ہماری مسجد امن و سلامتی کا پیغام دنیا کے سامنے پیش کرتی رہے گی (خلاصہ خطاب حضور انور برموقع صد سالہ یادگاری تقریب سنگ بنیاد مسجد فضل لندن)
٭… آج جہاں ہم اس مسجد کے سنگِ بنیاد کے سَو سال مکمل ہونے کی تقریب میں شامل ہیں تمام احمدیوں کو مسجد کے قیام کے حقیقی مفہوم کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے
٭… وہ دن آنے والے ہیں جب لوگ جنگ و جدل کو چھوڑ کر پیار و محبت کےساتھ آپس میں رہنے پر آمادہ ہوجائیں گے، وہ دن آئے چاہتے ہیں جب بنی نوع انسان اس بات کو
سمجھ لیں گے کہ ان سب کا خالق ایک ہی خدا ہے۔ جب انسان اس بات کو سمجھ لے گا تو پھر ان میں آپس میں سگے بھائیوں سے بڑھ کر پیار و محبت پیدا ہوجائے گی(حضرت مصلح موعودؓ)
٭…اللہ کرے کہ اُس کی اور اس کی مخلوق کی محبت ہر انسان کے دل میں جاگزیں ہوجائے۔ یقیناً یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے اس مسجد فضل کا قیام کیا گیا تھا
٭…اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم سَو سال کے بعد بھی اسی مقصد کے لیے کوشاں ہیں اور اسی مقصد کے لیے آج یہ تقریب منعقد کر رہے ہیں
خلاصہ خطاب سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍اکتوبر۲۰۲۴ء برموقع صد سالہ یاد گاری تقریب برائے سنگ بنیاد مسجد فضل لندن
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۹؍اکتوبر ۲۰۲۴ء بروزہفتہ مسجد فضل لندن کے سنگ بنیاد پر ایک صدی مکمل ہونے کے موقع پر خصوصی تقریب سے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا۔ حضور انور کا یہ خطاب اسلام آباد، ٹلفورڈ میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے مواصلاتی رابطوں کے توسّط سے پوری دنیا میں براہ راست سنا اور دیکھا گیا۔ حضورِانور کے خطاب سے قبل مسجد فضل لندن میں ہونے والی تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآنِ کریم اور اس کے انگریزی ترجمہ سے ہوا۔ بعد ازاں امیر صاحب جماعت احمدیہ یوکے نے استقبالیہ ایڈریس پیش کیا نیز بعض مہمانانِ گرامی نے مختصر تقاریر کیں۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جو اسلام آباد ٹلفورڈ میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوزمیں موجود تھے۔ شام سات بج کر سترہ منٹ پر منبر پر تشریف لائے اور خطاب کا آغاز فرمایا۔
خلاصہ خطاب حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد،تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
معزز مہمانانِ گرامی! السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہٗ
آج اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے ہم مسجد فضل کے قیام کی صد سالہ تقریب میں شریک ہیں۔ مساجد اور ان سے وابستہ تمام تقاریب کا مقصد خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنا ہے، یقیناً ان تقاریب کے انعقاد کا واحد مقصد روحانی اور دینی ہے۔ مسجد وہ جگہ ہے جہاں لوگ خدا تعالیٰ کی واحد و یگانہ ہستی کی عبادت کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے جمع ہوتے ہیں تاکہ اپنی روحانی ترقی کرسکیں۔ آج کے دَور میں جب دنیاداری کا زور ہے اور اخلاقیات کے معیار گرتے جارہے ہیں ایسے میں مساجد اور ان کی آبادکاری کی اہمیت مزید بڑھتی جارہی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصد اس کی عبادت کرنا ہے، یقیناً عبادت کا مطلب صرف ظاہری عبادت نہیں بلکہ اس کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ انسان کی ظاہری عبادات بےمعنی ہیں اگر انسان اپنے جیسے دیگر انسانوں کے حقوق ادا نہیں کرتا۔ اس لیے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی کی فکر کرے۔
آج جہاں ہم اس مسجد کے سنگِ بنیاد کے سَوسال مکمل ہونے کی تقریب میں شامل ہیں تمام احمدیوں کو مسجد کے قیام کے حقیقی مفہوم کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ایک حقیقی مومن وہ ہے جو دوسرے کے لیے بھی وہی پسندکرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ پس جماعت احمدیہ اس بات کے پیشِ نظر دنیا کو امن و عافیت کی راہوں کی طرف بلاتی ہے تاکہ دنیا سامنے نظر آنے والی تباہی سے بچ سکے۔ یہ وہ مقصد ہے جو ہمیں بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے سکھایا ہے اور یہی وہ مقصد ہے جس کی تعلیم ہمیں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے دی ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ تمام اقوام کی ہدایت کے لیے تشریف لائے تھے، تاکہ تمام اقوام کو خدائے واحد ویگانہ کے آستانے پر لایا جاسکے۔ آپؑ کا دل اس تڑپ سے بھرا ہوا تھا کہ کسی طرح انسانیت اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچان سکے۔ آج اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے جماعت احمدیہ کوشاں ہے۔
