امیر حبیب اللہ فری میسن کیوں بنے؟
۳۰ستمبر۱۹۰۱ءکی رات حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا نے ایک رؤیا دیکھی۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ رؤیا سنی تو حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :’’اس پر میں نے توجہ کی تویہ القا ہوا کہ حقیقت میں ہزار سالہ موت کے بعد جو اَب احیا ہوا ہے اس میں انسانی ہاتھ کا دخل نہیں ہے۔جیسے خدا نے مسیح کو بن باپ پیدا کیا تھا یہاں مسیح موعود کو بلا واسطہ کسی استاد یا مرشد روحانی زندگی عطا فرمائی۔استاد بھی حقیقت میں باپ ہی ہوتا ہے بلکہ حقیقی باپ استاد ہی ہوتا ہے۔افلاطون کہتا ہے کہ باپ تو روح کو زمین پر لاتا ہے اور استاد زمین سے آسمان پر پہنچاتا ہے۔غرض تو جیسے مسیح بن باپ پیدا ہوا اور اس کی اس حیات میں کسی انسان کا دخل نہ تھا ویسے ہی یہاں بدوں کسی استاد یا مرشد کے خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور فیض سے روحانی زندگی عطا کی۔
پھر میں نے موت کے متعلق جب توجہ کی تو ذرا سی غنودگی کے بعد الہام ہوا۔
فری میسن مسلط نہیں کیے جائیں گے کہ اس کو ہلاک کریں۔فری میسن کے متعلق میرے دل میں گذرا کہ جن کے ارادے مخفی ہوں۔‘‘(الحکم جلد ۵ نمبر۳۷ مؤرخہ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۱ء صفحہ۷)
اس رات افغانستان میں کیا تبدیلی آئی؟
یہ الہام ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۱ءکی رات کو بارہ بجے کے قریب ہوا تھا۔اس الہام کے کچھ گھنٹوں کے بعد افغانستان میں ایک اہم تبدیلی رونما ہوئی۔ اس وقت افغانستان پر امیر عبدالرحمٰن کی حکومت تھی۔ یہ وہی فرمانروا تھے جن کے حکم پر حضرت مولوی عبد الرحمن صاحبؓ کو اس پاداش میں شہید کر دیا گیا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے حلقہ بگوش احمدیت کیوں ہو گئے ہیں؟ امیر عبد الرحمٰن کا انتقال یکم اکتوبر ۱۹۰۱ءکو ہوا تھا۔
امیر عبدالرحمٰن کی موت کے فوری بعد ہی امرا نے ان کے بڑے بیٹے امیر حبیب اللہ کو نیا فرمانروا تسلیم کر لیا۔ اس موقع پر فرینک مارٹن کابل میں موجود تھے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک طویل عرصے سے امیر عبد الرحمٰن کی صحت بگڑ رہی تھی۔ ان کے پانچ بیٹے تھے اور ان میں سے حبیب اللہ عمر میں سب سے بڑے تھے۔ رات کے وقت جب یہ نظر آنے لگا کہ اب امیر جانبر نہیں ہو سکے گا تو حبیب اللہ اور ان کے سگے بھائی نصراللہ اورکئی سردار جمع ہوئے اور یہ فیصلہ کیا کہ امیر عبد الرحمٰن کے انتقال کے فوری بعد ہی ارک قلعہ پر قبضہ کر لیا جائے کیونکہ خزانہ اور اسلحہ اس قلعہ میں موجود تھا۔ اس وقت یہ خدشہ تھا کہ امیر عبد الرحمٰن کی موت کے بعد فوج بغاوت کر سکتی ہے یا ہو سکتا ہے کہ ملکہ سلطانہ فوج کو ساتھ ملا کر اپنے بیٹے محمدعمر کو امیر بنانے کی کوشش کرے۔ ان سرداروں کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ امیر عبد الرحمٰن کی موت کے بعد حبیب اللہ کے امیر بننے کا اعلان کر دیا جائے گا۔ جب امیر عبدالرحمٰن کا انتقال ہوا تو اسی وقت ایک سردار نے امیر عبدالرحمٰن کی ٹوپی حبیب اللہ کے سرپر رکھ کر ان کے امیر ہونے کا اعلان کیا اور وہاں پر موجود سرداروں نے ان کی اطاعت کا عہد کیا۔اور وہاں پر محمد عمر کولا کر اس سے بھی اطاعت کا عہد لیا گیا۔ امیر عبدالرحمٰن کی موت کا اعلان کرنے سے پہلے امیر حبیب اللہ کے آدمیوں نے ارک قلعہ پر قبضہ کر لیا اور پھر امیر عبد الرحمٰن کے انتقال اور امیر حبیب اللہ کے امیر بننے کا اعلان کیا گیا۔ ۳؍اکتوبر ۱۹۰۱ء کو باقاعدہ امیر حبیب اللہ کے تخت نشین ہونے کی رسم بھی ادا کی گئی۔
(Under the Absolute Amir, by Frank Martin, published by Harper and Brothers 1907. P 125 -127)
جس روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فری میسن کے بارے میں الہام ہوا، اسی روز امیر حبیب اللہ نے افغانستان کی حکومت سنبھالی تھی۔ اور یہ صاحب افغانستان کے وہ امیر تھے جنہوں نے خود درخواست کر کے فری میسن تنظیم میں شمولیت اختیار کی اور یہی وہ حکمران تھے جن کے حکم پر حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ کوشہید کیا گیا تھا۔ہم ان تاریخی واقعات کی تفصیلات کا جائزہ لیں گے۔لیکن اس سے قبل مختصر طور پر یہ جاننا ضروری ہے کہ فری میسن تنظیم کیا ہے؟
فری میسن تنظیم کیا ہے؟
تاریخ میں جتنی مسلسل توجہ اس تنظیم نے حاصل کی ہے، شاید ہی اتنی توجہ کسی اَور تنظیم کے حصہ میں آئی ہو۔ گذشتہ تین سو سال میں اس کے بارے میں کئی کتابیں لکھی گئیں۔ کتنی ہی قیاس آرائیوں اور افواہوں نے جنم لیا۔ اور یہ قیاس آرائیاں اتنی مختلف ہیں کہ سچ اور جھوٹ کا فرق مشکل ہو گیا ہے۔اس تنظیم کے اغراض ومقاصد کیا ہیں؟ صحیح اور مکمل طور پر یہ جاننا اس لیے مشکل ہے کیونکہ اس تنظیم میں داخل ہوتے ہوئے رازداری کا حلف لیا جاتا ہے۔یعنی جو کچھ اس کے اجلاسوں میں ہو گا وہ کسی پر ظاہر نہیں کیا جائے گا۔ اس تنظیم کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم ایک عالمی بھائی چارہ پیدا کرنے اور بہتر اور ہمدرد انسان پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں داخل ہونے والوں کو درجہ بدرجہ بہت سے مدارج پر ترقی دی جاتی ہے۔لیکن ان سب کارروائیوں کو باہر کی دنیا سے پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔
اس تنظیم میں کوئی دہریہ داخل نہیں ہو سکتا لیکن باقی مذاہب سے وابستہ لوگ اس تنظیم کے رکن بنتے رہے ہیں۔مگر تاریخی طور پر اس تنظیم پر باقی مذاہب کے مقابلہ پر مسیحی مذہب کا اثر بہت زیادہ رہا ہے۔
۱۷۲۳ء میں لندن سے اس تنظیم کا ابتدائی آئین شائع کیا گیا تھا۔ اسی صدی یعنی اٹھارھویں صدی کی ابتدا سے اس تنظیم نے اپنی موجودہ شکل میں منظم ہونا شروع کیا تھا اور برطانیہ سے باہر بھی اس تنظیم کی مختلف شاخیں قائم کرنے کا آغاز ہو رہا تھا۔اس آئین سے ان کے بنیادی نظریات کا کچھ اندازہ بھی ہوتا ہے۔ ان کی تاریخ کو دو بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا حصہOperative Masonryکہلاتا ہے۔ اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ تاریخی طور پر صدیوں قبل عمارتیں تعمیر کرنے والے انجینئروں اور کاریگروں نے بعض مقامات پر جمع ہونا شروع کیا اور انہی اجتماعات میں وہ اپنے فنون کے رازوں میں ایک دوسرے کو شریک کرتے تھے۔ پھر یہ لوگ زیادہ منظم اور با اثر ہوئے تو انہوں نے بااثر لوگوں کو اپنا سرپرست بنانا شروع کیا اور اس طرح ایسے بہت سے لوگ ان میں شامل ہو گئے جو کہ اس پیشہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ اور رفتہ رفتہ ان کے اپنے نظریات پیدا ہونے شروع ہوئے۔ آخر میں تعمیرات کے انجینئر تو ماضی کا قصہ بن گئے اور فری میسن تنظیم کا دوسرا دَور شروع ہوا جسے Speculative Masonryکہتے ہیں۔اس دور میں اب ان کی دیگر سرگرمیاں شروع ہو گئیں۔ جن کی نوعیت کے بارے میں حتمی طور پر سچ معلوم کرنا ممکن نہیں ہے۔لیکن اس تنظیم میں علامتی رسومات اور تصویری علامات کی ایک خاص اہمیت ہے۔
فری میسن کا آئین
جب اٹھارھویں صدی میں ان کا آئین شائع ہوا تو اس کے پہلے حصہ میں کچھ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک کی تاریخ بھی شامل تھی۔اس میں خدا کے لیے Grand Architect of the Universe(یعنی کائنات کا عظیم آرکیٹکٹ)کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اور اب تک فری میسن خدا تعالیٰ کے لیے یہی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔اس میں حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق یہی بیان کیا گیا ہے کہ ان کے دل پر خدا تعالیٰ نے سائنس اور جیومیٹری کے اصول نقش کر دیے تھے۔اور اس کے بعد بھی جس نبی کا ذکر ہوا ہے اس کا ذکر بطور آرکیٹیکٹ یا تعمیرات اور سائنس کے ماہر اور سرپرست کے طور پر ہوا ہے۔ اسی طرح مصر اور یونان اور روم کی تہذیبوں کے لیے تعریفی کلمات استعمال کیےگئے ہیں کیونکہ انہوں نے تعمیرات کی سائنس کو ترقی دی تھی۔اور اسی لیے سب سے زیادہ نمایاں ذکر حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہوا ہے کہ انہوں نے یروشلم میں ایک معبد تعمیر کرایا تھا۔اس کے علاوہ فری میسن کی تحریروں میں نائٹ ٹیمپلر ز(Knight Templars)کا ذکر بھی بہت اہمیت سے کیا جاتا ہے اوروہ انہیں اپنی تنظیم کا پیشرو بیان کرتے ہیں۔ نائٹ ٹیمپلرز یورپی مسیحی جنگجو ئوں کی وہ تنظیم تھی جس کا قیام ۱۱۱۸ء میں ہوا اور بظاہر اس کا مقصد یہ بیان کیا گیا تھا کہ یہ فلسطین کی مقدس زمین پر مسیحی زائرین کی حفاظت کے لیے بنی تھی لیکن اس کے بعد اس تنظیم نے بہت وسعت اختیار کی۔ صلیبی جنگوں میں کردار ادا کیا۔ لیکن پھر سلطان صلاح الدین سے شکست کھانے کے بعد یہ یورپ تک محدود ہو گئے لیکن ان کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ بڑھ چکا تھا کہ آخر ۱۳۱۲ء میں پوپ اور فرانس کے بادشاہ نے مل کر ان پر حملہ کر کے ان کا خاتمہ کردیا۔
اس دَور میں جب اس تنظیم کا Operative Masonry کا دور شروع ہوا تو پھر اس تنظیم کے مقاصد انجینئرنگ اور جیومیٹری سے بالکل مختلف رخ اختیار کر گئے۔ان کے اجلاسات میں مختلف خفیہ رسومات ادا کی جاتیں جن کو باہر کی دنیا سے پوشیدہ رکھا جاتا۔ان کا دعویٰ یہی ہے کہ ہمارے اجلاسات میں سیاسی اور مذہبی تنازعات کو چھیڑنے کی ممانعت ہوتی ہے اور ہم اپنے خفیہ طریقوں سےممبران میں ذہانت اور دانائی کو ترقی دیتے ہیں اور ان میں ایک عالمی بھائی چارے کو فروغ دیتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں یہ تنظیم اس لیے بھی بہت اہمیت اختیار کر چکی تھی کہ اسے برطانیہ کے شاہی خاندان کی سرپرستی حاصل تھی۔ہندوستان کے فری میسن یونائیٹڈ گرینڈ لاج آف انگلینڈ کے ماتحت تھے۔ اور ملکہ وکٹوریہ کے عہد میں ان کے ولی عہد پرنس آف ویلز اس گرینڈ لاج کے سربراہ یعنی گرینڈ ماسٹر تھے اور جب ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ہوا اور ولی عہد ایڈورڈ ہفتم بن کر تخت نشین ہوئے تو ان کے چھوٹے بھائی پرنس آرتھر ڈیوک آف کوناٹ (Duke of Connaught) یونائیٹڈ گرینڈ لاج آف انگلینڈ کے گرینڈ ماسٹر بن گئے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ سے قبل بھی یہ تنظیم ہندوستان میں بھرپور طور پر سرگرم تھی۔اور مختلف صوبوں میں اس کے مراکز یعنی لاجز قائم تھیں۔ ریکارڈ کے مطابق ۱۸۷۰ء میں صرف بنگال میں ۲۰ لاجز قائم تھیں اور ۱۸۶۴ء میں اس تنظیم میں پنجاب کو ایک ڈسٹرکٹ کا درجہ دے دیا گیا تھا یعنی اب پنجاب میں ایک مرکز پنجاب کی لاجز کا انتظام چلاتا تھا۔(The Freemason August 13, 1881 p 365)
امیر حبیب اللہ فری میسن کس طرح بنے؟
