’’خلیفۂ وقت کی خدمت میں کثرت سے خط لکھا کریں‘‘ مؤرخ احمدیت مولانا دوست محمد شاہد صاحب کی بعض یادیں
چند روز قبل روزنامہ الفضل انٹرنیشنل لندن میں بزرگوں کے حوالے سے یادداشتیں تحریر کرنے کی تحریک پڑھ کر محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کے بارے میں چند یادیں پیش ہیں۔
مؤرخ احمدیت، جید عالم سلسلہ اور نابغہ روز گار شخصیت مکرم و محترم مولانادوست محمد صاحب شاہد کا کچھ ذکر خیر کرنا مقصود ہے۔ آپ کی ذات سے ابتدائی تعارف و تعلق اس وقت سے بننا شروع ہواجب ربوہ میں گرمیوں کی چھٹیوں میں فضلِ عمر تعلیم القرآن کلاس کا انعقاد ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح میٹرک کا امتحان دینے والے طلبہ کے لیے ایک تربیتی کلاس بھی ہوتی تھی۔
گورنمنٹ کی طرف سے اس وقت کوئی اس طرح کی پابندیاں جماعت کے لیے نہیں تھیں اور ایک بڑی تعداد میں اطفال و خدام پاکستان کے مختلف شہروں سے ان کلاسوں میں شامل ہونے کے لیے آیا کرتے تھے۔ہمارے والدین میں خلافت اور جماعت سے گہری اور دلی محبت اور وابستگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ ہمیں بھی اسی طرح اس محبت میںسرشار دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے ہمارے والدین کے دلوں ہمیں بڑے شوق اور محبت سے ان کلاسوں پر نیز دوسرےپروگراموں میں شرکت کے لیے ربوہ بھیجتے اور بچپن میں ہمیں خود ربوہ لے کر آتے۔ بہرحال کلاس کے حوالے سے بات ہو رہی تھی۔ اس وقت جامعہ احمدیہ میں گرمیوں کی تعطیلات کے باعث ہاسٹل خالی ہوتا تھا اور وہاں تعلیم القرآن کلاس پر آنے والے طلبہ رہائش اختیار کرتے۔ وہاں پر بڑا ہی اعلیٰ اور بہترین انتظام ہوتا اور طلبہ کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ مرکوز کی جاتی۔ کھانے کے لیے طلبہ دارالضیافت جاتے جبکہ کلاس کا انعقاد ایوان محمود میں ہوتا۔ اس طرح ربوہ کی سڑکوں پر سفر کرنے کا بہت سا موقع میسر آجاتا۔ اس وقت ربوہ میں کاریں وغیرہ بہت ہی کم تعداد میں ہوتی تھیں اور بزرگان سلسلہ دفاتر اور مساجد میں پیدل یا سائیکلوں پر آتے جاتے تھے۔ ان نورانی چہروں والے روحانی بزرگوں کی شان و شوکت ہی الگ تھی اور سر زمین ربوہ پر گویا یہ چلتے پھر تے فرشتوں کی مانند نظر آتے تھے۔ سروں پر پگڑی یا جناح کیپ پہنےاور خوبصورت شیروانی زیب تن کیے ہوئے رواں دواں ہوتے اور ہر گزرنے والے کو سلام کرتے۔ نمازوں کے اوقات میں گرمی، سردی، بارش غرض موسم کی شدت کی پرواہ کیے بغیر مساجد کی طرف پانچ وقت جاتے نظر آتے۔ چند بزرگوں کے نام جو خاکسار کو یاد ہیں ان میں محترم مرزاغلام احمد صاحب، محترم مولانا عبد المالک خان صاحب، محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد محترم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب، محترم مولانا محمد احمد جلیل صاحب، افریقہ میں لمبا عرصہ گزارنے والے مبلغ محترم مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب، محترم مولانا محمد اسماعیل منیر صاحب، محترم مولانا سلطان محمود انور صاحب، مولانا غلام باری سیف صاحب اور بہت سارے بزرگان شامل ہیں۔ مولانا غلام باری صاحب سیف ایک مرتبہ ہمارے گاؤں مجلس سوال و جواب کے لیے تشریف لائے۔ اس موقع پر خاکسار کو بھی ریلوے سٹیشن پر استقبال کے لیے جانے کی توفیق ملی۔
