اسلامی تعلیمات کی عظمت سائنسی تحقیقات کی روشنی میں
ہمار ے پیار ے مذہب اسلام کی بیان فرمودہ تعلیمات کی یہ خوبی بہت نمایاں اور ممتاز ہے کہ اس کی سب تعلیمات صداقت اور حکمت پر مبنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو جو اس کا نازل کردہ صحیفۂ ہدایت اور اسلامی تعلیمات کی اساس ہے خدائے حکیم کا کلام قرار دیا ہے اور اس میں بیان کردہ سب تعلیمات کو پُر حکمت اور باعثِ ہدایت بیان فرمایا ہے۔ مزید برآں اسلام کی دعوت دینے اور تبلیغ اسلام کے لیے بھی حکمت کا طریق اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مختصر یہ کہ جس جہت سے بھی دیکھا جائے مذہبِ اسلام میں حکمت اور مقصدیت نظر آتی ہے۔ اور یہ بات اپنی ذات میں اس کی صداقت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
خدائے علیم و حکیم کا کلام قرآن مجید پُر حکمت بیانات سے بھرا پڑا ہے۔ اسلامی عقائد کا بیان ہو یا عملی تعلیمات کا، حلّت و حرمت کا بیان ہو یا اوامر ونواہی کا یا کسی اور شعبہ سے تعلق رکھتا ہو، ہر موقع پر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے ازدیادِ ایمان اور تقویتِ قلوب کے لیے نیز غیر مسلموں کے لیے اسلامی تعلیمات کی عظمت آشکار کرنے کے لیے سب باتوں کی حکمت اور فلاسفی بیان کردی ہے۔ جب انسان کو یہ معلوم ہو کہ یہ تعلیم ایک ایسی بالاہستی کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو علیم و خبیر اور حکیم و بصیر ہستی ہے اور پھر اس تعلیم کو ہمارے لیے بیان کرنے والی ہستی وہ ہے جو صدوق وامین ہی نہیں بلکہ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی کے عظیم مقام پر فائز ہے تو عقل و بصیرت کو اس تعلیم پر صاد کرنے میں ذرہ بھر بھی تامل اور تذبذب نہیں ہونا چاہیے۔
مزید برآں ان قطعی اور یقینی باتوں پر یہ امر مستزاد ہے کہ بیان کردہ تعلیمات اپنی ذات میں بھی انتہائی پُر حکمت، معقول، مفید اور ضرورت انسانی کے عین مطابق ہیں۔ انسانی فطرت ان کو فوراً قبول کرنے پر تیار ہو جاتی ہے بلکہ جوں جوں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے انسان کا علم اور عرفان ترقی کرتا ہے وہ ان مبارک تعلیمات پرفدا ہو جاتا ہے۔ ان تعلیمات کی حسن و خوبی اس کے رگ وپے میں سرایت کر جاتی ہے اور والہا نہ عشق و عقیدت کے جذبات کے ساتھ وہ ان تعلیمات کی عملی تصویر بن جاتا ہے۔
اسلامی تعلیمات کا دائرہ لا محدود ہے جبکہ انسان کی دریافت کردہ باتوں کا دائرہ محدود ہے اور پھر محض عقل انسانی کی پہنچ ہر معاملہ میں یقیناً درست اور قطعی بھی نہیں ہوتی۔ ان وجوہ سے مذہب اسلام کی بیان فرمودہ سب تعلیمات کے بارے میں دنیا وی ماہرین علوم کی رائے نہ ہی موجود ہے اور نہ حتمی اور یقینی ہے۔ تاہم جوں جوں عقل انسانی ترقی کر رہی ہے دنیاوی علوم میں اضافہ کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بہت واضح ہو کر سامنے آرہی ہے کہ جب بھی کسی اسلامی تعلیم کو انسان نے سائنسں اور دیگر علوم کے مسلمہ قوانین کے معیار پر پرکھنے کی کوشش کی ہے تو سب اسلامی تعلیمات کو پُر حکمت، مناسب، مفید اور فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ پایا ہے۔
مذ کورہ بالا حقیقت کا اندازہ کرنے کے لیے چند مثالوں کا مطالعہ بہت مفید ثابت ہو گا۔ اس سلسلہ میں پہلی مثال یہ ہے کہ اسلام نے شراب کو حرام قرار دیا ہے اور اس کی حکمت خمر کے لفظ میں ہی اشارۃً بتا دی گئی ہے کہ اس کا استعمال انسانی دماغ اور اس کی نازک صلا حیتوں کے نظام کو مجروح کر دیتا ہے۔
علوم جدیدہ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ واقعی شراب کے نتیجہ میں انسان صحیح عمل اور صحیح فیصلہ کی قوت سے محروم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ٹریفک کے حادثات کی ایک بہت بڑی وجہ شراب کا استعمال بتائی گئی ہے۔ شراب دنیا کے اکثر علاقوں میں بڑی کثرت سے پی جاتی ہے۔ شراب کا استعمال اس قدر عام ہے کہ بسا اوقات شراب نہ پینے والے شخص کو بہت عجیب اور قدامت پرست خیال کیا جاتا ہے۔ اس ماحول میں بھی جب شراب کے نقصانات اور اس کے بُرے اثرات کا ان لوگوں سے ذکر کیا جائے تو با وجود شراب کے سخت عادی ہونے کے انہیں یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ شراب نوشی کے نتائج افسوسناک ہوتے ہیں۔
پھر اسلام نے روزہ کی تعلیم بیان فرمائی ہے۔ سطحی نظر سے دیکھنے والے کو یہ تعلیم مشکل نظر آتی ہو گی لیکن زمانہ حال کے علوم نے اس کے فوائد کو تسلیم کیا ہے۔ روزہ کا سب سے بڑا فائدہ روحانی ترقی ہے۔ عبادات اور مجاہدات کے لیے توجہ کا مرتکز ہونا اور یکسوئی لازمی امور ہیں۔ یہ سب باتیں کھانے پر کنٹرول سے بصورت احسن میسر آتی ہیں۔پھر روزہ بہت سی بیماریوں کا علاج ہی نہیں، بیماریوں کے خلاف حفظ ما تقدم کے طور پر بہترین پرہیز بھی ہے جسم کا وزن کم کرنے کے لیے بھی روزہ کو بہت مفید بتایا جاتا ہے۔
کھانے پینے کے بارے میں بھی اسلامی تعلیمات کے سب پہلوؤں کو جدید سائنسی انکشافات نے نہایت وقیع اور مبنی بر حکمت قرار دیا ہے۔ اس بارے میں اسلام نے جہاں اس بنیادی اصول کو بیان فرمایا ہے کہ انسان کی خوراک کا نہ صرف اس کے جسم پر اثر ہوتا ہے بلکہ اس کی روح اور اخلاق و عادات بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں لہٰذا خوراک کے استعمال میں خاص احتیاط اور صحیح انتخاب کی بہت ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں کھانے کے بارے میں بہت سے بظاہر چھوٹے چھوٹے امور بھی بیان فرمائے ہیں۔ مثلاً ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا نہ کھایا جائے۔ کھانا شروع کرنے سے قبل پانی موجود ہونا چاہیے، حتی الوسع کھڑ ے ہو کر پانی یا کوئی مشروب نہ پیا جائے۔ ٹیک لگاکر نہ کھایا جائے۔ ابھی کچھ بھوک باقی ہو تو کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا جائے وغیرہ۔ ان سب امور کو ماہرینِ طب نے صحیح اور صحت کے لیے مفید تسلیم کیا ہے۔
اس قسم کی متعدد مثالوں سے یہ حقیقت بہت واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ جن امور کو دور ِحاضر کے ماہرینِ طب نے اپنے لمبے تجربات کے بعد دریافت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ ساری باتیں آج سے چودہ سو سال قبل امت مسلمہ کو عطافرمائی تھیں جبکہ دیگر لوگ زمانہ حال تک بہت سے امور سے نا آشنا رہے اور اب تک اپنی عقل اور تحقیق کے نقص کی وجہ سے متعد د امور کی حکمت اور صداقت سے ناواقف چلے آرہے ہیں۔ امت مسلمہ پر اسلام کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ان امور میں راہنمائی فرمائی ہے۔
اسلام کی تعلیمات میں سے ایک یہ ہے کہ جب کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان کے الفاظ اور بائیں میں اقامت کے الفاظ کہے جائیں۔ اس کی بہت ساری حکمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جہاں اس سے والدین کو بچہ کی تربیت کی ذمہ داری سے آگاہی اور یاد دہانی ہوگی۔ و ہاں بچہ کے کان میں جانے والی پہلی آواز اس ازلی اور ابدی صداقت پر مشتمل ہوگی کہ سب سے زیادہ واجب الاحترام ہستی اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات ہے جو سب سے زیادہ عظمت اور شوکت کا مالک ہے۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ بچہ پیدائش کے فوراً بعد سے ( بلکہ پیدائش سے قبل بھی ) اپنے ماحول اور آوازوں کا بہت اثر قبول کرنے لگتا ہے۔ عام لوگوں کے خیال میں شاید یہ بات درست نہ ہو لیکن اسلامی تعلیم کے مطابق یہ ایک حقیقت ہے کہ بچہ پر اس چھوٹی عمر میں بھی آوازوں کا اثر ہوتا ہے۔