ہم جانتے ہیں کہ اکتوبر ۱۹۰۱ء میں امیر حبیب اللہ نے اقتدار سنبھالا اور ۱۹۰۳ء میں ان کے حکم پر حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ کو بےدردی سے شہید کر دیا گیا۔ ان حقائق کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف لطیف تذکرۃ الشہادتین، تاریخ احمدیت جلد دوم اور فرینک مارٹن کی کتاب Under the Absolute Amir میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔اس مضمون میں یہ سب تفصیلات بیان نہیں کی جائیں گی۔
اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ امیر حبیب اللہ نے فری میسن تنظیم میں کس طرح شمولیت اختیار کی؟ یہ بات اس لیے بھی حیران کن ہے کیونکہ انہوں نے افغانستان کے حکمران کا منصب سنبھالنے سے قبل کبھی اپنے ملک سے باہر کا سفر نہیں کیا تھا۔وائسرائے لارڈ کرزن نے پہلے انہیں ہندوستان کے دورے کی دعوت دی لیکن اس وقت وہ ہندوستان کے وائسرائے کے رویہ سے ناراض تھے اور برطانوی حکومت افغانستان کے امیر کو جو سالانہ مالی مدد دیتی تھی وہ بھی امیر عبد الرحمٰن کی موت کے بعد رُکی ہوئی تھی۔اس لیے امیر حبیب اللہ نے ہندوستان کے دورے کی دعوت قبول نہیں کی۔اس کے بعد جب لارڈ منٹو ہندوستان کے وائسرائے بنے تو امیر حبیب اللہ کی سالانہ مدد بحال کر دی گئی اور ۱۹۰۶ء میں انہیں ہندوستان کے دورے کی دعوت دی گئی جو انہوں نے قبول کر لی اور امیر حبیب اللہ اس دورے کے لیے جنوری ۱۹۰۷ء میں ہندوستان میں داخل ہوئے۔
یہ اتفاق تھا یا اور کوئی وجہ تھی کہ ان کے استقبال کرنے اور ان کے دورے کے انتظامات کرنے کے لیے ہنری میکموہن (Henry McMahon)کی ذمہ داری لگائی گئی جو بلوچستان کے چیف کمشنر تھے اور اس کے علاوہ فری میسن کے سرگرم رکن بھی تھے۔ میکموہن نے امیر حبیب اللہ کے فری میسن بننے پر ایک مختصر کتاب بھی لکھی ہے۔ یہ کتاب اب تک لندن کی گرینڈ لاج کی لائبریری میں محفوظ ہےاور راقم الحروف وہیں سے اس کی کاپی حاصل کر کے یہ حقائق درج کر رہا ہے۔
میکموہن لکھتے ہیں کہ ہندوستان پہنچنے کے چند روز کے بعد امیر حبیب اللہ نے یہ موضوع چھیڑ دیا کہ وہ فری میسن تنظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے اس خواہش کی حوصلہ افزائی نہیں کی لیکن امیر کا اصرار بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ ۲۲؍جنوری کو مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ اس معاملہ میں سنجیدہ ہیں۔لیکن اس کے ساتھ امیر حبیب اللہ کی یہ خواہش تھی کہ اس بات کو خفیہ رکھا جائے۔ میکموہن اس خواہش کے بارے میں لکھتے ہیں:
“He begged that if it could be done, it should be without the knowledge of any of his staff and people.”
ترجمہ: انہوں نے التجا کی کہ اگر ایسا کرنا ممکن ہو تو ان کے سٹاف یا ان کے لوگوں کو اس کی خبر نہیں ہونی چاہیے۔
میکموہن کو یہ چیز الجھن میں مبتلا کر رہی تھی کہ امیر حبیب اللہ زندگی میں کبھی افغانستان سے باہر نہیں نکلے تھے اور افغانستان میں رہتے ہوئے انہیں فری میسن تنظیم میں اتنی دلچسپی کیسے پیدا ہو گئی؟ لیکن اس بارے میں امیر نے صرف اتنا ہی بتایا کہ وہ کچھ اچھے لوگوں کو جانتے ہیں جو کہ فری میسن تھے۔اس لیے وہ اس تنظیم میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔
وہ فریمیسنری سے اتنا ضرور واقف تھے کہ انہوں نے دہلی میں ہمایوں کے مقبرے اور فتح پور سیکری میں اکبر کے مقبرے کی عمارات پر فری میسنری کی نشانیاں پہچان لی تھیں۔ہندوستان کی وہ واحد لاج جو اس غرض کے لیے مناسب معلوم ہو رہی تھی وہ کلکتہ کی کونوکورڈیا (CONCORDIA NO 3102)تھی۔
فری میسن اپنے میں شامل ہونے والوں کو درجہ بدرجہ ترقی دیتے ہیں۔ اور اس سفر میں پہلے تین مدارج بہت اہم ہوتے ہیں۔چونکہ امیر کے اس دورے کے دن محدود تھے، اس لیے یہی مناسب خیال کیا گیا کہ ایک ہی تقریب میں امیر کو یہ تینوں مدارج عطا کر دیے جائیں۔ لیکن ایسا صرف اعلیٰ ترین عہدیدار کی اجازت سے ہی ہو سکتا تھا۔اس کے لیے میکموہن نے پنجاب کی لاج کے ڈسٹرکٹ گرینڈ ماسٹر لارڈ کیچنر سے رابطہ کیا۔ لارڈ کیچنر ہندوستان کی افواج کے کمانڈر ان چیف تھے۔اس وقت یونائیٹڈ گرینڈ لاج آف انگلینڈ کے گرینڈ ماسٹر یعنی ڈیوک آف کوناٹ سیلون کے دورے پر تھے۔ لارڈ کیچنر نے ان سے رابطہ کیا اور انہوں نے اس بات کی اجازت دی کہ امیر حبیب اللہ کو ایک ساتھ تیسرے درجہ تک ترقی دے دی جائے۔
چنانچہ جب امیر حبیب اللہ کلکتہ پہنچے تو رازداری کے ساتھ انہیں فری میسن بنانے کی رسومات ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔کلکتہ کی لاج کے ماسٹر ڈینٹتھ (A.W. Dentith) نے انتظامات کیے۔اس غرض کے لیے یہ اہتمام کیا گیا کہ ۲؍جنوری کو لارڈ کیچنر نے امیر کو عشائیے پر مدعو کیا جس میں بہت کم لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا۔عموماََ اس دورے میں امیر کے ساتھ افغان وفد کے اراکین ہوتے تھے لیکن امیر نے اپنے عملے کو کہا کہ وہ اس دعوت میں اکیلے ہی جائیں گے کیونکہ کیچنر ان کے ذاتی دوست ہیں۔ اس عشائیے کے فوری بعد امیر حبیب اللہ کو خفیہ طور پر فری میسن کی لاج کی عمارت میں پہنچایا گیا۔ رات پونے دس بجےتک یہ تقریب شروع ہوئی۔ اور لارڈ کیچنر نے ممبر بنانے کے لیے امیر حبیب اللہ کا نام پیش کیا اور سر ڈبلیو برکٹ (W. Burkitt)جو کہ یو پی کے چیف جسٹس اور بنگال کی فری میسن لاج کے گرینڈ ماسٹر تھے نے تائید کی اور متفقہ طور پر امیر حبیب اللہ کے نام کی منظوری دی گئی اور رسومات کی ادائیگی شروع ہوئی۔ امیر نے قرآن کریم کے نسخہ پر حلف اٹھایا اور یہ نسخہ اب تک یونائیٹڈ گرینڈ لاج آف انگلینڈ میں محفوظ ہے۔ تقریب کے اختتام پر لارڈ کیچنر نے ایک طویل تقریر کی۔ آدھی رات کو یہ تقریب ختم ہوئی۔جب امیرحبیب اللہ ہندوستان سے رخصت ہو کر وطن جا رہے تھے تو ان کے آخری الفاظ یہ تھے کہ وہ مرتے دم تک انگلستان کے دوست رہیں گے۔
