تقریر جلسہ سالانہ

تقریر جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ ۲۰۲۴ء: اصلاحِ نفس کے تقاضے اور حصول کے ذرائع

(ڈاکٹر منصورہ شمیم)

حدیث میں بیان ہوا ہےکہ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ ہر بچہ فطرتِ پر پیدا ہو تا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یامجوسی بناتے ہیں۔ (یعنی قریبی ماحول سے بچے کا ذہن متاثر ہوتا ہے) جیسے جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتاہے۔ کیا تمہیں ان میں کوئی کان کٹا نظر آتا ہے ؟ (یعنی بعد میں لوگ اس کا کان کاٹتے ہیں اور اسے عیب دار بنا دیتے ہیں۔(مسلم کتاب القدر باب معنی کل مولود یولد علی الفطرۃ)

یعنی انسان اپنے ماحول اور معاشرے کے اثرات کو قبول کرتا ہے اور گردونواح میں ہونے والے واقعات اس کی سوچ پر اثر انداز ہوتے اور اعمال کا تعین کرتے ہیں۔

اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ دنیا میں عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے جب اس معاشرے کا ہر فرد منصفانہ رویہ اختیار کرنے والا،قانون کی پاسداری کرنے والا، انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے فرائض کو ادا کرنے والا اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے والا ہو۔امن و آشتی کے ساتھ ایک پرسکون ماحول میں زندگی بسر کرنا ہر انسان کی اولین خواہش،اس کا حق اور اس کی فطرت کا بنیادی جزو ہے۔

سوال یہ ہے کہ فطرت کیا چیز ہے؟ یا دوسرے الفاظ میں وہ کیا خاصیت ہے جو انسان کے اندر خواہشات پیدا کرتی اور جائز و ناجائز طریقوں سے ان خواہشات کے حصول کے لیے اسے ہر دم سرگرداں رکھتی ہے۔اس کا جواب لفظ ’’نفس‘‘میں پوشیدہ ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے مکتوب مورخہ ۲۰؍اکتوبر ۲۰۲۰ء (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۱؍جنوری ۲۰۲۲ء) میں فرماتے ہیں:’’نفس کا لفظ لغوی اعتبار سے جسم،شخص، روح،جسم اور روح کے مجموعہ انسان، عظمت، عزت، ہمت اور ارادہ وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے نفس پر قابو پانے، اس کی اصلاح کرنے اور اس میں تبدیلی پیدا کرنے کی ایک حد تک قدرت اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے‘‘۔

نفس کی اصلاح کے تقاضوں اور حصول کے ذرائع کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نفس کی اصل طاقت کیا ہے ؟

نفسِ انسانی کی اہمیت قرآن کریم کی سورۃ الشمس کی ابتدائی آیات میں بیان کی گئی ہے۔ ان آیات کی جو تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی ہے اس کا خلاصہ آپ کے سامنے بیان کرتی ہوں۔

اگر آپ کسی کو کچھ سمجھانا چاہتے ہیں تواپنی بات کا بنیادی نقطہ دو یا تین بار دہرانے کے بعد آپ اس کی وضاحت کےلیے کسی مثال کا استعمال کرتے ہیں۔ انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ محسوس کی جانے والی اور نظر آنے والی چیزوں کی طرف جلد متوجہ ہوتا ہے اور ان کے متعلق قصے، کہانیوں اور امثال کو دلچسپی اور دل جمعی سے سنتا اور اثر لیتا ہے۔ یہی سنتِ الٰہی ہے۔ انسان کی اس فطرت کے پیشِ نظر اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسانوں کی توجہ کے لیے مثالیں دے کر بات سمجھانے کا اسلوب اپنایا، تاکہ انسان شعوری و غیر شعوری طور پر ان سے عبرت اورنصیحت حاصل کر سکے۔

