوشش کی جائے تو پھر وہ ڈر کر پیچھے نہ ہٹے بلکہ مردانہ وار اپنی جان کا نذرانہ پیش کرے اور اس سے کبھی پیچھے نہ ہٹے۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر باب لا تمنوا لقاء العدو حدیث: ۳۰۲۵)

جب جنگوں کی اجازت اور حالات تھے تو دشمن کا مقابلہ کر کے یا جان قربان کر کے ایک مومن شہادت کا رتبہ پاتا تھا یا فتح پاتا تھا اور اس میں کسی قسم کا خوف اور ڈر شامل نہیں ہوتا تھا۔

آجکل کے حالات میں جنگ تو ہے نہیں۔ جماعت احمدیہ کے دشمن بھی ہیں اور ہمارے جو دشمن ہیں، جو بزدل دشمن ہے یہ چھپ کر حملہ کرتا ہے۔ لیکن اگر سامنے آ کر بھی حملہ کرے تو پھر بھی جنگ کرنے کا تو حکم نہیں ہے۔ بعض احمدیوں کو وارننگ کے خطوط بھی آتے ہیں کہ یا احمدیت چھوڑ دو یا مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ تو اُس وقت ایک مومن کی مردانگی یہی ہے اور پاکستان کے احمدی اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ جان تو بیشک چلی جائے مگر دین اور خدا تعالیٰ کی رضا کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔ پس یہ ایک مومن کا امتیاز ہے جومختلف حالات میں، مختلف صورتوں میں قائم رہتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں اور صالحین میں شامل ہونے کے لئے مومن کو دعا بھی سکھائی ہے۔ لیکن شہادت کی وسعت کیا ہے؟ جیسا کہ مَیں نے کہا اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا فلسفہ کیا ہے؟ اس کی گہرائی کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے ہمیں زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے جنہوں نے ہمیں کھول کر اور واضح کر کے اس بارے میں سمجھایا ہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ …

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے متعدد جگہ شہید کی حقیقت کے بارے میں، اس کے رتبہ اور مقام کے بارے میں لکھا ہے۔ مَیں چند اقتباسات پیش کروں گا جن سے واضح ہوتا ہے کہ شہید بننے کے لئے دعا کرنا کیوں ضروری ہے؟ اور کس قسم کا شہید بننے کے لئے دعا کی جانی چاہئے اور کیوں ایک حقیقی مومن کو اس کی خواہش ہونی چاہئے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’عام لوگوں نے شہید کے معنی صرف یہی سمجھ رکھے ہیں کہ جو شخص لڑائی میں مارا گیا یا دریا میں ڈوب گیا یا وبا میں مرگیا وغیرہ۔ مگر مَیں کہتا ہوں کہ اسی پر اکتفاء کرنا اور اسی حد تک اس کو محدود رکھنا مومن کی شان سے بعید ہے۔ شہید اصل میں وہ شخص ہوتا ہے جو خداتعالیٰ سے استقامت اور سکینت کی قوت پاتاہے اور کوئی زلزلہ اور حادثہ اس کو متغیر نہیں کرسکتا‘‘۔ (اُس کو اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا) ’’وہ مصیبتوں اور مشکلات میں سینہ سپر رہتاہے۔ یہانتک کہ اگر محض خداتعالیٰ کے لئے اس کو جان بھی دینی پڑے تو فوق العادت استقلال اُس کو ملتا ہے‘‘ (غیر معمولی استقلال اُس کوملتا ہے) ’’اور وہ بدُوں کسی قسم کا رنج یا حسرت محسوس کئے اپنا سررکھ دیتا ہے‘‘ (بغیر کسی غم، بغیر کسی حسرت کے وہ اپنا سر قربانی کے لئے پیش کر دیتا ہے) فرمایا: ’’اور چاہتا ہے کہ باربار مجھے زندگی ملے اور بار بار اس کو اللہ کی راہ میں دوں۔ ایک ایسی لذت اور سُرور اُس کی رُوح میں ہوتا ہے کہ ہر تلوار جو اُس کے بدن پر پڑتی ہے اور ہر ضرب جو اُس کو پیس ڈالے، اُس کو پہنچتی ہے۔ وہ اُس کو ایک نئی زندگی، نئی مسرت اور تازگی عطاکرتی ہے۔ یہ ہیں شہید کے معنی‘‘۔ پھر یہ لفظ شہد سے بھی نکلا ہے۔ فرمایا’’پھر یہ لفظ شہد سے بھی نکلا ہے۔ عبادتِ شاقہ جو لوگ برداشت کرتے ہیں‘‘ (یعنی عبادت کرنے میں ایک مشقت بھی اُٹھاتے ہیں )’’اور خدا کی راہ میں ہر ایک تلخی اور کدورت کو جھیلتے ہیں اور جھیلنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، وہ شہد کی طرح ایک شیرینی اور حلاوت پاتے ہیں۔ اور جیسے شہد فِیۡہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ (النحل: 70) کا مصداق ہے یہ لوگ بھی ایک تریاق ہوتے ہیں۔ اُن کی صحبت میں آنے والے بہت سے امراض سے نجات پاجاتے ہیں‘‘۔ اگر صرف مرنے سے ہی شہادت ملتی ہے تو پھرانسان صحبت سے کس طرح فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا پر چلنا، اللہ تعالیٰ کا قرب پانا جو حقیقی نیکیاں ہیں یہ بھی شہید کا ایک مقام ہے جس کی صحبت میں رہنے والے، فرمایا کہ مختلف مرضوں سے نجات پا جاتے ہیں۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’اور پھر شہید اس درجہ اور مقام کا نام بھی ہے جہاں انسان اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے یا کم از کم خدا کو دیکھتا ہوا یقین کرتا ہے۔ اس کا نام احسان بھی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ276)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button