مسجد فضل لندن کا سنگِ بنیاد اور افتتاح، برطانوی پریس کی نظر میں
آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی مغرب سے طلوع شمس کی پیشگوئی کا ایک ظہور مسجد فضل لندن کی تعمیر سے بھی ہوا۔ لندن کی پہلی باقاعدہ مسجد تعمیر کرنے کی سعادت جماعت احمدیہ کے حصے میں آئی۔ یہ مسجد لندن کے ساؤتھ فیلڈز کے علاقے میں واقع ہے۔انیسویں صدی کے اختتام تک ساؤتھ فیلڈز کا علاقہ ابھی زیادہ تر آس پاس کے علاقےمیں ومبلڈن اور پٹنی کے گاؤں کے افراد کی زرعی زمینوں پر ہی مشتمل تھا۔ومبلڈن اور پٹنی برج کے مابین District & London & South Western Railway کا اجرا جون ۱۸۸۹ء میں ہوا۔ یہ عجیب اتفاق بلکہ حسن اتفاق ہےکہ یہ وہی سال ہے جس میں جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی گئی نیز ریل کی ایجاد کو بھی آخری زمانے سے خاص مناسبت ہے۔چنانچہ اس علاقے میں مسلمانوں کی ایک مسجد کا تعمیر ہونایہ ایک ایسا غیرمعمولی تاریخی واقعہ تھا جس نے پریس کی توجہ اپنی طرف کھینچی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی تشریف آوری سے تقریب سنگ بنیاد میں مزید کشش پیدا ہوگئی تھی۔ چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود اس پروگرام کے لیے صرف چار دن قبل دعوت نامے ارسال کیے گئے نیز اس وقت برطانیہ میں انتخابات ہونے کی وجہ سے مصروفیات ہونے اور اس پر مستزاد یہ کہ موسم بھی بارش والا تھا پھر بھی دوصد کے قریب افراد نے اس تقریب میں شرکت کی۔ اس مضمون میں مختصر طور پر سنگ بنیا د اور بعدازاں مسجد فضل لندن کے افتتاح پر پریس میں جو خبریں شائع ہوئیں ان میں سے ایک انتخاب قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔
سنگ بنیاد پر پریس میں شائع ہونے والی بعض خبریں
٭…ٹائمز آف لنڈن(THE TIMES OF LONDON)
لنڈن کی اس پہلی مسجد کی تعمیر کے لیے بنیادیں کھودی جانے کا کام شروع کیا گیا جو احمدی ساؤتھ فیلڈ میں تعمیر کرنے لگے ہیں۔ یہ مسجد ایک مکان کے ملحقہ باغیچہ میں بننی تجویز ہوئی ہے جو کہ عرصہ سے احمدیوں کے قبضہ و ملکیت میں ہے اور جہاں وہ مدت سے نمازیں پڑھ رہے ہیں۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد پچھلے موسم خزاں میں ہزہولی نس دی خلیفۃ المسیح نے اپنے دست مبارک سے رکھا تھا۔ ریورنڈ اے آر درد ( مولانا عبدالرحیم صاحب درد) کی قیادت میں جو کہ احمد یہ مشن کے انچارج ہیں ہندوستانی احمدیوں کی ایک چھوٹی سی جماعت اکٹھی ہوئی۔ مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے عربی زبان میں ان ادعیات کی تلاوت کی۔ جو تعمیر کعبہ کے وقت پڑھی گئی تھیں۔ بعد ازاں سلسلہ احمدیہ کے ممبروں نے وہ دُعائیں پڑھتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے کھدائی کا کام شروع کیا جو مسجد مدینہ کی تعمیر کے وقت پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابؓ نے پڑھی تھیں۔ جماعت احمدیہ کے مرکز ہندوستان کے علاوہ امریکہ،سیریا، فلسطین وغیرہ تمام ان ممالک میں جہاں اس سلسلے کے افراد ہیں کام شروع کرنے سے پہلے ہی برقی پیغامات ارسال کر دیئے تھے جس میں اس وقت کی اطلاع دے دی گئی تھی۔ جس وقت کہ لنڈن میں تعمیر مسجد کا کام شروع کیا جانا تھا۔ تا کہ شرق اور غرب، شمال اور جنوب ہر چہار اطراف سے ایک ہی وقت میں ایک ہی مقصد کے لیے ایک ہی خدا سے دعائیں کی جائیں۔
٭…اخبار ڈیلی گرافک (The Daily Graphic)
یہ اخبار اپنے ۲۹؍ ستمبر۱۹۲۵ء کے پرچہ میں لکھتا ہے: کل جبکہ اس مسجد کی بنیادیں کھودی جا رہی تھیں تو اس سے مسلمانوں کی روحانیت آشکار ہو رہی تھی اور اس روحانیت کا ادنیٰ کرشمہ یہ ہے کہ خدا کا گھر بنانے کے لیے یہ لوگ مزدوروں کی طرح خود مٹی کھودتے۔ مٹی اُٹھاتے اور دوسرے کام کرتے تھے۔ ہندوستان کے باشندوں کے علاوہ جو اس کام کو ہاتھوں سے کر رہے تھے ایک انگریز بھی ان کے ساتھ شامل تھا جو باوجود سفید بالوں کے جو اس کی پیرانہ سالی پر دلالت کرتے تھے بڑے شوق سے وہی کام کر رہا تھا جو اس کے انڈین ہم عقیدہ بھائی کر رہے تھے۔ (ماخوذ از تواریخ مسجد فضل لندن صفحہ۶۱،۶۰)
قبل از افتتاح اقتباسات از اخبارات انگلستان
۳؍اکتوبر ۱۹۲۶ء کو مسجد فضل لندن کا افتتاح عمل میں آیا جو خان بہادر شیخ عبد القادر صاحب نے کیا۔ پروگرام کے مطابق اس تقریب میں مہمانوں کی ایک کثیر تعداد جوایک ہزار سے زائد بیان کی جاتی ہے نے شرکت کی۔ افتتاحی تقریب سے قبل اور بعد اس حوالے سے کئی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں۔ ان میں سے بعض بطور نمونہ پیش ہیں:
٭…ایوننگ اسٹینڈرڈ (Evening Standard) مورخہ ۲۳؍ ستمبر ۱۹۲۶ء کو ’’لنڈن کی نئی مسجد‘‘ کے عنوان سے رقمطراز ہے:’’مسلمانوں کی نئی مسجد واقع ساؤتھ فیلڈز کا افتتاح امیر فیصل ۳؍اکتوبر کو کریں گے۔ امیر موصوف مکہ کے وائسرائے (Viceroy) ہیں اور ابن سعود شاہ حجاز کے دوسرے صاحبزادے ہیں۔
امام مسجد جناب اے آر درد صاحب شہزادہ کے استقبال کے لیے لنڈن سےPlymouthتشریف لے گئے ہیں۔ شہزادہ موصوف خاص کر مسجد کے افتتاح کے لیے انگلستان آرہے ہیں۔ پہلی مرتبہ وہ ۱۹۲۱ء میں معاہدات صلح کے بعد بطور سفیر شہنشاہ جارج پنجم کی ملاقات کے لیے آئےتھے۔