اسی انداز میں خدا تعالیٰ انسانی نفس کی موجودگی اور اس میں پائی جانے والی قوت کو قرآن شریف میں بیان کرتا ہے۔ اس میں کسی کو بھی شک نہیں ہو سکتا کہ سورج موجود ہے اور اس کی دھوپ بھی ہے۔ اور چاند کا وجود بھی ہے جو سورج سے روشنی جذب کرتا اور اس کا انعکاس کرتا ہے۔دن کی روشنی اور رات کا اندھیرا بھی ہر ذی روح دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے۔اور آسمان بھی سب کی نظروں کے سامنے ہے اور زمین تو خود انسانوں کے سکون کی جگہ ہے۔ یہ تمام چیزیں اپنا اپنا وجود اور خواص رکھتی ہیں۔ سورج، چاند، دن، رات، آسمان اور زمین کی مثالیں پیش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ انسان کے نفس کا ذکر وَنَفۡسٍ وَّمَا سَوّٰٮہَا میں دو حقائق کو بیان کرنے کے لیے فرماتا ہے۔

ایک تو یہ سمجھانے کے لیے کہ جس طرح سورج، چاند، دن، رات، آسمان اور زمین کے موجود ہونے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اسی طرح انسان کے نفس کے قائم بالذات ہونے سے انکار ممکن نہیں۔

دوسرے نفسِ انسانی کی قوت کا احساس دلانے کے لیے۔فرمایاکہ انسان ِکامل کا نفس ان تمام کمالات کا مجموعہ ہےجو پہلے بیان کی گئی تمام چیزوں میں الگ الگ طور پر پائی جاتی ہیں۔جس طرح سورج کا کام چمکنا اور چاند کا کام سورج کی روشنی کو جذب کر کے اس کا انعکاس کرنا ہے اسی طرح انسان کا نفس بھی آفتاب اور اس کی دھوپ کا کمال بھی اپنے اندر رکھتا ہےاور چاند کی خصوصیت بھی اس میں پائی جاتی ہے کہ ایک نور سے بطور استفادہ اپنے اندر بھی نور لے سکتا ہے۔دن کی روشنی اور رات کا اندھیرا بھی نفس کا حصہ ہے۔آسمان کی طرح نفس کو بھی رفعت عطا کی گئی ہے اور زمین کی وہ قابلیت(زرخیزی) جس کی وجہ سے انسان اس میں بسنے کے قابل ہوا ہے وہ بھی نفسِ کامل میں موجود ہے۔

لیکن اس جگہ یہ سوال ہوگا کہ نفسِ انسان کے موجود بالذات ہونے کے لیے جو شواہد پیش کیے گئے ہیں اُن شواہد کی خصوصیات نفس انسان میں کہاں پائی جاتی ہیں اور اس کا ثبوت کیا ہے کہ پائی جاتی ہیں۔ اس وہم کے رفع کرنے کے لیے اللہ جل شانہ فرماتا ہے فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىہَا۔ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰـىہَا۔ (الشمس:۹تا۱۰)یعنی خدا تعالیٰ نے نفسِ انسان کو پیدا کر کے ظلمت اور نورانیت اور ویرانی اور سرسبزی کی دونوں راہیں اس کے لیے کھول دی ہیں جو شخص ظلمت اور فجور یعنی بدکاری کی راہیں اختیار کرے تو اس کو ان راہوں میں ترقی کے کمال درجہ تک پہنچایا جاتا ہے یہاں تک کہ اندھیری رات سے اس کی سخت مشابہت ہو جاتی ہے اور اگر پرہیزگاری کا نورانی راستہ اختیار کرتا ہے تو اس نور کو مدد دینے والے الہام اس کو ہوتے رہتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ اس کے دلی نور کو جو بیج کی طرح اس کے دل میں موجود ہے اپنے خاص الہامات سے کمال تک پہنچا دیتا ہے۔ اور اس کی حیثیت آفتاب جیسی ہو جاتی ہے۔

اگلا سوال یہ ہے کہ اگر روح القدس انسان کو بدیوں سے روکنے کے لیے مقرر ہے تو پھر اس سے گناہ کیوں سرزد ہوتا ہے اور انسان کفر اور فسق و فجور(یعنی برے کاموں) میں کیوں مبتلا ہو جاتا ہے؟ حضرت اقدس مسیح موعودؑ اس بارے میں فرماتے ہیں:’’اس کا یہ جواب ہے کہ خدا تعالیٰ نےانسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اور عقل ِسلیم سے نواز کراس کے لیے ابتلا (آزمائش)کے طور پر دو روحانی داعی مقرر کر رکھے ہیں۔ ایک داعی خیر جس کا نام روح القدس ہے اور ایک داعی شر جس کا نام ابلیس اور شیطان ہے۔ جیسا کہ فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا میں اس امر کی طرف اشارہ ہے۔یعنی خدا بدی کا الہام بھی کرتا ہے اور نیکی کا بھی۔بدی کے الہام کا ذریعہ شیطان ہے جو شرارتوں کے خیالات دلوں میں ڈالتا ہے اور نیکی کے الہام کا ذریعہ روح القدس ہے جو پاک خیالات دل میں ڈالتا ہے۔‘‘(آئینہ کمالاتِ اسلام،روحانی خزائن جلد پانچ صفحہ ۸۰ ،۸۱،حاشیہ)یہی وہ خصوصیات ہیں جو اصلاح نفس کے تقاضوں کے زمرے میں آتی ہیں۔

