خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کی اہمیت
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :هُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ ۔(الصف:۱۰) (ترجمہ)وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اُسے دین (کے ہر شعبہ) پر کلیّۃً غالب کردے خواہ مشرک برا منائیں۔
اسلام، اللہ تعالیٰ کا وہ چنیدہ اور کامل مذہب ہے جو پوری دنیا کی اقوام اور اشخاص کے لیے اور ہر زمانے کے لیے آیا ہے۔ اسلام، اللہ تعالیٰ کی وہ تعلیم ہے جو ہمارے سید و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ اور قرآن کریم کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔ اگر ہم اسلام کی تعلیم پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ تعلیم دو حصوںمیں منقسم ہیں ایک حقوق اللہ کی ادائیگی اور دوسرے حقوق العباد کی ادائیگی۔ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کو تمام عالم کا بادشاہ،مربی اعظم، راہنما اور ہدایت دینے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ دین اسلام کو پوری دنیا میں غلبہ نصیب ہوگا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بانی اسلام ﷺ کی زندگی میں صرف عرب میں ہی غلبہ نصیب ہوا تھا۔
اب اللہ تعالیٰ کے اس قائم کردہ مشن پر غور کریں کہ کیا مذہب اسلام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانا اور اس کی تعلیم پر عمل کرنا بغیر کسی امامت یا سرپرست یا مرکزی نقطے کے ممکن ہے ؟ یہی سوال خلافت کی اہمیت کو بیان کرتا ہے کیونکہ ایک انسان کو اپنی مقررہ مدت کے بعد اس جہان فانی سے کوچ کرنا ہی کرنا ہے۔ اور ایک نبی کی وفات کے بعد اس کی نیابت کو جاری کرنا ہی خدا کی تعلیم کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کا عملی رنگ ہوتا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :وَاِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَجۡعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا وَیَسۡفِکُ الدِّمَآءَ ۚ وَنَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ؕ قَالَ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ (البقرہ:۳۱) اور (یاد رکھ) جب تیرے ربّ نے فرشتوں سے کہا کہ یقیناً میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا کیا تُو اُس میں وہ بنائے گا جو اُس میں فساد کرے اور خون بہائے جبکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور ہم تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔ اُس نے کہا یقیناً میں وہ سب کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
اللہ تعالیٰ کا اس آیت میں فرشتوں کی بات کو رد کرنا اور کرۂ ارض پر خلیفہ منتخب کرنا بتاتا ہے کہ خلافت کی کس قدر ضرورت اور اہمیت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے نبی ﷺ کو تمام عالم کے لیے نبی بنا کر بھیجا ہے اور آپؐ سے غلبۂ اسلام کا وعدہ فرمایا جس کی تکمیل کچھ آپ کی زندگی میں ہوئی اور کچھ آپ کی روحانی زندگی میں ہونی ہے۔
آنحضور ﷺ کی وفات کے کچھ عرصے بعد ہی اسلام پر سخت دن آنے شروع ہو گئے اور ایک وقت آیا کہ اسلام کی حالت بگڑنا شروع ہوگئی لیکن اس چیز کا ہونا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو ثابت کرتا ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کی خبر پہلے ہی سے دے دی تھی اور ساتھ یہ بھی خبر دی تھی کہ کچھ لوگ میرے دین کی تکمیل اشاعت کریں گے اور آخری زمانے میں خلافت قائم ہو گی۔چنانچہ آپ ﷺ فرماتے ہیں:تَکُوْنُ النُبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَاشَاءَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللّٰہُ إِذَا شَاءَ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُبُوَّۃِ فِیْکُمْ مَاشَاءَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَاءَ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا فَتَکُوْنُ مَاشَاءَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَاءَ اللّٰہُ أَنْ یَّرْفَعَھَا ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیًّا، فَتَکُوْنُ مَاشَاءَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَاءَاللّٰہُ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ، ثُمَّ سَکَتَ۔ (مسند احمدکتاب الفضائل، حدیث نمبر ۱۲۰۳۴)یعنی جب تک اللہ کو منظور ہوگا تمہارے درمیان نبوت موجود رہے گی، پھر اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھا لے گا، پھر طریقۂ نبوت پر گامزن خلافت ہوگی اور وہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ کو منظور ہوگا، پھر جب اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھا لے گا، پھر کاٹ کھانے والی حکومت ہوگی اور وہ بھی اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ کو منظور ہو گا، پھر جب اللہ چاہے گا اسے بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد ظلم کی حکومت ہوگی اور وہ بھی اس وقت تک رہے گی جب تک منظور ِخدا ہوگا، پھر جب اللہ چاہے گا وہ اسے بھی اٹھا لے گا، ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ، پھر طریقۂ نبوت پر گامزن خلافت آجائے گی پھر نبیﷺ خاموش ہوگئے۔
