اداریہ

اداریہ: حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت احمد مسیح موعود نبی اللہ بروز و نائب محمد علیہما الصلوٰۃ والسلام کی نورانی کرنوں کو چہار دانگِ عالم میں پھیلانے کے لیے روحانی سورج کا کام دینے والی مسجد فضل لندن

اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی عجیب طرح کام کرتی ہے۔ ۱۸۸۹ء میں جب ہندوستان کے ایک دُور دراز علاقے سے تعلق رکھنے والا اُس کا پیارا مسیح منشائے الٰہی کے تحت لدھیانے میں تکمیلِ اشاعتِ اسلام کی داغ بیل ڈال رہا تھا اسی سال مدبّر بالارادہ خدا اُس وقت کی عالمی طاقت یعنی سلطنتِ برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے زرخیز نواحی علاقے کی آبادی کے راستے ہموار کر رہا تھا تاکہ مستقبل میں وہ اسلام کی نورانی کرنوں کو چہاردانگ عالم میں پھیلانے اور اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو۔ خاکسار کی مراد ویمبلڈن Parish میں واقع ساؤتھ فیلڈز میں جو اَب تک زراعت اور فارمنگ کے کام آتا تھا جون ۱۸۸۹ء میں ڈسٹرکٹ ریلوے کا اسٹیشن کھلنے سے ہے جس کے بعد یہاں دھڑادھڑ مکانات کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہی وہ علاقہ تھا جہاں پینتیس سال بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دوسرے خلیفہ اور فرزندِ ارجمند حضرت فضلِ عمرؓ نے لندن کی پہلی مسجد یعنی مسجدفضل کا سنگِ بنیاد رکھنا تھا۔ یہ عجیب حسن اتفاق ہے کہ ۱۸۸۹ء میں ہی وہ موعود وجود بھی پیدا ہوتا ہے جس نے کفر کے اس مرکز میں مسجد کی بنیاد ڈالنی تھی۔

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے خود اس مسجد اور اس کے ذریعے مستقبل میں ہونے والی اسلام کی ترقیات کو خدا تعالیٰ اور اُس کی وحی و الہام کی سچائی پر ایک دلیل قرار دیا۔ حضورؓ نے ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو مسجد فضل کے مقام پر پڑھے جانے والے پہلے جمعے کے بصیرت افروز خطبے میں فرمایا: ’’جب ایسی ترقی ہو۔ اور ایسے حالات کے ماتحت ہو۔ جو انسانی اندازہ اور قیاس و فکر کے خلاف ہو، یعنے کوئی حالات اور اسباب ایسے نہ ہوں۔ جن کے ماتحت وہ ترقی ہو سکتی ہو۔ اورقبل از وقت اس ترقی کا اندازہ اور قیاس کیا جا سکتا ہو۔ تو وہ ترقی خدا تعالیٰ کی وحی اور الہام کے ماننے پر مجبور کر دیتی ہے اور اس بات پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرتی ہے کہ کوئی بالاتر ہستی ہے۔ اور وہ عالم الغیب اور مدبّر بالارادہ ہستی ہے۔‘‘

حضورؓ نے فرمایا: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خداتعالیٰ سے خبر پا کر اسلام کی ترقی کی پیش گوئی کی ہے۔ اسلام کو ایک کامیابی آپؐ کے اور صحابہؓ کے عہد میں ہوئی اور وہ بہت بڑی کامیابی تھی مگر آخری زمانہ کے متعلق بھی اس کی ترقی اور کامیابی کی ایک پیش گوئی ہے اور اسلام اپنی تعلیم کے کمالات اور دلائل و براہین سے کل ادیان پر غالب آئے گا۔ وہ علمی اور عملی سچائیوں کے ساتھ غالب ہو گا۔

… آج تم دیکھو کہ ان ترقیات کے آثار پیدا ہو چکے ہیں۔ یکدم تبدیلیاں نہیں ہوا کرتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ابتدائے دعویٰ میں جو حالت تھی اس پر غور کرو اور آج جو حالات پیدا ہو چکے ہیں ان کو دیکھو کہ وہ بیج جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ سے بویا گیا باوجود یہ کہ تمام قومیں اور حکومت بھی چاہتی تھی کہ اس بیج کو تباہ کر دیا جائے مگر وہ بڑھا اور پھلا اور اب وہ وقت آ رہا ہے کہ اس کے لذیذ اور شیریں اثمار دنیا میں اسلام کے لئے ایک کامل غلبہ کی رَو کو پیدا کریں۔ … یہ ظاہر ہے کہ تغیرات ہو رہے ہیں۔ انہیں تغیرات میں سے ایک یہ مسجد بھی ہے۔ سو سال پہلے یہ خیال بھی نہ آتا ہو گا کہ لندن میں مسجد بنائی جائے۔ … اب اس تغیر کو دیکھتے ہوئے یقین ہو جاتا ہے کہ وہ بیج جو حضرت مسیح موعودؑ کے مبارک اور مقدس ہاتھوں نے خدا سے علم پا کر بویا تھا۔ اس کا درخت اب نکل رہا ہے۔‘‘ (خطباتِ محمود جلد ۸ صفحہ ۵۱۶ تا ۵۲۰)

ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے میں غلبۂ اسلام کی جو پیشگوئی فرمائی اس کی بنیاد اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ سے رکھی اور اس کی تکمیل خلافتِ احمدیہ کی زیرِقیادت مقدر ہے۔ جہاں دلائل و براہین کے میدان میں فتح و ظفر کی کلید مسیح موعودؑ اور خلافتِ احمدیہ کے ہاتھوں میں دی گئی وہاں خداتعالیٰ کی فعلی شہادت بھی اُس کی جماعت کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ تاریخ نے ثابت کیا کہ مسجد فضل کا قیام اور اس کے توسط سے ہونے والی ترقیات قویّ و عزیز خدا کی تائیدات میں سے جلی حروف میں لکھا جانے والا ایک عظیم الشان نشان ہے۔

جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا خطبہ جمعہ سے واضح ہے کہ اس مسجد کا قیام ایسے حالات میں ہوا جن کا قیاس اور اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ برلن میں اُس وقت مسجد کا تعمیر نہ ہو پانا، انڈین روپے کی نسبت پاؤنڈ کی وقعت میں کمی کا ہو جانا، حضرت مصلح موعودؓ کی جانب سے چودہ پندرہ ہزار کی بجائے تیس ہزار کی رقم لکھا جانا، قرض کی جگہ ’چندہ‘ فرما دینا، مسیح پاک کی درویش جماعت خصوصاً خواتین کو ایک خطیر رقم کی قربانی کی توفیق ملنا، برطانیہ میں مسجد کے لیے مناسب جگہ کا میسر آجانا، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا بنفسِ نفیس ویمبلے کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن کا سفر فرمانا اور پھر یہ فیصلہ فرمانا کہ آپؓ اس مسجد کا سنگِ بنیاد رکھیں گے سب کچھ ایک خاص الٰہی تقدیر کے ماتحت ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

اللہ کے پیاروں کے بارے میں کیا خوب کہا جاتا ہے کہ گفتۂ او گفتۂ اللہ بود۔ آج سو سال بعد مسجد فضل کے سنگِ بنیاد کے موقع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا عطا فرمودہ پیغام اور اُس میں کی جانے والی دعا پڑھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے گویا اللہ کے خلیفہ کو اس مسجد کا مستقبل کشفی آنکھ سے دکھایا جا رہا تھا۔ حضورؓ نے فرمایا:

’’اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھوالناصر

قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ

’’مَیں میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ جس کا مرکز قادیان پنجاب ہندوستان ہے۔ خدا کی رضا کے حصول کے لیے اور اس غرض سے کہ خدا تعالیٰ کا ذکر انگلستان میں بلند ہو اور انگلستان کے لوگ بھی اس برکت سے حصہ پاویں جو ہمیں ملی ہے آج ۲۰؍ ربیع الاول ۱۳۴۳ھ کو اس مسجد کی بنیاد رکھتا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائے اور اس مسجد کی آبادی کے سامان پیدا کرے اور ہمیشہ کے لیے اس مسجد کو نیکی، تقویٰ، انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانے کا مرکز بنائے اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت احمد مسیح موعود نبی اللہ بروزو نائب محمد علیہما الصلوٰۃ والسلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لیے روحانی سورج کا کام دے۔ اے خدا تُو ایسا ہی کر۔۱۹؍ اکتوبر ۱۹۲۴ء‘‘

تاریخ نے گواہی دی کہ یہ دعا حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ مسجد فضل آغاز سے ہی آباد ہوئی اور آباد ہے، یہ نیکی، تقویٰ، انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانے کا مرکز بنی، مغربی ممالک اور افریقہ میں اسلام کی نورانی کرنوں کو پھیلانے کی غرض سے سفر کرنے والے مبلغینِ کرام قادیان سے روانہ ہو کر یہاں کچھ عرصہ قیام کرتے اور پھر اپنی اپنی منزل مقصود کو روانہ ہوتے نیز اسے کئی لحاظ سے برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخی خدمات بجا لانے کا موقع ملا۔

اس مسجد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ چار خلفائے کرام نے اس مسجد میں نمازیں پڑھائیں۔ خلفائے کرام جب مغربی ممالک کے دوروں پر تشریف لاتے تو اس مسجد میں بھی قیام فرماتے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ جب ۱۹۵۵ء میں دورۂ یورپ پر تشریف لائے تو مسجد فضل میں قیام فرمایا، مبلغین کی عالمی کانفرنس کا انعقاد فرمایا، سرکردہ شخصیات سے ملاقات فرمائی اور متعدد احباب نے حضور کے ہاتھ پر بیعت کی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ۱۹۶۷ء، ۱۹۷۰ء، ۱۹۷۳ء، ۱۹۷۵، ۱۹۷۶ء، ۱۹۷۸ء اور ۱۹۸۰ء میں اپنے دوروں کے دوران مسجد فضل میں بھی قیام فرمایا۔ یہ مسجد فضل ہی تھی جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے دورۂ مغربی افریقہ سے واپسی پر ۲۴؍مئی ۱۹۷۰ء کو ’’نصرت جہاں آگے بڑھو‘‘ سکیم کا اعلان فرمایا۔ آج افریقہ کے متعدد ممالک میں اس سکیم کی برکت سےافریقی بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے سکول اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے ہسپتال اور کلینکس کھل چکے ہیں۔

