کیا مدینہ کے یہودی قبیلہ بنو قریظہ کے مردوں کا قتلِ عام کیا گیا تھا؟
یہ بات عام طور پر مشہور بھی ہے اور اسلامی تاریخی کتب میں بھی پائی جاتی ہے کہ جنگِ خندق کے موقع پر معاہدے کی خلاف ورزی اور عین وقت پر غداری کی سزا کے طور پر یہودی قبیلہ بنو قریظہ کے، قابلِ جنگ مردوں کا مسلمانوں نے قتلِ عام کیا تھا۔ یہ واقعہ احمدیہ مسلم جماعت کے مصنفین کی سیرت کی کتب میں بھی اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔
لیکن جماعت کے ایک بزرگ محقق سید برکات احمد صاحب مرحوم نے انگریزی میں ایک کتاب لکھی ہے، جس کتاب کی خاصی پذیرائی بھی ہوئی ہے، Muhammad and the Jews اس کتاب میں انہوں نے تحقیق کے بعد بنوقریظہ سے متعلق اس واقعہ کی سچائی پر چند سوالات کھڑے کیے ہیں، جو قابلِ توجہ ہیں۔
سید برکات احمد صاحب جنہوں نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کی مشہورِ زمانہ کتاب، مذہب کے نام پر خون، کا انگریزی زبان میں ترجمہ Murder in the name of Allah کیا ہے۔ اس کتاب کے تعارف میں، حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے، سید برکات احمد صاحب کی تعریف و توصیف کی ہے۔دیگر باتوں کے علاوہ، آپؒ فرماتے ہیں:
During his few final years , one of his important works-which has drawn wide acclaim – is his book Introduction to Quranic Script .
آگے آپؒ مزید فرماتے ہیں:
Just a few month before his demise, he was also able to write a very scholarly article, “Muhammad and the Jews” , which was acknowledged as a model of historical research
اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی خطبہ جمعہ فرمودہ یکم نومبر ۲۰۲۴ء میں آپ کی تحقیق کا تذکرہ فرمایا۔
اپنی تحقیقی کتاب میں سید برکات احمد صاحب کہتے ہیں کہ اس واقعہ کی سچائی پر کئی تاریخ دانوں اور محققین نے شک کا اظہار کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس واقعہ کو ابنِ اسحاق، واقدی اور ابنِ سعد نے بہت ہی بڑھا چڑھا کر اور فخریہ انداز میں بیان کیا ہے، جبکہ ان کے معاصر تاریخ دان الظہوری اور قتادہ نے، اس واقعہ کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں کیا۔ ابن اسحاق، واقدی اور ابن سعد کے متعلق مسلم اور غیر مسلم تاریخ نویسوں اور محققین نے تنقید کی ہے۔ ابن اسحاق پر یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ، وہ جو کچھ سن لیتے، بلا تحقیق اور بنا جانچ پڑتال کے، اپنی کتابوں میں درج کرتے جاتے۔
سید برکات احمد مرحوم نےاس واقعہ کے ساتھ ساتھ یہودیوں سے متعلق تمام واقعات کا تفصیلی اور تحقیقی جائزہ لیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں، یہودی تاریخ نویس، سیموئیل اسحاق نے اپنی کتاب Consolidation for Tribulations of Israel : Third Dialog میں اس واقعہ کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں کیا، جبکہ یہ کتاب خاص طور پر یہودیوں کی قربانیوں کی داستانوں پر مشتمل ہے۔ اور یہ بات یہودیوں کی فطرت کے بالکل خلاف ہے کہ ان کی تاریخ کے اتنے اہم اور دردناک واقعہ کا کوئی ذکر ہی نہ کریں!
اس واقعہ کی سچائی پر شک ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس موقعہ پر قتل کیے گئے یہودی مردوں کی تعداد میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے یہ تعداد ۵۰۰/۶۰۰، تو بعض نے ۸۰۰ اور ۹۰۰ بتائی ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ ان مقتولین کی لاشیں راتوں رات، مدینہ کے بازار میں گڑھا کھود کر دفنادی گئی تھیں۔( ولیم میور اور راڈنسن کا کہنا ہے کہ، یہ گڑھا مدینہ شہر کے باہر، ایک طرف کھودا گیا تھا۔)
سید برکات احمد صاحب کا سوال ہے کہ، کیا مدینہ جیسے چھوٹے شہر کے بازار میں ۸۰۰/۹۰۰لاشیں دفن کرنے جتنی جگہ ہوگی ؟ اُن کا دوسرا سوال یہ ہے کہ، اتنی لاشیں دفن کرنے جتنا بڑا گڑھا ایک رات میں کھودنا ممکن تھا ؟ وہ بھی ایسی فوج کے ذریعہ جو دو تین ماہ سے جنگی حالات سے تھکی ماندی تھی۔ (قریباً تین ہفتے خندق کی کھدائی، قریباً اتنا ہی عرصہ خندق کی دن رات کی حفاظت اور جنگ اور قریباً اتنا ہی عرصہ بنو قریظہ کے قلعہ کا محاصرہ )۔ بعض نے لکھا ہے کہ، وہ گڑھا تنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھودا تھا۔ تیسرا اور سب سے اہم سوال سید برکات احمد صاحب یہ اٹھاتے ہیں، شہر سے متصل اتنی بڑی اور طویل خندق ( ۳میل طویل، تقریباً ۳۰ فٹ عریض اور تقریباً ۱۰/۱۵ فٹ گہری) موجود ہوتے ہوئے، نیا گڑھا کھودنے کی کیا ضرورت تھی، اسی خندق میں لاشیں دفنائی جا سکتی تھیں۔
یہ سوالات معقول اور بہت ہی برجستہ ہیں۔ ویسے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج اور عام روش کے پیش نظر، اس طرح کا قتلِ عام ناممکن نظر آتا ہے۔ آپ صلعم کی حیات طیبہ میں، دس سال کے عرصے میں، ایک اندازے کے مطابق تقریباً ۸۵؍جنگیں لڑی گئیں۔ ان جنگوں میں شہداءاور مقتولین کی جملہ تعداد ۵۰۰؍سے لے کر ۱۰۱۸؍تک بتائی جاتی۔ جن میں ۲۵۹؍مسلم اور ۷۵۹؍کفار کی تعداد تھی۔ ایسی صورت میں ایک ہی رات میں اتنی بڑی تعداد میں اہلِ کتاب کا قتل کیا جانا، شک کے دائرہ میں تو آتا ہی ہے۔
خاکسارکی کی رائے یہ ہے کہ، محققین جو مقالات تحریر کرتے ہیں، اُنہیں اس موضوع پر بھی تحقیق کی تحریک کی جائے اور سید برکت احمد مرحوم کی کتاب ’محمد اینڈ دی جیوز‘ سے استفادہ کیا جائے۔