اس مضمون کی تفسیر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’خدا تعالیٰ نے آسمانی اور زمینی نظام کے بنانے اور انسانی نفس میں قابلیت رکھنے کے بعد(یعنی اسے اشرف المخلوقات بنانے، عقل کی نعمت اور قوتِ فیصلہ عطا کرنے کے بعد) اسے چھوڑا نہیں بلکہ اس کے اندر فجور و تقویٰ(بدی اور پاکیزگی) کی حِس رکھی ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۱۳صفحہ ۴۷)

’’اللہ تعالیٰ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے وَنَفۡسٍ وَّمَا سَوّٰٮہَا۔ ہم نے تمہارے قویٰ میں اعلیٰ درجہ کی طاقت پیدا کی ہے اور ایسا مادہ ہم نے تمہارے اندر ودیعت(پیدا) کیا ہے کہ تم پُل صراط پر چلنے کی قابلیت رکھتے ہو۔پل صراط پر وہی شخص چل سکتا ہے جو دائیں طرف گرنے سے بھی بچتا ہے اور بائیں طرف گرنے سے بھی بچتا ہے اور پھر اپنے اندر یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ آگے کی طرف بڑھتا چلا جائے گویا انسان میں اللہ تعالیٰ نے ادھر ترقی کا مادہ پیدا کیا ہے اُدھر اُسے اپنا دایاں اور اپنا بایاں پہلو مضبوط بنانے کی طاقت عطا فرمائی ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۱۳صفحہ ۴۲)

اصلاح نفس کے ضمن میں انسان کی ان طبعی،اخلاقی اور روحانی حالتوں کا ذکر بھی ضروری ہے جن کو خدا کے پاک کلام نے تین سرچشمے قرار دیا ہے۔ اسلامی اصول کی فلاسفی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:نفسِ امّارہ پہلا سر چشمہ ہے جس میں یہ خاصیت ہے کہ وہ انسان کو بدی کی طرف جھکاتا ہے اور ناپسندیدہ بدراہوں پر چلاتا ہے۔

نفسِ لوّامہ دوسرا سرچشمہ ہے۔ یہ نفس کی وہ اخلاقی حالت ہے جب نفس اخلاق فاضلہ کو اپنے اندر جمع کرتا ہے اور سرکشی سے بیزار ہوتا ہے مگر پورے طور پر غالب نہیں آسکتا۔

نفس مطمئنہ تیسرا سرچشمہ ہے۔جس کو روحانی حالتوں کا مبداء کہنا چاہیے۔ یہ وہ مرتبہ ہے جس میں نفس تمام کمزوریوں سے نجات پا کر روحانی قوتوں سے بھر جاتا ہے۔(ماخوذ ازروحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۳۱۶تا ۳۱۸)

نفس کی اہمیت، اس کی قوت، خصوصیات اور اصلاح نفس کے تقاضوں کو بیان کرنے کے بعد اب سوال ہے کہ نفس کا تزکیہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اس کے حصول کے لیے خدا تعالیٰ کی کامل شریعت اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔اس کے بارے میں اسلامی اصول کی فلاسفی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’خدا کی سچی اور کامل شریعت کا فعل جو اس کی زندگی میں انسان کے دل پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کو وحشیانہ حالت سے انسان بناوے اور پھر انسان سے بااخلاق انسان بناوے اور پھر با اخلاق سے باخدا انسان بناوے۔‘‘(روحانی خزائن جلد۱۰ صفحہ۴۲۲تا۴۲۳)

اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی ۲۹؍ دسمبر ۱۹۰۴ء کی تقریر میں فرمایا:سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو بہت کم تر سمجھےاور انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے۔ پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبّر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اَور بھی ترقی ہو۔(ماخوذ از ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۲۱۳۔ایڈیشن۱۹۸۸ء)

