اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (دورہ ٔجرمنی و بیلجیم ۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ ششم)
ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
ہمیشہ خدمت کے لیے تیار
چند دن پہلے اعلان کیا گیا تھا کہ امریکہ سے تعلق رکھنے والے ایک احمدی مسلم ماہرِ اقتصادیات عاطف میاں کو پاکستان کی نئی حکومت نے اپنی اقتصادی مشاورتی کونسل میں شامل کیا ہے۔
ان کی اس طرح غیر متوقع تقرری کو پاکستان کے انتہاپسند علماء کی جانب سے شدید غصے اور تعصب کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر بھی پاکستان کے وزیرِ اطلاعات نے عوامی تبصروں میں اس تقرری کا دفاع کیا اور کہا کہ نئی حکومت عاطف کی تقرری واپس نہیں لے گی۔ آنے والے دنوں میں انتہا پسند علما ء اور ان کے لگے بندھوں کا احتجاج مزید بڑھتا چلا گیا۔
جس دن جلسہ سالانہ شروع ہونا تھا مجھے معلوم ہوا کہ مولویوں کے دباؤ کے باعث پاکستانی حکومت نے عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کونسل سے استعفیٰ دینے کو کہا ہے۔ ذاتی طور پر میرا فوری ردعمل افسوس کا تھا کیونکہ یہ احساس کہ نئی حکومت احمدیوں کے مسئلے پر گزشتہ پاکستانی حکومتوں سے مختلف ہو سکتی ہے بکلی ختم ہو گیا۔
اسی شام اور اگلے دن بھی مجھے ان تازہ ترین معلومات کو حضورِانور کی خدمت میں پیش کرنے کی توفیق ملی جبکہ یہ خبر ابھی اتنی پھیلی نہیں تھی۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی حضورِانور نے ایسی ہدایت عطا فرمائی جو آپ کی دلی پاکیزگی اور اسلامی تعلیمات کی خوبصورتی کی عکاسی کرتی تھی۔ حضور کی راہنمائی سے مجھ پر یہ واضح ہو گیا کہ دہائیوں سے ہونے والے مسلسل مظالم برداشت کرنے کے باوجود احمدی مسلمان کیوں پاکستان کے وفادار اور مخلص شہری ہیں۔
حضورِانور نے فرمایا کہ عاطف میاں کو کہہ دو کہ چاہے وہ انہیں نکال دیں یا استعفیٰ دینے کو کہیں، انہیں یہ واضح کرنا چاہیےکہ وہ ہمیشہ پاکستان کی خدمت کے لیے تیار ہیں۔ اپنے ملک سے محبّت اور احمدی مسلمان ہونے کے ناطے انہیں یہ واضح کرنا چاہیے کہ وہ بغیر کسی شناخت کے قوم کی خدمت کے لیے ہمیشہ تیار ہیں۔
حضورِانورنے مزید فرمایا کہ جس لمحے عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کونسل میں شامل کیا گیا تو مجھے معلوم تھا کہ نتیجہ یہی ہوگا اور حکومت مولویوں کے دباؤ کو برداشت نہیں کر سکے گی۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ آپ یہ بھی امریکہ کی جماعت اور دیگر احمدیوں کو بتا دیں کہ انہیں اس مسئلے پر پاکستانی حکومت پر تنقید نہیں کرنی چاہیے اور ان کے تبصرے پاکستانی اقتصادی مشاورتی کونسل کی کامیابی کے لیے امید اور دعا تک محدود ہونے چاہئیں۔ ہمارا مطمحِ نظر ہمیشہ یہی ہے کہ پاکستان کامیاب ہو اور ترقی کرے، چاہے وہ ہمارے ساتھ کیسا بھی سلوک کریں۔
حضور انورکے الفاظ حیرت انگیز تھے۔ حقیقتاً مَیں انگشت بدندان رہ گیا اور بہت متاثر ہوا۔ باوجود اس شدید ظلم کے جو احمدیوں پر روا رکھا جا رہا ہے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ الله نے اس موقع پر نہ تو کسی احتجاج اور نہ ہی کسی قسم کے اظہارِ برہمی کی بات کی۔بلکہ ہمیں یہ ردعمل دکھانے کا ارشاد فرمایا کہ ہم اپنی خدمات پیش کرتے رہیں اور اس قوم کی کامیابی کے لیے دعا کرتے رہیں جس نے ہمیں رد کر دیا تھا۔ واقعی اگر آج کی دنیا میں کوئی شخص حضرت نبیٔ اکرم صلی الله علیہ وسلم کی صبر اور قیامِ امن کے اُسوے پر عمل پیرا ہے تو وہ حضرت خلیفۃالمسیح ہیں۔
اپنے لوگوں پر نظرِ کرم فرماتے ہوئے
شام سوا سات بجے جلسہ سالانہ کے پہلے سیشن کے اختتام کے بعد حضورِانور اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اورجلسہ کے مقام پر اپنے دفتر کی طرف روانہ ہوئے۔ مَیں اس وقت حضورِانور کی رہائش گاہ کے باہر کھڑا تھا اس لیے مجھے حضورِانور کے ساتھ دفتر تک جانے کا شرف حاصل ہوا۔
جب حضورِانور سیڑھیاں چڑھ کر تیسری منزل پر پہنچے تو آپ نے چند سیکنڈزکے لیے توقّف فرما کر گراؤنڈ فلور کی مرکزی لابی میں موجود ہزاروں احمدیوں کی طرف دیکھا۔
چند لوگوں نے سر اُٹھا کر حضورِانور کو دیکھا اور خوشی سے ہاتھ لہرانا شروع کیا، لیکن اکثریت کو اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ حضورِانور ان کو دیکھ رہے ہیں۔ مَیں چاہتا تھا کہ سب لوگ اوپر دیکھ کر یہ مشاہدہ کریں کہ حضورِانور کتنی محبّت و شفقت کے ساتھ ان کی طرف دیکھ رہے ہیں مگر اکثریت بے خبر رہی اور اپنے کاموں میں مصروف رہی۔
کوئی مجھ سے اگر پوچھے تو میرے لیے یہ چند لمحے بہت ہی خاص تھے کیونکہ مجھے حضورِانور کے ہمراہ اُس وقت کھڑا ہونے کا موقع میسر آیا کہ جب حضورنے جلسے کے ماحول اور اپنی جماعت کو دیکھ کر اظہارِ خوشنودی فرمایا۔
اللہ کا ایک عاجز بندہ
اسی شام وفود سے ملاقات کے سلسلے میں حضورِانور کی پہلی ملاقات دو معزز مہمانوں سے ہوئی جو جلسہ سالانہ جرمنی میں شرکت کے لیے سینیگال سے تشریف لائے تھے۔اس کے بعداگلا وفد جس نے حضورِانور سے ملاقات کی سعادت حاصل کی، وہ تاجکستان اور لتھوانیا سے آنے والے مہمانوں پر مشتمل تھا۔
ایک مہمان نے ذکر کیا کہ روس اور بعض سابق سوویت ریاستوں میں اسلام کی مخالفت بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے قازقستان کے ایک سکول کا حوالہ دیا جہاں حال ہی میں حجاب پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
اس حوالے سے حضورِانور نے فرمایا کہ دنیا کو ایسے بااخلاق اور بہادر راہنماؤں کی ضرورت ہے جو انصاف کے لیے پُرعزم ہوں۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ زیادہ تر راہنما اور سیاست دان پارٹی وابستگیوں اور ذاتی اقتدار کی خواہش میں اندھے ہو چکے ہیں۔ عمومی طور پر اسلام کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جیسا کہ دیگر مذاہب کو کیا گیا۔ یہ سب دجّالی طاقتوں کا شاخسانہ ہے جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار فرمایا تھا۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ مثال کے طور پر آج وہ مسلمان خواتین سے حجاب اُتروانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ صرف ابتدا ہے، ان کا اصل مقصد قرآنِ کریم میں جدید زمانے کے حساب سے تبدیلیاں کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ تاہم مَیں کئی مواقع پر کہہ چکا ہوں کہ آج کے رجحانات مذہب کی راہنمائی کے لیے نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا سکھایا ہوا دین ہمیشہ انسانیت کی راہنمائی کے لیے ہے۔ یقیناً مسلم ممالک کو اسلامی اقدار کے دفاع کی خاطر متحد ہونا چاہیے۔ درحقیقت ہر مخلص مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات کی حفاظت اور دفاع کرے۔
ایک خاتون مہمان نے حضورِانور سے دریافت کیا کہ مسلمان مَرد اور خواتین زیادہ تر ایک دوسرے سے الگ کیوں رہتے ہیں؟
یہ ایک ایسا سوال تھا جو حضورِانور سے متعدد مواقع پر کیا جا چکا تھا اور جس کا جواب حضور پہلے کئی مرتبہ دے چکے تھے۔ پھر بھی حضورِانور نے انتہائی تحمل اور بُردباری کے ساتھ پردے کے تصور کو بیان کرتے ہوئے مَرد اور عورت کے آزادانہ اختلاط سے منسلک خطرات کو واضح فرمایا۔
حضورِانور نے فرمایا کہ اسلام سکھاتا ہے کہ جہاں کہیں بھی ذرا سے بھی اخلاقی بگاڑ یا برائی کا خطرہ ہو وہاں معاشرے کے تحفظ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بہتر ہے۔ اس لیے مَرد اور عورت کے معاملے میں اسلام یہ کہتا ہے کہ قریبی رشتہ داروں کے علاوہ ان کے درمیان قریبی تعلق سے احتیاط کرنی چاہیے۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ ماضی میں ان اسلامی تعلیمات پر مغربی دنیا نے تنقید کی اور ان کی مخالفت کی لیکن اب وہ ان کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں۔ ہر کسی نے ہالی وُوڈ (Hollywood)میں سامنے آنے والے حالیہ اسکینڈل میں دیکھا کہ کس طرح بعض مَردوں نے خواتین کا فائدہ اُٹھایا۔ یہ اسکینڈل بھی مَرد و عورت کے آزادانہ میل جول کا ہی نتیجہ تھا۔ اب مغربی ممالک کے کچھ شہروں، جیسے برلن وغیرہ میں ایسی تقاریب ہو رہی ہیں جن میں صرف خواتین شامل ہو سکتی ہیں۔ بہرحال، مَرد و عورت کے درمیان مناسب فاصلے کے باوجود اسلام مسلمانوں کوہمہ وقت اپنے ہم وطنوں کی خدمت کے لیے تیار رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ چنانچہ اگر آپ یا کوئی اَور خاتون مشکل میں ہوں یا آپ کو کسی خطرے کا سامنا ہو تو آپ دیکھیں گی کہ حقیقی مسلمان مَرد آپ کی مدد کے لیے سب سے آگے ہوں گے۔
اسی ملاقات کے دوران ایک میڈیکل کی طالبہ نے حضورانور سے منصبِ خلافت کی بابت راہنمائی طلب کی اور شاید درست اصطلاح کا علم نہ رکھنے کے باعث موصوفہ نے حضورِانور کو مسلم پوپ (Pope)کہہ دیا اور دریافت کیا کہ آپ مسلم پوپ کیسے بنے اور یہ اعلیٰ مقام کیسے حاصل کیا؟
حضورِانور نےنہایت ہی خوبصورتی سے جواب میں فرمایا کہ مَیں تو اللہ کا ایک عاجز بندہ ہوں، بس اتنا ہی! مَیں نے اس مقام کو حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا اور حقیقت یہ ہے کہ مَیں تو آج تک اس معمے کو حل نہیں کر پایا کہ مجھے یہ مقام (خلافت) کیسے حاصل ہوا؟
حضورِانور کا انتہائی مختصرجواب خوبصورتی اور عاجزی سے بھرا ہوا تھا، جو حضور کی پہچان ہے۔
(ترجمہ و انتخاب: قمر احمد ظفر)