اس حقیقت کو اس زمانہ میں ماہرین نے تسلیم کیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جاپان کے ایک ماہر تعلیم نے ایک نظریہ پیش کیا جس سے ضمنی طور پر اس بات کی صداقت ثابت ہوتی ہے کہ بچہ پر آوازوں کا نہ صرف اثر ہوتا ہے بلکہ اس موقع پر سنی جانے والی آوازیں اس کی آئندہ زندگی کی راہیں اور منزلیں متعین کرنے میں بھی بہت اہمیت رکھتی ہیں۔
SONY کمپنی کے بانیوں میں سے ایک اور MULTINATIONAL ELECTRONICS EMPIRE بورڈ کے اعزازی صدر MR. MASARU IBUKA نے یہ نظر یہ پیش کیا ہے کہ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ بڑا ہو کر مختلف زبانوں کا ماہر بنے اور اس میں مختلف زبانیں سیکھنے کی صلاحیت پیدا ہو تو اسے پنگھوڑے کی عمر سے ہی غیر ملکی زبانوں کی آوازیں سناتے رہیے ! اس ماہر تعلیم کی رائے کے مطابق انسانی دماغ میں وہ حلقے (CIRCUITS) جوBRAIN CELLS کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا موجب ہوتے ہیں انسان زندگی کے ابتدائی دوسالوں میں پیدا ہوتے ہیں اس ماہر تعلیم کی رائے میں یہ حلقے جس صورت میں بھی جب ایک بار پیدا ہو جائیں پھر موت تک ان میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اور نہ ہی بعدازاں ان کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اسی بنا پر اس کی رائے ہے کہ بچوں کو پنگھوڑے کی عمر سے غیرملکی زبانوں کی آوازوں ا ور صوتی لہروں کا تجربہ کروانا چاہیے تا کہ ان حلقوں کی پیدائش کے عرصہ میں غیر ملکی زبانیں سیکھنے کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔
سائنسدانوں کے اندازوں میں اختلاف ہے لیکن عمومی طورپر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک انسانی دماغ میں ۱۵۰ سے لے کر ۲۰۰ ملین CELLS ہوتے ہیں۔ پرو فیسر IBUKA کے نظریہ کے مطابق وہ زبانیں جن کی آواز سننے اور صوتی اثرات قبول کرنے کا موقع نوزائیدہ بچوں کو مہیا کرنا ضروری ہے۔ ضروری نہیں کہ ان کی تعداد محدود یا معین ہو۔ مختلف زبانیں بھی بیک وقت سنوائی جا سکتی ہیں۔ اس سے عمومی صلاحیت کے حلقے پیدا ہوں گے۔ اور یہ ملکہ ترقی کرے گا۔ تاہم اگر والدین بچہ کو کسی خاص زبان کا ماہر بنانا چاہتے ہیں تو صرف اس معین زبان کا بار بار بچہ کے کان میں ڈالا جانا بہت مفید ہو سکتا ہے۔
پروفیسرمذ کور کا کہنا ہے:’’بچہ اس بات کا ہر گز شعور نہیں رکھتا کہ وہ فرانسیسی زبان سن رہا ہے یا انگریزی۔ تاہم بچہ اس زبان کے خصوصی انداز یا INTONATION کو ضرور جذب کرتا ہے۔‘‘
اس مقصد کے لیے بچوں کو سلانے کے لیے لوریاں نظمیں یا دیگر کہانیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
پروفیسر IBUKA نے مزید بتایا ہے کہ اگر ایک بچہ کو متواتر تین مہینے تک ایک خاص گیت سنوایا جائے۔ پھر بعدازاں جب بھی اس گیت کی آواز اس کے کان میں پڑے گی۔ وہ ایک سکون اور لگاؤ محسوس کرے گا۔ یہ مانوسیت یا لگاؤ بالکل اسی نوعیت کا ہے جیسے ایک بچہ اپنی ماں یا اپنے باپ کی آواز کو سن کر محسوس کرتا ہے۔ جاپانی لوگ L اور R کے الفاظ صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتے۔ اس ماہر کی رائے میں اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ بچپن میں ان کے دماغ میں مناسب ’’حلقے‘‘پیدا نہیں ہو سکے۔
