ٹِک ٹاک(TikTok): فوائد زیادہ یا نقصانات
دَورِ حاضر میں سوشل میڈیا جیسی انقلابی ایجادات کےفوائد و نقصانات پرگاہے بگاہے نہایت معلوماتی مضامین جماعتی اخبارات ورسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں۔علاوہ ازیں پرنٹ میڈیا (اخبارات و رسائل) اور الیکٹرانک میڈیا (ٹی وی،انٹرنیٹ، ریڈیو وغیرہ) پر بھی اکثر و بیشتر مفید مضامین پڑھنے اور سننے کوملتے ہیں۔
جو بھی نئی چیزمارکیٹ میں آتی ہےاس کا تعلق طب سے ہویا صنعت دستکاری کے شعبہ سے، سائنس کی بات ہویاٹیکنالوجی میں جدت کی بات۔ہر چیز کے مثبت اور منفی پہلو بتائے جاتے ہیں اور اس حقیقت سےکوئی بھی انکارنہیں کرسکتا کہ ایک ہی چیزایک پہلو سے فائدہ مند دکھائی دیتی ہےتوکسی اورپہلوسےوہ نقصان دہ بھی ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جوہماراخالق اورمالک ہےاُس سے بڑھ کرکیا کوئی اُس کی مخلوق کوسمجھ سکتا ہے۔یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّخَفِّفَ عَنۡکُمۡ ۚ وَخُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا (سورۃ النساءآیت 29) اللہ چاہتا ہے کہ تم سے بوجھ ہلکا کردے اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزِ اوّل سے انسانوں کی راہنمائی کا انتظام کر رکھا ہے ۔اسلام نے اپنے ماننے والوں کو میانہ روی اور اعتدال کی تعلیم دی ہے تاکہ وہ اپنے مقصدِتخلیق کو سمجھیں اور اُن کی زندگیاں بےجاتکالیف اوربوجھوں سےبچی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی بھلائی کے لیے جو بھی چیزیں پیدا کی ہیں اُنہیں اُن کے استعمال کے سنہری اصول بھی بتائے ہیں ۔ مثال کے طورپر قرآن کریم نے ایک اہم اصول وضع کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جن چیزوں کی فوائد زیادہ ہیں اور نقصانات کم ہیں انہیں استعمال کرو اور جن چیزوں کے نقصانات زیادہ اور فوائد کم اُنہیں چھوڑ دو۔ جیسے شراب اورقماربازی ۔جیسے غذا کااثرجسمانی صحت پرہوتا ہےایسے ہی صحبت کااثرروحانی صحت پر۔
سوشل میڈیا یعنی وہ تمام ویب سائٹیس جوآپ کومفت میں دوسرےلوگوں سےرابطہ کرنے ،اپنی ویڈیوزپوسٹ کرنےکی اجازت دیتی ہیں میں فیس بُک،انسٹاگرام،ایکس (ٹویٹر)،سنیپ چیٹ ،واٹس ایپ اورٹک ٹاک وغیرہ پلیٹ فارمزشامل ہیں۔سوشل میڈیاکے کچھ پلیٹ فارمز نے لوگوں کی ذاتی زندگیوں کےساتھ ساتھ معاشرتی رویوں، حکومتی پالیسیوں اورسیاست پربھی انمٹ نقوش چھوڑےہیں۔ٹک ٹاک اوردیگرسوشل میڈیا ایپس میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اس کاتعلق امریکہ سےنہیں ہے۔دیگر مقاصد کے ساتھ ان ایپس کا ایک مقصد صارفین کو وہ پلیٹ فارم مہیاکرناہے جس میں وہ اپنی ذاتی زندگی کودنیا میں بلاروک ٹوک نشرکرسکیں۔
بعض اوقات صارفین اپنے انتہائی ذاتی لمحات اس پرڈال بیٹھتے ہیں اورپھر اُن کے ہاتھ میں پچھتاوے کے سوا اور کچھ نہیں رہتا۔کیونکہ آپ جوکچھ ان ایپس پرڈالیں گے خواہ وہ اپنے فون سے فوراً ڈیلیٹ ہی کیوں نہ کردیں مگر اس ایپ کےسسٹم سے وہ چیز یامواد ڈیلیٹ نہیں ہوگا۔ الا ماشاءاللہ
خاکسار کے مدنظر اس مضمون میں بچوں اورنوجوانوں میں مقبول اور تہلکہ خیز ایپ ٹِک ٹاک ہے۔جس کا باقاعدہ اجراء 20؍ ستمبر2016ء کو ژانگ ییمنک نےچائناسےکیا جوپیشہ کے لحاظ سےایک انجینیئرتھے ٹک ٹاک جیسی سوشل میڈیا ایپ کی عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت نے پیرنٹ کمپنی بائٹ ڈانس کےبانی کوچائنا کا امیرترین آدمی بنا دیا ہے۔اس ایپ پر 30سیکنڈسےکم یا زیادہ دورانیہ کی وڈیوز ڈالی جاسکتی ہیں۔ جبکہ یہ ایپ 40 سے زیادہ زبانوں میں میسر ہے۔
سوشل میڈیا ایپس اورٹک ٹاک کے فوائد
ہر نئی ایجاد کے جہاں ہمیں نقصانات نظرآتے ہیں وہیں اُن کےبہرحال فوائد بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً ٹک ٹاک کولوگ اپنے ہنر، کاروبارکی تشہیر، اپنے کلچر کو متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ لوگ اسےتبلیغ کا ذریعہ بھی بنارہے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل اگر ان نت نئی ایجادات کو دوسروں کو اسلام کا صحیح پیغام پہنچانے کے لئے استعمال کرے توایساکرنے سے نہ صرف ان کی اپنی ذات کو فائدہ ہوگا بلکہ وہ کئی حق کے متلاشیوں کو سیدھی راہ دکھا رہے ہوں گے۔ اسی طرح ٹک ٹاک پرحضور کا پیغام، حدیث اور تبلیغی پروگرامز کی تشہیر بھی کی جاسکتی ہے اور کی جارہی ہے۔سوشل میڈیا کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ہمیں ہر قسم کی معلومات بہت آسانی سے اور کم وقت میں مل جاتی ہیں۔ جماعتی لحاظ سےدیکھا جائے تو ہر طرح کےتربیتی پروگرام، کتب، رسائل اور وڈیوز بآسانی میسّر ہیں جن سے ہر کوئی مستفید ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں ہماری کتب شائع کرنے پر ہر طرح سے پابندیاں عائدکی گئیں ہیں۔ مگر سوشل میڈیا کے ذریعہ سے ہمارے لٹریچر تک ہر ایک کو رسائی ہے۔ اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطابات اور خطبات سے ہم مستفیض ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر انواع و اقسام کی کھانا پکانے کی تراکیب ہیں اس وقت بچوں کوفون استعمال کرنے دیں تاکہ وہ نئی نئی تراکیب سے کھانے بنانے سیکھیں۔
TikTok میں استعمال ہونےوالا الگوردھم کیا ہے اوربچوں پرکس طرح سے منفی اثرات ڈالتا ہے؟
بی بی سی نیوز انگریزی سروس سے نکولس ینگ نے ٹک ٹاک کے چیف ایگزیکٹو،شاؤ زی چیو سے انٹرویو لیا۔ جس میں شاؤ زی چیو نے کہا” کہ وہ اپنے بچوں کوٹک ٹاک استعمال نہیں کرنے دیتے کیونکہ وہ بہت چھوٹے ہیں۔“(بی بی سی نیوز 24؍مارچ 2023)
ماریانا اسپرنگ، نامہ نگار برائے بی بی سی ڈس انفارمیشن اینڈسوشل میڈیا اپنے 24؍ ستمبر 2023ء کے انگلش آرٹیکل میں لکھتی ہیں:(اس مضمون کااردوترجمہ بی بی سی اردوسروس کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے)
”بی بی سی تھری کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک اپنے صارفین میں جنون کی ایک کیفیت پیدا کر رہا ہے جو حقیقی دنیا میں سماج مخالف رویوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
ٹک ٹاک کے سابق کارکنان اور عملہ جنون سے بھری ان تمام کارروائیوں میں ٹک ٹاک کے کردار کو ’جنگل کی آگ‘ سے تشبیہ دیتے ہیں اور انھیں ’خطرناک‘ بیان کرتے ہیں، خاص طور پر اس وجہ سے کہ اس ایپ کے استعمال کرنے والوں میں بڑی تعداد جوشیلے نوجوانوں کی ہے اور وہی اس سے سب سے زیادہ متاثر بھی ہوتے ہیں۔
ٹک ٹاک کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کا الگوردھم حفاظت کو ترجیح دیتے ہوئے مختلف گروہوں کو اکٹھا کرتا ہے۔‘
صارفین زیادہ تر اپنے لیے ایلگوردھم کے ذریعے ڈیزائن کردہ ’فار یو پیج‘ پر مواد دیکھتے ہیں۔ یہ منتخب کردہ مختصر ویڈیوز کی ایک فیڈ ہوتی ہے جو ہر فرد کو اپنی جانب مائل کرنے کے لیے الگوردھم کا استعمال کرتی ہے۔
جب آپ ٹک ٹاک پر کوئی ویڈیو پوسٹ کرتے ہیں تو وہ دوسرے صارفین کی فیڈ پر بھی نظر آتی ہے جن کے بارے میں ٹک ٹاک کے ایلگوردھم کو گمان ہوتا ہے کہ انھیں یہ ویڈیو اچھی لگ سکتی ہے۔ یعنی اسے سوشل میڈیا پر صرف آپ کے دوستوں اور فالوئرز تک ہی نہیں پہنچایا جاتا۔
ایلگوردھم اس دوران یہ جانچتا ہے کہ اس ویڈیو کے ساتھ صارفین کس طرح انگیج کر رہے ہیں اور پھر اسے اس مناسبت سے کروڑوں صارفین تک پہنچا دیتا ہے جو کسی بھی دوسرے سوشل میڈیا نیٹ ورک سے رفتار اور صارفین کی تعداد کے اعتبار سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔
سابق ملازمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جہاں اکثر سوشل میڈیا صارفین صرف مواد کو دیکھتے ہیں ٹک ٹاک صارفین میں ان کے برعکس اپنی ویڈیوز بنانے کا رجحان کافی زیادہ ہے۔
اولیویا کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک پر ایڈاہو جیسے موضوعات پر ملنے والے ویوز اور انگیجمنٹ صارفین کو خود ویڈیوز بنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’ٹک ٹاک پر اگر ایک ویڈیو کروڑوں مرتبہ پلے کی جائے تو اس کے برعکس اس ویڈیو کو انسٹاگرام پر صرف 200 افراد دیکھیں گے۔ یہ صرف ٹک ٹاک کے ایلگوردھم کا کمال ہے “
16،15 سال یا اس سے کم عمر کے بچوں کے لیے یہ ایپ کسی طرح سے بھی مفید نہیں ہیں خاص طور پر اگر وہ اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ ٹک ٹاک کےذریعےسائبربلئنگ Cyber Bullying کے امکانات بھی کافی زیادہ ہیں۔ اسکولوں کے بچے اپنے ہم جماعتوں کو تنگ کرنے اور مشکلات میں ڈالنے کے لیے TikTok کے ذریعے اُن کی تصاویر اور وڈیو فلمیں بنا کر ان کا غلط استعمال کرکے ان کو نہ صرف بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اکثر اوقات ان کو خودکشی جیسے انتہائی اقدامات اٹھانے پر مجبور کردیتے ہیں۔اس طرح کے واقعات تقریباً ہرملک میں ہورہے ہیں۔اس ایپ پرتحقیق کرنے والوں کاکہنا ہےکہ یہ لوگوں کےبارےمیں ڈیٹاجمع کرنے کے ساتھ ساتھ صارفین کی نجی اورحساس معلومات بھی جمع کرتا ہے۔اس بات میں تو ذرابھی شک نہیں ہے کہ جب ہم کسی بھی سوشل میڈیاایپ یا پلیٹ فارم کو اپنے استعمال میں لاتے ہیں تو غیر محسوس طور پر اپنا ذاتی ڈیٹا اور متعدد معلومات اُن کے حوالے کررہے ہوتے ہیں۔ ٹک ٹاک جیسی وڈیو شیئرنگ ایپ کےلئے وڈیوز بنانے اور دوسروں کی نقل کرنے کےنتیجے میں کئی بچے اورنوجوان اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
اس ایپ پر ڈالی جانے والی وڈیوز اور ان کا زیادہ تر مواد اخلاقیات سے گرا ہوا ہوتا ہے۔ فحاشی اور بےحیائی کو فروغ دینے والی جسمانی ساخت پرمبنی ویڈیوز بھی اس کاحصہ بنتی ہیں، جو فلٹر استعمال کرکے بنائی جاتی ہیں۔جس میں آپ اپنی عمرکم دکھا سکتے ہیں، اپنے آپ کو پُرکشش اور حسین وجمیل دکھا سکتے ہیں۔ سستی شہرت حاصل کرنے، اپنے فالوئرز بڑھانے نیز لوگوں کو متاثر کرنے کے چکر میں زیادہ تر نوجوان نسل اس کا شکار ہورہی ہے۔ یہاں تک کہ دس دس اور گیارہ گیارہ سال کے بچے بھی اس میں لگے ہوئے ہیں۔ اپنی وڈیوز کو مقبول بنانے کے لیے کبھی ایک ایک منٹ سانس بند کرنے کی مشق کی جاتی ہے تو کبھی چلتی ترین سے چھلانگ مارنے کی کوشش، بہت سے بچے اس شغل میں اپنی جان کی بازی ہار بیٹھے ہیں۔ کثرت سے ان ایپس کے استعمال کےباعث بچوں کی خدا سے دُوری، تعلیم میں عدم دلچسپی، چڑچڑاپن، نیند کا فقدان اور ذہنی عوارض جیسے مسائل عام ہیں ۔سوشل میڈیا ہو یا ٹیلی وژن پر دیکھی جانے والی اخلاق سوز فلمیں ان کی وجہ سے معاشرے پر منفی اثرات مترتب ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب دنیا کے مختلف ممالک کے سیاسی لیڈراورسربراہان نے بھی اس ایپ کے زہریلے اثر سے اپنی نوجوان نسل اور خاص طور پر 16سال سےکم عمر بچوں کو بچانے کی باتیں شروع کردی ہیں اوربعض اس ایپ کو اپنے ممالک میں بین Ban کرنے کے لئے بِل منظور کررہے ہیں۔مگر ہمارے پیارے حضور سیدنا مسرور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تو بہت پہلےہی ٹک ٹاک کےاستعمال اور اس کے بُرےاثرات سے بچنےکی طرف توجہ دلائی تھی۔ 3؍ اپریل 2019ء کو نیشنل صدر صاحبہ لجنہ اماءللہ کینیڈا نے تمام لوکل اورریجنل صدرات سے حضورانور کی ہدایت پرمبنی درج ذیل سرکلربذریعہ ای میل شیئرکیا۔
” حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کےعلم میں آیاہےکہ آجکل ”TikTok“ کے نام کےساتھ ایک نیاسافٹ وئیربعض لجنہ اورناصرات بھی استعمال کررہی ہیں جس پرلوگ اپنی چھوٹی چھوٹی Videos بنا کر لگاتے ہیں۔ ایسے سافٹ وئیر کا استعمال ایک احمدی لڑکی کے شایانِ شان نہیں اور اس کے وقار کے خلاف ہے۔اس لئے آپ شعبہ تربیت کےکاموں میں اس بات کوبھی شامل کریں کہ جوبھی ایسے پروگرام یا سافٹ وئیر آتے ہیں تو آپ ہرجگہ لجنہ اور ناصرات کو توجہ دلاتی رہا کریں کہ ہرایک ان سے خود بھی بچے اور اپنے ماحول میں لجنہ اورناصرات کو بھی ان سے بچنے کی طرف توجہ دلاتی رہیں۔اللہ تعالیٰ آپ سب کواس کی توفیق عطافرمائے۔ آمین“
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جنہیں ہراحمدی بچے اور بچی کی تربیت کی فکرہے، ایک درد ہے کہ تمام احمدی بچے اوربڑے خدا والے بنیں، اپنی جماعت، خاندان اور ملک کے لئے مفید وجود بنیں۔ آپ بارہا افرادِجماعت کو مغربی معاشرے میں بڑھتی ہوئی برائیوں سے بچنے کی تلقین فرماچکے ہیں۔آپ 23؍ اپریل 2010ء کےخطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:
’’آج کل تو دنیا کی چمک دمک اور لہو ولعب، مختلف قسم کی برائیاں جو مغربی معاشرے میں برائیاں نہیں کہلاتیں لیکن اسلامی تعلیم میں وہ برائیاں ہیں، اخلاق سے دور لے جانے والی ہیں، منہ پھارے کھڑی ہیں جو ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کرتی ہیں ۔جیسا کہ میں نے کہاپہلے روشن خیالی کے نام پر بعض غلط کام کئے جاتے ہیں اور پھر وہ برائیوں کی طرف دھکیلتے چلے جاتے ہیں۔ تو یہ نہ ہی تفریح ہے، نہ آزادی بلکہ تفریح اور آزادی کے نام پر آگ کے گڑھے ہیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے جو اپنے بندوں پر انتہائی مہربان ہے، مومنوں کو کھول کر بتا دیا کہ یہ آگ ہے۔ یہ آگ ہے، اس سے اپنے آپ کو بھی بچاؤ اور اپنی اولادوں کو بھی بچاؤ۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں جو اس معاشرے میں رہ رہے ہیں ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ یہ تمہاری زندگی کا مقصد نہیں ہے۔ یہ نہ سمجھوکہ یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے کہ اس لہو و لعب میں پڑا جائے، یہی ہمارے لئے سب کچھ ہے۔ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے تمہارے میں اور غیر میں فرق ہونا چاہئے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍اپریل 2010ءبمقام سوئٹزرلینڈ۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 14؍مئی 2010ءصفحہ 7)
عالمی سطح پراس وقت ٹک ٹاک صارفین کی تعداد:
- عالمی سطح پر اس وقت ٹک ٹاک صارفین کے لحاظ سے پانچواں سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے اور اس کے فعال صارفین کی تعداد 2.5 بلین ہے۔
- TikTok کے سب سے بڑے صارف ۱۸؍ سے ۲۴ ؍سال کی عمر کے بچے ہیں جو اس کے کل صارفین کا 36.2 فیصد ہیں ،جبکہ 33.9 فیصد صارفین ۲۵ ؍سے ۳۴؍ سال کی عمر کے ہیں۔
- TikTok کے صارفین میں 54.3 فیصدمرد اور 45.7 فیصد خواتین ہیں۔
اس ایپ کے بارےمیں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ جاسوسی کےلئےلانچ کی گئی ہے۔اسی وجہ سے دنیا کی بڑی طاقتوں کےسربراہان کوبھی فکر لاحق ہوئی ہے اور وہ اس ایپ کےمضر اثرات سے اپنی نئی نسل کوبچانے کی تدابیر کررہے ہیں۔دنیا کے بہت سےممالک نے TikTok پرپابندی لگادی ہے، کہیں بل پاس ہوگیا ہے اور کہیں بل پاس کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
6؍ نومبر2024ء کویہ خبرکینیڈا کےمیڈیا پرعام تھی کہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈوکی حکومت نے ٹک ٹاک کوکینیڈامیں کام کرنے پرپابندی لگادی ہے۔ (Trudeau government bans TikTok from operating in Canada(CBC News)-) وزیراعظم جسٹن ٹروڈوصاحب پہلےسربراہِ مملکت نہیں جنھوں نے اس خطرہ کومحسوس کیا ہے۔ اُدھر آسٹریلیا سے بھی جمعرات 7؍ نومبر2024ء کو یہ خبرآئی کہ آسٹریلیا کے وزیر اعظم نے جمعرات 7؍ نومبر 2024ء کو 16 سال سے کم عمر بچوں پر سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی لگانے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ فیس بک، ٹک ٹاک، ایکس اورانسٹاگرام Facebook, Instagram, Elon Musk’s X and Bytedance’s TikTok جیسے پلیٹ فارمز کا اثر بچوں کو ’حقیقی نقصان‘ پہنچا رہا ہے۔
وزیر اعظم انتھونی البانیز نے کہا ”میں نےہزاروں والدین، دادا دادی، نانا نانی، آنٹیوں اور چچاوؤں سےبات کی ہے وہ بھی میری طرح، ہمارے آن لائن بچوں کی حفاظت کےبارے میں بہت پریشان ہیں۔“ یہ قانون اس سال 18؍ نومبرسےشروع ہونے والےاجلاس کے آخری دوہفتوں کےدوران ملکی پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ مسٹر البانیز نےمزید کہا کہ ”عمر کی حدقانون کے منظور ہونے کے ایک سال بعد نافذالعمل ہوگی۔ جس میں فیس بک، انسٹاگرام، ایلون مسکز ایکس اور بائٹڈنس کے ٹک ٹاک سمیت پلیٹ فارمز۔ان 12مہینوں میں اس بات پر کام کیا جائے گا کہ 16سال سےکم عمربچوں کوان (سوشل میڈیا) ایپس سے کیسے نکالا جائے۔“
ٹیک کمپنیوں کو اس عمر کی حد کے نفاذ کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور اگر ریگولیٹرز نے کم عمر صارفین کو اس حد کو نظرانداز کرتے ہوئے پایا تو ان پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں گے۔“
(العربیہ ۔اردو صفحہ اول، جمعہ 8جمادی الاول 1446ھ ،8؍نومبر2024ء)
( Sky News Thursday 7th,Novembor, UK،7/نومبر2024ءسکائی نیوز،یوکے)
امریکی حکام بھی ایک لمبےعرصہ سے ٹک ٹاک پرپابندی لگانے کے خواہاں ہیں ۔امریکہ کے موجودہ صدرجوبائیڈن بھی اس پر بِل پاس کرچکے ہیں۔ اگر صرف امریکہ کی ہی بات کی جائے تو 15؍ کروڑ سے زیادہ امریکی ٹک ٹاک کا استعمال کرتے ہیں جبکہ درجن سےزائد ممالک اس ایپ پر پابندی لگا چکے ہیں اورکچھ اس پر پابندیاں لگانے کاسوچ رہے ہیں۔ امریکہ میں ایک درجن سےزیادہ ریاستوں نےیہ الزام لگاتےہوئے TikTok پر مقدمات درج کئے ہیں کہ ٹک ٹاک سے نہ صرف بچوں کونقصان پہنچ رہا ہے بلکہ اسے اس طریق پر ڈیزائن کیا گیا ہے جس سےاس کی لَت پڑجاتی ہے۔
(NPR,news October11th’2024)
ٹک ٹاک پرجزوی پابندیاں Ban لگانےوالے یاعارضی پابندیاں لگانے کی کوشش کرنے والے چند ممالک کی فہرست
براعظم افریقہ: سینیگال، صومالیہ، کینیا
براعظم ایشیاء: افغانستان، آرمینیا، آذربایجان، بنگلہ دیش، انڈیا، انڈونیشیاء، ایران کےقانون کے مطابق وہاں ٹک ٹاک پرپابندی ہے اگر کسی اورذرائع سے کوشش کی جائے تو اسے سینسر کردیا جاتا ہے۔،اردن، کرگستان، نیپال، پاکستان 2021ء میں 15مہینوں کے لئے پابندی لگائی اور پھر اٹھا دی گئی۔فلپائن، ویت نام، اُزبکستان وغیرہ۔
یورپ: بیلجیم،ڈنمارک، فرانس، اسٹونیا، آئیرلینڈ، لٹویا، مالٹا، ہالینڈ، ناروے، رشیا، برطانیہ،
نارتھ امریکہ: کینیڈا، امریکہ،
اوشینیا: آسٹریلیا، نیوکیلنڈونیا، نیوزی لینڈ
حضرت مسیح موعودومہدی معہودعلیہ السلام نےکیاخوب فرمایاہے:
”یادرکھوکہ ہزاردرہزارتجارب سےیہ بات ثابت شدہ ہےکہ جن باتوں سےاللہ تعالیٰ روکتاہےآخرکارانسان کواُن سےرُکناہی پڑتاہے۔“
