کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

توفّی کے لفظ کو حضرت عیسیٰ کی وفات کے لئے استعمال کیا گیا

جب سے دنیا میں عرب کا جزیرہ آباد ہوا ہے اور زبان عربی جاری ہوئی ہے کسی قول قدیم یا جدید سے ثابت نہیں ہوتا کہ تَوَفِّی کا لفظ کبھی قبض جسم کی نسبت استعمال کیا گیا ہو بلکہ جہاں کہیں تَوَفِّی کے لفظ کو خدائے تعالیٰ کا فعل ٹھہرا کر انسان کی نسبت استعمال کیا گیا ہے وہ صرف وفات دینے اور قبض روح کے معنی پر آیا ہے نہ قبض جسم کے معنوں میں ۔کوئی کتاب لغت کی اس کے مخالف نہیں۔ کوئی مثل اور قول اہل زبان کا اس کے مغائر نہیں غرض ایک ذرہ احتمال مخالف کے گنجائش نہیں۔ اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہ صلعم سے یا اشعار وقصائد و نظم و نثر قدیم وجدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ تَوَفِّی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجر قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر بھی اطلاق پا گیا ہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جل شَانَہٗ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کی کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کرلوں گا۔

(ازالہ اوہام حصہ دوم،روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۶۰۳)

خدائے تعالیٰ قرآن شریف میں کسی ایسے لفظ کو استعمال کرتا جس کو اس نے مختلف معنوں میں استعمال کیا ہوتا تو کسی خائن کو خیانت کرنے کی گنجائش ہوتی۔سوخیانت پیشہ لوگوں کا خداتعالیٰ نے ایسا بندوبست کیا کہ توفّی کے لفظ کو جو حضرت عیسیٰ کی وفات کے لئے استعمال کیا گیا تھا پچیس جگہ پر ایک ہی معنی پر استعمال کیا اور اس کو ایک اصطلاحی لفظ بنا کر ہریک جگہ میں اس کے یہ معنے لئے ہیں کہ روح کو قبض کر لینا اور جسم کو بے کار چھوڑ دینا۔تا یہ لفظ اس بات پر دلالت کرے کہ روح ایک باقی رہنے والی چیز ہے جو بعد موت اور ایسا ہی حالت خواب میں بھی خدائے تعالیٰ کے قبضہ میں آجاتی ہے اور جسم پر فنا طاری ہوتی ہے مگر روح پر نہیں۔ اور چونکہ یہی معنی بالالتزام ہریک محل میں جہاں توفی کا لفظ آیا ہے لئے گئے اوران سے خروج نہیں کیاگیا اس لئے یہ معنے نصوص صریحہ بینہ ظاہرہ قرآن کریم میں سے ٹھہر گئے جن سے انحراف کرنا الحاد ہوگا کیونکہ یہ مسلّم ہے کہ النصوص یحمل علٰی ظواھرھا۔ پس قرآن کریم نے توفّی کے لفظ کو جو محل متنازعہ فیہ میں یعنی مسیح کی وفات کے متعلق ہے تئیس جگہ ایک ہی معنوں پراطلاق کر کے ایسا کھو ل دیا ہے کہ اب اس کے ان معنوں میں کہ روح قبض کرنا اور جسم کو چھوڑ دینا ہے ایک ذرہ شک و شبہ کی جگہ نہیں رہی بلکہ یہ اول درجہ کے بینات اور مطالب صریحہ ظاہرہ بدیہہ میں سے ہوگیا جس کو قطع اور یقین کا اعلیٰ مرتبہ حاصل ہے جس سے انکار کرنا بھی اوّل درجہ کی نادانی ہے۔

(ازالۂ اوہام حصہ دوم،روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۹۱،۳۹۰)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button