آج دنیا کے بعض ممالک میں احمدیوں پر ظلم و ستم روارکھا جا رہا ہے مگر اس کے باوجود احمدیت دنیا کے دو سَو دس ممالک میں پہنچ چکی ہے۔ جماعت احمدیہ مسلسل اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ دنیا خدا اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے والی بن سکے۔ اسلام کی یہ تعلیمات جو یوکے اور یورپ میں پہنچائی گئی ہیں وہ بھی دراصل حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی اس تڑپ کا نتیجہ ہے جو آپؑ کے دل میں تھی ، اس مقصد کے لیے آپؑ نے خدا تعالیٰ کے حضور بڑی متضرعانہ دعائیں بھی کی تھیں۔ اس ملک میں احمدیت کا نفوذ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو خدا تعالیٰ سے ملنے والی بشارات کے تابع تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو یہ نظّارہ دکھایا تھا کہ گویا آپؑ لندن شہر میں ایک منبر پر کھڑے ہیں اور اسلام کی سچائی بڑے مدلل انداز میں بیان فرمارہے ہیں۔ اس کے بعد آپؑ نے چھوٹے چھوٹے درختوں سے تیتر کی مانندسفید پرندوں کو پکڑا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ مَیں اس کی تعبیر یہی کرتا ہوں کہ مَیں تو نہیں البتہ میری تحریرات ضرور انگلستان پہنچیں گی اور کئی سعید روحیں اس کی تاثیر سے اسلام کی طرف راہنمائی پائیں گی۔
اس خواب کی تعبیر خلافتِ اولیٰ میں ہی پوری ہوگئی جب جماعت احمدیہ کے اولین مشنری حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ یوکے پہنچے۔ یہ بیسویں صدی کے ابتدائی دور کی بات ہے جب اس ملک میں اسلام سے واقفیت نہ ہونے کے برابر تھی اور دوسری جانب جماعت احمدیہ کے وسائل بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ اُس دور میں جماعت کے مبلغ نے بڑی محنت سے کام کیا۔ پھر خلافتِ ثانیہ میں جماعت کے مزید مبلغین بھی یوکے آئے اور ان مبلغین کی مساعی کے بہت مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ جب یہ واضح ہوگیا کہ یہاں جماعت کی سرگرمیوں کے لیے باقاعدہ کوئی مرکز ہونا چاہیے تو پھر یہاں لندن میں ایک مسجد کی تعمیر کا ارادہ کیا گیا اور اس مقصد کے لیے جماعت احمدیہ کے ممبران نے بڑی غیرمعمولی مالی قربانیاں پیش کیں۔ ان قربانیوں کے نتیجے میں یہاں اس مسجد یعنی مسجد فضل کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ ۱۹۲۴ء میں جب ویمبلے کی بین المذاہب کانفرنس منعقد ہوئی تو اس سلسلے میں جماعت کے مشنری مولانا عبدالرحیم نیّر صاحبؓ کو بھی دعوت دی گئی۔ اس اہم موقعے پر امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانیؓ از خود بنفسِ نفیس تشریف لائے اور اس موقعے پر آپؓ نے آج سے ٹھیک ایک سَو سال قبل اس مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔
اس موقعے پر آپؓ نے بڑا پُر معارف خطاب بھی فرمایا تھا جس میں آپؓ نے فرمایا کہ
آج ہم یہاں ایک ایسے مقصد کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں جو بہت منفرد مقصد ہے یعنی ایک مسجد کاقیام! اس مسجد کا واحد مقصد خدا تعالیٰ کی عبادت اور اس کے نام کو بلند کرنا ہے۔
اس مسجد میں جو کوئی داخل ہوگا خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب و ملت اور نسل سے ہو وہ اس مسجد میں مکمل امن اور سلامتی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی عبادت کرسکے گا۔ ہمارے درمیان کے فرق تنازعات کا باعث نہ بنیں بلکہ ہم رواداری کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکیں۔ زمین پر قائم اللہ تعالیٰ کی پہلی مسجدجو مکّہ میں ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لیے تعمیر کی گئی تھی اور اس کی بنیاد بھی امن و سلامتی پر رکھی گئی تھی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ
یہ مسجد آپس میں رواداری کے قیام میں ممد و معاون ہوگی۔ وہ دن آنے والے ہیں جب لوگ جنگ و جدل کو چھوڑ کر پیار و محبت کےساتھ آپس میں رہنے پر آمادہ ہوجائیں گے، وہ دن آئے چاہتے ہیں جب بنی نوع انسان اس بات کو سمجھ لیں گے کہ ان سب کا خالق ایک ہی خدا ہے، جب انسان اس بات کو سمجھ لے گا تو پھر ان میں آپس میں سگے بھائیوں سے بڑھ کر پیار و محبت پیدا ہوجائے گی۔