مسجد کی عمارت سفید اور عظیم الشان ہے۔ اس پر سیمنٹ (Cement) کی لپائی ہوئی ہے۔ اس میں ایک بڑا سفید گنبد اور چار مینارے ہیں۔ میناروں پر سے مومنین کو نماز کے لیے بلایا جائے گا۔ اس مسجد میں اور ایشیائی مسجدوں میں اتنا فرق ہے کہ اس میں کئی ایک لمبی اور تنگ کھڑکیاں ہیں جو گرجا کی کھڑکیوں کے مشابہ ہیں مگر ان سے ذرا تنگ ہیں۔ عمارت میں رنگ دار شیشے نہیں لگائے گئے۔ دروازہ کے اوپر ایک کتبہ ہے جس پر کلمہ لکھا ہوا ہے۔ اس کو ایک انگریز نقاش نے ایک فوٹو سے تیار کیا ہے۔ دروازہ کے بالمقابل سیمنٹ کا ایک فوارہ ہے جو وضو کے لیے ہے۔ دروازہ کے ہر دو جانب ایسی جگہ ہے جس میں مسلمانوں کے دستور کے مطابق نمازی نماز کے لیے داخل ہونے سے پیشتر جوتے اتاریں گے۔ مکان کے اندر ایک محراب ہے جس میں امام نماز کے وقت کھڑا ہوتا ہے۔ ایوننگ اسٹینڈرڈ کے ایک نمائندہ کو یہ بتایا گیا ہے کہ شہزادہ کی آمد کے لیے سب بندوبست ہو چکا ہے۔ قالین بچھایا گیا ہے۔ جو قالین مقدس کا قائم مقام ہے۔ ووکنگ (Woking) میں ایک دوسری مسجد ہے جو کہ اس سے چھوٹی ہے۔ اس کا اُس مسجد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس نئی مسجد میں ۱۷۵؍نمازی سما سکتے ہیں۔ اس مسجد کو جماعت احمدیہ نے بنایا ہے۔ اس جماعت کی بنیاد حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑ نے ۱۸۸۹ء میں ڈالی تھی۔ یہ گروہ مذہبی بُردباری کا بہت حامی ہے۔ تشد د اور مذہبی لڑائیوں کا مخالف ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ تمام مذاہب میں رسول پائے جاتے ہیں اور سب خداوند تعالیٰ کی وحدت کو پیش کرتے ہیں۔‘‘
٭… ڈیلی میل (Daily Mail) نےمورخہ ۲۳؍ ستمبر ۱۹۲۶ء کومسجد کی عمارت کی تفصیل بیان کرنے کے علاوہ لکھا:’’مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب ہے اور یہ دو کبھی نہیں ملیں گے مندرجہ بالا مقولہ کے ہم اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ بغیر سوچے سمجھےہم اس کو ٹھیک مان لیتے ہیں لیکن جب ہم پڑھتے ہیں کہ ایک احمدیہ مسجد ساؤتھ فیلڈز لنڈن میں کھولی جائے گی تو ہم شک کرنے لگتے ہیں کہ کیا واقعی مشرق مغرب سے اتنا دور ہے جتنا کہ ہم خیال کرتے تھے۔ ‘‘
٭… سنڈر لینڈ ڈیلی ایکو(Sunderland Daily Echo) نے مورخہ ۲۳؍ ستمبر ۱۹۲۶ء کی اشاعت میں لکھا:’’اسلامی دنیا میں ایک اہم واقعہ ہے۔ … یہ مسجد اس ملک میں مسلمانوں کے ہاتھ کی بنائی ہوئی پہلی مسجد ہو گی۔ ووکنگ میں بھی ایک مسجد ہےجس کو ایک انگریز نے بنوایا ہے۔ ساؤتھ فیلڈ کی نئی مسجد بہت بڑی ہے کیونکہ اس میں ۱۷۵؍آدمی سما سکتے ہیں۔ اس کو احمد یہ جماعت نے تعمیر کیا ہے۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد ۱۹۲۴ء میں رکھا گیا تھا۔ جناب اے آر درد صاحب امام مسجد نے شاہ حجاز کو ایک نمائندہ بھیجنے کی دعوت دی جس کے جواب نے امام مسجد کو مشکور کیا کیونکہ شاہ حجاز نے اپنے لڑکے کو بھیجا ہے جو چند دنوں میں پہنچ جائے گا۔ افتتاحی رسم کی ادائیگی ۳؍اکتوبر کو ہو گی۔ مسٹر درد استقبال کے لیے پلائی متھ جائیں گے۔ اغلب ہے کہ افتتاح سے قبل استقبال کیا جائے گا۔
مسجد ایک بہت بڑی عمارت ہے جس میں ایک گنبد اور اذان کے لیے چار مینارے ہیں۔ اس مسجد اور ایشیائی مسجد میں فرق یہ ہے کہ اس ملک کی آب و ہوا کو ملحوظ رکھ کر اس میں گرجا کی طرز کی کھڑکیاں رکھی گئی ہیں۔ دروازہ کے دونوں جانب جوتے اُتارنے کے لیے جگہ ہے۔ ایک محراب بھی ہے جس میں امام نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ مسجد کے سامنے وضو کے لیے ایک فوارہ لگا ہے۔ دروازہ کے اوپر کلمہ لکھا ہوا ہے جس کو ایک انگریز نقاش نے اصلی حروف کے عکس سے لکھا ہے۔ مسٹر درد نے کہا کہ تصویر کو بڑا کر کے اس کی نقل کی گئی ہے۔ نقاش کی تعریف کی، کہا کہ اس کا کام اگر ایشیائی نقاش سے بہتر نہیں تو برابر ضرور ہے۔
سلسلہ احمدیہ کی بنیاد حضرت میرزا غلام احمد صاحبؑ نے ۱۸۸۹ءمیں ڈالی۔ ان کا اصول یہ ہے کہ تمام مذاہب میں رسول آئے ہیں اور خدا کے ماننے میں سب مذاہب متفق ہیں۔ دوسرے مسلمانوں کے برخلاف اُن کا عقیدہ یہ ہے کہ آسمانی علوم کا چشمہ جو کہ قرآن میں ہے ختم نہیں ہو چکا۔‘‘
٭… ڈیلی ایکسپریس (Daily Express) نے مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۱۹۲۶ءکو ’’لنڈن میں مؤذن کی اذان‘‘ کے عنوان سے لکھا:’’مؤذن کی اذان یعنی (لا الہ الا الله محمد رسول اللہ ) بہت جلد سنی جائے گی۔ لنڈن کی عمارات میں ایک مزید اضافہ ساؤتھ فیلڈز کی مسجد ہے۔ اس کی بنیاد فرقہ احمدیہ نے ڈالی ہے۔ یہ عمارت جو جزائر برطانیہ میں اپنی قسم کی ایک ہی عمارت ہے۔… مسجد کے ایک کارکن نے کل ڈیلی ایکسپریس کے ایک نمائندہ کو کہا کہ اس ملک میں اسلام کی کافی تبلیغ ہوتی ہے۔ نو مسلموں کی تعداد خاصی بڑھ رہی ہے۔‘‘
٭… برسٹل ایوننگ نیوز (Bristol Evening News) نے اپنی اشاعت مورخہ ۲۴؍ستمبر۱۹۲۶ءمیں ’’موذن لنڈن میں‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا:’’ ہم عنقریب لنڈن کی مسجد کے میناروں سے مؤذن کی آواز سنیں گے۔ مسلمانوں کی عمارت ساؤتھ فیلڈز میں بنائی گئی ہے جس کا افتتاح شاہ حجاز کے لڑکے امیر فیصل کریں گے۔ جو اس ہفتہ اس ملک میں آئے ہیں۔ اسلامی پرو پیگنڈا کافی طور پر یہاں جاری ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انگریز نو مسلموں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ میں نے اس دعوے کے ثبوت میں کوئی اعداد و شمار نہیں دیکھے۔ نئی مسجد میں صرف ۱۷۵؍نمازیوں کے لیے گنجائش ہے جو مسلمانوں کی تعداد کے لحاظ سے ناکافی ہے۔ بلاشبہ یہاں انگریز نو مسلم بھی ہیں جس میں سلطنت کا ایک لارڈ بھی ہے اور ان کی نظروں میں مسجد کا بن جانا ایک ممتاز درجہ رکھتا ہے۔ اس ملک میں مذہبوں کی کثرت اب بھی اس قدر ہے جتنی کہ پہلے تھی نئے فرقے بنتے رہتے ہیں اور پرانے فرقے وسیع ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ قوم کی مذہبی زندگی روز افزوں ترقی پرہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مسجد کے بنائے جانے سے بعض کو صدمہ ہوا ہو گا۔ اونچے میناروں سے اذان کی آواز باشندوں کے کانوں پر پڑے گی جو عجیب اور غیر مانوس ہو گی۔ عبادت کا طریقہ شروع شروع میں ہمارے لیے نیا ہو گا لیکن ہم بہت جلدی اس سے مانوس ہو جائیں گے۔ یہ مسجد فرقہ احمدیہ نے بنائی ہے جو مذہبی بردباری کا حامی ہے اور تشدد اور مذہبی لڑائیوں کا مخالف ہے۔ اس کا ایمان ہے کہ آسمانی علوم کا سرچشمہ جو قرآن شریف میں ہے سوکھ نہیں گیا بلکہ اب بھی جاری ہے۔ مسجد کا افتتاح دلچسپ اور سبق آموز ہے۔‘‘
