حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

امانت اور دیانت کے معیاروں کو پرکھتے رہو

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ جب تقویٰ کے بارے میں بار بار تلقین فرماتا ہے تو اس لئے کہ اپنے جائزے لو اور دیکھو کہ کمزوروں کے حق ادا ہو رہے ہیں یا نہیں ہو رہے۔ امانت اور دیانت کے معیاروں کو پرکھتے رہو۔ یہ نہ ہو کہ ان کے نیچے چھپی ہوئی خیانتیں ہوں جو آگ کے گولے پیٹ میں بھرنے کا باعث بن جائیں۔ پھر خدا تعالیٰ یہ حکم فرماتا ہے کہ وَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ (الانعام: ۱۵۳) اور انصاف کے ساتھ ماپ اور تول پورے پورے دو۔ یہاں اب عمومی طور پر اپنے کاروباروں کو انصاف اور ایمانداری کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ادا کرنے کا حکم ہے۔ پہلے یتیموں اور کمزوروں کا حق قائم کیا اور ایمانداری سے اُن کا حق ادا کرنے کا حکم دیا تو اب آپس کے کاروباروں کو صفائی اور ایمانداری سے بجا لانے کا حکم ہے۔ کسی قسم کا دھوکہ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر دوسرا فریق لا علم ہے تب بھی دھوکہ نہ ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم کوئی جِنس بیچ رہے ہو تو اگر جنس میں کسی قسم کی کمی ہے تو اُس کو سامنے رکھو تاکہ خریدار کو پتہ ہو کہ جو مال میں خرید رہا ہوں، اُس میں یہ نقص ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب التجارات باب من باع عیبا فلیبینہ حدیث ۲۲۴۶)

ایک دوسری جگہ کاروباری لین دین اور ماپ تول کے صحیح کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا (بنی اسرائیل: ۳۶) یہ بات سب سے بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھی ہے۔ یعنی اچھے تاجر صحیح ماپ تول کرنے والے تاجر کی شہرت بھی اچھی ہوتی ہے اور اُس کے پاس پھر زیادہ گاہک بھی آتے ہیں۔ نتیجۃً اُس کا کاروبار بڑی تیزی سے ترقی کرتا ہے۔ اگر دھوکہ ہو تو کاروبار ختم ہو جاتا ہے۔

ایک دوسری جگہ یہ بھی خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جو دھوکہ دہی ہے یہ فساد کا باعث بنتی ہے لیکن مشکل یہ ہے بلکہ افسوس یہ ہے کہنا چاہئے کہ جتنا زیادہ قرآنِ کریم نے احکام کھول کھول کر بیان فرمائے ہیں اتنے ہی مسلمان اُس ایمانداری کے معیار سے نیچے گرتے چلے جا رہے ہیں۔ کہاں تو مسلمانوں کے ایمان کا اور امانت اور دیانت کا یہ حال تھا کہ ایک شخص اپنے گھوڑے کو بیچنے کے لئے بازار میں لایا اور کہا کہ اس کی قیمت پانچ سو درہم ہے۔ اور ایک دوسرے صحابی نے اُسے دیکھا اور پسند کیا اور کہا کہ میں اُسے خریدوں گا، یہ مجھے پسند ہے لیکن اس کی قیمت پانچ سو درہم نہیں ہے۔ وہ آدمی سوچتا ہے کہ شاید کم بتائے بلکہ بالکل الٹ فرمایا کہ یہ ایسا اعلیٰ گھوڑا ہے کہ اس کی قیمت دو ہزار درہم ہونی چاہئے۔ اس لئے میرے سے دوہزار درہم لے لو۔ اب بیچنے والے اور خریدنے والے کی بحث چل رہی ہے۔ بیچنے والا پانچ سو درہم سے اوپر نہیں جا رہا اور خریدنے والا دوہزار درہم سے نیچے نہیں آ رہا۔ (ماخوذ از المعجم الکبیر للطبرانی جلد دوم صفحہ۳۳۴-۳۳۵ ابراہیم بن جریر عن ابیہ حدیث ۲۳۹۵ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)تو یہ معیار تھا جو مسلمانوں کا تھا، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں اور آپؐ کے صحابہ ؓکی صحبت میں رہنے والوں کا تھا۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍اگست ۲۰۱۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍اگست ۲۰۱۳ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button