آج جماعت احمدیہ اپنے اس عہد پر قائم ہے کہ
ہماری مسجد امن و سلامتی کا پیغام دنیا کے سامنے پیش کرتی رہے گی۔
یقیناً ہم ایک پُر آشوب زمانے سے گزر رہے ہیں اور دنیا میں نفرت کی آگ پھیلی ہوئی ہے ایسے میں ہمیں اپنے عمل اور کرداروں پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ، ہمیں چاہیے کہ ایک خدا کی مخلوق ہونے کے ناطے ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ پیار ومحبت کو پروان چڑھائیں اور باہمی احترام کے رشتے کو مضبوط کریں۔
ایک مذہبی انسان ہونے کی حیثیت سے میں اس یقین پر قائم ہوں کہ اس کے لیے ہمیں خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا ہو گا۔
یہی وہ ذریعہ ہے جس کے ساتھ ہم دنیا کو ہمیشہ قائم رہنے والے امن کی طرف لاسکتے ہیں، یہی وہ ذریعہ ہے جس کے طفیل انسانیت اپنے پیداکرنے والے کے قدموں میں آسکتی ہے۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا ایمان ہے کہ یہ زندگی تو عارضی زندگی ہے اور اس کے بعد اُخروی زندگی اصل اور حقیقی زندگی ہے جہاں ہمیں اپنے تمام عملوں کا حساب دینا ہوگا۔ اس اعتبار سے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم اپنے کل کے لیے کیا آگے بھیج رہے ہیں؟
دنیا جس تیزی سے تباہی کے راستے پر جارہی ہے ہمیں اسے روکنے کے لیے اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ جوہری تباہی کا یہ راستہ جس پر دنیا تیزی سے گامزن ہے اگر اسے بروقت نہ روکا گیا تو پھر دنیا کی آنے والی نسلیں اس کا خمیازہ بھگتیں گی اور اس کے خوفناک نتائج سے دنیا کی ایسی تباہی ہوگی کہ جس کے نتیجے میں آنے والی نسلیں اپاہج اور معذور پیداہوں گی۔ پس!آج ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کے لیے کیسی زمین اور کیسی دنیا کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔
اللہ کرے کہ اُس کی محبت اور اس کی مخلوق کی محبت ہر انسان کے دل میں جاگزیں ہوجائے۔ یقیناً یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے اس مسجد فضل کا قیام کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم سَو سال کے بعد بھی اسی مقصد کے لیے کوشاں ہیں اور اسی مقصد کے لیے آج یہ تقریب منعقد کررہے ہیں۔
اللہ کرے کہ ہم اپنے عقیدے اور مسلک سے بالا ہوکر اس معاشرے کی بہتری کے لیے کوشش کرنے والے ہوں۔ اللہ کرے کہ ہم اس اہم ترین مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں۔
آخر میں مَیں آپ سب کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اس تاریخی موقعے پر ہمارے ساتھ شریک ہوکر اسے یادگار بنایا۔ بہت بہت شکریہ
حضور انور کا خطاب سات بج کر ۴۹؍منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انور نے دعا کروائی۔
صد سالہ یاد گاری تقریب سنگ بنیاد مسجد فضل لندن
یادرہے کہ حضور انور کے خطاب سے قبل چھ بج کر پانچ منٹ پر مسجد فضل میں نماز مغرب و عشاء عثمان شہزاد بٹ صاحب (ریجنل مبلغ مسجد فضل) نے پڑھائیں جس کے بعد مسجد کے عقب میں نصب کی گئی مارکی میں تقریب کا آغاز مکرم رفیق احمد حیات صاحب (امیر جماعت احمدیہ برطانیہ) کی صدارت میں ہواجس میں فریداحمد صاحب(نیشنل سیکرٹری امور خارجیہ) نے میزبان کے فرائض سرانجام دیے۔ تقریب کےآغاز سے قبل مہمانان کو جماعت احمدیہ کے تعارف پر مشتمل ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی۔
چھ بج کر چالیس منٹ کے قریب تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ نسیم احمد باجوہ صاحب (مربی سلسلہ)نے سورۃ البقرہ کی آیات ۱۲۸تا۱۳۰؍کی تلاوت کی۔ ان آیات کا انگریزی ترجمہ جوناتھن بٹرورتھ( Jonathan Butterworth) صاحب نے پیش کیا۔ بعد ازاں محترم امیر صاحب نے تعارفی تقریر میں تمام مہمانوں کا استقبال کیا۔
استقبالیہ تقریر از امیر صاحب برطانیہ
