پاکستان میں توہینِ مذہب کے قانون کا ناجائز استعمال (نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق (NCHR) پاکستان کی رپورٹ اکتوبر ۲۰۲۳ء تا اکتوبر ۲۰۲۴ء میں پیش کیے جانے والے بعض روح فرسا حقائق سے ماخوذ) (قسط دوم ۔آخری)
عثمان اقبال کا واقعہ
عثمان اقبال(فرضی نام)، اٹھارہ سالہ طالب علم آئی ٹی، اپنی زندگی کے خوابوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب اس نے اپنا قومی شناختی کارڈ حاصل کیا۔ عثمان پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے جو مالی مشکلات کے باوجود تعلیم جاری رکھے ہوئے تھا۔
فیس بک پر ایک لڑکی کے اکاؤنٹ سے اسے پیغامات موصول ہوئے جس نے جلد ہی عثمان کو ایک جعلی تعلق میں الجھا دیا۔ اس اکاؤنٹ کی مالک نے پہلے اسے چند نازیبا تصاویر بھیجیں اور پھر اس سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی اُسے ایسی ہی تصاویر بھجوائے۔ کچھ عرصے کے بعد اس نے عثمان کے ساتھ ملاقات کا منصوبہ بنایا۔ عثمان، اس چال کو سمجھے بغیر، ایک ’دوست‘ سے ملنے کی امید میں مقامِ ملاقات پر پہنچ گیا۔
ملاقات کی جگہ پر پہنچتے ہی عثمان کو کچھ لوگوں نے گھیر لیا جن میں سے ایک ایف آئی اے کا کارندہ تھا۔ عثمان کا موبائل فون اور اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تفصیلات، بشمول پاس ورڈ حاصل کر لیے گئے۔ اس کے خلاف FIR درج کی گئی جس میں اس کے علاوہ ایسے چھ افراد کے نام بھی شامل تھے جن کو عثمان جانتا تک نہ تھا اور نہ ہی اُس کا کبھی اُن سے رابطہ ہوا تھا۔
عثمان کا خاندان اس واقعے کے بعد شدید صدمے سے دوچار ہے۔ اس کے گھر والے مالی اور جذباتی ہر لحاظ سے اس کی مدد کرنے کے لیے دن رات کوشاں ہیں اور اس ضمن میں وکلاء کی فیسوں کے بوجھ اور اس الزام میں اس کی گرفتاری کے ساتھ جڑی سماجی قدغن کو برداشت کرنے کے کرب سے گزر رہے ہیں۔ عثمان کے خواب، اس کی تعلیم اور اس کا مستقبل ہر گزرتے دن کے ساتھ دُور ہوتے جا رہے ہیں اور اس کا خاندان اس اندوہناک صورتحال سے باہر نکلنے کی امید لگائے بیٹھا ہے۔
رپورٹ کا پس منظر اور اہم اعداد و شمار
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (NCHR) کی جانب سے شائع کردہ اس رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح FIAکے سائبر کرائم ونگ نے مبینہ طور پر نوجوانوں کو آن لائن رابطوں کے ذریعے ان معاملات میں الجھا کر ان کے خلاف توہینِ مذہب کے کیسز درج کیے۔ رپورٹ کے مطابق، FIA اور بعض پرائیویٹ لوگ باہمی تعاون سے ان افراد کو، جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، ایسی سرگرمیوں میں ملوث کرتے ہیں جنہیں بعد میں توہینِ مذہب کے زمرے میں ڈال کر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار خاص طور پر PECA ایکٹ 2018ء کے نفاذ کے بعد شدت اختیار کر گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایسے کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق
٭…2020ء میں گیارہ افراد پر توہینِ مذہب کے الزامات لگائے گئے، جبکہ 2024ء تک یہ تعداد 767 تک جا پہنچی ہے۔
٭…پنجاب میں 581 افراد، سندھ میں 120، خیبر پختونخواہ میں 64 اور بلوچستان میں دو افراد اس قانون کے تحت قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔
٭… رپورٹ کے مطابق، قیدیوں میں اکثریت بیس سے تیس سال کی عمر کے نوجوانوں کی ہے، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔
اہم قانونی اور ضابطے کی خامیاں
رپورٹ میں جو خامیاں بیان کی گئی ہیں، وہ انصاف اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں:
۱۔ دفعہ 295۔ج اور دیگر دفعات میں تضاد
پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین میں دفعہ 295۔ج کے تحت سزائے موت کا نفاذ تو موجود ہے، مگر اس قانون کی تشریح اور اطلاق میں یکسانیت نہیں پائی جاتی۔ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ قوانین بعض اوقات محض شکایت کی بنیاد پر لاگو کر دیے جاتے ہیں جس سے ان قوانین کا غلط استعمال بڑھ گیا ہے۔
۲۔ شواہد کی غیر موجودگی اور غیرذمہ داری
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بعض کیسز میں FIA نے شواہد کی تصدیق کے بغیر کارروائی کر دی۔ ملزمان کے موبائل فون اور دیگر ڈیوائسز کا فورانزک معائنہ کیے بغیر گرفتاریوں کا عمل مکمل کیا گیا جو کہ کسی بھی تحقیقاتی عمل کے لیے بنیادی تقاضا ہے۔ مزید برآں بہت سے قیدیوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان سے زبردستی بیانات حاصل کیے گئے جن سے ان کے اقبالِ جرم گونہ مشکوک ہو جاتے ہیں۔
۳۔ قانونی تحفظ کی کمی
توہینِ مذہب کے کیسز میں اکثر ملزمان کو مناسب قانونی تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا، اور وکلا کو بھی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بہت سے وکلا نے اپنی حفاظت کے پیش نظر ان کیسز کی وکالت کرنے سے انکار کر دیا جس سے ملزمان کو جائز قانونی نمائندگی سے محروم ہونا پڑا۔
۴۔ معاشرتی دباؤ اور مقاطعہ
ایسے کیسز کے ملزمان اور ان کے اہل خانہ پر معاشرتی دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ ملزم سے قطع تعلقی اختیار کر لیں۔ رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بعض افراد کو ایسے الزامات کی وجہ سے اپنے رشتے داروں اور دوستوں وغیرہ سے مقاطعے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
۵۔ جیلوں میں قیدیوں سے غیر مناسب سلوک
رپورٹ میں ان قوانین کی خلاف ورزی میں گرفتار ہونے والے قیدیوں کی جیل میں حالت کا بھی جائزہ لیا گیا جہاں انہیں غیر مناسب ماحول میں رکھا گیا ہے۔ قیدیوں کو جیل میں دیگر قیدیوں سے الگ رکھا جاتا ہے مگر ان کی بنیادی ضروریات کی فراہمی میں کوتاہی برتی جاتی ہے۔یہاں تک کہ اڈیالہ جیل میں توہینِ مذہب کے الزام میں محبوس ایک ملزم حسنین علی اپنے پر کیے جانے والے تشدّد کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
ملزمان کے خاندانوں اور حکومتی ذمہ داران کے ساتھ سماعت(۳۰؍ جولائی ۲۰۲۴ء)
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کو توہینِ مذہب کے کیسز کے بارے میں متعدد شکایات موصول ہوئیں، جیسا کہ شکایت نمبر ۲(۱۷۷)۲۴ ۔ اٹھاسی(۸۸) درخواست گزاروں کے دستخطوں کے ساتھ بھجوائی گئی ان شکایات میں الزام لگایا گیا کہ ’’جعلی اور بدنیتی پر مبنی توہینِ مذہب کیسز‘‘ کو اڑھائی سو سے زائد تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کے خلاف درج کیا گیا ہے اور اس تمام عمل میں قانونی ضابطوں کی پاسداری نہیں کی گئی۔
۳۰؍ جولائی ۲۰۲۴ء کو، NCHR نے ایک سماعت کی جس میں حکومتی ذمہ داران کو درخواست گزاروں کی موجودہ صورتحال پر بات کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ کمیشن کو موصول ہونے والے شواہد سے ایک سوچے سمجھے منظم طریق سے لوگوں کو ان معاملات میں پھنسانا ظاہر ہوتا تھا جس میں دھوکا دہی سے رابطے اور گرفتاریاں شامل تھیں۔ یہ بھی کہ ان معاملات کے پس پشت چند مخصوص افراد ہی نظر آتے تھے۔ (اس سماعت کی تفصیلات رپورٹ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔)
