مردوں کے فرائض
خاوند کے ذمہ بیوی کے حقوق
عورتوں کے حقوق کے ضمن میں حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنےایک خطبہ جمعہ میں بیان فرمایا:…بسااوقات عورت کو بدنام کرکے ایسی جھوٹی کہانیاں پیش کی جاتی ہیں اور اس کے حق سے محروم کرنے والی وہ باتیں قضا میں بھی اور عدالتوں میں بھی بیان کی جاتی ہیں۔ یا بعض دفعہ ان ملکوں میں یوں بھی ہوتا ہے کہ عورت کی کچھ جائیداد یا نصف جائیداد عدالتوں میں جا کر ہتھیانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ اﷲ تعالیٰ اس کو مکمل طور پر نا جائز قرار دیتا ہے۔ پھر یہ بھی بعض دفعہ ہوتا ہے کہ رشتہ دار بیوہ کو اس لئے شادی نہیں کرنے دیتے کہ اس عورت کے خاوند کی جائیدادپر ان کا تصرف رہے اور قبضہ رہے۔
یہ واقعات آج کل بھی ہو رہے ہیں اور ہوتے ہیں۔ بہت ساری شکایتیں آتی ہیں۔ یہ ایسے واقعات ہیں جن کو پندرہ سو سال قبل قرآنِ کریم نے بیان فرما کر ان سے بچنے کی طر ف مردوں کو توجہ دلا دی تاکہ عورت کے حق قائم رہیں۔ پھر بعض دفعہ رشتہ دار عورت کو اس کی مرضی کے خلاف اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ کسی ایسے شخص سے شادی کر لے جو ان کے عزیزوں میں سے ہے تاکہ فوت شدہ خاوند کی جو جائیداد ہے وہ باہر نہ جائے۔ خاوند بعض دفعہ غلط طریقے سے عورت کی جائیداد ہتھیا لیتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا ہے ان ملکوں میں قانونی کارروائیاں کر کے جو ہوتا ہے۔ خاوند کے رشتہ دار اس کے مرنے کے بعد بھی کرتے ہیں۔ اگر خاوند نہیں کر رہا تو خاوند کے رشتہ دار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ تمام صورتیں جو ہیں یہ منع ہیں اور عورت کو اس کے حق سے محروم کرنے والی بات ہے۔
عورت کو اس کی بیوگی یا طلاق کے بعد اپنی مرضی کی شادی کرنے کا بھی حق ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے۔ لیکن عورت کا نکاح چونکہ بغیر ولی کے نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اگر ایسی روکیں کھڑی ہو جائیں تو خلیفۂ وقت کے پاس عورت درخواست کرسکتی ہے اور اگر عذر جائز ہو تو خلیفۂ وقت ولی بن سکتا ہے یا ولی مقرر کر سکتا ہے یا وکیل مقرر کر سکتا ہے۔ تو اﷲ تعالیٰ عورتوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے اس آیت میں فرماتا ہے کہ: عَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:20) ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ ظلم اور زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو۔ نہ ان کی جائیداد پرنظر رکھو۔ نہ ان کو جو تم دے چکے ہو اس پر نظر رکھو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیوی سے نیک سلوک رکھے۔ پھرآپﷺ نے فرمایا: اپنی بیویوں سے سب سے زیادہ نیک سلوک کرنے والا میں ہوں ‘‘۔ (سنن ابی ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشرۃ النساء حدیث 1977)
تو دیکھیں مردوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اُسوہ سے عورت کے حقوق قائم کرنے پر مزید توجہ دلوادی۔
یہاں اس آیت(النساء :۲۰) میں جو یہ فرمایا ہے کہ سوائے اس کے کہ عورتیں کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوں، یہاں واضح ہو کہ اس کا تعلق بھی مال لینے سے نہیں ہے۔ یعنی یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی عورت، کسی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہو رہی ہے تو مرد اُن کے مال پر قبضہ کر لیں۔ بلکہ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے اس کا تعلق ہے یا حق دلانے کے ساتھ تعلق ہے۔
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: نہ اِس وجہ سے(یعنی کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوں ) اسے اپنی چیز سے جو اس عورت کی ملکیت ہے محروم کرنے کی کوشش کرواور نہ ہی اس کا جو حق تم پر بنتا ہے اُس سے اُسے محروم رکھنے کی کوشش کرو۔ ذرا ذرا سی بات پر جو مرد عورت کو تنگ کرتے ہیں یا انہیں طلاق دینے کی دھمکیاں دیتے ہیں، یہاں اﷲ تعالیٰ نے اس بات سے بھی عورت کا حق محفوظ رکھتے ہوئے مرد کو نصیحت فرما دی ہے‘‘۔
مزید فرمایاکہ:’’ عورت کی غلطیوں اور کمزوریوں سے صَرف نظر کرو اور صِرف صَرفِ نظر ہی نہیں بلکہ اس سے شفقت اور مہربانی کا سلوک کرو اور یہ شفقت اور پیار کا سلوک صرف کسی بات پر خوش ہو کر نہیں کرنا بلکہ اگر تم انہیں ناپسند بھی کرتے ہو تب بھی کرو۔ پس یہ وہ اعلیٰ معیار ہے جو اسلام نے عورت کا حق قائم کرتے ہوئے مقرر فرمایا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب کوئی شخص اپنی ضرورتوں کو پورا کر لے، جس کے لئے اُسے سفر کرنا پڑا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہوئے جلد گھر واپس آجائے۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد و السیر باب السرعۃ فی السیر حدیث3001)
اور ایک شادی شدہ مرد کے لئے قریبی رشتہ دار اس کے بیوی بچے ہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ عورتیں بعض گھروں میں اکیلی بیٹھی رہتی ہیں۔ بیاہ کر نئی لڑکیاں یہاں آئی ہیں، ان ملکوں میں کوئی واقف نہیں ہے، گھر میں بند پڑی ہیں اور ان ملکوں کے موسم بھی ایسے ہیں اس لئے بعض دفعہ ڈیپریشن کا شکار بھی ہو جاتی ہیں اور مرد کام کے بعد اپنے دوستوں میں بیٹھے گپیں مارتے رہتے ہیں۔ تو یہ حق بھی عورت کا آنحضرتﷺ نے قائم فرمایا۔ مردوں کو نصیحت فرمائی کہ عورتوں کو ان کا حق دو۔ رشتہ داروں کو ان کا حق دو۔ بچوں کو ان کا حق دو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سختی سے اس حرکت کو ناپسند فرمایا ہے کہ بیٹھ کے پھر بعد میں گپیں ماری جائیں اور عورت کو چھوڑ دیا جائے‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب ازمستورات فرمودہ 26؍جولائی 2008ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍اپریل 2011ء)
(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ ۱۷۳-۱۷۷)