محترم امیر صاحب نے کہا کہ ایک سو سال پہلے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ یہاں سر ڈینس روس کی دعوت پر یوکے تشریف لائے اور ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۲۴ءکو اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔آپؓ یہاں دو ماہ تک قیام پذیر رہے اور کئی لیکچرز ارشاد فرمائے جبکہ میڈیا کے ساتھ بھی گفتگو فرمائی۔ آپؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو بھی اجاگر فرمایا۔ آپؓ نے اسلام احمدیت کا تعارف پیش کیا۔ جماعت کی طرف سے یہاں پر پہلے مبلغ حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ تھےجنہوں نے یہاں اسلام کی بہت خدمت کی اور احمدیت کو پھیلایا۔ آج کی اس تقریب میں یہاں دیگر ابتدائی مبلغین کی نسلوں کے علاوہ حضرت مصلح موعودؓ اورحضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ کے خاندان کے بعض افراد بھی موجود ہیں۔ ہم تہ دل سے آپ سب کو یہاں خوش آمدید کہتے ہیں۔
مسجد فضل سے سعودی عرب کے شاہ فیصل اور نوبیل انعام یافتہ احمدی سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کا بہت گہرا تعلق ہےتاہم اس مسجد کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے چار خلفاء نے یہاں تشریف لاکر اسلام اور احمدیت کا پیغام دنیا کو پہنچایا۔ ہمارے چوتھے خلیفہ نے اس مسجد کو خلافت کا مرکز بنایا تھا لیکن بعد ازاں یہ جگہ چھوٹی ہونے کی وجہ سے ہمارے موجودہ خلیفہ اسلام آباد ٹلفورڈمنتقل ہوگئے۔ اس مسجد میں ہمارے پانچویں اور موجودہ خلیفہ کا تاریخی انتخاب بھی ہوا تھا۔ یہاں سے ہی ایم ٹی اے انٹرنیشنل کا آغاز ہوا جس نے جماعت اوراسلام کا پیغام دنیا بھر میں پھیلایا جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ہمیں ان سوسال میں جماعت احمدیہ کی بہت سی ترقیاں اور فتوحات دیکھنے کو ملیں اور یہ سب کچھ خلافت کی برکات سے ہی ممکن ہوسکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک ہمیں خلافت سے ہی برکتیں حاصل ہو رہی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہم ہمیشہ امن کی طرف گامزن رہیں گے۔ آپ سب لوگوں کا اس تقریب میں تشریف لانے کا بہت شکریہ۔
تقاریر مہمانان کرام
پہلے معزز مہمان جنہیں اس مبارک تقریب سے براہِ راست خطاب کا موقع ملا، ان کا نام کرس کاٹن (Chris Cotton) ہے، جو کہ گریٹر لندن کے ڈپٹی لارڈ لیفٹیننٹ ہیں۔ کرس کاٹن پہلے رائل البرٹ ہال کے چیف ایگزیکٹو رہ چکے ہیں اور اس وقت وہ جرورڈ اسپیس (Jerwood Space) کے چیئرمین کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور کئی خیراتی اداروں کے ٹرسٹی بھی ہیں۔
محترم کرس کاٹن نے اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ مَیں آج یہاں آ کر بہت خوش ہوں کہ گریٹر لندن کےلارڈ لیفٹیننٹ کی نمائندگی کر رہا ہوں، جو کہ عالی مرتبت شاہ چارلس کے نمائندے ہیں۔ ہمارے یہاں کمیونٹی کے ساتھ عظیم تعلقات ہیں۔ آج سے سَو سال قبل، جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ نےبرطانیہ کا دَورہ کیا، جو مذہبی تحریکات کی تاریخ میں بالخصوص غیر مسیحی مذاہب کے لیے برطانیہ میں ایک اہم واقعہ ہے۔
یہ مسجدجو وانڈزورتھ (Wandsworth) کے علاقے میں واقع ہے، لندن میں اسلامی عبادت کے لیے تعمیر ہونے والی پہلی عمارت تھی۔ اس مسجد کی تعمیر کا آغاز ۱۹۲۴ء میں ہوا اور ۱۹۲۶ء میں مکمل ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے برطانوی عوام کے لیے ایک پیغام دیا تھا جسے مَیں یہاں ترجمہ کر کے پیش کرتا ہوں: مَیں امید کرتا ہوں کہ انگلستان ہماری اس تحریک میں تعاون کرے گا اور وہ سب لوگ جو خلوص ِدل سے خدا کی محبّت کے متلاشی ہیں، وہ بغیر کسی تمسخریا نکتہ چینی کے اس پیغام کی طرف توجہ دیں گے۔ برطانوی پریس جو کہ آزادی کو فروغ دیتا ہے، ہماری اس تحریک کو حقیقی آزادی کے حصول میں مدد دے گا، وہ آزادی جس کے بغیر انسان اپنے ربّ سے متحد نہیں ہو سکتا۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو ہماری تعلیمات سے اختلاف رکھتے ہیں، کم از کم یہ تسلیم کریں کہ ہمارا مقصد دنیا میں نیکی قائم کرنا اور انسانیت میں حقیقی اخوّت کو بحال کرنا ہے، جو انسان اور خدا کے درمیان تعلقات کے دوبارہ قیام سے ممکن ہوتا ہے، جس کا نتیجہ امن کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
جب ہم اس پیغام کے اتحاد اور مقصد کی عکاسی کرتے ہیں، تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اُس دَورے کے بعد سے، برطانیہ میں جماعت احمدیہ مسلمہ نے اسلام کے امن کے پیغام کو فروغ دینے اور خدا کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جماعت احمدیہ سماجی منصوبوں، خیراتی کاموں، ماحولیاتی تحفظ اور خون کے عطیات جیسے زندگی بچانے والے اقدامات کے ذریعے معاشرے میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے، جو ان کے ان اعلیٰ اصولوں سے وابستگی کی زبردست گواہی ہے۔
