ہر احمدی کو شکرگزاری کے مضمون کو سمجھنا چاہئے
اللہ تعالیٰ جو سچے وعدوں والا ہے وہ اپنے شکر گزار بندوں سے یہ وعدہ فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراہیم: 8)کہ اگر تم شکرگزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا۔
پس اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں اور احسانات کو اُن لوگوں کے لئے مزید بڑھا دیتا ہے جو اُس کے شکرگزار ہیں۔ اور ایک احمدی مسلمان کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا بڑا انعام اور احسان ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے جس نے نیکیوں کے بجا لانے اور پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف رہنمائی کی ہے۔ پس ہر احمدی کو شکرگزاری کے اس مضمون کو سمجھنا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا حاصل کرنے والا بنے۔ نہ کہ اُن لوگوں میں شامل ہو جو اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنے والے ہیں اور یوں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنتے ہیں۔ ان ملکوں میں آ کر دنیاوی لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ نے آپ پر بے انتہا فضل فرمایا ہے اور بعض پر یہ فضل بہت زیادہ ہوا ہے۔ اکثریت کے حالات بھی اُن کے پہلے حالات سے بہتر ہوئے ہیں اور جیسا کہ مَیں نے جلسے میں بھی اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو بہت سوں کے لئے یہاں لانے کے سامان کئے ہیں اور اُس کے نتیجے میں آپ کے دنیاوی حالات بہتر ہوئے ہیں۔ یہ بھی احمدیت کی برکت ہے۔ وہ لوگ یقینا ناشکرے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں گرے ہوئے ہیں جو یہاں آئے، احمدیت کی بنیاد پر یہاں پاؤں ٹکائے، اسائلم لیا اور جب حالات بہتر ہوئے تو جماعت پر اعتراض شروع کر دیا، جماعت سے علیحدہ ہو گئے۔ بہرحال جماعت کو تو ایسے لوگوں کی رَتی بھر بھی پرواہ نہیں ہے۔ یہ جو محاورہ ہے کہ ’’خس کم جہاں پاک‘‘یہ ایسے ہی لوگوں پر صادق آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو علیحدہ کر کے جماعت پر بھی یہ ایک احسان کیا ہے۔
(خطبہ جمعہ ۱۳؍جولائی ۲۰۱۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍اگست ۲۰۱۲ء)