قبولیتِ دعا (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۶؍دسمبر ۲۰۲۲ء)
دعا سے متعلق بہت لوگ سوال کرتے ہیں۔آج کل تو خاص طور پر خداتعالیٰ اور دعا کے متعلق سوال اٹھتے ہیں جبکہ باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت دہریت کے حامی بھرپور حملہ خداتعالیٰ کی ذات پر اور مذہب پر کر رہے ہیں۔
مختلف ذریعوں سے انسان کو خدا اور مذہب سے دُور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شیطان انسان سے ہمدردی کا لبادہ اوڑھ کر اسے دین اور خداتعالیٰ سے دُور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں ہمارے لوگوں پر بھی بعض جگہ اور بعض دفعہ یہ شیطانی خیالات اثر ڈال دیتے ہیں یا دنیاداروں اور مذہب کے خلاف چلنے والوں کی باتیں انہیں مذہب کے بارے میں اور خداتعالیٰ کے بارے میں عبادت کے بارے میں بے چینیاں پیدا کرنی شروع کر دیتی ہیں۔ شبہات دل میں پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں جو کم علم ہوتے ہیں۔ اگر کبھی کسی ابتلا سے گزرے یا ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تو کمزور ایمان والوں اور کم علم والوں کو فوراً یہ خیال آنے لگ جاتا ہے کہ یا تو مذہب غلط ہے جس پر ہم لوگ قائم ہیں اور اصل میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے یا خداتعالیٰ کی ذات ایسی نہیں کہ رحم کرتے ہوئے دعائیں سنے اور ہمیں اس ابتلا اور امتحان سے نکالے یا خداتعا لیٰ نے نعوذ باللہ ہم پر ظلم کیا ہے جو ہم اس حالت سے گزر رہے ہیں۔ باوجود دعاؤں کے ہماری پریشانیاں دُور نہیں ہو رہیں۔ غرض کہ اس قسم کے بہت سے سوال بعض ذہنوں میں اٹھتے ہیں خاص طور پر ان کے جن کی نظر صرف دنیاوی چیزوں پر رہتی ہے۔ بعض لوگ مجھے بھی لکھ دیتے ہیں یا اپنے حالات بتاتے ہوئے سوال پوچھ رہے ہوتے ہیں تو لگ رہا ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر وہ ایمان نہیں جو ہونا چاہیے اور جس ماحول میں وہ رہ رہے ہیں اس میں رہتے ہوئے ذرا سا بھی ابتلا ان پر آئے تو منفی سوچیں پیدا ہو جاتی ہیں یا شکوک سر اُبھارنے لگ جاتے ہیں حالانکہ چاہیے تو یہ کہ اپنی حالتوں پر غور کریں۔ دیکھیں کہ ہم کس حد تک اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کس حد تک ہم اپنی عبادتوں کو سنوار کر ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کس حد تک ہم نے اپنی دعاؤں کے معیار کو اونچا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان کی ہماری کیا حالت ہے؟ بہرحال آج میں دعا کے مضمون کوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں بیان کروں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات اور ارشادات میں اس بارے میں بہت کچھ ہمیں نظر آتا ہے، لٹریچر میں موجود ہے۔ بہرحال مَیں چند باتیں بیان کروں گا جن سے دعا کی حقیقت، اُس کے آداب، ہماری ذمہ داری، اس کی ضرورت اور اللہ تعالیٰ پر یقین کے بارے میں کچھ وضاحت ہوتی ہے بلکہ وضاحت یقینی طور پہ ہوتی ہے۔
اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ ہمیں اچھے حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور دعاؤں کی طرف توجہ رکھنی چاہیے تاکہ مشکلات میں بھی ہماری دعائیں سنی جائیں۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اللہ کا رحم ہے اس شخص پر جو امن کی حالت میں اسی طرح ڈرتا ہے جس طرح کسی مصیبت کے وارد ہونے پر ڈرتا ہے۔ جو اَمن کے وقت خداتعالیٰ کو نہیں بھلاتا خداتعالیٰ اسے مصیبت کے وقت نہیں بھلاتا اور جو امن کے زمانہ کو عیش میں بسر کرتا ہے اور مصیبت کے وقت دعائیں کرنے لگتا ہے تو اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔ جب عذابِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے تو توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ پس کیا ہی سعید وہ ہے جو عذابِ الٰہی کے نزول سے پیشتر دعا میں مصروف رہتا ہے، صدقات دیتا ہے اور امرِ الٰہی کی تعظیم اور خلق اللہ پر شفقت کرتا ہے۔ اپنے اعمال کو سنوار کر بجالاتا ہے۔ یہی سعادت کے نشان ہیں۔‘‘ فرمایا ’’درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح سعید اور شقی کی شناخت بھی آسان ہوتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۲۲۹-۲۳۰۔ ایڈیشن۱۹۸۴ء)
پس ایک حقیقی مومن کا یہ کام ہے کہ اپنے اچھے حالات میں خداتعالیٰ کے حق کو اور اُس کی مخلوق کے حق کو کبھی نہ بھولے اور اگر وہ یہ حق ادا کر رہا ہے تو پھر مشکلات کے دَور سے خداتعالیٰ اسے خود نکالتا ہے، اس کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ پس یہ بنیادی نکتہ ہے کہ ہمیں کبھی اپنی عبادتوں اور دعاؤں میں سست نہیں ہونا چاہیے۔دنیاوی مصروفیات ہمیں اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے سے محروم کرنے والی نہ ہوں۔
پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ خداتعالیٰ سے مانگتے وقت کیا حالت ہونی چاہیے اور اس کے کیا آداب ہیں اور یہ آداب خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس طرح سکھائے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں خداتعالیٰ سے مانگنے کے واسطے ادب کا ہونا ضروری ہے اور عقلمند جب کوئی شے بادشاہ سے طلب کرتے ہیں تو ہمیشہ ادب کو مدِنظر رکھتے ہیں۔ اسی لیے سورۂ فاتحہ میں خداتعالیٰ نے سکھایا ہے کہ کس طرح مانگا جاوے اور اس میں سکھایا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۔ یعنی سب تعریف خدا کو ہی ہے جو رب ہے سارے جہان کا۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف کرو۔ الرَّحْمٰن ہے یعنی بلا مانگے اور سوال کیے دینے والا ہے۔ پھر الرَّحِيْم ہےیعنی انسان کی سچی محنت پر ثمراتِ حسنہ مرتب کرنے والا ہے۔ ’’سچی محنت‘‘، یہ غور کرنے والا لفظ ہے۔ اللہ تعالیٰ رحیم ہے۔ سچی محنت پر پھل عطا فرماتا ہے اور سچی محنت کے معیار وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک جہاد کرنا پڑتا ہے۔ پھر فرمایا۔ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْن۔ جزا سزا اُسی کے ہاتھ میں ہے، چاہے رکھے چاہے مارے۔ اور جزا سزا آخرت کی بھی اور اِس دنیا کی بھی اُس کے ہاتھ میں ہے۔ صرف یہ نہیں کہ آخرت کی جزا سزا۔ اس دنیا میں بھی جو کام ہوتے ہیں ان کے فیصلے بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ فرمایا کہ جب اس قدر تعریف انسان کرتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ کتنا بڑا خدا ہے جو کہ ربّ ہے، رحمٰن ہے، رحیم ہے، اُسے غائب مانتا چلا آ رہا ہے اور اسے حاضر جان کر پکارتا ہے۔ یہ باتیں تو غیب کی ہیں۔ پھر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حاضر ہے اور حاضر جان کر کیا پکارتا ہے۔ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْن۔ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں یا ہم عبادت کرنا چاہتے ہیں اور تجھ سے ہی اس کے لیے مدد مانگتے ہیں۔ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْم۔یعنی ایسی راہ جو کہ بالکل سیدھی ہے، اس میں کسی قسم کی کجی نہیں ہے۔ ایک راہ اندھوں کی ہوتی ہے کہ محنتیں کر کر کے تھک جاتے ہیں اور نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا اور ایک وہ راہ کہ محنت کرنے سے اس پر نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ پھر آگے صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ۔ یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تُو نے انعام کیا اور وہ وہی صراطِ مستقیم ہے جس پر چلنے سے انعام مرتب ہوتے ہیں۔ پھر غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ۔ نہ اُن لوگوں کی جن پر تیرا غضب ہوا اور وَ لَا الضَّآلِّيْنَ۔ اور نہ ان کی جو دُور جا پڑے ہیں، گمراہ ہو گئے ہیں۔ فرمایا کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْم سے کُل دنیا اور دین کے کاموں کی راہ مراد ہے مثلاً ایک طبیب ہے جب کسی کا علاج کرتا ہے تو اُسے ایک صراطِ مستقیم ہاتھ نہ آوے، علاج نہیں کر سکتا۔اسی طرح تمام وکیلوں اور ہر پیشہ اور علم کی ایک صراطِ مستقیم ہے کہ جب وہ ہاتھ آ جاتی ہے تو پھر کام آسانی سے ہو جاتا ہے۔ اس لیے دنیاوی کاموں میں بھی صراطِ مستقیم کی تلاش ہونی چاہیے اور وہ اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو۔ آپؑ جس مجلس میں بیٹھے یہ بیان فرما رہے تھے وہاں ایک صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ انبیاء کو اس دعا کی کیا ضرورت تھی۔ یہ تو عام آدمیوں کے لیے دعا ہے۔انبیاء کو اس دعا کی کیا ضرورت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیوں کرتے تھے، وہ تو پیشتر سے ہی صراط مستقیم پر ہوتے ہیں؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ یہ دعا ترقیٔ مراتب اور درجات کے لیے کرتے ہیں بلکہ یہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْم توآخرت میں مومن بھی مانگیں گے کیونکہ جیسے اللہ تعالیٰ کی کوئی حد نہیں ہے اسی طرح اس کے درجات اور مراتب کی ترقی کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔(ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ۳۹۹-۴۰۰ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
پس یہ ہیں وہ آداب جن کو سامنے رکھ کر نماز پڑھی جائے، دعا کی جائے تو انسان ایک ایسی کیفیت میں سے گزرتا ہے جہاں اُسے خداتعالیٰ کا قرب اوراپنی حاجات بیان کرنے کا صحیح ادراک حاصل ہوتا ہے۔