مَیں جانتا ہوں کہ شاہ چارلس نے احمدیہ جماعت کے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی اپنا پیغام بھجوایا تھا، جو Hampshireمیں منعقد ہوتا ہے اور اگر آپ میں سے کسی نے اس میں شرکت نہیں کی تو مَیں آپ کو اس میں شرکت کی پرزور سفارش کرتا ہوں۔ آپ وہاں ایک بہت ہی روحانی اور حوصلہ افزا ماحول پائیں گے۔
ہم شاہی حکومت گذشتہ سَو سالوں میں برطانیہ میں مذہبی آزادی اور اظہارِ رائے کے فروغ کے لیے ان کی مساعی کے شکر گزار ہیں، جیسا کہ ہم ان تمام حکومتوں کے بھی شکر گزار ہیں جہاں جماعت احمدیہ مسلمہ اور دیگر تمام مذاہب کے افراد بلا خوف و خطر اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔
اب مَیں اس عمارت کے بارے میں بات کرتا ہوں۔ اِس عمارت کا ڈیزائن ایک مسیحی معمار نے تیار کیا تھا، جو کہ ایک نیک انسان تھے اور اپنی تحریروں میں انہوں نے باغات کی اہمیت کو انسانیت کی زندگی میں بہتری کے لیے ضروری قرار دیا تھا۔ تھامس موسن (Thomas Mawson) جو کہ بنیادی طور پر لینڈ سکیپ آرکیٹیکٹ تھے، انہوں نے ۱۹۰۸ء میں دی ہیگ (The Hague) میں پیس پیلس گارڈنز (Peace Palace Gardens) کا ڈیزائن بھی بنایا تھا اور یہی امن اس عمارت کی تخلیق سے وابستہ ایک اہم تصور ہے۔
یہ عمارت برطانوی اسلامی طرزِ تعمیر کی ایک اہم مثال ہے، جس میں جدید فنِ تعمیرکے رجحانات کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ یہ ایک اہم listed عمارت ہے جسے قومی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ آنے والے سالوں میں بھی یہ اسی طرح اہمیت کی حامل رہے گی۔
آخر پر مَیں مسجد کے سنگِ بنیاد پر موجود عبارت پڑھنا چاہوں گا، جو مؤرخہ ۱۹؍اکتوبر ۱۹۲۴ء کی تاریخ سے منسوب ہے: خدا کی رضا کے حصول کے لیے اور اس غرض سے کہ خدا تعالیٰ کا ذکر انگلستان میں بلند ہو اور انگلستان کے لوگ بھی اس برکت سے حصہ پاویں جو ہمیں ملی ہے …اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائے اور اس مسجد کی آبادی کے سامان پیدا کرے اور ہمیشہ کے لیے اس مسجد کو نیکی، تقویٰ، انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانے کا مرکز بنائے اور یہ جگہ …نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لیے روحانی سورج کا کام دے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ دعا قبول ہوئی ہے اور آج احمدیہ جماعت برطانیہ میں ترقی کر رہی ہے۔ بہت شکریہ۔
بعد ازاں Revd Jonathan Sedgwickنے اپنی تقریر میں کہا کہ نیشنل امیر صاحب ،معزز مہمانان اور جماعت احمدیہ کے ممبران کو السلام علیکم۔ مجھے بہت فخر محسوس ہو رہا ہے کہ آج یہاں آپ کے ساتھ بات کر رہا ہوں۔ میں اس تاریخی تقریب پر آپ کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ میں نے مسجد بیت الفتوح کو کئی بار دیکھا ہےلیکن یہاں مسجد فضل میں مَیں پہلی مرتبہ آیا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اس مسجد نے تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آپ نے اس ملک میں مذہبی نظریات کے متعلق جو کام کیے ہیں میں ان سب کو بھی جانتا ہوں اور آپ کو اس پر بھی مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے مسجد بیت الفتوح میں ایک تقریب میں شامل ہونے کا موقع ملا تھا جہاں ایک عالمی فٹ بال ٹورنامنٹ کے سلسلے میں مختلف ممالک کی ٹیموں کے نوجوان ممبر ایک ہی ہال میں رہائش پذیر تھے گویا بھائی چارے اور محبت کا ایک شاندار نظارہ دیکھنے میں آتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر دنیا نے ترقی کرنی ہے تو مختلف مسائل کو بڑی رواداری کے ساتھ حل کرنا ہوگا۔ انسانیت کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم پرامن طریقے پر ایک ساتھ مل کر کام کریں۔
اس تقریب کی تیسری معزز مہمان ایک مقامی رکن پارلیمنٹFleur Anderson تھیں، جو پارلیمنٹ میں پٹنی، روہیمپٹن اور ساؤتھ فیلڈز کے علاقوں کی نمائندگی کرتی ہیں، جو مسجد فضل کا گھر ہے۔ وہ اس وقت وفاقی وزیر برائے آفس آف ناردن آئرلینڈ (Office of Northern Ireland) کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں اور پہلے آل پارٹی پارلیمانی گروپ برائے احمدیہ مسلم کمیونٹی کی وائس چیئر پرسن بھی رہ چکی ہیں۔