بد تر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں

شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں

وہ بنیادی خواص جن کا حصول تزکیہ نفس کے لیے ضروری ہے ان میں ایمان، اعمالِ صالح، ترکِ شر(برائی کو چھوڑنا)، ایصالِ خیر(بھلائی کو حاصل کرنا)، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی شامل ہیں۔ترکِ شر اور ایصالِ خیر کی وضاحت کرتے ہوئےحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسلامی اصول کی فلاسفی میں فرماتے ہیں: ’’ترکِ شر کے مفہوم میں وہ اخلاق داخل ہیں جن کے ذریعہ انسان کوشش کرتا ہے کہ اپنی زبان یا اپنے ہاتھ یا اپنی آنکھ یا اپنے کسی اور عضو سے دوسرے کے مال و عزت یا جان کو نقصان نہ پہنچاوے۔اور ایصال ِخیر کے مفہوم میں وہ اخلاق داخل ہیں جن کے ذریعہ انسان کوشش کرتا ہے کہ اپنی زبان یا اپنے ہاتھ یا اپنے علم سے دوسرے کے مال یا عزت کو فائدہ پہنچا سکے۔‘‘(روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۳۳۹)

ان تمام اخلاق کو اختصار مگر جامع انداز میں بیان کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔مگر ہم احمدی اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیان فرمودہ دس شرائط بیعت انتہائی جامع انداز میں ان تمام پہلوؤں کو بیان کرتی ہیں۔کہنے کو تو یہ دس شرائط بیعت ہیں لیکن ان میں ایک احمدی ہونے کے ناطے جو ذمہ داریاں ہیں ان کی تعداد موٹے طور پر بھی لیں تو تیس سے زیادہ بنتی ہیں۔

ترک ِشر:شرک، جھوٹ، زنا، بد نظری،فسق و فجور،ظلم،خیانت، فساد، بغاوت اور غیر ضروری رسم و رواج سے بچنا، تکبر اور نخوت(غرور،گھمنڈ) سے پرہیز کرنا، اور نفسانی جوشوں سے مغلوب نہ ہونا۔

ایصال ِخیر :فروتنی، خاکساری، انکساری، اور عاجزی کو اختیار کرنا حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرنا۔

حقوق اللہ: پنج وقتہ نمازوں اور نماز تہجد کی ادائیگی،نبی کریم ﷺپر درود بھیجنا،استغفار کرنا،اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرنا، اس کی حمد کرنا،ہر حالت غم، خوشی، تنگی اور خوشحالی میں اس کے احسانوں کو یاد رکھنا،قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرنا۔

حقوق العباد: مخلوقِ خدا سے ہمدردی اور بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانا، خو ش خلقی سے پیش آنا،ان تمام احکامات کو بجا لانے کی نصائح کے علاوہ دسویں شرط بیعت میں حضرت مسیح موعودؑ یہ عہد لیتے ہیں کہ آپؑ سے ایک ایسا قریبی رشتہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہم نے قائم کرنا ہے جس میں اطاعت کا وہ مقام حاصل ہو جو نہ کسی رشتے میں پایا جاتا ہے نہ کسی خادمانہ حالت میں پایا جاتا ہے۔(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۶۴)

اس کا مفہوم بیان کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’ہمیں ان تمام باتوں کی اطاعت کرنی ہے جو آپؑ ہماری دینی، علمی، روحانی اور عملی تربیت کے لئے ہمیں فرما گئے ہیں یا آپ کے بعد خلافت احمدیہ کے ذریعہ سے جماعت کے افراد تک وہ پہنچتی ہیں جو شریعت کے قیام کے لیے ہیں۔ جو قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اسوۂ حسنہ کے مطابق ہیں کہ اس کے بغیر نہ ہی ہماری ترقی ہو سکتی ہے، نہ ہماری اِکائی قائم رہ سکتی ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ۲؍جنوری ۲۰۱۵ء)