٭…ریفری (Refree) نے مورخہ ۲۶؍ستمبر ۱۹۲۶ء کو ’’مینارہ اور مؤذن‘‘ کے عنوان سے لکھا: ’’خوبصورت نوجوان شہزادہ کے آنے اور لندن کی پہلی مسجد کا افتتاح کرنے سے نہ صرف مشرق و مغرب( کا اتصال ہو گا ) بلکہ افسانہ اور حقیقت کا بھی اتصال ہو گا جیسا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ حقیقت کو پورے طور پر جاننے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ مسجد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جائے جیسا کہ میں نے کیا۔ عمارت بالکل سیدھی سادی خوبصورت اور گنبد والی ہے۔ ایک باغیچہ میں اس کا نصف حصہ پوشیدہ ہے۔ جن لوگوں کے خیال میں مسجد کے ساتھ غرناطہ والی گل کاری اور قاہرہ یا قسطنطنیہ والی شان و شوکت ضروری چاہیے۔ ان کو اس مسجد سے کسی قدر صدمہ ہوگا۔ ویسٹ ہل (West Hill) کے ڈھلوانوں سے اس کا منظر بخوبی دکھائی دیتا ہے۔ پہاڑ کے گردا گرد کے نظارے کے بعد عین پہاڑ کے نیچے مسجد کا سفید گنبد دکھائی دیتا ہے۔… مسجد کے اندر ایک موٹے نیلے رنگ کی قالین ہے جس پر جوتے سمیت نہیں جاتے۔ روشنی بجلی کی ہے۔ کمرہ کو گرمی پہنچانے کا بندوبست کیا جائے گا۔ کوئی زیبائش کی چیز مسجد کے اندر نہیں اور نہ کبھی رکھی جائے گی۔ اندر کوئی کرسی نہیں۔ صرف دروازہ کے پاس دونوں جانب جوتے اُتارنے کے لیے چوکیاں ہیں۔ بیٹھ کر نماز پڑھنے کا خیال میرے ایشیائی دوست کے چہرے پر مسکراہٹ لے آیا۔ وہاں کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے رسومات کا پتا چل سکے۔ صرف ایک محراب ہے جس میں کھڑے ہو کر امام نماز پڑھایا کرتا ہے۔
… امام نے بتایا کہ مسجد میں عیسائی، یہودی اور مسلمان سب کو واحد خدا کی پرستش کرنے کی اجازت ہے۔ اسلام، یہودیت اور ابتدائی عیسائیت میں کوئی بڑا فرق نہیں۔ ہم سب ایک خدا کی پرستش کرتے ہیں۔ امام نے مجھے بہت باتوں کا علم دیا۔ از انجملہ ایک بات یہ تھی کہ احمدیہ فرقہ کی بنیاد حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے ۱۸۸۰ءمیں ڈالی تھی[نقل بمطابق اصل] اور کہا کہ ہمارے عقائد مذہبی بردباری کی حمایت میں ہیں اور مذہبی لڑائی اور تشدد کے سخت مخالف ہیں۔ جن مذاہب میں ایک خدا کی پرستش ہوتی ہے اُن کے رسولوں کو ہم مانتے ہیں۔ امام نے یہ بھی کہا کہ لنڈن میں دو ہزار مسلمان ہیں چونکہ ساؤتھ فیلڈز کی مسجد میں صرف دو سو نمازی سما سکتے ہیں اس لیے یہ کافی نہ ہو گی۔ جب میں ویسٹ ہل کے پاس سے گزر رہا تھا تو ایک نظارہ سے میں سوچ میں پڑ گیا۔ لڑکیاں دوہری قطار بنائے ہوئے اور یونیفارم پہنے ہوئے خوشی خوشی جا رہی تھیں۔ مجھے خیال آیا کہ مسجدان کے لیے کیا کرے گی۔ امام نے مجھے تسلی دی کہ عورتوں کو مسجد میں داخل ہونے اور نماز پڑھنے کی اجازت ہے مگر مردوں کے ساتھ مل کر نہیں اور کہا کہ ہمارے ہاں عورتوں کا درجہ اس سے بہت بڑھ کر ہے جو ایشیا میں ان کو کبھی بھی نصیب ہوا ہو یہ عام خیال کہ قرآن نے عورتوں کو آئندہ زندگی سے بے بہرہ کیا ہے بالکل غلط ہے۔ سورہ نمبر ۴ میں لکھا ہے کہ جو کوئی نیک اعمال کرے۔ خواہ مرد ہو یا عورت، جنت میں داخل ہو گا بشرطیکہ مومن ہو۔
٭… ایوننگ اسٹینڈرڈ (Evening Standard) نے یکم اکتوبر ۱۹۲۶ء کی اشاعت میں لکھا:’’لا الہ الا الله محمد رسول اللہ اذان کی یہ آواز جو کہ عام طور سے صحرا میں سنائی دیتی ہے۔ اب پٹنی میں سنائی دے گی۔…ایوننگ اسٹینڈرڈ کے ایک نمائندے نے مسٹر درد امام مسجد کو افتتاحی رسومات کا پروگرام خوبصورت عربی الفاظ میں بناتے ہوئے پایا۔ کالے رنگ کی شاندار داڑھی، رنگدار پگڑی اور خوبصورت ایشیائی لباس کے ساتھ مسٹر درد ملاں معلوم نہیں ہوتے۔ مسٹر درد نے کہا کہ ہم قدرتاً اس بات میں عزت محسوس کرتے ہیں کہ وائسرائے مکہ ہماری مسجد کا افتتاح کریں گے۔ ایشیا اب ہمارے سلسلے میں دلچسپی محسوس کرتا ہے۔ افتتاحی رسومات میں تمام طبقوں کے معزز انگریز شامل ہوں گے۔ اس کام پر تین گھنٹے صرف ہوں گے۔ ہاؤس آف کامنز اور ہاؤس آف لارڈز کے تقریباً تیس ممبروں نے آنے کا وعدہ کیا ہے چونکہ مجمع میں انگریز خاصی تعداد میں ہوں گے لہٰذا ہم کارروائی دو زبانوں میں کریں گے چونکہ امیر انگریزی نہیں جانتا اس لیے وہ پیغام جو وہ اپنے باپ کی طرف سے لایا ہے عربی میں پڑھا جائے گا۔ جونہی پیغام ختم ہو گا ایک مترجم اس کو انگریزی میں دُہراتا جائے گا اور یہ کارروائی اخیر تک جاری رہے گی۔ جلسہ کی کارروائی کا نہایت اہم حصہ یہ ہو گا کہ امام جماعت احمدیہ کا ایک پیغام سنایا جائے گا۔ ہم بیتابی سے اس پیغام کا انتظار کر رہے ہیں جو ہم تک بذریعہ تار پہنچے گا۔ کارروائی خاص کر تقریروں اور مسجد کے مبارک ہونے کی دعاؤں پر مشتمل ہو گی۔ مسجد چندہ کے روپیہ سے بنائی گئی ہے وہ بالکل ایشیائی مسجد کی طرح ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس میں لمبی لمبی کھڑکیاں ہیں جو یہاں کے موسم کی وجہ سے بنائی گئی ہیں۔