محترمہ نے اپنے خطاب میں اظہارِ خیال کیا کہ یہ بہت بڑا اِعزاز ہے کہ مَیں یہاں آپ سب کے سامنے موجود ہوں۔ مَیں یہاں ساؤتھ فیلڈز سے بہت سے لوگوں کو دیکھ رہی ہوں، کیونکہ ہمیں فخر ہے کہ یہ مسجد یہاں واقع ہے، لندن کی پہلی مسجد ہماری ساؤتھ فیلڈز کمیونٹی میں ہے اورمَیں آپ کو اس خوبصورت عمارت کے یہاں سَو سال مکمل ہونے پر مبارکباد پیش کرتی ہوں، جو ہماری کمیونٹی کا مرکزی حصہ ہے۔
مجھے یہاں آ کر بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔مَیں نے یہاں کئی مواقع پر شرکت کی ہے، لیکن یہ یہاں منعقد ہونے والا سب سے بڑا اِجتماع ہےاور یہ واقعی شاندار ہے کہ یہاں سات سَوسے زائد مہمان موجود ہیں۔مَیں نے ۲۰۱۹ء میں منتخب ہونے کے بعد جماعت احمدیہ کے ساتھ کام کرنا ایک عظیم اعزاز سمجھا ہے۔
آج کی شام مجھے سَو سال قبل یعنی ۱۹۲۴ء میں رونما ہونے والے واقعات کی یاد دلاتی ہے، کچھ چیزیں ایسی ہیں جو نہیں بدلیں، جیسے کہ ۱۹۲۴ء میں بھی عام انتخابات اور پیرس میں اولمپک کھیل منعقد ہوئے تھے۔ لیکن اس علاقے کی صورت حال بہت مختلف رہی ہوگی۔ مسجد کے ارد گرد زیادہ تر گھر موجود نہیں تھے، اور ساؤتھ فیلڈز کی عمر بھی محض چالیس سال تھی، تو یہ کمیونٹی بھی نئی نئی آباد ہوئی تھی۔ ہم نے جماعت احمدیہ اور ساؤتھ فیلڈز کی دیگر کمیونٹیز کے ساتھ مل کر گذشتہ صدی میں بہت کچھ حاصل کیا اور مَیں واقعی اس بات کی تعریف کرتی ہوں کہ کمیونٹی اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے دوسروں کے ساتھ تعاون اور مل جل کر کام کرنے کے لیے بھی ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔
کمیونٹی کے نوجوانوں، بزرگوں اور خاص طور پر خواتین کے گروپوں کے ساتھ ہمارے تعلقات میرے لیے ایک بہت ہی یادگار تجربہ رہے ہیں۔ اور ان برسوں میں مجھے کمیونٹی کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں شامل ہونے کے مواقع ملے ہیں۔ ہم نے تاج پوشی سے لے کر عید تک کے بہت سے مواقع کا جشن مل کر منایا ہے، ہم نے مقامی فوڈ بینک کی اعانت کے ذریعے عملی طور پر کمیونٹیز کی مدد کی ہےنیز کووڈ (COVID) کے دوران کئی اقدامات سے مدد کی ہے۔ ہم نے دنیا بھر میں بہت سے احمدیہ منصوبوں کے لیے عطیات جمع کرنے کے لیے واکس (walks) میں بھی حصہ لیا اور ہم نے مقامی پارک میں درخت بھی لگائے۔ مَیں پاکستان بھی گئی، جہاں مَیں نے جماعت احمدیہ کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کا بذاتِ خود مشاہدہ کیا اور وہاں کے لوگوں کے ساتھ ملاقات بھی کی۔
مَیں نے کمیونٹی کی جانب سے پارلیمنٹ میں بھی منعقدہ کئی میٹنگز میں شرکت کی اور وہاں مہمان نوازی کا لطف اٹھایا ہے۔
مَیں حضرت خلیفۃ المسیح (ایّدہ الله) کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جو امن کی وکالت میں اپنی انتھک کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ ان کی قیادت آج کے ہنگامہ خیز دَور میں امید کا ایک روشن مینار ہےاور ان کی حکمت و معرفت دنیا بھر کی کمیونٹیوں کو امن اور انصاف کے لیے کام کرنے کی تحریک کرتی ہے۔ ہمیں اس وقت اس کی اشد ضرورت ہے۔آج مسجد فضل کے قیام کے سَو سال مکمل ہونے کا موقع ہے اور یہ مسجد امن ، وفاداری اور قومی خدمت کے اصولوں کی علامت ہے، جو آج کی دنیا کے چیلنجز سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔
اس مسجد کی تاریخ کا ایک شاندار پہلو یہ ہے کہ اس کی تعمیر کے لیے جمع کردہ رقم کا ایک بڑا حصہ برٹش انڈیا کی خواتین نے اپنےزیورات کی فروخت سے حاصل کیا اور انہوں نے وہ رقم مسجد کے لیے عطیہ کی۔ یہ خواتین بھارت میں تھیں، یہاں نہیں آئی تھیں، مگر انہوں نے ایمان و محبّت کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنی دولت عطیہ کی تاکہ وہ دوسرے ملک میں موجود لوگوں سے جڑ سکیں۔ مَیں سوچتی ہوں کہ یہ واقعی ہم سب کے لیے ایک تحریک ہے کہ ہم بھی اپنی چھوٹی چھوٹی کوششوں سے دنیا بھر کے لوگوں کی مدد کرسکتے ہیں۔
یہ ان کی قربانی ہے جو بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا ایک حقیقی ثبوت ہے۔ اور جب ہم اس وقت مشرق وسطیٰ اور سوڈان میں ہونے والے واقعات کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ہم کبھی کبھار یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم زیادہ مدد نہیں کرسکتے، لیکن شاید انہوں نے بھی یہی محسوس کیا ہوگا، لیکن پھر بھی وہ اس عمارت کی تعمیر کے لیے ایک بڑی مددگار ثابت ہوئیں، جو آج بھی ہمیں متاثر کرتی ہے اور آج بھی دنیا کو بدلنے کے لیے اپنی حقیقی کوششیں فراہم کر رہی ہے، یہاں تک کہ یہ سَوسال پرانی ہے۔