فری میسن بننے کا نتیجہ کیا نکلا؟
اس دورے کےدوران تو یہ خبر خفیہ رہی لیکن جب امیر حبیب اللہ افغانستان پہنچ چکے تھے تو نامعلوم ذرائع کی طرف سے یہ خبر افغانستان میں مشہور ہو گئی اور خاص طور پر مولویوں نے اس کی مخالفت شروع کی۔ اس پر امیر نے نمایاں مولویوں کو دربار میں طلب کیا اور بھرے دربار میں کہا کہ وہ ملک کی بھلائی کے لیے اس تنظیم میں شامل ہوئے ہیں اور اگر اَب کسی نے اس کی مخالفت کی تو اسے اپنے سر سے اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ اس پر افغانستان میں مخالفت کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔
میکموہن لکھتے ہیں کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران امیر پر بہت دبائو تھا کہ وہ سلطنتِ عثمانیہ کے اتحادی کے طور پر برطانیہ کے خلاف جنگ میں شامل ہوں لیکن انہوں نے اس دبائو کی کوئی پروا نہیں کی۔ اگر وہ ہندوستان پر حملہ کر دیتے تو ہندوستان کی بہت سی افواج کو محاذِ جنگ سے واپس وطن بھجوانا پڑتا اور اس سے وہ خلا پیدا ہوتا جس کے نتیجے میں جنگ کا نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا۔
(تفصیلات کے لیے دیکھیں An Account of the entry of H.M. Habibullah Khan into Freemasonry by Sir A. McMahon)
امیر کو فری میسن بننے کا خیال کیسے آیا؟
اب ہم اس پہلو کا تجزیہ کرتے ہیں کہ امیر حبیب اللہ کو فری میسن تنظیم سے اتنی دلچسپی کس طرح پیدا ہوئی؟ ہندوستان کے اس دورے سے قبل وہ کبھی افغانستان سے باہر نہیں نکلے تھے۔ لیکن جب افغانستان کے فرمانروا کی حیثیت سے انہوں نے برطانوی ہندوستان میں قدم رکھا تو فوری طور پر یہ اصرار شروع کر دیا کہ انہیں فری میسن تنظیم میں شامل کیا جائے۔ برطانیہ کی سول سروس اور افواج کے بہت سے ملازمین فری میسن تنظیم میں شامل ہوتے تھے۔ اور جب وہ مختلف ممالک میں اپنے فرائض ادا کرتے تو بسا اوقات وہاں اپنی لاجز قائم کرتے تھے۔ اسی طرح افغانستان میں بھی سلطنتِ برطانیہ کے ایسے مختلف ملازم مقرر ہوتے رہے تھے جو کہ فری میسن تھے اور انہوں نے وہاں اپنی لاجز قائم کی تھیں۔ اس تنظیم کے پرانے جرائد میں ایسے ممبران کا ذکر ملتا ہے جو کہ افغانستان میں کام کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ۱۸۴۰ء میں ایک فری میسن جریدے میں ایک Past Master of Indiaکی طرف سے ایک خط شائع ہوا تھا کہ انہیں ایک ممبر نے خط بھیجا ہے کہ انہوں نے غزنی کی ایک عمارت پر فری میسن تنظیم کے نشانوں میں سے ایک نشان دیکھا ہے۔ اور خط لکھنے والے عہدیدار نے یہ بھی لکھا کہ جب وہ خود افغانستان میں فوجی مہم پر تھے تو انہوں نے محسوس کیا تھا کہ افغانستان کے لوگ لباس اور رواج اور عادات میں بنی اسرائیل سے گہری مماثلت رکھتے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ قندھار کے لوگ اپنے آپ کو بنی اسرائیل سے بیان بھی کرتے تھے۔
(The Freemasons’ Quarterly Review, Dec. 31, 1840: Page 55)
اسی طرح ۱۸۸۰ء میں اس تنظیم کے ایک جریدے میں یہ خبر شائع ہوئی کہ کابل میں فری میسن تنظیم کی ایک نئی لاج قائم کی گئی ہے۔اس لاج کا نمبر ۱۸۶۶ تھا۔ اس لاج کا نام Seaforth Lodge تھا۔ یہ حقیقت قابلِ ذکر ہے کہ اس لاج کے قیام سے صرف دوماہ قبل امیر عبد الرحمٰن نے اقتدار کی طویل رسہ کشی اور خون ریزی کے بعد کابل آکر تخت پر قبضہ کیا تھا اور ۲۲؍جولائی ۱۸۸۰ء کو کابل میں ایک دربار میں ان کے امیر ہونے کا اعلان ہوا اور فوری طور پر کابل میں ایک فری میسن لاج بھی قائم ہو گئی۔حتمی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ اس لاج میں صرف انگریز شامل تھے یا کسی افغان کو بھی شامل کیا گیا تھا۔کیا یہ اتفاق تھا کہ امیر عبد الرحمٰن کے کابل پر قابض ہوتے ہی وہاں پر فری میسن نے اپنی لاج قائم کر لی۔ یہ فیصلہ پڑھنے والے خود کر سکتے ہیں۔(The Freemason, 28 August 1880 p1)لیکن ان کی سرگرمیاں زیادہ تر ان برطانوی شہریوں تک محدود ہوتی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان کے بر سرِ اقتدار طبقہ تک فری میسن تنظیم کا اثر کس طرح پہنچا؟ آج سے دو سو سال قبل فری میسن تنظیم کا جو بھی ریکارڈ اور ان کے جو جرائد میسر ہیں، اگر ان کے ریکارڈ کا مطالعہ کیا جائے تو اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ امیر حبیب اللہ سے قبل ان کے والد امیر عبد الرحمٰن افغانستان کے حکمران تھے۔ اور یہی وہ حکمران تھے جن کے حکم پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے صحابی حضرت مولوی عبدالرحمٰنؓ کو شہید کیا گیا تھا۔اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تذکرۃالشہادتین میں تحریر فرماتے ہیں:’’مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب مرحوم کی شہادت سے تخمیناََ دو برس پہلے ان کے ایما اور ہدایت سے میاں عبدالرحمٰن شاگرد رشید ان کے قادیان میں شاید دو یا تین دفعہ آئے اور ہر یک مرتبہ کئی کئی مہینہ تک رہے اور متواتر صحبت اور تعلیم اور دلائل سننے سے ان کا ایمان شہداء کا رنگ پکڑ گیا اور آخری دفعہ جب کابل واپس گئے تو وہ میری تعلیم سے پورا حصہ لے چکے تھے اور اتفاقاََ ان کی حاضری کے ایام میں بعض کتابیں میری طرف سے جہاد کی ممانعت میں چھپی تھیں جن سے ان کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ سلسلہ جہاد کا مخالف ہے۔ پھر ایسا اتفاق ہوا کہ وہ جب مجھ سے رخصت ہو کر پشاور میں پہنچے تو اتفاقاََ خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر سے جو پشاور میں تھے اور میرے مرید ہیں ملاقات ہوئی۔ اورانہی دنوں میں خواجہ کمال الدین صاحب نے ایک رسالہ جہاد کی ممانعت میں شائع کیا تھا۔اس سے ان کو بھی اطلاع ہوئی۔ اور وہ مضمون ایسا ان کے دل میں بیٹھ گیا کہ کابل میں جاکر جا بجا انہوں نے یہ ذکر شروع کیا کہ انگریزوں سے جہاد کرنا درست نہیں کیونکہ وہ ایک کثیر گروہ مسلمانوں کے حامی ہیں اور کئی کروڑ مسلمان امن و عافیت سے ان کے زیر سایہ زندگی بسر کرتے ہیں۔تب یہ خبر رفتہ رفتہ امیر عبد الرحمٰن کو پہنچ گئی۔اور یہ بھی بعض شریر پنجابیوں نے جو اس کے ساتھ ملازمت کا تعلق رکھتے ہیں۔اس پر ظاہر کیا کہ یہ ایک پنجابی شخص کا مرید ہے جو اپنے تئیں مسیح موعود ظاہر کرتا ہے۔ اور اس کی یہ بھی تعلیم ہے کہ انگریزوں سے جہاد درست نہیں بلکہ اس زمانہ میں قطعاََ جہاد کا مخالف ہے۔تب امیر یہ بات سن کر بہت برافروختہ ہو گیا اور اس کو قید کرنے کا حکم دیا تا مزید تحقیقات سے کچھ زیادہ حال معلوم ہو۔آخر یہ بات بپایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ ضرور یہ شخص مسیح قادیانی کا مرید اور مسئلہ جہاد کا مخالف ہے۔تب اس مظلوم کی گردن میں کپڑا ڈال کر اور دم بند کر کے شہید کیا گیا۔کہتے ہیں کہ اس کی شہادت کے وقت بعض آسمانی نشان ظاہر ہوئے۔‘‘(روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۴۷و ۴۸)
میر منشی فری میسن بنتے ہیں
اب اس سوال کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح افغانستان کے با اثر اور صاحبِ اقتدار طبقہ تک فری میسن تنظیم کا اثر پہنچا اور کس طرح وہ اس کے سحر میں اس طرح مبتلا ہوئے کہ افغانستان کے مطلق العنان امیر خود درخواستیں کر کے اس خفیہ تنظیم میں شامل ہوئے۔ اور جب مولویوں نے اس پر اعتراض کیا تو انہوں نے انہیں بلا کر یہ دھمکی بھی دے دی کہ اگر انہوں نے اب اس پر اعتراض کیا تو ان کے سر قلم کر دیے جائیں گے۔امیرعبد الرحمٰن کے ایک اہم ملازم سلطان محمد خان صاحب تھے جو کہ اس وقت میر منشی کہلاتے تھے۔جب ۱۹۰۰ء میں انگلستان میں انگریزی میں امیر عبد الرحمٰن کی خود نوشت سوانح حیات شائع ہوئی تو اس کا انگریزی مسودہ سلطان محمد خان صاحب نے ہی تیار کر کے شائع کرنے کے لیے دیا تھا۔ انہوں نے انیسویں صدی کے آخری سالوں میں کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی اور بار ایٹ لاء کی ڈگری بھی لی تھی۔
یہ صاحب انگلستان میں فری میسن تنظیم کے رکن بنے تھے۔ فری میسن تنظیم کا مقامی مرکز فری میسن کی لاج کہلاتا ہے۔ہر نیا رکن کسی نہ کسی لاج کا رکن بنتا ہے اور انہیں رچرڈ ایو لاج (Richard Eve Lodge)کا رکن بنایا گیا تھا۔ اس لاج کا قیام اکتوبر ۱۸۹۹ء میں عمل میں آیا تھا اور رچرڈ ایو ہی اس کے پہلے ماسٹر مقرر ہوئے تھے۔اس لیے یہ واضح ہے کہ سلطان محمد خان اس لاج کے ابتدائی اراکین میں سے تھے کیونکہ ۱۹۰۰ءکے جرائد میں ان کے فری میسن ہونے کا واضح ذکر ملتا ہے۔لندن میں اس لاج کے قیام کا مقصد ہی یہ تھا کہ مشرقی لوگوں کو اس لاج کے ذریعہ فری میسن بنایا جائے۔ اس کے ایک ممبر کپورتھلہ ریاست کے پرنس ہرنام سنگھ بھی تھے جنہوں نے مسیحی مذہب اختیار کر لیا تھا۔سلطان محمد خان صاحب نے اس تنظیم کے ممبر کی حیثیت سے بہت سی دوسری لاجز کی تقریبات میں شرکت کر کے تقاریر کیں۔ مثال کے طور پر اپریل ۱۹۰۰ء میں انہوں نے کیمبرج کی گرینڈ پرنسپلز لاج کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں سمیت تمام مذاہب سے وابستہ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف ان کے مذہب کے پیروکار جنت میں جائیں گے جبکہ فری میسن وہ تنظیم ہے جس نے تمام لوگوں کو اپنے دامن میں لیا ہوا ہے۔ اور دنیا میں سلطنتِ برطانیہ ہی وہ سلطنت ہے جس کے سائے تلے تمام مذاہب کے پیروکاروں سے یکساں اچھا سلوک کیا جاتا ہے۔ انہوں نے حاضرین کو یاد دلایا کہ افغانستان کے موجودہ حکمران امیر عبد الرحمٰن روسیوں کی قید میں تھے اور برطانیہ نے انہیں اس قید سے نجات دلا کر تخت پر بٹھایا۔اسی طرح انہوں نے مئی ۱۹۰۰ء میں سائنٹیفک لاج کی ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے یہ عزم ظاہر کیا کہ وہ افغانستان جا کر وہاں فری میسن تنظیم کا آغاز کریں گے۔اس دور میں فری میسن جرائد سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطان محمد خان صاحب ۷؍جون۱۹۰۰ء کو برطانیہ سے افغانستان کے لیے روانہ ہوئے تھے کیونکہ انہوں نے ایک تقریر میں اس بات کا ذکر کیا تھا۔برطانیہ سے رخصت ہونے سے قبل انہوں نے ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے ولی عہد حبیب اللہ اپنے والدامیر عبد الرحمٰن سے بھی بڑھ کر برطانیہ کے دوست ثابت ہوں گے۔ حبیب اللہ ان کے شاگرد ہیں اور وہ برطانیہ کا دورہ کرنے کے خواہش مند ہیں اور اگر وہ یہاں آئیں تو یہ ممکن ہوگا کہ برطانیہ کے ولی عہد پرنس آف ویلز خود انہیں فری میسن تنظیم میں شامل کریں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۰۰ء میں ہی فری میسن جرائد یہ خبریں شائع کرنا شروع ہو گئے تھے کہ حبیب اللہ فری میسن تنظیم میں شامل ہوں گے۔اور یہ اظہار ایک سے زائد تقریبات میں کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ فری میسن تنظیم کی بدولت برطانیہ اور افغانستان ایک دوسرے کے زیادہ قریب آئیں گے۔