٭…ٹائمز (Times)نے مورخہ ۳؍اکتوبر۱۹۲۶ءکی اشاعت میں ’’لندن کی پہلی مسجد‘‘کے عنوان کے تحت مسجد کے افتتا ح کے حوالے سے لکھا کہ’’یہ موقع مسیحیت کے علاوہ دیگر مذاہب کی تاریخ میں ایک بڑا اہم واقعہ ہے کیونکہ یہ لنڈن میں سب سے پہلی مسجد ہے۔ …ٹائمنر نے اوائل ۱۹۱۱ءمیں ایک مسجد کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی تھی اور چندہ جمع کرنے کے لیے ایک با اثر کمیٹی کا اعلان کیا گیا تھا مگر یہ تجویز بار آور نہ ہوئی۔ صرف جمعہ کی نماز کے لیے ایک کمرہ کرایہ پر لیا گیا تھا۔ اس کمی کو پورا کرنا جماعت احمدیہ کے حصہ میں تھا۔ اس فرقہ کے امام حضرت خلیفۃ المسیح پچھلے سال مع اپنے رفقاء کے مذہبی کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے آئے تھے اور اس مسجد کی بنیاد رکھی تھی۔ ہز ہولی نس حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی (علیہ السلام) کے دوسرے جانشین ہیں جنہوں نے مسیح موعود علیہ السلام ہونے کا دعویٰ کیا تھا جس کی آمد کی خبر انجیل اور اسلامی کتب میں ہے۔ نیز اس نے موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا جس کی آمد کی خبر ہر ایک نبی نے دی ہے۔… یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ سلسلہ جس کے پیرو تمام روئے زمین پر دس لاکھ نفوس ہیں اسلام سے ایسا ہی وابستہ ہے جیسا کہ عیسائیت یہودیت سے۔ …
جب حضرت خلیفۃالمسیحؓ اس ملک میں آئے تھے تو انہوں نے احمد یہ مشن کا کام مسٹر اے۔ آر۔ درد صاحب کے سپرد کیا جو اس سے پہلے ان کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے اور اب مسجد کے امام ہیں۔ مسجد کے پاس ایک گھر ہے جو دفتر اور لیکچر ہال کا کام دے گا۔ لنڈن اور اس کے قرب و جوار میں سو (۱۰۰) کے قریب نو مسلم ہیں جن میں سے بہت سے یورپین ہیں۔ مسٹر درد ریویو آف ريليجنز (Review of Religions) کی ایڈیٹری کا کام بھی کریں گے۔ جمعہ کے دن مسجد میں جمعہ کی نماز ہوا کرے گی اور اتوار کو لیکچر ہال میں لیکچر ہوا کرے گا۔ سمجھ اور بُردباری احمد یہ جماعت کا خاصہ ہے۔ خلیفۃالمسیح نے اپنے پیروؤں کو موجودہ مذہبی کشمکش سے جو ہندوستان میں جاری ہے روکا ہے۔ شروع ہی سے ان کے امام نے گورنمنٹ کی اطاعت کو لازم قرار دیا ہے۔ ہزہولی نس (His Holyness) کی ہدایات کے ماتحت امام مسجد نے یہ انتظام شروع کیا ہے کہ غیر مسلم لیڈرانِ مذاہب اپنے اپنے مذہب کے اُصولوں کی خوبیوں کے بارے میں تقریریں کیا کریں عیسائی اور یہودی پیشواؤں کو اس بارے میں مخاطب کیا ہے۔
کل امیر فیصل کا مسجد کے دروازہ پر استقبال کیا جائے گا۔ وہ چاندی کی چابی سے مسجد کا افتتاح کریں گے۔ ایک بڑے شامیانے کے نیچے جلسہ منعقد کیا جائے گا جہاں امیر کو ایڈریس پیش کیے جائیں گے۔ ان کا وہ جواب دیں گے۔ سلسلہ کے امام کی طرف سے ایک تار کا پیغام سنایا جائے گا۔ امریکہ، مصر، شام اور دوسرے ممالک کے احمدیوں کی طرف سے پیغام سنائے جائیں گے۔
افتتاح کے موقع پر پروگرام میں آخری موقع پر تبدیلی کا تذکرہ
مسجد کے افتتاح کے موقع پر جیسا کہ پروگرام طے ہوا تھا اور اخبارات میں بھی اس کا ذکر تھا کہ امیر فیصل نے اس مسجد کا افتتاح کرنا تھا۔ تاہم آخری لمحات میں یہ پروگرام تبدیل ہوگیا۔ اس کا ذکر بھی اخبارات میں ہوا۔ یہاں یہ بات بھی ضمنی طور پر قابل ذکر ہے کہ افتتاحی پروگرام میں تبدیلی کی جو بھی وجوہات ہوئیں ان کا ایک فائدہ یہ ضرور دکھائی دیتا ہے کہ اس کے ذریعہ جماعت احمدیہ کے مزید تعارف کا موقع بنا اور دیگر مسلمان فرقوں سے اس کا امتیاز ظاہر ہوا۔ بعض مثالیں پیش ہیں:
٭…ایوننگ نیوز(Evening News)نے ۲؍اکتوبر ۱۹۲۶ء کی اشاعت میں لکھا کہ’’مکہ کے وائسرائے اور شاہ حجاز کے بیٹے امیر فیصل کو اپنے باپ سے یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ ساؤتھ فیلڈز کی مسجد کے افتتاح میں شریک نہ ہوں۔ شہزادہ کے لنڈن میں آنے کی ایک وجہ مسجد کا افتتاح کرنا تھا۔ ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ مکہ کو ایک تار گیا تھا جس کا مضمون یہ تھا کہ امام مسجد نے یہ انتظام کر رکھا ہے کہ غیر مسلموں کے لیے بھی یہ مسجد کھلی ہو گی تاکہ وہ اسلام کی طرف جھک جائیں۔ اس بات کو اسلام کی سبکی خیال کیا گیا۔ اس لیے شہزادہ کو روکا گیا تا کہ اس بدعت کا سد باب ہو۔ ایوننگ نیوز کو فارن آفس سے یہ اطلاع ملی ہے کہ کل کی افتتاحی کارروائی میں شہزادہ شامل نہ ہو گا۔ چونکہ امام مسجد کو اس کی بابت کوئی اطلاع نہ تو مکہ سے ملی ہے اور نہ شہزادہ فیصل سے اس لیے ان کو اُمید ہے کہ شہزادہ ضرور تشریف لائے گا۔ مسجد جماعت احمدیہ کی ہے جس کے بانی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ( علیہ السلام ) تھے۔ یہ فرقہ مذہبی بُردباری کا ہمیشہ حامی رہا ہے اور مذہبی تشدد اور مذہبی لڑائیوں کو صفحہ دُنیا سے ہمیشہ کے لیے مٹانے میں کوشاں رہا ہے۔ ایوننگ نیوز کے ایک نمائندہ کو مسجد کے ایک کارکن نے یہ کہا کہ یہ نئی مسجد کی ایک مخصوص مشترک تحریک ہے۔ ہم عیسائیوں کو کہتے ہیں کہ آؤ اور خوبصورت چیزوں کی بابت علم حاصل کرو اور علوم کے آسمانی چشمے کو چکھو۔ مسلمانوں میں کئی ایک فرقے ہیں، ہم بھی ایک فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارا فرقہ سب سے زیادہ مضبوط اور راسخ الاعتقاد ہے۔ دو سال قبل صرف دو سو (۲۰۰) انگریز نو مسلم تھے اور آج تقریباً دو ہزار (۲۰۰۰) ہیں۔ ہماری نئی مسجد صرف ۱۷۵؍آدمیوں کے لیے کافی ہے مگر ہمیں جلدی سینٹ پال (St. Paul) یا ویسٹ منسٹر ایبے(West Minister Abbey) جتنی بڑی جگہ کی ضرورت پڑے گی ، اس لیے ہندوستان اور دوسرے ممالک میں چندہ جمع کیا جا رہا ہے۔
٭…آبزرور (Observer) نے ۳؍اکتوبر ۱۹۲۶ء کی اشاعت میں’ فرقہ وارانہ خصومت‘ کے عنوان کے تحت لکھا:’’شہزادہ فیصل کے مسجد کے افتتاح میں حصہ نہ لینے کے فیصلے نے ایک عالمگیر دلچسپی پیدا کر دی۔ امیر چند ہفتوں سے لنڈن میں ہے اور یہ فیصلہ شدہ بات تھی کہ وہ مسجد کا افتتاح کریں گے۔ بندوبست مکمل ہو چکا تھا۔ افتتاحی رسم ادا کرنے کا وقت آج تین بجے تھا۔ امیر نے ایک چاندی کی چابی سے مسجد کا دروازہ کھولنا تھا اور ایک ایڈریس کا بھی انہوں نے جواب دینا تھا۔