یہ مسجد جماعت احمدیہ کی اپنی اقدار سے غیر متزلزل وابستگی کی تاریخی علامت ہےاور عالمی غیر یقینی کے اِس دَور میں جماعت احمدیہ کی طرف سے امن اور اتحاد کے جو اسباق دیے جا رہے ہیں، وہ آج کے دَور میں پہلے سے بھی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔مَیں آپ سب کو آنے والے سَو سال کے لیے بےشمار برکتوں کی دعا دیتی ہوں اور محبّت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں کا پیغام لے کر چلنے کی دعا کرتی ہوں۔
آخری مہمان لبرل ڈیمو کریٹس کے سربراہ Sir Ed Davy MPنے اپنی تقریر میں کہا کہ احمدی ہمارے پرانے دوست ہیں۔میں آپ سب کو اور حضور انور کو السلام علیکم کہتا ہوں۔آج میں چار مختصر باتیں کرنا چاہتا ہوں۔پہلی بات یہ کہ مسجد فضل کی سو سالہ تقریب پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔دوسری بات یہ کہ مجھے آپ کی جماعت کی کئی تقریبات اور جلسہ سالانہ میں بےشمار مرتبہ شرکت کا موقع ملا ہے اور آپ کی مہمان نوازی سے مستفید ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے۔میں جب بھی کسی پروگرام میں آیا ہوں وہاں ہمیشہ دنیا میں قیام امن کی باتیں ہی کی گئی ہیں۔آج کی یہ تقریب بھی بہت ہی خاص تقریب ہے اور یہ ایک بہت بڑا سنگ میل ہےجو جماعت احمدیہ نے حاصل کیا۔آپ کے لیے شاید یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ آپ لوگوں کو یہاں ہجرت کرنی پڑی لیکن یہ ہمارے لیے بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ آپ کی جماعت یہاں یوکے میں قائم ہوئی کیونکہ آپ کی جماعت نہ صرف یہاں کی مقامی کمیونٹی کی خدمت کررہی ہے بلکہ دنیا بھر کے ضرورت مند لوگوں کی بھی خدمت کرتی ہے۔ میں انسانیت کے لیے آپ کی تمام تر خدمات پر آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
موصوف نے مزید کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم نے پاکستانی احمدیوں کے لیے یہاں کی پارلیمنٹ میں بھی آواز اُٹھائی ہے۔ آخر میں مَیں آپ سب سے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی ہم حضور انور کا خطاب سنیں گے جس پر ہم سب کو عمل کرنا چاہیے۔
تاثرات مہمانان
اس تقریب میں سات سو سے زائد مہمانوں نے شرکت کی۔ ان میں سے بعض کے تاثرات درج ذیل ہیں:
٭…محترم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ نے نمائندہ الفضل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج کا دن ایک بہت خاص دن تھا ، حضرت مصلح موعودؓ نے اس ملک میں ایک سو سال پہلے قدم رکھے تھے اور آج کے دن اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھے ہوئے ایک سو سال مکمل ہوگئے ہیں۔ اس لحاظ سے آج کا دن ایک بہت تاریخی دن ہے۔ اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا آج کا خطاب اور کل کا خطبہ جمعہ بہت اہم تھا جس میں حضور انور نے مسجد فضل کے حوالے سے تفصیل بیان فرمایا اور سب لوگوں کو اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنا بہت ضروری ہے اور اس کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اور اگر دنیا اپنے ذاتی مفادات کے پیچھے چلتی رہی تو پھر نتیجہ عالمی جنگ ہوگا جس کے بہت خوفناک نتائج ہوں گے۔ جو اگلی نسلوں کے لیے ایک بہت بڑا عذاب ہوگا۔
امیر صاحب نے کہا کہ تقریب میں شامل مہمانوں پر حضور انور کے خطاب کا بہت گہرا اثر ہوا۔
امیر صاحب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے مجھے ۱۹۶۰ء کی دہائی سے مسجد فضل کے پاس قیام کرنے اور اس مسجد میں باقاعدگی کے ساتھ آنے کی توفیق مل رہی، اور جب سے خلافت یہاں پر آئی اس کے بعد سے جماعت نے بہت تیزی سے ترقی کی اور یہ مسجد جماعت احمدیہ کا مرکز رہی۔
امیر صاحب نے کہا کہ اب اگلی صدی میں جماعت نے بہت تیزی سے ترقی کرنی ہے ان شاء اللہ، جس کے لیے ہم سب کو تیار ہونے کی ضرورت ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس کی طرف ہمیں حضور انور نے توجہ دلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