(The Freemason Chronicle 14 April1900,p1) (The Freemason April 7, 1900) (The Freemason May 24 , 1900) (The Freemason Chronicle 19 May 1900 p 231) (The Freemason 19 May 1900 p 300) (The Freemason 26 May 1900 p 319) (The Freemason 2nd June 1900 p 330)
سلطان محمد خان صاحب کا پس منظر کیا تھا؟
مندرجہ بالا جرائد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان کے بااثر طبقہ میں سلطان محمد خان صاحب کے ذریعہ فری میسن تنظیم کا اثر پہنچ چکا تھا۔ مناسب ہوگا اگر اس مرحلہ پر سلطان محمد خان صاحب کی شخصیت کا تعارف کرایا جائے۔ پیدائشی طور پر ان کا تعلق افغانستان سے نہیں بلکہ پنجاب سے تھا۔ پاکستان میں انہیں پاکستان کے محبوب شاعر فیض احمد فیض صاحب کے والد کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ ان کا تعلق ضلع سیالکوٹ کے ایک گائوں کالا قادر کے غریب گھرانے سے تھا۔ انہوں نے محنت مزدوری کر کے تعلیم حاصل کی۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم کے لیے لاہور آ گئے۔ان کا قیام ایک مسجد میں تھا اور وہ ریلوے سٹیشن پر محنت مزدوری بھی کرتے تھے۔ اس دوران ایک جمعہ کے موقع پر ہند شریف مسجد میں ان کی ملاقات افغانستان کی با اثر شخصیت سردار محمد خان صاحب سے ہوئی۔ جب انہوں نے ان سے انگریزی اور افغانستان میں بولی جانے والی فارسی میں گفتگو کی تو وہ ان کی قابلیت سے بہت متاثر ہوئے۔سردار محمد خان صاحب نے امیر عبد الرحمٰن کے پاس سلطان محمد خان صاحب کی ملازمت کا انتظام کروادیا۔اور سلطان محمد خان صاحب نے کابل جا کر اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ ان کے سپرد امیر عبد الرحمٰن کی خط و کتابت اور خاص طور پر برطانوی حکومت سے خط وکتابت کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کا کام تھا۔ وہ بہت جلد امیرعبدالرحمٰن کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئےاور میر منشی کا عہدہ حاصل کر لیا۔ امیر عبدالرحمٰن نے ان کی شادی اپنی بھانجی سے کرادی لیکن اس خاتون کا ایک دو سال میں انتقال ہوگیا۔ جب برطانوی ہندوستان اور افغانستان کے درمیان سرحد یعنی ڈیورنڈ لائن پر کام ہو رہا تھا تو اس وقت سلطان محمد خان صاحب امیر عبد الرحمٰن کے قریبی حلقے میں شامل تھے۔ ۱۸۹۷ء میں سلطان محمد خان صاحب کو افغانستان چھوڑنا پڑا۔ اس مرحلے کے بارے میں مختلف بلکہ متضاد روایات کتابوں میں بیان ہوئی ہیں۔ایک روایت تو یہ ہے کہ کابل میں ان کی مخالفت شروع ہو گئی تھی کہ غیر ملکی ہونے کے باوجود اس شخص نے امیر کا اتنا قرب کیوں حاصل کر لیا ہے اور اس پر ہمارے سے زیادہ اعتماد کیوں کیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے وہ بغیر امیر عبد الرحمٰن سے اجازت لیے خفیہ طور پر فرار ہو کر ہندوستان پہنچے۔اور یہی نظریہ فیض احمد فیض کی سوانح حیات ’’پرورش لوح و قلم: فیض حیات اور تخلیقات‘‘ میں بیان کیا گیا ہے۔لیکن ایک اَور نظریہ ہے کہ وہ امیر عبدالرحمٰن کے منشا کے مطابق ہی ہندوستان آئے تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ انہیں برطانوی ہندوستان کی حکومت نے امیر عبد الرحمٰن کا جاسوس ہونے کے الزام پر گرفتار کر لیا اور لاہور میں قید رکھا اور پھر کہا جاتا ہے کہ کابل میں امیر عبد الرحمٰن کی ذاتی معالج لیلیاس ہیملٹن(Lallais Hamilton) نامی انگریز ڈاکٹر کی سفارش پر انہیں رہا کیا گیا۔
اس کے بعد سلطان محمد خان صاحب انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنی شروع کی۔ اس مرحلے کے بارے میں فیض احمد فیض صاحب کی اسی سوانح حیات میں لکھا ہے:’’اسی اثنا ء میں جب امیر افغانستان کے علم میں یہ بات آئی کہ ان کا گم شدہ منظورِ نظر لندن پہنچ چکا ہے تو انہوں نے سلطان محمد خان کو سفیر افغانستان کے عہدے کی پیشکش کی جسے انہوں نے قبول بھی کر لیا۔سفیر کے رتبے کی بدولت انگلستان کے اعلیٰ ترین طبقۂ امراء کے گھروں کے دروازے ان کے لیے کھل گئے۔‘‘(پرورش لوح و قلم : فیض حیات اور تخلیقات مصنفہ لڈملا وسیلیوا صفحہ ۵)
تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ دعویٰ درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اس وقت انگلستان میں افغانستان کی حکومت کو باقاعدہ آزاد مملکت کی حکومت کا درجہ حاصل نہیں تھا اور نہ ہی افغانستان کو اپنا سفیر نامزد کرنے کی اجازت تھی۔ افغانستان کی حکومت کو یہ ہدایت تھی کہ وہ اپنا رابطہ ہندوستان کے وائسرائے سے رکھیں اور افغانستان کی خارجہ پالیسی بھی وائسرائے ہندوستان کی وساطت سے چلائی جاتی تھی۔ امیر عبد الرحمٰن اور بعد میں امیر حبیب اللہ بھی اس انتظام سے سخت نالاں تھے کیونکہ ہندوستان کی برطانوی حکومت سے ان کے تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں تھے۔اور ان کی خواہش تھی کہ وہ براہ راست لندن میں برطانوی حکومت سے رابطہ رکھیں اور انہیں وہاں سفیر رکھنے کی اجازت ہو۔اس غرض کے لیے امیر عبد الرحمٰن نے اپنے بیٹے امیر نصراللہ کو لندن کے دورے پر بھی بھجوایا تھا لیکن اس کے باوجود برطانیہ نے افغانستان سے براہِ راست سفارتی تعلقات قائم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور یہی اصرار کیا تھا کہ افغانستان کی حکومت ہندوستان کے وائسرائے سے ہی رابطہ رکھے۔ اس پس منظر میں یہ ممکن نہیں ہے کہ سلطان محمد خان صاحب کو انگلستان میں سفیر کا درجہ حاصل ہوا ہو۔اس پر امیر عبد الرحمٰن نے یہ شکوہ بھی کیا تھا کہ معمولی سے معمولی شخص بھی گھر آئے تو اسے خالی ہاتھ نہیں لٹایا جاتا لیکن میں نے اپنے بیٹے کو اس درخواست کے ساتھ بھجوایا تھا اور برطانوی حکومت نے اسے خشک انکار کے ساتھ واپس بھجوا دیا۔