کل کے اخبارات میں افتتاح کی بابت اعلانات تھے مگر ساتھ ہی ایک اخبار نے یہ لکھا کہ امیر افتتاح میں شامل نہ ہوں گے۔ اس کا راز کل معلوم نہ ہو سکا۔ صرف اتنا ہی پتا چلا کہ امیر اس میں حصہ نہیں لیں گے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ امیر کو سلطان ابن سعود نے تار کے ذریعہ روکا ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ شاہ نجد نے جو کہ وہابی فرقہ کا سردار ہے ایک حریف فرقہ کی مسجد کے افتتاح کو غیر موزوں سمجھا۔ ان دونوں فرقوں میں بعض شدید اختلافات ہیں۔
٭… ٹائمز(Times)نےمورخہ ۴؍اکتوبر۱۹۲۶ء کو ’’لنڈن کی پہلی مسجد – سلطان ابن سعود کی ممانعت‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا کہ ’’لنڈن کی پہلی مسجد کے افتتاح سے امیر فیصل کے آخری گھڑی پر دست کش ہو جانے نے پبلک کو ڈرامے والی حیرت میں ڈال دیا اور امام اوراس کے احمدی دوستوں کو از حد مایوس کر دیا۔دستبرداری کا پیغام امام مسجد کو ہفتہ کے دن گیارہ بجے صبح دیا گیا۔شہزادہ کا فارن سیکرٹری ان کو یہ اطلاع دینے کے لیے آیا کہ امیر کو افتتاحی رسم میں شامل نہ ہو سکنے سے سخت رنج و مایوسی ہے کیونکہ اسے حجاز اور نجد کے بادشاہ کی طرف سے ممانعت کی تار وصول ہوئی ہے۔ امیر نے نہ صرف معذرت پیش کی بلکہ اپنے نمائندہ کی معرفت یہ کہلا بھیجا کہ اُس نے باپ کو تار دی ہے کہ کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔ ممانعت پر نظر ثانی کی جائے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اس اپیل میں ابن سعود کے ایک گہرے انگریز دوست کی مدد استعمال کی گئی ہے۔ امیر کا اسٹاف ہمیں کچھ نہ بتا سکا کہ اس اپیل کا کیا اثر ہو گا۔ مسجد کی افتتاحی رسم کی ادائیگی خان بہادر شیخ عبدالقادر کے حصہ میں آئی جو پنجاب کونسل کے پریذیڈنٹ رہ چکے ہیں اور لیگ آف نیشنز کے اجلاس میں ہندوستانی نمائندہ ہیں۔ شاہ حجاز ونجد کا فیصلہ اس وجہ سے زیادہ تعجب انگیز ہے کہ بہت عرصہ پیشتر یعنی ماہ اگست میں انہوں نے اس کام کے لیے وائسرائے (Viceroy)مکہ کو اپنے نمائندہ کی حیثیت سے بھیج دینا منظور کیا تھا اور اس بات کی تحقیقات کی تھی کہ احمد یہ مذہب کا اسلام کی راسخ الاعتقادی کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ اس بات کے باور کرنے کے لیے دلیل موجود ہے کہ جونہی اس کام کے لیے امیر کے انگلستان جانے کا اعلان کیا گیا تو ہندوستان کے بعض مسلمانوں نے اس نا خوشگوار واقعہ کے پیدا کرنے کی بہت کوشش کی جو ظہور میں آیا۔ سلطان ابن سعود کو بہت تار اس مضمون کے ملے کہ احمدیوں کے اعتقادات ملحدانہ ہیں اور جن باتوں کو وہابی بہت اہم جانتے ہیں ان کو یہ غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ ابتدا میں یہ کوشش کارگر نہ ہوئی اور سلطان اپنی رائے پر قائم رہا۔ اگر چہ مسجد ایک چھوٹے فرقہ کی ہے لیکن تاہم اس کا سلطنت برطانیہ کے دارالخلافہ میں قائم ہونا اسلام کے لیے ایک مبارکبادی کا کام ہے اور مقامات مقدسہ کے وائسرائے کی شمولیت کا ایک نہایت موزوں موقع ہے۔ یہ رائے سلطان کی پالیسی کے عین مطابق تھی کہ حجاز میں حج کرنے والوں کو خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں داخل ہونے کے لیے انتہا درجہ کی آزادی دی جائے۔ اس شور و شر کے اُٹھانے سے بعض مسلمانوں کا مقصد زیادہ تر پولیٹیکل (Political) تھا جو لوگ انگریزوں کے برخلاف تھے انہوں نے اس بات کو ناگوار جانا کہ کوئی ایسا کام کیا جائے جس سے برطانیہ اور عرب کے کثیر یا قلیل حصہ کے درمیان دوستانہ راہ و رسم بڑھائے جانے کا احتمال ہو۔ جنگِ عظیم میں پنجابی احمدیوں کی غیر متزلزل وفاداری اور مفید خدمات ان کو نہیں بھولے تھے۔ ان کی کوششوں کو ایک بلا ارادہ مدد لنڈن کے ایک اخبار سے ملی جس نے چند دن ہوئے بمقابلہ غیر احمدیوں کے احمدیوں میں زیادہ مذہبی بردباری پائے جانے پر بہت زور دیا تھا۔ یہ بیان مصر اور دیگر اسلامی ممالک کے عربی اخبارات کو اس رنگ میں پہنچا کہ جس سے یہ خیال ہوتا تھا کہ یہ نئی مسجد مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کے لیے ہے۔ اہلسنت میں سے وہابی بہت سخت ہیں۔ اُن کے نزدیک تمباکو حرام ہے۔ احمدیوں کے خیالات وسیع ہیں۔ ان کا اثر ان کی تعداد کی نسبت سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے۔ تعلیم یافتہ مسلمان ان کے قابو میں ہیں لہٰذا ان کا اثر عظیم الشان ہے۔ احمد یہ فرقہ اور سلطان کے اختلاف عقائد کو بار بار پیش کیا گیا ہے اور احمدیوں کی مذہبی بردباری کی غلط تعبیر کیے جانے نے اس کی تکمیل کر دی۔ سلطان نے جس کام کے لیے اپنا نمائندہ بھیجا تھا اس سے اس کو روکا اس سے پتہ لگتا ہے کہ اس پر بہت بڑا اثر ہوا ہے۔‘‘
اس کے آگے اخبار مسجد کے افتتاح کے حوالے سے رقمطراز ہے:’’مسجد کے افتتاح کے وقت کل سہ پہر ایک بہت بڑا مجمع موجود تھا۔ اس میں زیادہ تر لنڈن کے مختلف مقامات کے غیر مسلم شامل تھے۔ ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان چرچ آف انگلینڈ کے پادری اور دوسرے گرجوں اور وانڈزورتھ کی میونسپلٹی (Municipality) کے نمائندے اس مجمع میں حاضر تھے۔ مسجد کے احاطہ کے دروازہ پر یہ اعلان لگا ہوا تھا ’’امیر فیصل کی خواہش کے برخلاف اس کو افتتاحی کارروائی میں حصہ لینے سے روکا گیا ہے۔ ان کی غیرموجودگی میں خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب بی۔اے بیرسٹر ایٹ لاء سابق وزیر گورنمنٹ پنجاب اور حال نمائندہ لیگ آف نیشنز افتتاح کریں گے‘‘ اس پر مسٹر درد کے دستخط تھے۔
مسٹر درد نے کہا کہ ہفتہ کے دن وہابی بادشاہ کے نمائندے نے ان سے کہا کہ اسے اور امیر کو پوری تسلی ہے کہ افتتاحی رسومات میں شامل ہونے سے کوئی حرج نہیں کیونکہ اسے یقین ہے کہ مغرب میں مسجد بنانے سے وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ خان بہادر شیخ عبدالقادر نے جنہوں نے مسجد کا افتتاح کیا یہ کہا کہ ان کی رائے میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اور مکہ کے وائسرائے کی غیر موجودگی کا سبب فرقہ وارانہ کم ظرفی نہیں۔ لندن میں مسلمان فرقوں کے جھگڑوں سے بالا ہیں۔