اس حدیث کی تصدیق سورۃ الجمعہ کی آیت نمبر۴ (اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ )سے بھی ہوتی ہے۔اس کی تفصیل بخاری میں کچھ یوں آئی ہے کہ صحابہؓ نے عرض کیا کہ کون ہیں وہ لوگ جو ہمارا ہی درجہ حاصل کرلیں گے حالانکہ ابھی وہ ہم میں موجود ہی نہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے پاس بیٹھے فارسی الاصل صحابی حضرت سلیمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رِجَالٌ اَوْ رَجُلٌ مِّنْ ھٰٓؤُلَآءِ(ترجمہ): اگر ایمان ثریا کے پاس بھی پہنچ گیا (یعنی زمین سے اُٹھ گیا) تو ان لوگوں میں سے ایک فرد یا کچھ افراد اُس کو واپس لائیں گے۔(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃالجمعۃ، باب قولہ و آخرین منھم لما یلحقوا بھم حدیث نمبر۴۸۹۷)
سورۃ الصف اور سورۃ الجمعہ کی آیات آخری زمانے میں مسیح موعود کے دور میں غلبہ اسلام کی پیشگوئی فرما رہی ہیں اور اس بارے میں کسی بھی مکتبہ فکر کی کوئی دوسری رائے نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے اغراض میں سے ایک تکمیلِ دین بھی تھی۔ جس کے لیے فرمایا گیا تھا۔اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ (المائدہ:۴)اب اس تکمیل میں دو خوبیاں تھیں۔ ایک تکمیلِ ہدایت اور دوسری تکمیل اشاعتِ ہدایت۔ تکمیل ہدایت کا زمانہ تو آنحضرتﷺ کا اپنا پہلا زمانہ تھا اور تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ آپؐ کا دوسرا زمانہ ہے جبکہ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعہ:۴)کا وقت آنے والا ہے۔ اور وہ وقت اب ہے۔ یعنی میرا زمانہ یعنی مسیح موعود کا زمانہ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تکمیل ہدایت اور تکمیل اشاعتِ ہدایت کے زمانوں کو بھی اس طرح پر ملایا ہے۔ اور یہ بھی عظیم الشان جمع ہے۔‘‘(ملفوظات، جلد سوم صفحہ ۷۰،۶۹ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
حضرت مسیح موعودؑ اپنے بعد جاری نظام خلافت کی خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سُنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دوقدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا وے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لیے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لیے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لیے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ ۳۰۵)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’یاد رکھو ایمان کسی خاص چیز کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے…… ہزار دفعہ کوئی شخص کہے کہ میں مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لاتا ہوں ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمدیت پر ایمان رکھتا ہوں۔ خدا کے حضور اس کے ان دعوؤں کی کوئی قیمت نہیں ہو گی جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا جس کے ذریعہ خدا اس زمانہ میں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے جب تک جماعت کا ہر شخص پاگلوں کی طرح اس کی اطاعت نہیں کرتا اور جب تک اطاعت میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ بسر نہیں کرتا۔اس وقت تک وہ کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدار نہیں ہوسکتا۔‘‘(الفضل ۱۵؍نومبر۱۹۴۶ء)
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ماہنامہ خالد کے ’سید نا طاہر نمبر‘کے لیے اپنے پیغام میں فرماتے ہیں :’’یہ خلافت کی ہی نعمت ہے جو جماعت کی جان ہے اس لیے اگر زندگی چاہتے ہیں تو خلافتِ احمدیہ کے ساتھ اخلاص اور وفا کے ساتھ چمٹ جائیں، پوری طرح اس سے وابستہ ہو جائیں کہ آپ کی ہر ترقی کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی مضمر ہے۔ ایسے بن جائیں کہ خلیفۂ وقت کی رضا آپ کی رضا ہو جائے۔ خلیفۂ وقت کے قدموں پر آپ کا قدم ہو اور خلیفۂ وقت کی خوشنودی آپ کا مطمح نظر ہو جائے۔‘‘(ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر مارچ اپریل۲۰۰۴ء۔صفحہ۴)
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ خلافت احمدیہ کے سائے تلے اپنی زندگی کے ہر لمحے کو گزارنے اور خلافت احمدیہ سے عشق و وفا کا تعلق رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم خلیفۃالمسیح کی ہر آواز پر لبیک کہتے ہوئے صف اول میں کھڑے ہونے والے ہوں۔ اللہم آمین