حضرت مصلح موعود ؓ

قرآن کریم کے تمدنی احکام (انتخاب خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۱۴؍ جولائی ۱۹۲۲ء) (قسط اول)

۱۹۲۲ء کے اس خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے سورۃ الحجرات کی ابتدائی آیات کے ضمن میں اسلام کے تمدنی احکام پر روشنی ڈالی ہے۔قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)

حضورانور نے تشہد، تعوّذ، سورۃ فاتحہ کے بعد درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَاَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ اَصۡوَاتَہُمۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امۡتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ لِلتَّقۡوٰی ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّاَجۡرٌ عَظِیۡمٌ۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ۔(الحجرات:۱تا۵)

اس کے بعد فرمایا:آج میں ایک تمدنی معاملہ کے متعلق توجہ دلاتا ہوں۔ چونکہ میرے گلے میں تکلیف ہے اس لئے زیادہ نہیں بول سکتا اور مختصراً یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ

جب کوئی قوم ترقی کرنا چاہتی ہے اور خداتعالیٰ اُس کو بڑھانا چاہتا ہے تو اُس قوم کا تمدّن بھی ترقی کرتا ہے۔

غور کرو چوہڑوں، چماڑوں کے مقابلہ میں پڑھے لکھے لوگوں کی عقل تو زیادہ تیز ہو تی ہے مگر دوسری اقوام بھی جو پڑھی لکھی سمجھی جاتی ہیں اُن سے تعلق رکھنے والے اَن پڑھوں کی عقلیں بھی مقابلۃً ان سے تیز ہوتی ہیں۔ چوہڑے وغیرہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی نہیں سمجھ سکتے۔ یہ فرق کیوں ہے۔ اس لئے کہ ایک تو تعلیم کا اثر ہے اور ایک تمدّن کا۔ جس رنگ میں یہ قومیں باتیں کریں گی وہ بہت ادنیٰ درجہ ہو گا۔

اُن کی باتیں ادنیٰ ہوں گی اور گالیاں دیں گے، بات میں خشونت ہو گی، عورتوں سے سختی کریں گے، جب بات کریں گے تو ادب اور لحاظ نہیں ہو گا۔

مگر جو قومیں شریف ہیں اُن کی حالت ان سے مختلف ہو گی۔ علاوہ علم کے دولت اور حکومت سے بھی بات کرنے کا طریق بدل جاتا ہے۔

تو معلوم ہوا کہ میل ملاپ کے طریق، بڑوں سے بات کرنے کے آداب، بیوی خاوند کے تعلقات ان سب باتوں میں علم کے ساتھ ساتھ ترقی ہوتی ہے اور صفائی آتی ہے۔ جو قومیں گرتی ہیں وہ ان معاملات میں بھی گر جاتی ہیں۔

ہمارے ملک کے لوگ اخلاق کے لحاظ سے یوں تو یورپ والوں سے اچھے ہیں۔ مگر تعلیم و تربیت نے ایک تغیر کردیا جو ہمارے ملک والوں میں نہیں اُن میں ہے۔ مثلاً ولایت والوں کی یہ حالت ہے کہ اگر سٹیشن پر لوگ ٹکٹ لینے کے لئے جمع ہوں تو وہ اِس ترتیب سے کھڑے ہوں گے جس سے آئیں گے۔ دوسرا پہلے سے آگے نہیں بڑھے گا اور تیسرا دوسرے سے آگے نہیں بلکہ اُس کے پیچھے کھڑا ہو گا اور اِس طرح ایک لمبی قطار بن جائے گی اور سب یکے بعد دیگرے ٹکٹ لیں گے۔ کوئی شخص لائن توڑ کر آگے نہیں بڑھے گا۔ مگر ہمارے یہاں اس کے برخلاف کُہنیاں چلا کرتی ہیں۔

یہ تمدّن کی اصلاح، تعلیم اور حکومت کے ذریعہ ہوئی ہے۔ پس جو قومیں ترقی کرتی ہیں اُن کا تمدّن بھی ترقی کرتاہے۔

بعض باتیں لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بعض میں ادنیٰ کی اصلاح سے اعلیٰ کی اصلاح ہوتی ہے۔ اور بعض میں اعلیٰ کی اصلاح سے ادنیٰ کی اصلاح ہوتی ہے۔ اس کے متعلق اگر ظاہری صفائی ہو تو اخلاق بھی اچھے ہو جاتے ہیں۔ اگر کھانے پینے کی چیزیں عمدہ ہوں اور مناسب طریق پر ان کو کھایا جائے تو اس سے جسم کے ذرات تیار ہوں گے، وہ اعلیٰ اخلاق کا موجب ہوں گے۔ پس

اگر جسم کی نشو و نما مناسب طور پر ہو تو اس کا نتیجہ اخلاق کی درستی ہوتا ہے اور اخلاق کی درستی کے لئے تمدّن کی اصلاح بھی ضروری ہے۔