یعنی سلسلہ احمدیت اور خلافت، جس کا وعدہ ہی ایمان اور اعمالِ صالح سے مشروط ہے، سے وابستہ رہ کر ہی ہم اپنے نفس کی اصلاح کر سکتے ہیں۔اس کے ساتھ اپنے اندر قوت ِارادی، قوتِ علمی،اور قوتِ عملی کا پیدا کرنا نفس کی اصلاح کے حصول کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔اصلاحِ عمل کے عنوان پر دیے جانے والے ایک خطبہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’اگر انسان میں قوت ارادی،صحیح اور پورا علم اور قوت ِعمل پیدا ہو جائے تو پھر عملی اصلاح کی راہ میں حائل برائیوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ اعمال کی کمزوری ہوتی ہی اُس وقت ہے جب قوتِ ارادی نہ ہو، یا یہ علم نہ ہو کہ اچھے اعمال کیا ہیں اور برے اعمال کیا ہیں ؟اور پھر قوت ِعمل ہے جو اتنی کمزور ہو کہ برائی کا مقابلہ نہ کر سکے۔ پس قوتِ ارادی کو مضبوط کرنا علمی کمزوری کو دُور کرنا اور عملی طاقت پیدا کرنا، یہ بڑا ضروری ہے۔ ‘‘ (خطبہ جمعہ ۱۷؍جنوری ۲۰۱۴ء)

عملی اصلاح کے ان پہلوؤں پر مزید زور دیتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :’’یاد رہنا چاہئے کہ ہمیں ختم ِنبوت اور وفات مسیحِ کے متعلق مسائل جاننے کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت مخالفین کے جواب دینے کے لئے ہے لیکن عمل اور عرفان کو بھی اپنی جماعت میں رائج کرنے کے لئے کوشش کی ضرورت ہے۔ پس جتنی توجہ ہم نے باہر کے محاذ پر دینی ہے، اتنی بلکہ اُس سے بڑھ کر اندرونی محاذ پر بھی ہمیں توجہ دینی چاہئے ہماری روحانی پاکیزگی اور ہماری عملی اصلاح انشاء اللہ تعالیٰ زیادہ بڑا انقلاب لانے کا باعث بنے گی، بہ نسبت اس تبلیغ کے۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۳۱؍جنوری ۲۰۱۴ء، الفضل انٹرنیشنل ۲۱؍ تا ۲۷؍فروری ۲۰۱۴ء صفحہ ۸)

اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیان فرمودہ شرائط بیعت سے دور ہو کر’’ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰٮہَا‘‘(اور نامراد ہوگیا جس نے اُسے مٹی میں گاڑ دیا) کی عملی تصویر بنیں بلکہ وہ ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان پر سچے دل سے عمل کرتے ہوئے’’قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰٮہَا‘‘ (یقیناً وہ کامیاب ہوگیا جس نے اُس (تقویٰ) کو پروان چڑھایا)کے حقیقی مصداق بن سکیں۔ اگر ایسا ہو گا تو پھر ہی ہم سورة الفجر میں بیان کیا گیا وہ نفسِ مطمئِّنہ بن سکیں گے جس کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے: اے نفسِ مطمئنہ! اپنے ربّ کی طرف لَوٹ جا، راضی رہتے ہوئے اور رضا پاتے ہوئے۔پس میرے بندوں میں داخل ہوجا۔ اور میری جنت میں داخل ہوجا۔

اپنی گزارشات کا اختتام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس بابرکت الفاظ پر کروں گی:’’خدا تعالیٰ کی عظمت کو دل میں رکھنا چاہیے اور اس سے ہمیشہ ڈرنا چاہیے اس کی گرفت خطرناک ہوتی ہے۔وہ چشم پوشی کرتا ہے اور درگزر فرماتا ہے لیکن جب کسی کو پکڑتا ہے تو پھر بہت سخت پکڑتا ہے یہاں تک کہ لَا يَخَافُ عُقْبٰہَا پھر وہ اس امر کی بھی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کے پچھلوں کا کیا حال ہوگا۔برخلاف اس کے جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور اس کی عظمت کو دل میں جگہ دیتے ہیں خدا تعالیٰ ان کو عزت دیتا اور خود ان کے لیے ایک سپر ہو جاتا ہے۔‘‘ (الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۱؍مورخہ ۱۷؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۳)

اللہ تعالیٰ ہمیں اصلاحِ نفس کے حصول کے عملی نمونے پیش کرتے ہوئے ایسے نافع الناس وجود بننے کی توفیق عطا فرمائے کہ ہماری آئندہ آنے والی نسلیں ان سے فیض پاتی رہیں۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button