مہاراجہ بردوان نے کہا کہ جو کچھ ہندوستان میں اس وقت ہو رہا ہے وہ ایک جلد گزر جانے والی حالت ہے اور یہ مسجد اسلام کے غیر متعصب ہونے کی دلیل ہے۔ دوسرے مقرروں نے اسلامی وحدت پر زور دیا اور کہا کہ ہم فرقہ بندیوں کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بڑے یقین سے اس بات کا اظہار کیا کہ مذہب کے اثر سے عالمگیر اور مستقل صلح قائم رہ سکتی ہے۔
٭… ویسٹ منسٹر گزٹ(West Minister Gazette) نے مورخہ ۴؍اکتوبر ۱۹۲۶ء کی اشاعت میں ’’مسجد کا معمہ – آخری گھڑی پر شہزادہ کی دست برداری‘‘ کےعنوان کے تحت لکھا کہ ’’لنڈن کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر امیر فیصل کی غیر موجودگی نے لوگوں کو استعجاب میں ڈالا اور کثرت سے رائے زنیاں ہوئیں۔ اسلامی حلقوں میں یہ ایک بہت بڑا موقع تھا اور کچھ عرصہ پیشتر کہا گیا تھا کہ امیر فیصل اپنے والد کے نمائندہ کی حیثیت سے مسجد کا افتتاح کریں گے دو دن ہوئے یہ افواہ اڑی کہ امیر افتتاح مسجد میں شامل نہ ہوں گے۔ کوئی سرکاری اطلاع اس کی بابت مسجد کو نہیں ملی تھی۔ اس لیے شہزادہ کے استقبال کے لیے تیاریاں ہو رہی تھیں۔ کل اڑھائی بجے یعنی افتتاح مسجد سے آدھ گھنٹہ قبل جبکہ تمام لندن کے مسلمان حاضر تھے اور بہت سے معزز انگریز مہمان جمع ہو گئے تھے امام مسجد کو سلطان کے فارن سیکرٹری سے یہ تار ملا کہ افسوس! امیر فیصل شامل نہ ہوسکیں گے۔ اس اچانک دستبرداری کی وجہ بیان نہیں کی گئی۔ امیر کی غیر حاضری میں مسجد کا افتتاح خان بہادر شیخ عبدالقادرسابق وزیر پنجاب حال نمائندہ لیگ آف نیشنز نے کیا۔ مسجد کے سیکرٹری مسٹر جی ایف ملک نے ویسٹ منسٹر ( WestMinister) کے ایک نمائندہ کو کہا کہ شہزادہ کی غیر حاضری سے سب کو افسوس ہے۔ میرے خیال میں شہزادہ کو اس کے والد نے روکا ہے اور اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ابن سعود کے بعض طاقتور دوست بہت متعصب ہیں اور احمد یہ فرقہ کی مذہبی بُردباری کے مخالف ہیں۔ ان بااثر لوگوں نے سلطان کو اپنے بیٹے کے روکنے پر آمادہ کیا ہو گا۔ امام نے سوا تین بجے قرآن شریف کی تلاوت کی۔ اُس کے بعد شیخ عبدالقادر صاحب نے چاندی کی چابی سے مسجد کادروازہ کھولا اور مسجد کے افتتاح کا اعلان کیا۔
٭… ڈیلی ٹیلی گراف (Daily Telegraph) نے ’’ابن سعود کی کارروائی‘‘ کے زیر عنوان ۴؍اکتوبر کی اشاعت میں لکھا:’’مکہ کا وائسرائے امیر فیصل کل لنڈن کی پہلی مسجد کے افتتاح کے موقع پر حاضر نہ تھا۔ اعلان شدہ وقت کے آدھ گھنٹہ پہلے تک یہ امید کی جاتی تھی کہ وہ افتتاحی رسم کو ادا کریں گے مگر آخر کار اس کی جگہ خان بہادر شیخ عبدالقادر نے سنبھالی جو کہ پنجاب گورنمنٹ کے سابق وزیر تھے اور انجمن بین الاقوام کےموجودہ نمائندہ ہیں۔
نامعلوم وجوہات کے ماتحت امیر کو اس وعدہ کے ایفا سے روک دیا گیا جو اس کے والد نے کیا تھا۔ مسجد کے متعلقین کی رائے میں اس کی غیر حاضری کا سبب ان مسلمانوں کا فعل ہے جو فرقہ احمدیہ کو (غیر مسلم)سمجھتے ہیں۔ وہابی جن کا سردار ابن سعود ہے شدید ترین مسلمانوں میں سے ہیں۔ امام مسجد کی رائے یہ ہے کہ اس کی ایک گفتگو جو لنڈن کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی اس طرح سے ترجمہ کی گئی کہ جس سے یہ مطلب نکلتا تھا کہ یہ مسجد گویا ایک گرجے کی حیثیت رکھتی ہے اور اس وجہ سے ابن سعود نے اپنے لڑکے کو منع کیا ہے۔ خدائے رحیم کے نام کے ساتھ یکا یک مسجد کے دروازے کھل گئے۔
امام مسجد اور شیخ عبدالقادر اور مہا راجہ بردوان نے تقریریں کیں۔ امام نے کہا کہ اسے… ابن سعود کے فارن سیکرٹری سے یہ خط ملا ہے کہ امیر فیصل افتتاح میں شریک نہ ہوں گے۔ خط میں یہ بیان تھا ’’اس بات سے ہزہائی نس کو سخت رنج ہوا ہے۔ ہز ہائی نس اور میں آپ کی کامیابی چاہتے ہیں اور اس بڑی مسجد کے لیے برکت مانگتے ہیں۔‘‘
امام نے کہا کہ میں کسی کی بے ادبی یا گستاخی نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میں نے ہز میجسٹی (His Majesty) ابن سعود کو تار دی کہ وہ مسجد کے افتتاح پر ایک نمائندہ بھیجیں کیونکہ وہ آج کل مقامات مقدسہ کے محافظ ہیں۔…
ڈیلی ٹیلی گراف (Daily Telegraph) کے نمائندہ کو مسٹر ملک نے یہ کہا کہ ہندوستان میں بعض لوگ ابن سعود کے ہمدرد ہیں اور وہ کٹر مسلمان ہیں اور ان میں اور ہم میں اختلاف ہے۔ سب سے بڑا اختلاف یہ ہے کہ ہمارا ایمان ہے کہ خدا نے تمام قوموں میں انبیاء بھیجے ہیں اس لیے ہم مختلف مذاہب کے پیروؤں کو بھائی اور دوست سمجھتے ہیں۔ ہم مذہبی تشدد کے قائل نہیں مگر ان لوگوں کا یہ عقیدہ نہیں جس میں ابن سعود بھی شامل ہے۔ جونہی سلطان کے دوستوں کو علم ہوا کہ امیر مسجد کا افتتاح کریں گے تو انہوں نے اعتراض کیا۔ دوسری ممکن وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ امام کی گفتگو کو لنڈن کے ایک اخبار نے شائع کیا تھا اور اس کا غلط ترجمہ کیا گیا تھا۔ امام نے یہ کہا تھا کہ ہم تمام مذاہب کے پیروؤں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ایک مصری اخبار نے اس کا مطلب یہ لیا کہ یہ مسجد ایک اسلامی مسجد نہیں بلکہ گرجا سا ہے۔ اس کو بذریعہ تار بھیجا اور ابن سعود کی کارروائی اسی کے نتیجے میں ہوئی۔
افتتاح کا عمومی تذکرہ
٭…ڈیلی کرانیکل (Daily Chronicle) نے مورخہ۴؍ اکتوبر کے شمارے میں مسجد کے افتتاح کے موقع پر منظر کچھ یوں بیان کیا:’’مشرق و مغرب کا ایسا عجیب اور دلفریب ملاپ شاذ و نادر کبھی ہوا ہو جیسا کہ دیکھنے میں آیا جبکہ لنڈن کی لمبی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کی اذان ساؤتھ فیلڈز (Southfields) کے چمکدار میناروں سے سنائی دی۔…
