حضرت مصلح موعود ؓ

قرآن کریم کے تمدنی احکام (انتخاب خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۱۴؍ جولائی ۱۹۲۲ء) (قسط دوم ۔آخری)

(گذشتہ سے پیوستہ )حضرت صاحبؑ  کو دیکھا ہے کہ بعض اوقات بات کرتے ہوئے اس قدر بلند آواز سے بولتے تھے کہ مدرسہ (احمدیہ) کے صحن میں آپؑ کی آواز سنائی دیا کرتی تھی۔ پس اس حالت میں بھی تمہاری آواز نیچی ہی رہے۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَاَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ (الحجرات:۳) ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تم کو پتا بھی نہ لگے۔

کتنی چھوٹی بات ہے مگر نتیجہ کتنا خطرناک ہے۔

بات یہ ہے کہ جب انسان کسی کے مقابلہ میں بلند آواز سے بولتا ہے تو اس کا ادب دل سے نکل جاتا ہے اور

جب ادب نہ ہو تو محبت بھی کم ہو جاتی ہے اور محبت کے کم ہونے کے ساتھ ایمان بھی کم ہو جاتا ہے۔

رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ایمان نہ تھے مگر ایمان کو آپ سے وابستہ کر دیا گیا تھا۔ آپ سے اگر تعلق کم ہو گا تو اُسی قدر ایمان میں کمی آئے گی۔ اور جس قدر آپ سے محبت بڑھے گی اُسی قدر ایمان میں مضبوطی اور ترقی ہو گی۔ یہی خدا کے پیاروں اور اُن کے غیروں میں فرق ہے۔

خدا کے پیاروں سے محبت میں جس قدر کمی ہوگی اُتنا ہی ایمان کم ہو گا اور جس قدر اُن سے تعلقِ محبت بڑھے گا اُسی قدر ایمان بڑھے گا۔ خدا کے پیاروں سے تعلق توڑنے والے خواہ کتنی ہی نمازیں پڑھیں، روزے رکھیں اور زکوٰۃ دیں مگر نتیجہ اُن کے ایمان کا یہی ہو گا۔

فرمایا کہ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ اَصۡوَاتَہُمۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امۡتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ لِلتَّقۡوٰی (الحجرات:۴) وہ لوگ جو رسولؐ کے سامنے اپنی آواز کو دباتے اور نیچی کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲتعالیٰ نے تقویٰ کے لیے خالص کر لیا ہے۔ ان کےلیے مغفرت ہے اور اجرِ عظیم ہے۔

پھر ایک اَور ادب سکھلایا ہے۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ(الحجرات:۵)بعض لوگ آتے ہیں، آواز دیتے ہیں یا دروازے پر زور سے دستک دیتے ہیں۔ ان میں سے اکثر بےعقل ہیں۔

کیوں وہ یہ نہیں سمجھتے کہ جو شخص اندر بیٹھا بھی خدمتِ دین میں مصروف ہے اور باہر بھی دین کی بہتری ہی کی فکر میں ہے۔

وہ جب باہر نکلے گا تو اُس وقت مل لیں گے۔ اُس کے کام میں خلل انداز ہونا درست نہیں۔ اگر یہ صبر کرتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔

یہ چند آداب ہیں جن کا ہمارے دوستوں کو بھی خیال رکھنا چاہیے۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بعض احکام خاص ہوتے ہیں مگر اُن سے مُراد عام ہوتی ہے۔

بعض میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مخاطب ہیں مگر اُن میں آپ کے نائب بھی شامل ہوتے ہیں۔ اور بعض عام لوگوں کے لیے بھی ہوتے ہیں۔ اگر ان کو خاص رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے کیا جائے تو اِس سے ہماری شریعت نامکمل ہو جاتی ہے۔ اس لیے

لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ جہاں رسول اور اس کے جانشین کے لیے ہے وہاں مجلس کے صدر کے لیے بھی ہے۔

حضرت صاحبؑ کی مجلس میں ایک شخص بلند آواز سے بولتا تھا۔ آپ نے اُس کو اِسی آیت کے ذریعہ سمجھایا تھا۔ مجلس میں جو صدرِمجلس ہو اُس کے سامنے بھی زیادہ اونچی آواز نہیں کرنی چاہیے۔ دوستوں کو ان آداب کا خیال رکھنا چاہیے۔ اور رسول اور اُس کے قائم مقام سے پہلے نہیں بولنا چاہیے اور اُن سے اونچی آواز نہیں ہونی چاہیے۔

میں خصوصیت سے آخری حکم کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور اِس حکم پر توجہ دلانے کی خاص وجہ یہ ہے کہ چونکہ ارادہ ہے کہ اِس دفعہ پندرہ پاروں کے جو درس ہیں اُن کے نوٹ مکمل ہو کر چھپ جائیں چونکہ اُن میں لغت کے حوالے بھی ہوں گے اور محض یاد سے یہ کام ہو نہیں سکتا اس لیے اُن کو لکھنے کی ضرورت ہے۔ مگر حالت یہ ہے کہ دس منٹ بھی بیٹھ کر لکھنا نہیں ملتا کہ دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے اور بعض دفعہ تو اتنے زور سے کھٹکھٹایا جاتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ دروازہ ٹوٹ جائے گا اور ان کی دستک وارنٹ کے پیادہ کی طرح سخت ہوتی ہے۔ حالانکہ

تصنیف کے کام میں جتنی توجہ اور یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ظاہر ہے۔

بڑی محنت کے بعد ایک بات ذہن میں قائم کی جاتی ہے جو یک دم دماغ سے ان دستکوں کی وجہ سے نکل جاتی ہے۔ اور دروازہ کھول کر دیکھا جاتا ہے تو ایک رقعہ ملتا ہے کہ میرے لیے دعا کرو۔ یہ کوئی اہم بات نہیں تھی ۔کیونکہ یہ رقعہ ظہر یا عصر کے وقت بھی دیا جا سکتا تھا۔ بعض دفعہ کام کی وجہ سے دروازہ نہیں کھولا جاتا تو آدھ آدھ گھنٹے تک دستک دیتے رہتے ہیں۔

اُس وقت اس دستک کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہے۔

کیونکہ اگر وہ شخص سمجھتا ہے کہ میں اندر نہیں ہوں تو پھر اتنی دیر تک دستک دینے کے کیا معنی؟ اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ میں ہوں اور کسی وجہ سے نہیں بولتا تو پھر اتنی دیر تک دستک دینے سے کیا فائدہ؟ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی بچہ ہوتا ہے جو تماشے کے طور پر کھٹکھٹا رہا ہوتا ہے۔

حالانکہ قاعدہ یہ ہے کہ دستک کے ساتھ آواز دے اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہے اور بتائے کہ میں فلاں ہوں اور اس آواز سے وہ شناخت ہوجاتا ہے

اور پتا لگ جاتا ہے کہ فلاں شخص ہے جس کو ہم نے بلایا تھا یا جس سے ملنا ضروری ہے۔ تین دفعہ ایسا کرے۔ اگر جواب نہ ملے تو واپس چلا جائے۔ اور یہ ہر ایک مسلمان کے لیے حکم ہے۔ رسول اور اُس کے خلفاء کے لیے جو ایسا نہ کرے وہ لَایَعْقِلُ ہوتا ہے۔

اِس غلطی میں افسروں کا بھی دخل ہے۔ دفتروں کے چپراسی جب آتے ہیں تو وہ اسی طرح دستک دیتے ہیں۔ اُن کو چاہیے کہ وہ چپراسیوں کو سمجھائیں کہ وہ جب آئیں تو دستک دے کر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہیں اور اُن کو بھیجیں بھی اُس وقت جس وقت کوئی نہایت ضروری کام ہو۔ اب جو چپراسی آتے ہیں دستک دیئے جاتے ہیں۔ اگر اُن سے پوچھا جائے کہ کون ہے۔ تو خاموش رہتے ہیں۔ چاہیے کہ

اگر ضروری کاغذ ہو تو اُس وقت بھیجا جائے اور لانے والا بتائے کہ فلاں کام ہے۔

چونکہ تصنیف کا کام اتنا اہم ہوتا ہے کہ اس میں پوری توجہ کی ضرورت ہے اور سانس بھی دبانا پڑتا ہے۔ عام طور پر ایک منٹ میں ایک شخص اٹھارہ سانس لیتا ہے مگر میرے قریباً نصف رہ گئے ہیں یعنی دس یا گیارہ سانس۔ اُس وقت یہ حالت ہوتی ہے کہ سانس لینا بھی برا معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کام پورے انہماک اور توجہ کو چاہتا ہے لیکن یہاں دس منٹ بھی توجہ سے بیٹھنے نہیں دیا جاتا۔ اور دیکھا گیا ہے کہ نوے فیصدی جو لوگ دستک دیتے ہیں وہ فضول ہوتی ہے اور دعا کے رقعہ دینے والے بھی معمولی رقعے دیتے ہیں۔

اگر کوئی خاص تکلیف ہو اور اُس وقت ملنا ضروری ہو تو کوئی حرج نہیں۔ بلکہ مخلوق کی ہمدردی کے لیے ایسا کرنا ثواب کا باعث ہے

اِسی طرح اگر اہم کام ہو تو افسر آئیں۔ اگر اُن کا آنا ضروری ہوتو ان پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اسی سورہ میں ان کے لیے اجازت ہے۔ کہ اکثر لَایَعْقِلُ ہوتے ہیں یعنی جن کو ضرورت کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے اُن پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ ورنہ ایسے رقعے یونہی ہوتے ہیں۔ یا بعض لوگ آتے ہیں اور الگ ملتے ہیں اور اُس وقت کوئی مسئلہ پوچھتے ہیں۔ اُس وقت افسوس آتا ہے کہ انہوں نے الگ ہو کر کیوں پوچھا اگر مجلس میں پوچھتے تو دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا۔

علیحدگی میں ایسی بات کے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو مجلس میں بیان نہ کی جا سکتی ہو۔

اگر مجلس میں پوچھیں تو اُن کو بولنے کی عادت ہو جائے اور دوسروں کو فائدہ پہنچ جائے۔ یہ ہدایتیں ہیں۔ ان کا مدّنظر رکھنا ضروری ہے۔ تمدّن ترقی کے لیے ضروری ہے اور تمدّن کا اعلیٰ درجہ کا ہونا بھی لازمی ہے۔ چاہیے کہ ہمارا تمدّن اعلیٰ ہو۔ اﷲتعالیٰ ہماری جماعت کو ہر قسم کی خوبیاں حاصل کرنے اور قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(الفضل قادیان۲۰؍جولائی۱۹۲۲ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button