شہادت ایک کیفیت ہے جس کا تعلق دل سے ہے
عام لوگ تو شہید کے لئے اتنا ہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ شہید وہ ہوتا ہے جو تیر یا بندوق سے مارا جاوے یا کسی اور اتفاقی موت سے مَر جاوے مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہادت کا یہی مقام نہیں ہے۔
میرے نزدیک شہید کی حقیقت قطع نظر اس کے کہ اس کا جسم کاٹا جاوے کچھ اَور ہی ہے اور وہ ایک کیفیت ہے جس کا تعلق دل سے ہے۔یاد رکھو کہ صدیق نبی سے ایک قُرب رکھتا ہے اور وہ اس کے دُوسرے درجہ پر ہوتا ہے اور شہید صدیق کا ہمسایہ ہوتا ہے۔نبی میں تو سارے کمالات ہوتے ہیں یعنی وہ صدیق بھی ہوتا ہے اور شہید بھی ہوتا ہے صالح بھی ہوتا ہے۔لیکن صدیق اور شہید ایک الگ الگ مقام ہیں۔اس بحث کی بھی حاجت نہیں کہ آیا صدیق شہید ہوتا ہے یا نہیں؟ وہ مقام کمال جہاں ہر ایک امر خارق عادت اور معجزہ سمجھا جاتا ہے وہ ان دونوں مقاموں پر اپنے رُتبہ اور درجہ کے لحاظ سے جدا ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ اُسے ایسی قوت عطا کرتا ہے کہ جو عمدہ اعمال ہیں اور جو عمدہ اخلاق ہیں۔وہ کامل طور پر اور اپنے اصلی رنگ میں اس سے صادر ہوتے ہیں اور بلاتکلف صادر ہوتے ہیں۔کوئی خوف اور رجاء اُن اعمالِ صالحہ کے صدور کا باعث نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ اُس کی فطرت اور طبیعت کا ایک جُزو ہوجاتے ہیں۔تکلّف اُس کی طبیعت میں نہیں رہتا۔جیسے ایک سائل کسی شخص کے پاس آوے تو خواہ اُس کے پاس کچھ ہو یا نہ ہو تو اُسے دینا ہی پڑے گا۔اگر خدا کے خوف سے نہیں تو خلقت کے لحاظ سے۔مگر اس قسم کا تکلّف شہید میں نہیں ہوتا اور یہ قوت اور طاقت اُس کی بڑھتی جاتی ہے جوں جوں بڑھتی ہے اسی قدر اس کی تکلیف کم ہوتی جاتی ہے اور وہ بوجھ کا احساس نہیں کرتا۔مثلاً ہاتھی کے سر پر ایک چیونٹی ہو تو وہ اس کا کیا احساس کرے گا۔
فتوحات [مکیہ] میں اس مقام کی طرف اشارہ کرکے ایک لطیف بات لکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب انسان کامل درجہ پر پہنچتا ہے تو اُس کے لئے نماز ساقط ہوجاتی ہے جاہلوں نے اس سے یہ سمجھ لیا کہ نماز ہی معاف ہوجاتی ہے جیسا کہ بعض بے قید فقیر کہتے ہیں۔ان کو اس مقام کی خبر نہیں اور اس لطیف نکتہ کی اطلاع نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ ابتدائی مدارجِ سلوک میں نماز اور دوسرے اعمالِ صالحہ ایک قسم کا بوجھ معلوم ہوتے ہیں اور طبیعت میں ایک کسل اور تکلیف محسوس ہوتی ہے لیکن جب انسان خدا تعالیٰ سے قوت پاکر اس مقام شہید پر پہنچتا ہے تو اس کو ایسی طاقت اور استقامت دی جاتی ہے کہ اُسے اُن اعمال میں کوئی تکلیف محسوس ہی نہیں ہوتی۔گویا وہ اُن اعمال پر سوار ہوتے ہیں اور صوم، صلوٰۃ، زکوٰۃ، ہمدردیِ بنی نوع، مروّت، فتوت غرض تمام اعمالِ صالحہ اور اخلاق فاضلہ کا صدور قوتِ ایمانی سے ہوتا ہے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۴۵-۳۴۶، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)