حضرت جابر بن عبداللہؓ (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۰؍ مارچ ۲۰۱۸ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت جابر بن عبداللہؓ تھے اور یہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام ؓکے بیٹے تھے۔ عبداللہ بن عمرو بن حرام وہی صحابی ہیں جن کے ذکر کے حوالے سے چند جمعہ پہلے میں نے بتایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شہادت کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا تھا کہ تمہاری کیا خواہش ہے؟ بتاؤ میں پوری کروں۔ تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ!میری خواہش ہے کہ دوبارہ زندہ کر کے دنیامیں بھیجا جاؤں اور پھر تیری راہ میں شہید ہو جاؤں۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنّت کے خلاف ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تو نہیں ہو سکتا کیونکہ مرنے والے دوبارہ دنیا میں نہیں لوٹائے جاتے۔ (سنن الترمذی ابواب تفسیرالقرآن باب ومن سورۃ آل عمران حدیث ۳۰۱۰)۔ اس کے علاوہ بتاؤ کیا بات ہے۔ تو بہرحال اس سے ان کی قربانی کے معیار اور اللہ تعالیٰ کے ان سے غیر معمولی سلوک کا پتہ چلتا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ اپنے عظیم المرتبت صحابی باپ کے بیٹے تھے اور بچپن میں ہی بیعت عقبہ ثانیہ کے دوران انہوں نے بیعت کی تھی۔ (اسد الغابہ جلد اوّل صفحہ ۴۹۲ جابر بن عبد اللہ بن حرامؓ مطبوعہ دار العلمیۃ بیروت ۱۹۹۶ء)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام کے واقعہ میں یہ بھی ذکر ہوا تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو کہا تھا کہ یہودی سے لیا ہوا میرا جو قرض ہے میری شہادت کے بعد اس کو باغ کے پھل کو فروخت کرکے ادا کر دینا۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز باب ھل یخرج المیت من القبر واللحد لعلۃ حدیث ۱۳۵۱) (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد ۸ صفحہ۲۴۴ حدیث ۱۳۵۱ کتاب الجنائز باب ھل یخرج المیت من القبر واللحد لعلۃ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت ۲۰۰۳ء)
روایت کے مطابق انہوں نے وہ قرض ادا کیا۔ اس کے علاوہ بھی اس زمانے میں رواج تھا کہ باغوں اور فصلوں کے مقابل پر قرض لیا جاتا تھا۔ حضرت جابر بھی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے قرض لیتے تھے۔ اس کا ایک تفصیلی واقعہ کا ذکر ملتا ہے کہ کس طرح آپ نے قرض کی واپسی کے وقت یہودی سے کہا کہ باغ کی آمد کم ہوئی ہے یا امکان ہے کہ پھل تھوڑا ہے آمد کم ہوگی اس لئے قرض کی وصولی میں سہولت دے دو۔ کچھ حصہ لے لو، کچھ آئندہ سال لے لو۔ لیکن وہ یہودی کسی قسم کی سہولت دینے کو تیار نہ ہوا اور پھر اس پریشانی میں جابر بن عبداللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں پتہ چلا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کو سفارش کی لیکن وہ نہ مانا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اپنے اس صحابی سے اس کے قرض اتارنے کے سلسلہ میں شفقت فرمائی۔ دعا کی۔ اور کس طرح پھر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ اس کا ذکر روایات میں ملتا ہے۔ یہاں یہ بھی بتادوں کہ بعض یہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو یعنی حضرت جابر کے والد جو تھے ان کے قرض کی ادائیگی کے سلسلہ میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے بیٹے کو قرض اتارنے کے سلسلہ میں نصیحت فرمائی تھی۔ بہرحال اس وقت پھل کم لگا تھا اور اس قرض کی ادائیگی مشکل تھی۔ پھر جیسا کہ میں نے بتایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک معاملہ پہنچا لیکن صحیح بخاری میں جو روایت ملتی ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ بعد میں کسی وقت کا واقعہ ہے۔ بہرحال جو بھی ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے صحابہؓ سے شفقت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبولیت دعا کا معجزہ جس طرح بھی یہ بیان کیا جائے اس سے ظاہر ہوتا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں ایک یہودی تھا جو میرے کھجوروں کے باغ کا نیا پھل تیار ہونے تک مجھے قرض دیا کرتا تھا۔ میری یہ زمین رومہ نامی کنویں والے راستہ پر واقع تھی۔ ایک بار سال گزر گیا مگر پھل کم لگا اور پوری طرح تیار بھی نہ ہوا۔ پھل کی برداشت کے موسم میں وہ یہودی حسب معمول اپنا قرض وصول کرنے آ گیا جبکہ اس سال میں نے کوئی پھل نہ توڑا تھا۔ کہتے ہیں کہ میں نے اس سے مزید ایک سال کی مہلت مانگی لیکن اس نے انکار کر دیا۔ اس کی نیت یہ تھی کہ اس طرح شاید یہ پورے کا پورا باغ میرے قبضہ میں آ جائے۔ تو اس واقعہ کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپؐ نے صحابہ کو فرمایا کہ چلو ہم یہودی سے جابر کے لئے مہلت طلب کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مع چند صحابہ کے میرے باغ میں تشریف لائے اور یہودی سے بات کی۔ مگر یہودی نے کہا۔ اے ابوالقاسم! میں اسے مہلت نہیں دوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا۔ یہودی کا یہ رویّہ دیکھ کر آپؐ نے کھجور کے درختوں میں ایک چکر لگایا پھر آ کر یہودی سے دوبارہ بات کی۔ لیکن اس نے پھر انکار کر دیا۔ کہتے ہیں اس دوران مَیں نے باغ سے کچھ کھجوریں توڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیں جو آپ نے تناول فرمائیں۔ پھر فرمایا جابر یہاں تمہارا جو باغوں میں چھپّر سا ہوتا ہے آرام کرنے کی جگہ ہوتی ہے وہ کہاں ہے؟ میں نے بتایا تو آپؐ نے فرمایا کہ میرے لئے وہاں چٹائی بچھا دو تا کہ میں کچھ دیر آرام کروں۔ کہتے ہیں میں نے تعمیل ارشاد کی۔ آپ وہاں سو گئے۔ جب بیدار ہوئے تو میں پھر مٹھی بھر کھجوریں لایا۔ آپ نے ان میں سے کچھ کھائیں۔ پھر کھڑے ہوئے اور یہودی سے دوبارہ بات کی مگر وہ نہ مانا۔ آپ نے دوبارہ باغ کا چکر لگایا اور مجھ سے فرمایا جابر کھجوروں سے پھل اتارنا شروع کرو اور یہودی کا قرض ادا کرو۔ میں نے پھل اتارنا شروع کیا۔ اس دوران آپ کھجوروں کے درختوں میں کھڑے رہے۔ کہتے ہیں میں نے پھل توڑ کر یہودی کا سارا قرضہ ادا کر دیا اور کچھ کھجوریں بچ گئیں۔ میں نے حضور کی خدمت میں یہ خوشخبری عرض کی تو آپ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ (صحیح البخاری کتاب الأطعمہ باب الرطب والتمر … الخ حدیث ۵۴۴۳)
یعنی یہ جو معجزہ ہوا۔ یہ جو غیرمعمولی واقعہ ہوا اس لئے ہوا کہ اللہ تعالیٰ میری دعائیں سنتا ہے اور میرے کاموں میں برکت ڈالتا ہے۔ پس جہاں اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور قبولیت دعا کی وجہ سے پھل میں برکت کا ہم واقعہ دیکھتے ہیں وہاں قرض کی ادائیگی کے لئے صحابہ ؓکی بے چینی بھی نظر آتی ہے۔ پس یہ روح ہے جو حقیقی مومن کا ایک خاص امتیاز ہونی چاہئے۔ بعض دفعہ ہمیں یہاں اپنے معاشرے میں نظر آتا ہے کہ احمدی کہلا کر پھر اس کی فکر نہیں کرتے اور قرض اتارنے کے معاملے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ سالوں گزر جاتے ہیں مقدمے چل رہے ہوتے ہیں۔ پس ہمیں بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ الفاظ یاد رکھنے چاہئیں کہ میری بیعت میں آنے کے بعد پھر صحابہؓ کے نمونوں کو اپنے اوپر لاگو کرو۔ وہ اپناؤ۔ تبھی وہ خوبصورت معاشرہ قائم ہو سکتا ہے جو مہدی اور مسیح کے آنے کے بعد قائم ہونا تھا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد۷صفحہ۴۱۳)