(A History of Afghanistan Vol 2, by Percy Sykes, Macmillan Press London 1940 p 193-197)
اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جن جرائد کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے ان میں کسی ایک میں بھی سلطان محمد خان صاحب کا تعارف افغانستان کے سفیر کے طور پر نہیں کرایا گیا بلکہ امیر کے میر منشی کے طور پر کرایا گیا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امیرعبد الرحمٰن ایک سخت مزاج شخص تھے۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ ایسے شخص کو سفیر مقرر کر دیتے جو ان کی اجازت کے بغیر ملک اور ان کی ملازمت چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اس پس منظر میں دوسرا نظریہ ہی درست معلوم ہوتا ہے کہ سلطان محمد خان صاحب امیر عبد الرحمٰن کی آشیرباد سے ہی پہلے ہندوستان اور پھر انگلستان گئے تھے۔
چونکہ ہندوستان کی برطانوی حکومت کے افسران اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ امیر عبد الرحمٰن کے برطانوی حکومت سے براہ راست مراسم ہوں اور برطانوی حکومت کی پالیسی بھی یہی تھی، اس لیے پہلے انہیں گرفتار کر لیا گیا لیکن ان پر کوئی جرم تو ثابت نہیں ہوا تھا اس لیے آخر انہیں رہا تو کرنا ہی تھا۔علاوہ ازیں انہوں نے ہی امیر عبد الرحمٰن کی سوانح حیات کا ترجمہ جس کا ایک حصہ امیر عبد الرحمٰن کے اپنے ہاتھ کا ہی لکھا ہوا تھا ۱۹۰۰ء میں انگلستان میں اشاعت کے لیے دیا تھا۔ زیادہ امکان اسی بات کا نظر آتا ہے کہ سلطان محمد خان صاحب برطانیہ اسی لیے گئے تھے کہ برطانیہ کے با اثر طبقہ میں امیر عبد الرحمٰن کے لیے نرم گوشہ پیدا کر سکیں اور انہیں اس بات کے لیے رام کر سکیں کہ وہ ان کو لندن میں سفیر رکھنے کی اجازت دے۔
اس بات کی زیادہ تفاصیل موجود نہیں ہیں کہ انگلستان سے واپس آنے کے فوری بعد کیا وہ افغانستان واپس گئے اور اگر وہ واپس گئے تو کب گئے ؟ انہوں نے افغانستان میں ایک سے زیادہ شادیاں کی تھیں۔ البتہ وہ دوبارہ انگلستان ضرور گئے تھے اور امیر حبیب اللہ کے دَور میں بھی دوبارہ انہوں نے وہاں پر چند سال کے لیے افغانستان کی حکومت کے غیررسمی نمائندے کے طور پر کام کیا تھا۔سلطان محمد خان صاحب کا انتقال ۱۹۳۱ء میں سیالکوٹ میں ہوا تھا جہاں وہ بطور وکیل کے کام کرتے تھے۔
(https://papers.ssrn.com/sol3/papers.cfm?abstract_id=2765248)
فری میسن بن کر کیا حاصل کرنا تھا
اس پس منظر میں غالب امکان یہی ہے کہ سلطان محمد خان صاحب نے فری میسن تنظیم میں اسی لیے شمولیت اختیار کی تھی کہ امیر عبد الرحمٰن کی حکومت اور انگلستان کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کروا سکیں اور برطانوی حکومت ان سے نرم سلوک کرے۔ کیونکہ فری میسن تنظیم میں بہت سے با اثر سیاستدان اور شاہی خاندان کے افراد بھی شامل تھے۔ اس وقت ولی عہد پرنس آف ویلز انگلستان کی گرینڈ لاج کے گرینڈ ماسٹر تھے اور ملکہ وکٹوریہ کے ایک اور بیٹے ڈیوک آف کوناٹ بھی اس تنظیم کے سرگرم رکن تھے۔چونکہ امیر حبیب اللہ سلطان محمد خان صاحب کے شاگرد بھی تھے اور انگلستان میں اپنی تقریروں میں سلطان محمد خان صاحب یہ اعلان کر چکے تھے کہ ان کی خواہش ہے کہ حبیب اللہ خان برطانیہ آئیں اور خود ولی عہد پرنس آف ویلز انہیں رسومات ادا کر کے فری میسن بنائیں، اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ امیر حبیب اللہ کو فری میسن تنظیم سے تعارف سلطان محمد خان صاحب سے ہی ہوا ہوگا اور انہوں نے یہ خیال کیا ہو گا کہ اس ذریعہ سے وہ برطانیہ کے برسراقتدار طبقہ میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کر سکتے ہیں۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ فری میسن تنظیم کی سرگرمیاں خفیہ رکھی جاتی ہیں، اس لیے امیر حبیب اللہ نے اس میں شامل ہو کر کیا کردار ادا کیا؟ اس کے بارے میں مزید تحقیق درکار ہے لیکن جیسا کہ میکموہن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں انہوں نے سلطنتِ عثمانیہ سے علیحدہ رہ کر پہلی جنگِ عظیم کے دوران سلطنت برطانیہ کی قابل ذکر مدد کی۔ جہاں تک انگلستان کی گرینڈ لاج کا تعلق ہے(امیر حبیب اللہ جس لاج کے ممبر بنے تھے وہ اس گرینڈ لاج کے ماتحت تھی) تو یہ سیاسی طور پر سلطنتِ برطانیہ کی اتحادی تھی۔ اس بارے میں ایک ماہر Jessica L. Harlond-Jacobs لکھتی ہیں :
“By the last third of the nineteenth century, masonic brotherhood had become unquestioning ally of the British imperial state . It took part in various efforts to shore up the empire in the face of internal and external pressures during the pressure of high imperialism.”(Builders of Empire: Freemasons and British Imperialism , 1717-1927, by Jessica L. Harlond-Jacobs p6)
ترجمہ: انیسویں صدی کی آخری تہائی میں فری میسن برادری بلاشبہ سلطنت برطانیہ کی اتحادی بن چکی تھی۔ یہ ان بہت سی سرگرمیوں کا حصہ تھا جن کا مقصد سلطنتِ برطانیہ کی عملداری کو وسیع کرنا تھا۔ امپیریل ازم کے عروج کے دَور میں انہوں نے اس سلطنت کو ترقی دینے کے لیے بہت سے اندرونی اور بیرونی دبائو کا مقابلہ کیا۔