بہت سے مبلغین کلاس کے آخری پیریڈ میں ہونے والے تلقین عمل کے پروگرام کے لیے تشریف لاتے اور اپنی زرّیں نصائح سے نوازتے۔ محترم مولانادوست محمد صاحب شاہد بھی کئی بار تشریف لائے۔ آپ ایک منجھے ہوئے اور شعلہ بیاں مقرر تھے اور اپنے پر جوش انداز بیان اور برمحل اور برجستہ شعروں کی ادئیگی سے اپنی تقریر میں جان ڈال دیتے۔ کلاس کے طلبہ بڑی محبت، شوق اور لگن سے آپ کی تقریر مگن ہو کر سنتے۔ ایک ایسے ہی موقع پر جب آپ نے اپنی تقریر ختم کی توسب طلبہ آپ سے ہاتھ ملانے اور آٹو گراف لینے کے لیے آپ کے گرد جمع ہو گئے۔ خاکسار بھی کاپی لے کر حاضر ہوا۔ جب میری باری آئی تو آپ نے مجھے بھی آٹو گراف سے نوازا۔ آپ نے لکھا؟ ’’خلیفۂ وقت کی خدمت میں کثرت سے خط لکھا کریں۔‘‘ آپ کی طرف سے کی جانے والی اس نصیحت سے خاکسار کو بہت فائدہ ہوا۔
آپ ایک انتہائی خود دار شخصیت کے مالک انسان تھے۔ ہم چند دوست ایک دن مسجد مبارک سے نماز پڑھ کر واپس آرہے تھے۔ آپ بھی سائیکل پر سوار پیچھے سے آگئے اور ہمارے سلام کرنے پر سائیکل سے اتر کر ہمارے ساتھ چلنا شروع کر دیا اور تعارف وغیرہ ہونے لگا۔ ایک لڑکے نے نہایت ادب سے درخواست کی کہ مولانا صاحب میں آپ کی سائیکل پکڑ لیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں میری سائیکل ہے لہٰذا میں ہی پکڑ کر آپ کے ساتھ چلوں گا۔ آپ ہمارے ساتھ ساتھ چلتے گئے اور بہت سی تربیتی باتیں بتاتے رہے۔
آپ ایک عالم با عمل انسان تھے۔ ذہانت و فتانت اور برجستگی آپ کی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ایک دن مسجد مبارک ربوہ میں آپ کے ساتھ مجلس سوال و جواب ہو رہی تھی۔ کسی طالب علم نے داڑھی کے حوالے سے سوال کیا اور خاص طور پر جماعت کے لوگوں کی مختلف قسم کی داڑھیوں پر مخالفین کی طرف سے ہونے والے اعتراضات کا ذکر کیا۔ آپ کے دائیں طرف ایک بڑا سا صندوق رکھا ہوا تھا آپ نے اس میں سے دو بڑی بڑی تصاویر نکالیں اور کھول کر دکھائیں۔ ان میں سے ایک تصویر علامہ اقبال کی تھی اور دوسری تصویر سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل کی تھی۔ یہ دونوں تصاویر دکھا کر آپ نے کہا کہ اگر لوگوں کو ان کی داڑھیوں پر کوئی اعتراض نہیں تو ہماری داڑھیوں پر بھی نہیں ہونا چاہیے۔ یہ جواب دیکھ اور سن کر محفل کشتِ زعفران بن گئی۔
آپ کی تقاریر جو خاکسار نے سنی ہیں ان میں درج ذیل اشعار کئی بار سنے جو اَب تک ذہن پر نقش ہیں۔؎
خدا خود جبر و استبداد کو برباد کردے گا
وہ ہر سو احمدی ہی احمدی آباد کردے گا
صداقت میرے آقا کی زمانے پر عیاں ہوگی
جہاں میں احمدیت کامیاب و کامراں ہوگی
ایک موقع پرجبکہ آپ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر تقریر کر رہے تھے آپ کو بتایا گیا کہ وقت ختم ہو گیا ہے تو آپ نے یہ شعر پڑھ کر اپنی تقریر کا اختتام کیا جو خاکسار کی یاد داشت میں محفوظ ہو گیا۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے
آپ کی نیکی و تقویٰ اور خاکساری و بزرگی نیز بےپایاں مقرر ہونے کی وجہ سے بہت کم ملاقات ہونے کے باوجودخاکسار کو آپ سے ہمیشہ ایک دلی تعلق رہا۔ مسجد مبارک ربوہ میں خاکسار کا نکاح بھی آپ نے پڑھایا۔
آپ خلافت لائبریری ربوہ کے روح و رواں تھے۔ جب بھی خلافت لائبریری جانا ہوا آپ کو پوری تندہی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف پایا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بہت بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین