قرآن کریم نے ہر قسم کی بددیانتی کو حرام ٹھہرایا ہے
اب دیکھو خدا تعالیٰ نے دیانت اور امانت کے کس قدر پہلو بتلائے۔ سو حقیقی دیانت اور امانت وہی ہے جو ان تمام پہلوؤں کے لحاظ سے ہو اور اگر پوری عقلمندی کو دخل دے کر امانتداری میں تمام پہلوؤں کا لحاظ نہ ہو تو ایسی دیانت اور امانت کئی طور سے چُھپی ہوئی خیانتیں اپنے ہمراہ رکھے گی اور پھر دوسری جگہ فرمایا وَلَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَتُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَاَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔ (البقرہ:۱۸۹) اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ(النساء:۵۹) اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡخَآئِنِیۡنَ۔ (الانفال:۵۹) وَاَوۡفُوا الۡکَیۡلَ اِذَا کِلۡتُمۡ وَزِنُوۡا بِالۡقِسۡطَاسِ الۡمُسۡتَقِیۡمِ۔ (بنی اسرائیل:۳۶) وَلَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَہُمۡ۔ (الاعراف:۸۶) وَلَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ۔ (البقرہ:۶۱) وَلَا تَتَبَدَّلُوا الۡخَبِیۡثَ بِالطَّیِّبِ۔ (النساء:۳)
یعنی آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناجائز طور پر مت کھایا کرو اور نہ اپنے مال کو رشوت کے طور پر حکام تک پہنچایا کروتا اس طرح پر حکام کی اعانت سے دوسرے کے مالوں کو دبالوامانتوں کو ان کے حقداروں کو واپس دے دیا کرو۔خدا خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ جب تم ماپو تو پورا ماپو۔جب تم وزن کرو تو پوری اور بے خلل ترازو سے وزن کرو اور کسی طور سے لوگوں کو ان کے مال کا نقصان نہ پہنچاؤ اور فساد کی نیت سے زمین پر مت پھرا کرو یعنی اس نیت سے کہ چوری کریں یا ڈاکہ ماریں یا کسی کی جیب کتریں یا کسی اور ناجائز طریق سے بیگانہ مال پر قبضہ کریں اور پھر فرمایا کہ تم اچھی چیزوں کے عوض میں خبیث اور ردّی چیزیں نہ دیا کرو یعنی جس طرح دوسروں کا مال دبا لینا ناجائز ہے اسی طرح خراب چیزیں بیچنا یا اچھی کے عوض میں بُری دینا بھی ناجائز ہے۔
ان تمام آیات میں خدا تعالیٰ نے تمام طریقے بددیانتی کے بیان فرما دئیے۔اور ایسا کلام کلّی کے طور پر فرمایا جس میں کسی بددیانتی کا ذکر باہر نہ رہ جائے۔صرف یہ نہیں کہا کہ تُو چوری نہ کر تا ایک نادان یہ نہ سمجھ لے کہ چوری میرے لئے حرام ہے مگر دوسرے ناجائز طریقے سب حلال ہیں۔اس کلمہ جامع کے ساتھ تمام ناجائز طریقوں کو حرام ٹھہرانا یہی حکمت بیانی ہے۔غرض اگر کوئی اس بصیرت سے دیانت اور امانت کا خُلق اپنے اندر نہیں رکھتا اور ایسے تمام پہلوؤں کی رعایت نہیں کرتا وہ اگر دیانت و امانت کو بعض اُمور میں دکھلائے بھی تو یہ حرکت اس کی خلق دیانت میں داخل نہیں سمجھی جائے گی بلکہ ایک طبعی حالت ہوگی جو عقلی تمیز اور بصیرت سے خالی ہے۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ۳۴۸،۳۴۷)