پر وفیسر موصوف نے اپنی تحقیق کے ضمن میں بعض اور باتوں کا بھی انکشاف کیا ہے۔ مثلاً اس کا کہنا ہے کہ میاں بیوی کے باہم لڑنے کی آواز نوزائیدہ بچہ کے ذہن کی نشو و نما اور ان حلقوں کی تشکیل کے لیے ’’بد ترین دشمن‘‘کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی رائے میں والدین کا بچہ کے ساتھ BABY TALK کرنا بھی درست نہیں۔ کیونکہ یہ گفتگو رو زمرہ کی عام گفتگو سے مختلف ہوتی ہے اور بار بار اس غیر معمولی طرز کی گفتگو کو سننے سے بچہ کے ذہن میں بھی عجیب نوعیت کے حلقے پیدا ہو سکتے ہیں۔
پرو فیسر موصوف کے ان خیالات کا ذکر اخبار THE JAPAN TIMES میں شائع ہوا ہے۔ (تاریخ ۲؍اگست ۱۹۷۶ء)
ایک دلچسپ تحقیق
قرآن مجیداوربائبل میں ذکر ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے زمانہ اسیری میں فرعون مصر کی ایک خواب کی تعبیر بیان فرمائی تھی۔ قرآن مجید کے بیان کے مطابق تعبیر یوں تھی کہ ’’تم سات برس مسلسل جدوجہد سے کاشت (کا کام) کرو گے پس (اس عرصہ میں) جو (کچھ) تم کاٹو اس (سب) کو سوائے (اس) تھوڑے سے حصہ کے جو تم کھالو، اس کی بالوں میں (ہی) رہنے دینا۔ پھر اس کے بعد سات سخت (تنگی کے سال) آئیں گے (اور) سوائے اس قلیل مقدار کے جسے تم پس انداز کر لو وہ اس (تمام غلہ) کو جو تم نے ان کے لیے پہلے سے جمع کر چھوڑا ہوگا کھا جائیں گے۔ پھر اس کے بعد ایک (ایسا) سال آئے گا، جس میں لوگوں کی فریاد سنی جائے گی اور وہ (خوشحال) ہو جائیں گے اور اس حالت میں ایک دوسرے کو تحفےدیں گے۔‘‘ (یوسف: ۴۸تا ۵۰)
جس خواب کی یہ تعبیر ہے اس میں بادشاہ نے سات موٹی اور سات دبلی گائیں دیکھی تھیں۔
عصر حاضر کی ایک جدید تحقیق نے اس سلسلہ میں ایک دلچسپ انکشاف کیا ہے۔ DR. JOSEPH ORTMAN جو کہ تل ابیب (اسرائیل) کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں ان کے کہنے کے مطابق:
"DESERTS ARE NOT DRY BECAUSE NO RAIN FALLS ON THEM. NO RAIN FALLS ON THEM BECAUSE THEY ARE DRY.”
یعنی صحرا اس وجہ سے خشک اور بنجر نہیں ہوتے کہ وہاں بارش نہیں ہوتی۔ معاملہ برعکس ہے۔ وہاں بارش نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ صحرا کا بنجر علاقہ ہوتا ہے۔
اس دلچسپ بات کی وضاحت کچھ یوں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں سیاروں کی مدد سے مشرق وسطی کے بعض علاقوں کی تصاویر لی گئی ہیں جن سے پتا لگتا ہے کہ جن علاقوں میں مویشی کثرت سے چرنے کے لیے چھوڑے جاتے ہیں وہاں طبعاً سرسبزی اور شادابی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ ٹنڈ منڈ اور خشک علاقے سر سبز علاقوں کی نسبت سورج کی شعاعیں زیادہ منعکس کرتے ہیں چنانچہ ان علاقوں میں ہوا گرم، خشک اور پُر سکون ہو جاتی ہے اور نتیجۃً بارش بہت کم ہوتی ہے۔ جب کسی علاقہ میں (خشک سالی اور سرسبزی نہ ہونے کی وجہ سے) مویشیوں کی تعداد کم ہوجاتی ہے تو جنگلی نباتات کثرت سے اگنے کا موقع پالیتی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں سورج کی شعاعیں کم منعکس ہوتی ہیں اور بارش زیادہ ہوتی ہے۔ اس پر و فیسر کے خیال میں عین ممکن ہے کہ خشک سالی کے سات سال فراخی کے سات سالوں میں مویشیوں کی تعداد بہت بڑھ جانے کی وجہ سے ظہور پذیر ہوئے ہوں۔(بحوالہ جاپان ٹائمز، ۱۸؍اگست ۱۹۷۶ء)
نا معلوم اس نظریہ میں کس حد تک صداقت ہے۔ تاہم یہ بیان دلچسپی سے خالی نہیں۔ سب سے اہم بات تو امر واقعہ ہے جس سے کسی کو انکار نہیں۔ فرعون نے ایک خواب دیکھی اور اللہ کے بند ے حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کی تعبیر بیان فرمائی جو اپنے وقت پر بعینہ ظہور پذیر ہوئی۔
ہمارے دل اس یقین سے پُر ہیں کہ قرآن مجید میں بیان فرموده ہرحقیقت اور ہر ہر لفظ کی صداقت اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہوتی چلی جائے گی۔ ہر صداقت کا اثبات، مومنوں کے لیے ازدیادِ ایمان کا نیا موقع فراہم کرنے والا ہو گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ !