حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہؓ کا صبر و استقامت

مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہؓ کی کچھ روایات جن میں اُن کے صبر و استقامت پر روشنی پڑتی ہے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا اُن کے ساتھ کیا پیار کا سلوک ہوتا تھا؟ کس طرح اُن کی دعائیں بھی قبول ہوتی تھیں؟ اُس کے بارے میں بیان کروں گا۔… حضرت جان محمد صاحبؓ ولد عبدالغفار صاحب ڈسکوی فرماتے ہیں کہ ’’۱۹۰۳ء میں ہم احمدیوں کی سخت مخالفت ہوئی اور خاص کر میری کیونکہ میں ڈسکہ میں پہلا احمدی تھا اور مجھے زیادہ تکلیف دیتے تھے۔ سقّہ اور خاکروب کو بھی روکا گیا۔‘‘یعنی پانی ڈالنے والے کو اور صفائی کرنے والے کو روکا گیا۔ سقّہ نے یہ کہہ کر کہ مجھے تحصیلدار صاحب کہتے ہیں کہ مولوی صاحب کو پانی دیا کرو، ان کو کہا کہ اگرتم نے مجھے روکا تو مَیں تحصیلدار صاحب سے کہوں گا کیونکہ مجھے اُن کا حکم ہے کہ ان کا پانی نہیں روکنا۔ خیر اُس سے تو وہ رک گئے۔ اور خاکروب کو جب کہا (خاکروب وہاں ہمارے پاکستان میں عموماً عیسائی یا ایسی castکے ہوتے ہیں جس کو عموماً لوگ پسندنہیں کرتے، حالانکہ کسی قسم کاکوئی امتیاز نہیں ہونا چاہئے)تو بہر حال کہتے ہیں اُس نے یہ کہا کہ نہ مولوی صاحب تمہارے ساتھ کھاتے ہیں نہ تم لوگ۔ (یعنی کھانا تو اکٹھے تم لوگ کھاتے نہیں۔ نہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں نہ تم کھاؤ) پھر انہوں نے اس میں یہ شرط رکھی کہ اگر تم ہمارے ساتھ کھا لو تو پھر مولوی صاحب کو چھوڑ دیں گے۔ وہ شرمندہ ہوئے لیکن مخالفت کرتے رہے۔ خاکسار نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت بابرکت میں لکھا کہ لوگ میرا پانی بند کرتے ہیں اور مسجدوں میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں۔ اگر مولوی فیروز دین اور چوہدری نصراللہ خان صاحب پلیڈر احمدی ہو جائیں تو جماعت میں ترقی ہو جائے گی۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے جواباً لکھا کہ آپ یہ خیال مت کریں کہ فلاں احمدی ہو جائے گا تو جماعت بڑھے گی۔ آپ صبر کریں اور نمازوں میں دعائیں کریں۔ یہ سلسلہ آسمانی ہے انشاء اللہ بڑھے گا اور زمین کے کناروں تک پہنچے گا اور سب سعید روحیں اس میں داخل ہوں گی۔ مسجدیں احمدیوں کی ہوں گی، آپ گھبرائیں نہیں‘‘۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد ۷صفحہ۴۱روایات حضرت جان محمد صاحبؓ ڈسکوی)

اور اللہ کے فضل سے جماعت وہاں پھیلی بھی۔ پس یہ مسجدیں احمدیوں ہی کی ہونی ہیں جتنی چاہے پابندیاں لگاتے رہیں یا وہاں آپ کی مخالفتیںکرتے رہیں۔ حضرت عبداللہ صاحبؓ ولد اللہ بخش صاحب فرماتے ہیں کہ ’’حضور انور کا وصال ہو گیا۔ مَیں وہیں موجود تھا۔ غیر احمدی وغیرہ مخالفین بطور تماشا بلڈنگ کے باہر تماشا دیکھ رہے تھے۔ ہم باہر دروازہ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک دوست کی چیخیں نکلنے لگیں۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ میرا ایمان جیسا کہ پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے۔ حضرت مرزا صاحب اپنا کام کر کے چلے گئے۔ یہ استقلال دکھانے کا موقع ہے نہ کہ رونے کا‘‘۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد ۷ صفحہ ۱۴۸روایات حضرت عبد اللہ صاحبؓ) (خطبہ جمعہ ۱۳؍اپریل ۲۰۱۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۴؍مئی ۲۰۱۲ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button