مسجد فضل لندن میں سلسلہ احمدیہ کا تابناک دور اُس وقت شروع ہوتا ہے جب ۳۰؍ اپریل ۱۹۸۴ء کو حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ مسجد مبارک ربوہ (پاکستان) سے ہجرت کر کے مسجد فضل لندن تشریف لائے۔ ابتدائی طور پر یہ ہجرت عارضی تھی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اگرچہ پاکستان میں حکومتِ وقت کی جانب سے ایسے قوانین متعارف کروائے گئے جن کی موجودگی میں خلیفۃ المسیح کے لیے اپنے فرائض کی بلاروک ٹوک ادائیگی ناممکن بنا دی گئی لیکن خدائے واحد و یگانہ نے آنے والے وقت میں جماعت احمدیہ کو خلافتِ احمدیہ کی بے مثال قیادت میں عظیم الشان ترقیات نصیب فرمائیں۔ دشمن احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو جڑ سے اکھیڑنا چاہتا تھا۔ ۱۹۸۴ء میں جماعت احمدیہ کے نوّے کے قریب ممالک میں نفوذ کی نسبت اب یہ تعداد دو سو ممالک سے تجاوز کر چکی ہے۔ معاندین احمدیوں کو اُن کے خلیفہ سے دُور کرکے جماعت کا شیرازہ بکھیرنا چاہتے تھے لیکن لندن آنے کے کچھ ماہ بعد سے ہی خلیفۂ وقت کے خطبات و خطابات آڈیو کیسٹس کے ذریعے چند دنوں میں پوری دنیا میں بسنے والے احمدیوں تک پہنچ جاتے اور وہ اپنے امام کی آواز کو سن لیتے۔

یہ مسجد فضل ہی تھی جس میں کھڑے ہو کر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جنرل ضیاء الحق کو مباہلے کا چیلنج دیا اور چند دن کے اندر اندر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے خلیفہ کے الفاظ کو پورا فرمایا اور یہ فرعونِ وقت اپنے کیفرِ کردار کو پہنچا۔

خلافتِ احمدیہ کا قیام اس وقت مسجد فضل میں ہی تھا جب جماعت احمدیہ نے ۲۳؍ مارچ ۱۹۸۹ء کو کمال شان و شوکت اور کامیابیوں کے ساتھ اپنی پہلی صدی مکمل کی اور عظیم روحانی پروگرام لے کر دوسری صدی میں داخل ہوئی۔

دشمن خلافت کی آواز کو دبانا چاہتا تھا لیکن یہ مسجد فضل ہی تھی جہاں سے ۱۹۹۴ء میں جماعت احمدیہ کو دنیا کا پہلا اسلامی ٹیلی ویژن چینل ’مسلم ٹیلیویژن احمدیہ(MTA)‘ شروع کرنے کی توفیق ملی جس کے توسط سے دنیا بھر میں بسنے والے احمدی خلیفۂ وقت سے براہِ راست فیض پانے کے قابل ہوئے۔

مسجد فضل کی ایک بہت بڑی سعادت یہ بھی ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ۲۲؍ اپریل ۲۰۰۳ء کو یہاں مجلس انتخابِ خلافت کا اجلاس ہوا اور ہمارے پیارے امام حضرت مرزا مسروراحمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے۔ حضورِ انور ۱۵؍ اپریل ۲۰۱۹ء کو مسجد فضل سے اسلام آباد ٹلفورڈ منتقل ہو گئے۔ خلافتِ خامسہ کے مسجد فضل میں قیام کے سولہ سال جماعت احمدیہ کی وسیع ترقیات، خدمتِ اسلام، خدمتِ قرآن، خدمتِ انسانیت، امنِ عالم کا پیغام دنیا میں پھیلانے اور دنیا کو تباہی سے بچانے نیز دعاؤں پر خاص زور دینے سمیت ایسے عظیم الشان کارناموں سے عبارت ہیں جن کے شمار کے لیے سینکڑوں صفحات بھی ناکافی ہیں۔

مسجد فضل لندن کے سنگِ بنیاد کے وقت اللہ تعالیٰ کے خلیفہ نے جو الٰہی نوشتہ اپنے قلم سے رقم فرمایا اس کی تاریخ پر طائرانہ نگاہ ڈالنے سے ہی اُس کے حرف حرف کی سچائی ثابت ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچے دل سے مسجد کا حق ادا کرنے یعنی اس کو ہمیشہ آباد رکھنے اور خلافتِ احمدیہ کے سائے میں اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button