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بہت سے ملزمان کا تعلق نسبتاً کم خوشحال یا ضرورت مند سماجی و معاشی طبقوں سے ہے جو کہ متعلقہ قوانین کے بارے میں خاطر خواہ معلومات نہیں رکھتے اور انہیں قانونی چارہ جوئی حاصل کرنے میں بھی دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ اسپیشل برانچ کے نمائندے نے توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمات کے اندراج کے طریقہ کار کی خرابیوں پر تشویش کا اظہار کیا جبکہ وزارتِ انسانی حقوق نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اس کی وجہ سے پاکستان کے دیگر ممالک یا اداروں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔
اس سماعت میں اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب میں ایف آئی اے کے نمائندہ برائے سائبر کرائم نے کہا کہ وہ قانونی طریقہ کار کی پیروی کرتے اور معیاری فورانزک آلات استعمال کرتے ہیں تاہم انہوں نے اس ضمن میں مزید تفصیلات فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔
ان خطرناک رجحانات اور توہینِ مذہب کے قوانین کے ممکنہ غلط استعمال کے پیش نظر کمیشن نے تجویز دی ہے کہ ان کیسز کی منصفانہ تفتیش کے لیے مختلف حکومتی اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں پر مشتمل ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (JIT) قائم کی جائے۔
کمیٹی کے دائرۂ عمل میں درج ذیل امور بھی شامل کیے جا سکتے ہیں:
٭…توہینِ مذہب کیسز میں بے حد اضافے کی وجوہات کی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ جانچ پڑتال کی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تفتیشی ادارے قانونی طور پر وضع شدہ ضابطوں کی پاسداری کر رہے ہیں۔
٭…ان پرائیویٹ افراد کے مقاصد اور اقدامات کی تحقیق کی جائے جو لوگوں کو ذاتی طور پر توہینِ مذہب کے الزام میں پھنساتے اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔
٭…ان کیسز کے حوالے سے پرائیویٹ افراد اور متعلقہ حکومتی عہدیداروں کے درمیان مبینہ گٹھ جوڑ کی جانچ پڑتال کی جائے۔
٭…عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے مہم چلائی جائے تاکہ عوام کو ان عوامل سے آگاہ کیا جا سکے جو توہینِ مذہب کے الزامات کا باعث بنتے ہیں۔
٭…FIA کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جائے اور حسبِ ضرورت اس میں اصلاحات کی سفارش کی جائے تاکہ توہینِ مذہب کے کیسز کو بہتر طریقے سے ہینڈل کیا جا سکے۔
شکایت کنندگان اور ملزمان کے خاندانوں کو JIT کے سامنے اپنے مسائل کے ساتھ ساتھ متعلقہ شواہد پیش کرنے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ منصفانہ اور شفاف کارروائی یقینی بنائی جا سکے۔
اصلاحات کے لیے تجاویز
اس ضمن میں انصاف کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے NCHR نے متعدد اہم تجاویز دی ہیں جو کہ توہینِ مذہب قوانین کو بہتر بنانے کے لیے معاون ثابت ہو سکتی ہیں:
۱۔ قوانین میں واضح تبدیلیاں
سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ دفعہ 295۔ج اور توہینِ مذہب کی متعلقہ دیگر دفعات میں مناسب اصلاحات کی ضرورت ہے۔ نیز ایسے قوانین کے نفاذ کے لیے جو طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اس کی پابندی کروائی جائے نیز اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ کسی بھی فردِ واحد پر توہینِ مذہب کا الزام لگنے پر باضابطہ اور جامع تفتیش ہو۔ اس سے اس قانون کے غلط استعمال کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
۲۔ تفتیشی عمل کی شفافیت
ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ وہ ہر کیس میں شواہد اور متعلقہ املاک مثلا ًکمپیوٹر، موبائل فون وغیرہ کا مکمل اور غیرجانب دارانہ فورانزک تجزیہ کریں۔ یہ بات ضروری ہے کہ الزامات کی تصدیق کے لیے ٹھوس شواہد موجود ہوں تاکہ ہر بے گناہ فرد سزا سے محفوظ رہے۔