عربی شہزادہ کی غیر حاضری میں لندن کی پہلی مسجد کا افتتاح شیخ عبد القادر صاحب سابق وزیر پنجاب اور حال نمائندہ لیگ آف نیشنز نے کیا۔ یہ رسمی کارروائی ایسے حالات میں کی گئی جو کہ عجائبات سے بھر پورلنڈن کے لیے بھی انوکھی تھی۔ مہمان آ آ کر باغیچے میں چلے جاتے تھے جہاں پولیس کا پہرہ لگا تھا۔ جہاں امام نے اُن کو خوش آمدید کہا۔ یہاں پر جیسا کہ سوشل اجتماعوں کے موقع پر دستور ہے۔ دو بڑے بڑے شامیانے نصب تھے جن کے نیچے چائے کے میز لگے ہوئے تھے۔ ہم مسجد کے سفید کنکریٹ (Concrete) کے بنے ہوئے چمن سے آگے بڑھے۔ ادھر امام نے سریلی آواز میں قرآن شریف کی تلاوت کی اور دُعا کے چند الفاظ کے ساتھ شیخ عبد القادر صاحب کو چابی دی تو کیمروں اور ادھر سینا میٹو گرافی(Cinematography) کی مشینوں کے ایک توپ خانہ نے حرکت شروع کی۔ جونہی دروازہ کھلا۔ خوشبو سارے چمن میں پھیل گئی اور مومنین نے خوشی کے نعرے لگائے۔
تقریروں کے ختم ہوتے ہی میناروں سے مؤذن کی دل سوز آوازمومنین کو نماز کے بلانے کے لیے سنائی دی۔ کالا لباس پہنے ہوئے ایک شخص ایک مینارہ سے دوسرے مینارہ تک چلتا ہوا دکھائی دیتا تھا اور ڈسٹرکٹ ریلوں کے شور کو چیرتی ہوئی الصلوٰۃ الصلوٰۃ کی آواز آئی۔
مومنین نے جن میں یورپین نو مسلم بھی تھے۔ فوارہ پر وضو کیا۔ منہ، ناک، ہاتھ، کلائی اور پاؤں کو پانی سے دھویا اور جراب پہنے ہوئے سفید دیواروں والی بڑی عمارت میں سجدہ کرنے کے لیے گئے۔ اذان کی آواز میناروں سے پانچ مرتبہ دن میں آیا کرے گی یعنی صبح سویرے، دو پہر، سہ پہر، مغرب اور عشاء کے وقت۔ مسجد کی موجودہ حالت میں موزوں سیڑھی کے ذریعے مینارہ تک پہنچے گا۔ آئندہ بھی مسجد کو وسیع کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ گنبد جو کہ اب دروازہ کے بازو پر واقع ہے عمارت مکمل ہونے پر عین وسط میں آ جائے گا۔ کارروائی کے اثناء میں ایک گروہ تعجب کے عالم میں باہر کھڑا رہا اور اذان کے وقت خاموشی سے لرز رہا تھا۔ لوگ مشرق مغرب کے فیشن کو دیکھ کر استعجاب میں غرق تھے۔ چمکدار قبائیں، خوش رنگ صافی، سُرخ ٹوپیاں، سیویل رو کے سوٹوں اور انگریزی ٹوپیوں کے ساتھ مل کر تعجب انگیز معلوم ہوتےتھے۔عمارت باغیچہ میں ترچھی کھڑی ہے کیونکہ اس کا رخ مکہ کی طرف ہے اس کو ٹھیک ٹھیک ایشیائی طرز پر کھڑا کرانا کوئی معمولی کام نہ تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ہندوستان کا ایک گم شدہ کھڑا حوالی لنڈن میں لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے۔
٭… ناردرن ایکو (Northern Echo) اخبار نے مورخہ۱۴؍اکتوبر ۱۹۲۶ء کی اشاعت میں لکھا:’’مجمع میں بہت سے انگریز شامل تھے۔ ان میں سر ہیری برٹنSir Harry Burton ایم پی اور مسٹر پی جے ہنین ( .P. J Hennin) ایم پی بھی شامل تھے۔ آنریبل (Honourable) شیخ نے اپنے ایڈریس کے دوران میں کہا کہ وہ ظاہری رسومات کے مؤید نہیں لیکن چونکہ ظاہری رسومات سے اشاعت و شہرت ہوتی ہے لہٰذا ہم ان کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ مسجد چونکہ اسلامی تحریک کا آغاز ہے اس لیے اگر اس کی شہرت نہ ہوئی تو یہ محض گمنامی میں رہے گی۔ یہ شہرت افتتاحی رسومات کی اشاعت سے حاصل ہو گی۔ میں احمدیہ فرقہ کا ممبر نہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اسلام کے بعض بڑے اور پرانے فرقے اس فرقہ کو پسند نہیں کرتے ہیں اور امیر کی ممانعت کی بھی یہی وجہ ہے۔ اس مسجد کے کام کو فرقہ وارانہ نظر سے نہیں جانچنا چاہیے۔ اسلام کو مغربی قوموں کے سامنے اصلی معنوں میں پیش کرنے کے کام کے سامنے فرقہ بندی روک ہے۔ اسی رائے کولے کر میں اس مجمع میں شامل ہوا ہوں۔‘‘
حضرت مصلح موعودؓ کے افتتاح کے موقع پر پیغام کا تذکرہ
اس تاریخی موقع پر حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے ایک پیغام بھی موصول ہوا جو امام مسجد فضل لندن حضرت مولوی عبد الرحیم درد صاحبؓ نے پڑھ کر سنایا۔ حضورؓ کا یہ بصیرت افروز پیغام بھی اخباری نمائندوں کی روداد کا حصہ بنا اور اس کے ذریعہ سے تبلیغ اسلام ہوئی اور حضورؓ کی آواز کثرت سے لوگوں تک پہنچی۔ اس کے بعض نمونے ذیل میں درج ہیں:
٭… ساؤتھ ویلز نیوز(South Wales News) نے مورخہ ۴؍ اکتوبر کی اشاعت میں لکھا:’’لنڈن نے کل ایک ایسے نظارہ کو دیکھا۔ جسے اس نے اپنی طویل تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ساؤتھ فیلڈز واقع لنڈن میں مسلمانوں کی پہلی مسجد رحیم خدا کے نام کے ساتھ کھولی گئی۔ مسجد کے افتتاح سے پہلے امام مسجد نے احمد یہ فرقہ کے امام کی طرف سے ایک پیغام سنایا جس میں ہز ہولی نس (His Holyness) نے یہ فرمایا کہ مسجد کا وجود اس عظیم الشان نیکی کا معاوضہ ہے۔ جو مغرب نے ہماری گہری نیند کے زمانہ میں ہمارے لیے علوم کی مشعل کو روشن کرنے سے کی ہے۔‘‘ انہوں نے عیسائیوں سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ اسلام کو دشمنی کی نظر سے نہ دیکھیں۔ کیونکہ اسلام عیسائیت کو اس نظر سے نہیں دیکھتا۔ ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بڑا اور سچا نبی مانتے ہیں۔ مجمع میں بہت سے اکابرین شامل تھے۔ مثلاً لارڈ ایش فیلڈ ( Lord Ashfield)، سر ہیری برٹن (Sir Hary Berton) اور سر مائیکل اوڈوائر -(Sir Michael Adwire)