اِس سورۃ میں بعض وہ اخلاق بیان کئے گئے ہیں جو بظاہر معمولی ہیں مگر قرآن کریم میں خصوصیت سے اُن کا ذکر کیا گیا ہے۔ اِن کے مقابلہ میں اَور احکام ہیں جو بڑے ہیں مگر ان کا ذکر نہیں مثلاً سنتوں کا ذکر قرآن کریم میں نہیں۔ پھر ان احکام کو ضمناً بیان نہیں کیا بلکہ ابتدائے سورۃ ہی میں اُن کو بیان کیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ

احکامِ تمدّن اخلاق سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا اثر قوم پر پڑتا ہے۔بظاہر یہ موٹی موٹی باتیں ہیں لیکن نتائج کے لحاظ سے کس قدر اہم ہیں اور ان کی کس قدر تاکید فرمائی ہے۔

اصل حکم میں تو یہ بات نہیں مگر نتیجہ میں نکل آتی ہے کہ رسولؐ کی رائے ظاہر کرنے سے قبل کسی معاملہ کے متعلق پہلے ہی سے اظہارِ رائے نہ کیا کرو کہ ہماری اس معاملہ میں یہ رائے ہے۔جب تک رسول کی رائے نہ معلوم ہو جائے اور نہ رسول کے بولتے ہوئے بولنا چاہئے۔

جب رسول بول چکے تب بولنا چاہئے۔

اس کو قرآن کریم میں نازل فرمایا اور سورۃ کو شروع ہی اس طرح کیا۔یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو۔ جس وقت اﷲتعالیٰ کے احکام بیان کئے جا رہے ہوں یا رسول گفتگو کر رہے ہوں اُن سے مت آگے بڑھا کرو۔ اُن کے مقابلہ میں مت بات کیا کرو۔ عربی کے محاورہ میں ’’قدم‘‘کسی کے سامنے بولنے کو بھی کہتے ہیں۔ تو اِس کے معنی ہوئے کہ اﷲ اور رسول کے سامنے نہ بولا کرووَاتَّقُوا اللّٰہَ اﷲ کا تقویٰ اختیار کرو۔

بات بظاہر معمولی ہے مگر اس کا اثر تقویٰ پر پڑتا ہے۔

پھر فرمایا اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌکہ تمہیں خیال ہو گا کہ اگر ہم نہ بولے تو ہماری بات سنی نہ جائے گی۔ فرمایا

دین کا معاملہ تو خدا سے ہے وہ تو سنے گا۔ اگر رسول یا اُس کا خلیفہ نہیں سنے گا تو اس کا کچھ حرج نہیں۔ کیونکہ جس کے ساتھ معاملہ ہے وہ دل کی حالت کو جانتا اور ہر ایک کی آواز کو سن لیتا ہے۔

اگر دین ہے تو یہی طریق اختیار کرنا چاہئے۔ اور اگر دین نہیں اور دنیا ہے تو پھر کچھ کہنا ہی نہیں۔ رسول سے اگر تعلق ہے تو اس لئے کہ خدا کا حکم ہے اور خدا ہی کے لئے تعلق ہے۔

مومن اگر اطاعت کرتا ہے اﷲ کے لئے کرتا ہے ورنہ بندے کا بندے سے کیا تعلق۔

دوسری بات یہ فرمائی:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَاَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ۔ اگر رسول بیٹھا ہے اور کوئی بات بیان کرے تو اُس کے سامنے ادب سے بات کی جائے اور اونچی آواز میں بات نہ کی جائے۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص بات کرے اور اُس پر اعتراض ہو کہ اپنی بات کو واضح کیجئے تو جواب میں وہ شخص اپنی بات کو واضح کرنے اور کلام پر زور دینے کے لئے زور سے بولتا ہے۔ اور یہ صورت ایک مباحثہ کی ہو جاتی ہے۔ اس کے متعلق سکھلایا کہ

اگر رسول تمہاری بات واضح کرنے کے لئے سوال کرے تو بلند آواز سے نہ بولو۔ آپ کی آواز سے تمہاری آواز نیچی رہے۔

زور اس لئے دیا جاتا ہے کہ بات مانی جائے۔ یہ طریق درست نہیں۔ رسول اور اُس کا نائب مشورہ کو مانتے بھی ہیں۔ مجھے تو اِس سات سال کے عرصہ میں یاد نہیں کہ احباب نے مشورہ دیا ہو اور میں نے اُس مشورہ کو ردّ کر دیا ہو۔ گو ہمیں حق ہے کہ ہم ردّ کر دیں۔ تم اپنی تحکم کی صورت اختیار نہ کرو جس سے ظاہر ہو کہ تم حاکم اور وہ محکوم ہیں۔ بلکہ

اپنی آواز اُن کی آواز سے تو بہرحال اونچی نہیں ہونی چاہئے۔

اگر رسول یا اُس کا نائب بات کرنے میں بلند آواز استعمال کریں تب بھی تمہیں آواز نیچی ہی رکھنی چاہئے۔

(باقی آئندہ جمعرات کو ان شاء اللہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button