فری میسن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد
آخر میں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ ۱۹؍مارچ ۱۹۰۷ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں اس بات کا ذکر ہوا کہ امیر حبیب اللہ کے فری میسن ہونے پر اس کی قوم اس سے ناراض ہے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:’’اس ناراضگی میں وہ حق پر ہیں کیونکہ کوئی موحد اور سچا مسلمان فری میسن میں داخل نہیں ہو سکتا، اس کا اصل شعبہ عیسائیت ہے اور بعض مدارج کے حصول کے واسطے کھلے طور پر بپتسمہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں داخل ہونا ایک ارتداد کا حکم رکھتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد ۵ صفحہ۱۸۷،ایڈیشن۱۹۸۸ء)
ہو سکتا ہے کہ بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو کہ ہر مذہب کے لوگ فری میسن بنتے ہیں اور صرف خدا کے وجود پر ایمان رکھنا ضروری ہوتا ہے۔تو پھر اس کی اصل عیسائیت کس طرح ہو گئی ؟اور مختلف مذاہب کے لوگ بپتسمہ کس طرح لیتے ہوں گے؟آخر امیر حبیب اللہ نے بھی تو قرآن مجید پر حلف اٹھا کر اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی۔
اس مضمون کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے فری میسن کے آئین The Constitutions of the Freemasons کا جائزہ لینا ضروری ہے۔اسے آج سے تین سو سال قبل ۱۷۲۳ء میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس کا سرسری مطالعہ ہی اس بات کو ظاہر کر دیتا ہے کہ اس میں اسلام کے بارے میں منفی تبصرے کیےگئے ہیں۔اس کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
“Nations fell under the same calamity by the conquests of Mahometans, whose grand design is only to convert the World by fire and sword, instead of cultivating Arts and Sciences.”(The Constitutions of the Freemasons, printed by William Hunter London p 28)
ترجمہ: قوموں پر مسلمانوں کی فتوحات کی آفت ٹوٹ پڑی۔ ان کا اصل منصوبہ یہ تھا کہ آگ اور تلوار سے لوگوں کامذہب تبدیل کریں نہ کہ آرٹ اور سائنس کو ترقی دیں۔
ان کے لٹریچر میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ تمام اختلافات کے باوجود مسیحیت اور یہودیت اصل میں ایک ہی مذہب ہیں۔ اور ۱۸۶۰ء میں شائع ہونے والے فری میسن کے دستور العمل میں یہ ذکر کرنے کے بعد کہ مسیحیت اور یہودی مذاہب اصولی طور پر ایک ہیں یہ لکھا ہے:
“The reign of Christ and the Jewish Messiah, one and the same prince, has still to begin. May it soon begin, and may all be united on sound principles under that reign. The Messiah or Christ, will be the reign of the Logos, or principle of reason among men.”(The Manual of Freemasonry, by Richard Carlyle p 88&89)
ترجمہ: یسوع اور یہودی مسیح کا دور جو کہ ایک ہی شہزادے کے نام ہیں، ابھی شروع ہونا ہے۔ دعا ہے کہ یہ دور جلد شروع ہو اور سب لوگ اس کے مضبوط اصولوں کی بنیاد پر متحد ہوں۔ مسیح اور یسوع کا دور منطق اور استدلال کا دور ہو گا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انیسویں صدی کے وسط میں فری میسن بھی ایک آنے والے مسیح کے منتظر تھے۔ اسی کتاب کے صفحہ ۹۲ پر لکھا ہے کہ یہی ایک بھید ہے کہ مسیح کی آمد پر یہودی اور مسیحی ایک ہو جائیں گے۔
اب اس اہم پہلو کا جائزہ لیتے ہیں جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ فری میسن تنظیم میں بعض مدارج کے لیے مسیحی بننے کی طرز پر بپتسمہ لینا پڑتا ہے۔ اس کے لیے فری میسن کی ایک اہم کتاب کا حوالہ پیش کیا جاتا ہے جو کہ ۱۸۶۶ء میں شائع ہوئی۔اس میں لکھا ہے:
“The members of our society at this day confess themselves to be Christians: the veil of temple is rent; the builder is smitten and we are raised from the temple of transgression. Hence how Mahometans, Jews, &C can prevail on themselves to be initiated into this society is a mystery to me.”(The use and abuse of Freemasonry, by George Smith. Masonic Publishing and Manufacturing Co. New York 1866. P 16)
ترجمہ: ہماری سوسائٹی کے ممبر وں کو آج بھی اس بات کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ مسیحی ہیں۔ ٹیمپل کا پردہ پھاڑا جاتا ہے اور معمار کو مارا جاتا ہے اور ہم اپنے گناہوں کے ٹیمپل سے اٹھائے جاتے ہیں۔ میرے لیے یہ بات ایک معمہ ہے کہ کس طرح مسلمان، یہودی اور دوسرے اپنے آپ کو اس میں شمولیت پر آمادہ کر لیتے ہیں۔
اس اقتباس کے الفاظ بالکل واضح ہیں۔ یہ بات ہر مسلمان کو حیرت میں ڈالے گی کہ کس طرح محض سیاسی مقاصد یا برطانیہ کی طاقت سے مرعوب ہو کر امیر حبیب اللہ نے یہ گوارہ کر لیا کہ وہ خود منتیں کرکے فری میسن بن جائیں اور یہ رسومات ادا کریں۔ ایک طرف تو وہ احمدیوں کو یہ الزام لگا کر شہید کروا رہے تھے کہ وہ برطانوی حکومت سےجہاد کے قائل نہیں ہیں اور دوسری طرف وہ اس طرح جھک کر اس بڑی طاقت کی خوشنودی حاصل کر رہے تھے۔اس مضمون میں اس الہام کے صرف ایک پہلو کے متعلق کچھ حقائق پیش کیےگئے ہیں۔ ایسے موضوعات پر تحقیق جاری رہتی ہے اور محققین کی ایک نسل کے بعد دوسری نسل نئے نئے حقائق سے پردہ اٹھاتی رہتی ہے۔ مستقبل میں کن حقائق سے پردہ اٹھتا ہے ؟ اس سوال کا جواب وقت ہی دے گا۔