۳۔ قانونی تحفظ میں اضافہ
توہینِ مذہب کے کیسز کے ملزمان کو مناسب قانونی مدد فراہم کی جائے اور ایسے کیسز کے دفاع کے لیے آگے آنے والے وکلا کو تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ بغیر کسی دباؤ کے اپنے موکل کی نمائندگی کر سکیں۔
۴۔معاشرتی شعور اور ڈیجیٹل تعلیم
حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرے اور دورِحاضر میں تیزی سے پھیلنے والے ڈیجیٹل میڈیا کے فوائد و نقصانات اور ان کے مثبت استعمال سے آگہی پیدا کرے تاکہ نوجوان آن لائن سوشل میڈیا کے خطرات سے آگاہ ہوں اور غلط سرگرمیوں سے بچ سکیں۔
۵۔ قیدیوں کے انسانی حقوق کا تحفظ
جیلوں میں قیدیوں کو بہتر ماحول فراہم کیا جائے اور انہیں طبی اور نفسیاتی سہولیات فراہم کی جائیں۔ قیدیوں کو ایسی سہولیات دینا انصاف کا اہم تقاضا ہے، خاص طور پر ایسے ملزمان کے لیے جن پر عائد کیے جانے والے الزامات ابھی تک عدالت میں ثابت نہیں ہوئے۔
۶۔ نوجوانوں کے لیے مثبت سرگرمیاں اور اُن کی ذہنی صحت کی حفاظت
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق NCHR کی رپورٹ میں نوجوانوں کی ذہنی صحت کے مسائل کو بھی اجاگر کیا گیا ہے اور اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کے لیے ذہنی صحت کی سہولیات اور مثبت سرگرمیوں کے مواقع فراہم کرے تاکہ انہیں بہتر اور مثبت زندگی گزارنے کے مواقع مل سکیں۔
موجودہ دور میں توہینِ مذہب قوانین میں پائے جانے والے نقائص اور ان کے غیر مناسب اطلاق کی وجہ سے بے گناہ افراد متاثر ہو رہے ہیں۔ NCHR کی رپورٹ ان مسائل کو اجاگر کرتی ہے اور ان کے حل کے لیے نہایت مفید تجاویز پیش کرتی ہے۔ انصاف اور انسانی حقوق کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ توہینِ مذہب کے قوانین کا اطلاق انتہائی احتیاط اور عدل و انصاف کے اصولوں کے تحت کیا جائے۔ اگر ان قوانین کو غیر جانبداری اور شفافیت کے ساتھ لاگو کیا جائے تو پاکستان میں نہ صرف عدل و انصاف کی بالادستی ہوگی بلکہ انسانی حقوق کا تحفظ بھی ممکن ہوسکے گا۔
اختتامیہ
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی جانب سے اس سنگین مسئلے کے لیے مناسب اقدامات کروانے کی کوشش شروع کیے ایک سال گزر چکا ہے لیکن حکومت کی طرف سے سینکڑوں نوجوانوں کو ایک خاص طریقے سے جال میں پھنسا کر توہینِ مذہب کے الزامات میں گرفتار کرنے اور قید کرنے سے روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا جا سکا۔ ہر ایف آئی آر کسی کی زندگی کو متاثر کرتی ہے اور جو لوگ قید ہیں ان کے لیے ہر دن خوف سے بھرا ہوتا ہے۔ انہیں نہ صرف اپنے پر لگائے گئے جھوٹے الزامات کی سزاؤں کا خوف ہوتا ہے بلکہ وہ دوسرے قیدیوں کی طرف سے ممکنہ حملے کے ڈر سے بھی دوچار رہتے ہیں۔ جیلوں میں بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو اپنے آپ کو ماورائے عدالت سزا دینے کا حق دار سمجھتے ہیں۔ توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار افراد کو ایک سنگین حقیقت کا سامنا ہے جہاں طویل قانونی عمل میں دہائیاں لگ سکتی ہیں جس سے وہ مستقل پریشانی اور مایوسی کا شکار رہتے ہیں۔
توہین مذہب کے مقدمات کے تعلق میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی جانب سے اٹھائے جانے والے بدنیتی، بلیک میلنگ اور نجی افراد کے ملوث ہونے جیسے سنگین خدشات ابھی تک حل نہیں کیے گئے۔ ان الزامات میں محبوس ان نوجوانوں کو منصفانہ اور شفاف تحقیقات نیز آئینی حق برائے منصفانہ ٹرائل کی ضرورت ہے، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی پہنچ سے دُور ہوتا جا رہا ہے۔
پچھلی قسط: پاکستان میں توہینِ مذہب کے قانون کا ناجائز استعمال (قسط اوّل)