٭…مانچسٹرگارڈین(Manchester Guardian) نے مورخہ۱۴؍اکتوبر ۱۹۲۶ء کی اشاعت میں لکھا:’’…امام مسجد نے جماعت احمدیہ کے امام حضرت خلیفۃالمسیح مرزا محمود احمد صاحب کا ایک پیغام سنایا جنہوں نے دو سال قبل اس مسجد کی بنیاد رکھی تھی۔ پیغام میں یہ دلچسپ عبارت تھی۔ ہم عیسائیت کے برخلاف دشمنی نہیں رکھتے بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بڑا اور سچا نبی مانتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ رسول کریمؐ انہی کی پیشگوئی کے مطابق آئے۔ خداوند تعالیٰ نے مقدس بانی اسلامؐ کے ذریعہ سے دنیا کو آخری ہدایت دی اور یہ ہدایت دنیا کے اختتام تک رہے گی۔ یہاں تک کہ اس زمانہ کے مصلح حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیش گوئی کے پورا کرنے کے لیے آئے۔ ان کا کام اس آخری ہدایت کی سچائی کو قائم کرنا اور اس کے مخفی خزانوں کو ظاہر کرنا تھا لہٰذا ہمارا کام وحدت کے اس مرکز میں پیار اور دیانت داری کے ساتھ ایک زندہ اور قادر خدا کی پرستش کو پھیلانا اور خالق کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں قائم کرنا ہے۔ ہم مختلف مذاہب کے پیروؤں کے دلوں سے بغض و عداوت کو دُور کرنے کی کوشش کریں گے اور تحقیقات کی سچی رُوح پیدا کرنے کے لیے اپنا پورا زور لگائیں گے۔ ہم اخلاق کے سنوارنے اور گناہ و تعدی کے مٹانے اور راست بازی کے احساسات پیدا کرنے کے لیے کوشش کریں گے۔ ہم سچی مساوات جس میں درجوں کے جائز فرق کو تسلیم کیا گیا ہے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہم برادری اور باہمی ہمدردی اور تعاون کے جذبات پیدا کرنے کے لیے زور لگائیں گے۔ میں اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر عیسائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھی اسلام کو دشمنی کی نگاہ سے نہ دیکھیں اور اسلامی تعلیم کے نقائص معلوم کرنے کی بجائے وہ اس کی خوبیوں کو تلاش کریں کیونکہ مذہب کی سچائی دوسروں کے عیوب ظاہر کرنے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اپنی تعلیم کی خوبیاں ثابت کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ بھائیو! آج کل کا زمانہ شرک، لامذہبی، خدا سے تغافل، ملکوں کی دشمنی، قوموں کی منافرت اور فرقوں کی رنجشوں کا ایک افسوسناک نظارہ ہے۔ لہذا ہر ایک خدا سے پیار کرنے والے دیانت دار آدمی کا فرض ہے کہ اپنی نیند سے بیدار ہو جائے اور خدا کے گھروں کو بجائے لامذہبی اور نفاق کا مرکز بنانے کے خدا کی وحدت کے قلعے اور اتفاق کے مرکز بنائے۔‘‘
٭…ٹائمز(Times) نے مورخہ ۵؍اکتوبر ۱۹۲۶ء کی اشاعت میں حضرت مصلح موعودؓ کے بصیرت افروز پیغام کے حوالے سے لکھا:’’سلسلہ کے امام اور مسیح موعود کے جانشین مرزا محمود احمد صاحب کے ایک برقی پیغام سے مسجد کے مقاصد پر روشنی پڑتی ہے۔ اس مسجد کے مقاصد کی غلط تعبیر کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ شاہ نجد جو تقویت مسجد کو دینا چاہتا تھا اس سے دستبردار ہوگیا۔ اس پیغام میں فرقہ کے امام نے خدا کا شکریہ ادا کیا جس نے مغرب کے سب سے بڑے مرکز میں انہیں مسجد بنانے کی توفیق عطا کی اور انہیں اس قابل بنایا کہ وہ اس بڑی نیکی کا معاوضہ دیں جو اُن کی گہری نیند کے زمانے میں مغرب نے علوم کی مشعلوں کو ان کے سامنے روشن کرنے میں کی ہے وہ مسجد کو اس تعلیم کا ظاہری نشان بتاتے ہیں جس سے خدا کی محبت دلوں میں پیدا ہوتی ہے جس سے اخلاق درست ہو جاتے ہیں، جس سے ضمیر کی آزادی حاصل ہوتی ہے جن سے اتفاق و مساوات قائم ہو جاتی ہے، جس سے غریبوں اور محتاجوں کو سہارا مل جاتا ہے۔ جب انہوں نے ۱۹۲۴ءمیں مسجد کی بنیاد رکھی تو ان کے دل میں سوائے اس تعلیم کے اور کچھ نہ تھا۔‘‘
حضرت مسیح موعودؑ کا تعارف
اس مسجد کی تعمیر سے اس وقت ایک بڑا یہ فائدہ دکھائی دیتا ہے کہ پریس کے ذریعہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور سلسلہ احمدیہ کا تعارف کثرت سے ہوا۔ چنانچہ یارک شائر پوسٹ (Yorkshire Post) نے ۴؍اکتوبر کی اشاعت میں لکھا:’’سلسلہ احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد صاحبؑ جن کی مسجد کا افتتاح آج ہوا۔ شمالی ہند میں اپنی زندگی کے ایام میں ایک عظیم الشان اثر رکھتے تھے۔ ان کی ذاتی شہرت اور عزت بہت بڑی تھی۔ انہیں اپنی راست بازی پر کامل ایمان تھا۔ اُن کے بڑے مُرید ہیں۔ پنجاب کے اعلیٰ ترین دماغ والوں میں سے بعض ان کے پیروؤں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے اصول آج دُور دُور تک پھیل گئے ہیں۔ اس میں ہرگز شک نہیں کہ مرزا صاحب کو کامل یقین تھا کہ انہیں خدا کی طرف سے انسانی طاقتوں سے بالا طاقتیں حاصل ہوئی ہیں۔ وہ بڑی عمر تک زندہ رہے۔ ان کو فوت ہوئے ۱۵ سال ہوئے ہیں۔ وہ خلیق اور شریف آدمی تھے وہ اپنے پیروؤں اور عام لوگوں کو ہمیشہ وفاداری کی دانشمندانہ تعلیم سکھاتے تھے۔ جہاں ان کے اپنے مذہب کا سوال اُٹھتا تھا وہاں وہ مذہبی جوش سے بھر جاتے تھے۔ آریہ سماج کا فرقہ جو انہی کے زمانہ میں نمودار ہوا اور لوگوں کو مرتد کرانے کا ایک مضبوط ذریعہ تھا۔ ان کے غیظ و غضب کے نیچے آگیا اور ایک آریہ مبلغ کے قتل کا واقعہ جس کی بابت انہوں نے تباہی کی پیشگوئی کی تھی اب تک پنجاب میں یاد ہے۔‘‘(ماخوذ از تواریخ مسجد فضل لندن صفحہ۱۱۳تا۱۴۲)
الغرض برطانوی اخبارات کے ذریعہ حضرت مصلح موعودؓ کی لندن تشریف آوری سے سلسلہ احمدیہ کو جو شہرت ملی وہ بعدازاں مسجد فضل لندن کے حضورؓ کے ہی بابرکت ہاتھوں سنگ بنیاد اوربعد ازاں افتتاح کے موقع پر پیغام کی صورت میں جاری رہا۔ اور اس کے بعد ہم سب جانتے ہیں کہ اس مسجد نے ہر دور میں تبلیغ اسلام میں موثر کردار اداکیا ہے جس میں یقیناً سب سے بڑا کردار خلفائے احمدیت کی یہاں تشریف آوری اور بعد ازاں خلافت کا یہاں ۳۵؍سالہ عرصہ قیام کو ہےاور آج مسجد فضل حضرت مصلح موعودؓ کی اس دعا کی قبولیت کی شاہد ناطق ہے کہ ’’خدا تعاليٰ … يہ جگہ حضرت محمد مصطفيٰ خاتم النبيين صلي اللہ عليہ وسلم اور حضرت احمد مسيح موعود نبي اللہ بروز اورنائب محمد عليہ الصلوٰة والسلام کي نوراني کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں ميں پھيلانے کے ليے روحاني سورج کا کام دے۔ اے خدا ايسا ہي کر‘‘