(ملفوظات جلد4صفحہ 105۔ایڈیشن 1995ء)
لغو باتوں (جن میں ٹی وی اور انٹرنیٹ وغیرہ بھی شامل ہیں ) سے اعراض کرنے کے بارے میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے کئی مواقع پر نصائح فرمائی ہیں۔ چنانچہ لجنہ اماءاللہ جرمنی کے ایک اجتماع میں ارشاد فرمایا:
’’پھر لغو باتیں ہیں۔ ان لغو باتوں کے لئے میں خاص طور پر بچوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ لغو باتیں صرف وہ باتیں ہی نہیں جو بڑی بوڑھیاں بیٹھ کر کرتی ہیں۔ وہ تو کرتی ہیں اُن کو اس سے روکنا ہی ہے، لیکن دس بارہ سال کی عمر کی لڑکیوں سے لے کے نوجوان لڑکیوں تک کےلئے جو ٹی وی اور انٹر نیٹ ہے یہ آج کل لغویات میں شامل ہو چکا ہے۔ اگر آپ لوگ سارا دن ایسے پروگرام دیکھ رہی ہیں جس میں کوئی تربیت نہیں ہے تو یہ لغویات ہے۔ انٹرنیٹ جوہے، اُس میں بعض دفعہ ایسی جگہوں پر چلی جاتی ہیں جہاں سے پھر آپ واپس نہیں آ سکتیں اور بےحیائی پھیلتی چلی جاتی ہے۔ بعض دفعہ ایسے معاملات آ جاتے ہیں کہ غلط قسم کے گروہوں میں لڑکوں نے لڑکیوں کو کسی جال میں پھنسا لیا اور پھر اُن کو گھر چھوڑنے پڑے اور اپنے خاندان کے لئے بھی، جماعت کے لئے بھی بدنامی کا باعث ہوئیں۔ اس لئے انٹرنیٹ وغیرہ سے بہت زیادہ بچنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بھی ذہنوں کو زہریلا کرنے کے لئے انٹرنیٹ پر بہت سارے پروگرام ہیں۔ ٹی وی پر بے حیائی کے بہت سارے پروگرام ہیں۔ ایسے چینل والدین کو بھی بلاک(block)کر کے رکھنے چاہئیں جو بچوں کے ذہنوں پر گندے اثر ڈالتے ہوں۔ ایسے مستقل لاک(lock) ہونے چاہئیں۔ اور جب بچے ایک دو گھنٹے جتنا بھی ٹی وی دیکھنا ہے دیکھ رہے ہیں توبیشک دیکھیں لیکن پاک صاف ڈرامے یا کارٹون۔ اگر غلط پروگرام دیکھے جا رہے ہیں تو یہ ماں باپ کی بھی ذمہ واری ہے اور بارہ تیرہ سال کی عمر کی جو بچیاں ہیں اُن کی بھی ہوش کی عمر ہوتی ہے، اُن کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس سے بچیں۔ آپ احمدی ہیں اور احمدی کا کردار ایسا ہونا چاہئے جو ایک نرالا اور انوکھا کردار ہو۔ پتہ لگے کہ ایک احمدی بچی ہے۔ ‘‘
(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 17 ؍ستمبر 2011ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍نومبر2012ء)
ٹک ٹاک اوردیگرایپس کےبےجا استعمال سےتدارک
بچے چونکہ والدین کے سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اس لئے یہ ان کافرض ہےکہ وہ دوستانہ ماحول میں ٹیکنالوجی کے فوائد اور مضر اثرات سے ان کو آگاہ کریں ان کےساتھ وقت گذاریں۔ آج کل مائیں اپنے بچوں کو بہت کم عمری میں ہی فون پکڑا دیتی ہیں اور اس چیز سے بےخبر ہوتی ہیں کہ وہ اس پر کیا دیکھیں گے۔اس سے اجتناب کریں بچےّ غلطی سے اس طرح کی ایپس کھول لیتے ہیں جو ان کے لئے بہت نقصان دہ ہوسکتی ہیں۔ اس بات کا بھی غالب امکان ہوسکتا ہے کہ بچے کی وجہ سے حساس معلومات شئیر ہوجائیں۔
-ہفتہ میں صرف ایک دن چار گھنٹوں کے لئے تمام افرادخانہ اپنے موبائل فونز بند کرکے ایسی جگہ پر رکھیں جہاں پر بڑوں اوربچوں کی نظر نہ پڑے، یہ چار گھنٹے والدین اور بچے آپس میں گذاریں، یا کوئی ہلکی پھلکی گیم کھیلیں۔پھر دورانیہ بڑھاتےجائیں۔
-فون پر آلارم لگانے کی بجائے بچوں کو آلارم کلاک لےکردیں۔ سونے سے پہلے تمام ڈیوائسز گھر کے بڑوں کی نگرانی میں کسی ایسی جگہ پر رکھی جائیں جہاں سے اگلے روز سارے وصول پالیں۔
۔عموماًبچےفارغ وقت میں ٹیکنالوجی کا بےجا استعمال کرتے ہیں۔انہیں فارغ نہ رہنےدیں کسی نہ کسی کام میں مشغول رکھیں۔
یہ بات مدّنظررہنی چاہئے کہ ہمیشہ سے رحمانی اور شیطانی قوتیں مدمقابل ہیں ۔شیطان ہرروپ میں انسان پر حملہ کرتا ہے، کبھی مال و دولت کی ہوس دل میں ڈال کر تو کبھی برائیوں اور بےحیائیوں کی طرف رغبت دلا کر۔ غرض اس کے بہکانے کےبہت سےطریق ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر خاص احسان ہے کہ انہیں خلافت جیسی نعمت عظمیٰ عطا کی ہے۔ زمانے کی ترقی کے ساتھ جو نت نئی برائیاں جنم لیتی ہیں خلیفۂ وقت نہ صرف جماعت کو اس سے مطلع فرماتے ہیں بلکہ اُن شیطانی حربوں سے بچنے کے طریق بھی بتاتے ہیں تاکہ رحمان کے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط رہے۔
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس ضمن میں ہماری راہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔(حٰم سجدہ:37) اگر تجھے شیطان کی طرف سے کوئی بہکا دینے والی بات پہنچی ہے، ایسی باتیں شیطان پہنچائے جو احسن قول کے خلاف ہو تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی بہت زیادہ دعا کرو۔ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم پڑھو۔ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ پڑھو۔ اللہ تعالیٰ یہ امید دلاتا ہے جو سننے والا اور جاننے والا ہے کہ اگر نیک نیتی سے دعائیں کی گئی ہیں تو یقیناًوہ سنتا ہے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 18 ؍اکتوبر 2013 ءبمقام مسجدبیت الہدیٰ،سڈنی۔آسٹریلیا۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8؍نومبر2013ء)
- آخر پر آئیے اس بات کاجائزہ لیں کہ کیاہم اورہمارےبچےصحیح سمت میں جارہے ہیں ؟
- کیا بحیثیت والدین ہم اپنی ذمہ داریاں اسلامی تعلیمات اور حضورانور کی سوشل میڈیا کےبارے میں قیمتی ہدایات اورزریں نصائح کی روشنی میں کماحقہ ادا کررہے ہیں؟
- کیا ہم خود اپنے بچوں کے لئے ہر نیک عمل میں نمونہ ہیں؟
- کیا ہم والدین کہیں ان سوشل میڈیا ایپس کا غلط استعمال تونہیں کررہے؟
- کیا ہم ٹیکنالوجی میں جدت اور اس کےمضر اور مثبت اثرات سےواقف ہیں؟
خلاصہ کلام یہ کہ تمام شیطانی حملوں سے بچنے اور اُن کا دفاع کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خلافت اور نظام جماعت کے ساتھ مضبوط اور پختہ تعلق رکھا جائے اور خلیفۂ وقت کی طرف سے دی جانی والی تمام ہدایات اور نصائح پر عمل کیا جائےتاکہ ہم اور ہمارے اہل خانہ ہمیشہ عافیت کی حصار میں داخل رہیں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو ۔ آمین یارب العالمین