٭…مسجد کی ایک ہمسایہ خاتون جینی صاحبہ نے اپنےتاثرات بیان کرتے ہوئے نمائندہ الفضل کو بتایا کہ میں مسجد کے قریب ہی رہتی ہوں۔اس مسجد کی تاریخ اور جو واقعات یہاں ہوئے ان کے بارے میں مَیں نے سنا۔ میرے لیے یہ بڑی حیرانی کی بات تھی کہ یہ مسجد ایک سو سال پرانی ہے۔آج کی اس تقریب میں شامل ہونا میرے لیےباعث فخر ہے۔
یہاں بہت اچھا ماحول ہے اور سب لوگ مل کر اس تقریب میں شامل ہورہے ہیں۔ یہ بہت اچھی تقریب ہے۔ لوگ بہت خندہ پیشانی سے مل رہے ہیں اور آزادی سے گھومنے پھرنے اور دیکھنے کا موقع مل رہاہے۔
٭…ایمی صاحبہ جو لوکل جی پی (GP)ہیں نے اپنے تاثرات کچھ یوں بیان کیے کہ میں یہاں اپنے ایک شریک کار کی دعوت پرآئی ہوں جن کا نام Sebastian ہے۔
میرے لیے باعث فخر ہے کہ یہاں مجھے بہت سی چیزیں دیکھنے اور تاریخ سیکھنے کا موقع مل رہاہے۔ اسی طرح مسجد کے اندر جانے کا بھی موقع ملا اور بڑی خوش دلی سے یہاں مجھےمسجد دکھائی گئی جس پر میں بہت ممنون ہوں۔
٭…کونسلر رووی گوندیا نے اپنے تاثرات یوں بیان کیے کہ میں ۱۹۸۲ء سے یہاں اس مسجد کے علاقے کا لوکل لارڈ کونسلر ہوں۔۲۰۲۲ءتک لیڈر آف دی کونسل بھی رہا ہوں۔میرا اس مسجداور جماعت احمدیہ کے ساتھ بہت پرانا تعلق ہے۔ میرا خیال ہے کہ مَیں پہلی مرتبہ اس مسجد میں سر ظفراللہ خان صاحب کی زندگی میں آیا تھا۔مجھے اس تقریب میں پٹنی کی لوکل پارلیمنٹ کے ممبر کے ذریعہ دعوت آئی تھی کہ میں یہاں آؤں اور سر ظفر اللہ خان جیسےعظیم انسان سے ملوں جن کا تاریخ میں ایک بہت بڑا کردار ہے اور جن کے بارے میں مَیں نے صرف کتابوں میں ہی پڑھا تھا۔
جہاں تک آج کی تقریب کا سوال ہے تو یہ ایک بہت اچھی اور زبردست تقریب ہےگذشتہ ہفتہ میں یہاں سے گزرا تو اس جگہ کافی لوگ تھے۔ کچھ عمارت کو رنگ و روغن کر رہے تھے، کچھ اس کی باڑ کو رنگ رہے تھے اور مجھےان میں جوش، لگن اور فخرنظر آ رہا تھا۔ہمیں یہاں کی سیر کروانے اور مختلف چیزوں کے بارہ میں بتانے کاشکریہ۔
٭…مکرمہ Aneeta Spink صاحبہ نے کہا کہ مجھے یہاں اس لیے مدعو کیا گیا تھا کہ میرے دادا چارلس روفی اس مسجد کو بنانے والے بلڈرز میں شامل تھے۔ میں نے ان سے اس بارے میں کوئی بات نہیں سنی۔ میں ومبلڈن میں رہتی تھی اور جب بھی یہاں سے ڈسٹرکٹ لائن پر بیٹھ کر لندن جاتی تو مسجد کو ضرور دیکھتی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میرے دادا اس کے بنانے والوں میں شامل تھے۔ اس سوال کے جواب میں کہ آپ اس مسجد کو دیکھ کر اپنے دادا سے کیا کہتیں انہوں نے کہا کہ دادا!یہ بہت ہی خوبصورت ہے اور یہاں اب بہت سے لوگ ہیں اس وقت ۱۹۲۴ء میں یہاں صرف دو لوگ تھے۔
٭…نائیجل روفی نے حضورِانور کے خطاب کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ خطاب بہت دلچسپ لگا۔ اور موضوع کے مطابق تھا۔ ان حالات میں بھی خلیفہ بہت پرسکون لگ رہے تھے۔ اور لوگوں کا آپ کی باتوں کو سن کر سمجھنا بہت بھلا محسوس ہوتا تھا۔
٭… سپین سے تعلق رکھنے والے سپینش احمدی مسلمان ناصر احمد عارف صاحب نے کہا: میرا نام Anthonio Gonzales یا بطور احمدی مسلمان ناصر احمد عارف ہے اور میرا اسپین سے تعلق ہے۔ یہ میری پچھلے پچیس سال سے مقامی مسجد ہے۔ اور میرے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کمیونٹی اور ملک کے لیے بھی کہ اس مسجد کی تعمیر پر سو سال مکمل ہوئے ہیں۔ یہ ہر طرح سے خوبصورت مسجد ہے۔ یہاں چار خلفاء نے نمازیں ادا کیں اور دعائیں کیہیں۔
٭…جیمز Sunderland سابق ایم پی برائیٹن نے کہا کہ میرا جماعت احمدیہ سے بہت پرانا تعلق ہے۔ آج رات احمدی دوستوں کے ساتھ ایک لذیذ عشائیہ میں شریک ہوا۔ مجھے ایک طویل عرصہ تک مختلف صورتوں میں جماعت کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ ایک نہایت زبردست جماعت ہے جس نے ملک کی معاشی اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے بھی کافی خدمت کی۔ یہ ایک قابلِ تعریف عمل ہے۔ ایک اہم بات حضور کی زبردست قیادت ہے آپ نے واضح الفاظ میں ہماری راہنمائی کی۔ یہ ایک یادگار شام ہے۔
ادارہ الفضل انٹرنیشنل امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز، محترم امیر صاحب جماعت احمدیہ برطانیہ اور احباب جماعت احمدیہ برطانیہ کو اس کامیاب تقریب کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہے نیزدعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مسجد کی تعمیر کے عظیم الشان مقاصد کو پورا فرماتا چلا جائے اور یہ تاریخی مسجد تکمیل اشاعت ہدایت میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی چلی جائے۔آمین