جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2023ء کے موقع پر مستورات کے اجلاس سے سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز خطاب
ہر موقع اور ہر پہلو پر ان خواتین نے ہمارے لیے ایک اسوہ قائم کیا ہے۔ نہ صرف عورتوں کے لیے بلکہ مردوں کے لیے بھی۔ پس یہ واقعات یقیناً ہمارے ایمان اور یقین میں اضافے کا باعث ہونے چاہئیں۔ انہیں غور سے سنیں اور اپنی زندگیوں کے لیے مثال بنانے کی کوشش کریں
قرونِ اولیٰ کی خواتین وہ خواتین تھیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض پایا اور زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کی تعلیم کی حقیقی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی
مالی قربانی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج احمدی مسلمان خواتین بھی اپنی مثالیں قائم کرنے والی ہیں اور یہی مثالیں ہیں جو ان کے گھروں کو بابرکت کریں گی اور کرتی ہیں اور ان کے اموال و نفوس میں برکت پڑتی ہے
ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کی پابندی کر رہی ہیں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو فضائل سے آراستہ ہونے کی نصیحت فرماتے تھے اور ان کاموں سے بچنے کی تاکید فرماتے تھے جو کسی کام نہ آئیں
حضرت علی ؓکی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسدؓ کا خود بیان یہ ہے کہ جس قدر میری خدمت فاطمہ نے کی شاید ہی کسی بہو نے اپنی ساس کی اتنی خدمت کی ہو گی
گھروں کوسنبھالنا عورتوں کا کام ہے … ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے اور جب ذمہ داریوں کا احساس ہو گا تو تبھی گھریلو امن قائم ہو گا اور آپس کے تعلقات بہتر ہوں گے اور بچوں کی صحیح تربیت ہو گی
اِس زمانے کی جنگ قلم کا جہاد ہے، لٹریچر کی تقسیم کا جہاد ہے، تبلیغ کا جہاد ہے۔ پس عورتوں کا کام ہے کہ تبلیغ میں بھرپور حصہ لیں اور اس روحانی ہتھیار سے لیس ہوں جو تبلیغ کے لیے ضروری ہے۔ قرآن کریم کا علم حاصل کریں۔ دینی علم حاصل کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے علم حاصل کریں۔ حدیث سے علم حاصل کریں اور اپنے اعلیٰ نمونے دکھا کر اپنی حالتوں کو اسلام کی تعلیم کے مطابق بنائیں تبھی اسلام کی خدمت کر سکیں گی
ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی بڑے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قربانیاں کرنی پڑتی ہیں
ہم نے ان دنیاداروں کو اپنے پیچھے چلانا ہے اور اپنی مثالوں سے ان شاء اللہ تعالیٰ اس ملک میں اسلام اور احمدیت کا جھنڈا لہرانا ہے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض پانے والی قرونِ اولیٰ کی خواتین کے اسوہ کا پُرمعارف بیان
جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2023ء کے موقع پر مستورات کے اجلاس سے سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز خطاب (فرمودہ مورخہ02؍ستمبر 2023ء بروزہفتہ بمقام جلسہ گاہ (Messe Stuttgart)، جرمنی )
(اس خطاب کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
برطانیہ کے جلسہ سالانہ میں خواتین کے جلسے میں مَیں نے
قرونِ اولیٰ کی خواتین کے واقعات
بیان کیے تھے۔ آج بھی اسی تسلسل میں یہاں بھی کچھ واقعات بیان کروں گا۔
یہ وہ خواتین تھیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض پایا اور زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کی تعلیم کی حقیقی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی۔
چاہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے یا عبادتوں کے معیار ہیں یا بنیادی گھریلو معاشرتی ذمہ داریاں ہیں، بچوں کی تربیت ہے جان مال کی قربانی کے پہلو ہیں، اسلام کی خاطر جرأت و بہادری دکھانے کے مواقع ہیں۔ غرض کہ
ہر موقع اور ہر پہلو پر ان خواتین نے ہمارے لیے ایک اسوہ قائم کیا ہے۔ نہ صرف عورتوں کے لیے بلکہ مردوں کے لیے بھی۔ پس یہ واقعات یقیناً ہمارے ایمان اور یقین میں اضافے کا باعث ہونے چاہئیں۔ انہیں غور سے سنیں اور اپنی زندگیوں کے لیے مثال بنانے کی کوشش کریں۔
اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کے کیا معیار تھے۔
ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے متعلق حضرت جبرئیلؑ نے فرمایا کہ اِنَّھَا صَوَّامَۃٌ قَوَّامَۃٌ۔یعنی وہ بہت زیادہ روزے رکھنے والی اور بہت زیادہ قیام یعنی رات کی عبادت کرنے والی تھیں۔
(مجمع الزوائد للھیثمی جلد9 صفحہ288 کتاب المناقب باب فضل حفصۃ بنت عمر بن الخطاب حدیث نمبر 15332۔ دار الکتب العلمیۃ 2001ء)
یہ ان کے نمونے تھے۔ عبادت کے معیار حاصل کرنے کے لیے یہ کوشش کرتی تھیں کہ وہ مردوں سے پیچھے نہ رہیں۔ مرد کو بھی اگر کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے اور عورت کے علم میں آتا تو یہ کہتی کہ میں کیوں پیچھے رہوں۔ چنانچہ ایک واقعےکا ذکر ہے۔
حضرت ابو امامہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ مجھے کسی عمل کا حکم دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اپنے اوپر روزہ لازم کر لو کہ اس جیسا کوئی عمل نہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ اس نصیحت کے بعد حضرت ابو امامہؓ کو ہی نہیں بلکہ ان کی زوجہ اور خادمہ کو بھی ہمیشہ روزے کی حالت میں دیکھا گیا۔ اگر کبھی دن کے اوقات میں ان کے گھر سے دھواں اٹھتا تو سب جان جاتے کہ آج ان کے گھر کوئی مہمان آیا ہے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 7۔ صفحہ 403-404۔ حدیث 22548۔ عالم الکتب بیروت 1998ء)
صحابہؓ اس حد تک عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہو گا کہ ہر وقت روزے میں رہو لیکن عشق تھا اس لیے ہر بات پر عمل کرنا تھا۔ الفاظ پہ عمل کرنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب تو یہ ہو گا کہ زیادہ تر توجہ روزے پہ رہنی چاہیے اور جتنے زیادہ روزے رکھ سکتے ہو رکھو۔ کیونکہ یہ روحانی پاکیزگی کا ایک ذریعہ ہے۔ پس اگر نقلیں کرنے والی چیزیں ہیں تو یہ نیکیاں ہیں جو نقل کرنی چاہئیں نہ یہ کہ دنیاوی باتوں پہ نقل کی جائے۔
پھر عبادت کے معیار حاصل کرنے کے لیے صحابیاتؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر کس طرح عمل کرتی تھیں
اس بارے میں ایک روایت ہے۔ ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے ایک دن اور رات میں بارہ رکعت پڑھیں اس کے لیے ان کے عوض جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ حضرت ام حبیبہؓ نے کہا کہ جب سے مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سنا ہے میں نے ان کو نہیں چھوڑا۔ (صحیح مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین و قصرھا باب فضل السنن الراتبۃ قبل الفرائض حدیث 1694) یعنی کوئی فرض کی بات نہیں بلکہ نفل کی طرف آپؐ نے توجہ دلائی کہ جس نے اس طرح نفل پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی
کرنے کے ایک واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن گھر سے نکلے اور دو رکعت نماز ادا کی۔ ان سے پہلے اور بعد میں آپؐ نے کوئی نوافل ادا نہیں کیے تھے۔ ایک یہ مسئلہ بھی یہاں حل کر دیا کہ
عید کے دن عید کی نماز سے پہلے کوئی نفل نہیں پڑھاجاتا۔
پھر آپؐ عورتوں کی طرف گئے۔ آپؐ کے ساتھ حضرت بلالؓ بھی تھے۔ پھر آپؐ نے عورتوں کو نصائح فرمائیں اور انہیں صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ عورتوں نے اپنی بالیاں اور کنگن اتار اتار کر دینے شروع کیے۔(صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب التحریض علی الصدقۃ والشفاعۃ فیھا حدیث 1431) اپنے زیور اتار دیے۔
مالی قربانی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج احمدی مسلمان خواتین بھی اپنی مثالیں قائم کرنے والی ہیں اور یہی مثالیں ہیں جو ان کے گھروں کو بابرکت کریں گی اور کرتی ہیں اور ان کے اموال و نفوس میں برکت پڑتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو فضائل سے آراستہ ہونے کی نصیحت فرماتے تھے اور ان کاموں سے بچنے کی تاکید فرماتے تھے جو کسی کام نہ آئیں۔
فضول کام کا کوئی فائدہ نہیں۔ لوگ لکھتے ہیں کہ فلاں کر لوں فلاں کر لوں میوزک میں سپیشلائز کر لوں، یا فلاں چیز کر لوں لڑکیاں بعض لکھتی ہیں۔ اس کا تو کوئی فائدہ نہیں۔
ایسی چیز کرنی چاہیے جو کام آنے والی ہو۔
حضرت ام سنانؓ بیان کرتی ہیں کہ مَیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپؐ کی اسلام پر بیعت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مبارک میرے ہاتھ پر پڑی تو فرمایا تم میں سے کسی عورت پر کوئی حرج نہیں اگر وہ اپنے ناخنوں پر بناؤ سنگھار کے لیے تبدیلی کرے اور اپنی کلائی میں ریشم یا چمڑے کی کوئی ڈوری باندھ لے اگر اسے کوئی چیز پہننے کے لیے نہ ملے ۔تو حضرت ام سنانؓ نے اس ارشاد کی تعمیل کی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 227، ام سنان الاسلمیۃؓ۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
یہاں جہاں یہ فرمایا وہاں عورتوں کو یہ بھی اجازت دے دی کہ وہ سنگھار کر سکتی ہیں، زیور پہن سکتی ہیں۔ بعض لڑکیاں عورتیں بہت سے سوال کرتی ہیں کہ ہمیں غیروں نے کہا کہ ناخنوں پر نیل پالش لگانا منع ہے۔ نیل پالش بھی لگائی جا سکتی ہے اس سے تو یہ ثابت ہو رہا ہے اور یہ کوئی منع چیز نہیں کوئی بُری چیز نہیں ہے۔
نیکیوں کے حصول کی بھی صحابیاتؓ کوشش کرتی رہتی تھیں
کہ اگر کسی کی والدہ نے کسی نیکی کا ارادہ کیا اورزندگی نے اس کی ماں کا ساتھ نہیں دیا تو کوشش کر کے وہ نیکی فوت شدہ کی طرف سے کی جائے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جہینہ قبیلہ کی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا میری ماں نے نذر مانی تھی کہ وہ حج کرے گی مگر اس نے حج نہیں کیا اور فوت ہو گئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس کی طرف سے حج کرو۔ بتاؤ تو سہی اگر تمہاری ماں پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تم ادا کرنے والی ہوتی۔ اللہ کا قرض بھی ادا کرو کیونکہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کے ساتھ وفا کی جائے۔(صحیح البخاری کتاب العمرۃ باب الحج والنذور عن المیت … حدیث نمبر1852)پس سب سے زیادہ وفا خدا تعالیٰ سے کرنی چاہیے۔
اسلام میں ابتدا میں ہی جن کو شہادت کا مقام حاصل ہوا تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک خاتون بھی ان میں شامل تھیں
چنانچہ اس کی تفصیل میں لکھا ہے۔ حضرت سمیہ بنت مسلمؓ نے اسلام قبول کیا تو ان کو کفار نے طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کر دیں۔ سب سے سخت اذیت یہ تھی کہ ان کو مکہ کی تپتی ریت پر لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کر دیتے تھے لیکن بایں ہمہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہتی تھیں۔ ایک دن کفار نے حسبِ معمول ان کو لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں زمین پر لٹا دیا تھا۔ اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا تو فرمایا صبر کرو تمہارا ٹھکانہ جنت میں ہے لیکن کفار کی اس پر بھی تسکین نہیں ہوئی اور ابوجہل نے ان کی ران میں برچھا مارکر ان کو شہید کر دیا چنانچہ اسلام کی تاریخ میں بعض جگہ لکھا ہے کہ سب سے پہلے شرف شہادت انہی کو نصیب ہوا۔
(بحوالہ سیر الصحابہ جلد ششم، اسوہ صحابیات (حصہ یازدہم) صفحہ 166، دارالاشاعت کراچی طبع 2004ء)
بچوں کو بھی ایک حوصلے سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے والی خواتین کا نمونہ
بے مثال ہے۔ اس بارے میں تاریخ میں ایک واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کا جب حجاج سے معرکہ ہوا تو ان کی والدہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیمار تھیں وہ ان کے پاس آئے اور مزاج پرسی کے بعد بولے کہ مرنے میں آرام ہے۔ جب ماں کی ایسی حالت دیکھی تو انہوں نے تسلی دی۔ تو انہوں نے آگے سے کہا کہ شاید تم کو میرے مرنے کی آرزو ہے لیکن جب تک دو باتوں میں سے ایک نہ ہو جائے میں مرنا پسند نہ کروں گی۔ دو باتیں کیا ہیں۔ یا تو تم شہید ہو جاؤ اور میں صبر کر لوں یا فتح و ظفر حاصل کرو کہ میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ چنانچہ جب وہ شہید ہو چکے تو حجاج نے ان کو سولی پر لٹکا دیا۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا باوجود پیرانہ سالی کے یہ عبرتناک منظر دیکھنے کے لیے آئیں اور بجائے اس کے کہ روتی پیٹتیںحجاج کی طر ف مخاطب ہو کر کہا کہ اس سوار کے لیے ابھی تک وہ وقت نہیں آیا کہ اپنے گھوڑے سے نیچے اترے۔(سیر الصحابہ جلد ششم، اسوہ صحابیات (حصہ یازدہم) صفحہ 187-188، دارالاشاعت کراچی طبع 2004ء)یعنی بڑی جرأت سے اس کی تعریف کی۔
پھر
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی خاطر ظلم سہنے کا ایک واقعہ
یوں ملتا ہے۔ ابن اسحٰق یوں کہتے ہیں کہ مجھے اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا سے روایت پہنچی کہ انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بغرض ہجرت روانہ ہو گئے تو میرے پاس قریش کی ایک ٹولی آئی جس میں ابوجہل بھی تھا اور آ کر ابوبکرؓ کے دروازے پر کھڑے ہو گئے۔ مَیں ان کی طرف چلی تو انہوں نے کہا۔ اے ابوبکر کی بیٹی! تیرا باپ کہاں ہے۔ مَیں نے کہا :واللہ! میں نہیں جانتی کہ وہ کہاں ہے۔ تو ابوجہل نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور اس نے میرے رخسار پر ایسے زور سے طمانچہ مارا کہ جس سے میری بالی گر گئی۔(بحوالہ مظلوم صحابیات از حافظ محمد شہباز حسن، صفحہ 65-66، مکتبہ افکار اسلامی 2014ء)بڑا زور دار تھا کان بھی زخمی ہو گیا۔
ایک خاتون کو اس کے بیٹے اور خاوند سے علیحدہ کرنے کے ظلم کے واقعہ
کا تاریخ میں یوں ذکر ملتا ہے۔ حضرت ام سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ جب ابو سلمہؓ نے ہجرت مدینہ کی تیاری کی تو اپنے لیے ایک اونٹ کا بندوبست کیا اور مجھے اور میرے بیٹے سلمہ کو اس پر سوار کر کے مہار پکڑ لی اور مدینے کو نکل کھڑے ہوئے۔ جب اسے میرے قبیلے کے لوگوں نے دیکھا تو انہوں نے یہ کہہ کر اسے روکا کہ یہ تیری خواہش ہے جس نے تجھے ہجرت پر مجبور کیا ہے۔ رہا معاملہ تیری زوجہ کا تو وہ کیوں گھر کو چھوڑے اور کیوں تُو اسے شہروں میں لیے پھرے۔ اس پر عورت کے رشتہ داروں نے اونٹ کی مہار اس کے ہاتھ سے چھین لی اور کہتی ہیں کہ مجھے پکڑ لیا اور اس صورتحال سے بنو عبد الاسد بپھر گئے اور سلمہ کا رخ کیا اور کہنے لگے کہ ہم اپنے بیٹے کو اس کی ماں کے پاس نہیں رہنے دیں گے جبکہ تم نے اس کی بیوی کو شوہر سے چھین لیا ہے۔ چنانچہ ابوسلمہؓ کے اہل قبیلہ نے میرے بیٹے سلمہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ بیوی کو، عورت کو اس کے میکے والے لے گئے اور اس عورت کے پاس جو بچہ تھا اس کو اس کا ددھیال لے گیا۔ کہتی ہیں مجھے میرے قبیلے والوں نے قابو کر لیا اور میرا شوہر ابوسلمہ مجھے چھوڑ کر مدینےچلا گیا اور اس طرح ہم تینوں ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ کہتی ہیں میری یہ حالت تھی کہ میں روزانہ صبح اٹھ کر ابطح کے مقام پر آ جاتی اور شام تک وہاں بیٹھی روتی رہتی۔ کم و بیش ایک سال اسی حال میں گزر گیا تاآنکہ ایک دن ایک شخص جس کا تعلق بنی مغیرہ سے تھا وہاں سے گزرا اور اسے میری حالت پر رحم آ گیا۔ اس نے میرے قبیلے سے کہا۔ کیا تم اس بے بس عورت کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہو۔ تم نے اسے خاوند اور بیٹے ہر دو سے جدا کر دیا چنانچہ میرے اہل قبیلہ نے اجازت دے دی اور کہا کہ اگر تم چاہتی ہو تو اپنے شوہر کے پاس جا سکتی ہو۔ اسی دوران میں بنوعبدالاسد نے میرا بیٹا بھی مجھے لوٹا دیا۔ میں نے اونٹ کا بندوبست کیا، بیٹے کو گود میں لیا اور اپنے شوہر کے تعاقب میں چل دی۔ میں بالکل اکیلی تھی اور کوئی رفیقِ سفر نہ تھا۔ میں نے دل میں کہا اللہ کرے کہ مجھے کوئی رفیقِ سفر مل جائے تا آنکہ میں اپنے شوہر تک پہنچ جاؤں۔ جب میںتنعیم میں پہنچی تو اتفاق سے میری ملاقات عثمان بن طلحہ بن ابو طلحہ سے ہو گئی جو بنو عبدالدار کا بھائی تھا۔انہوں نے کہا ابو امیہ کی بیٹی کہاں جا رہی ہو؟ میں نے کہا اپنے شوہر کے پاس مدینے جا رہی ہوں۔ پوچھا کیا تمہارا کوئی رفیقِ سفر ہے، مرد ہے کوئی تمہارے ساتھ؟ میں نے کہا سوائے اللہ اور اس بچے کے اَور کوئی بھی نہیں۔ اس نے کہا پھر تمہاری کوئی منزل نہیں۔ اس نے اونٹ کی مہار پکڑ لی اور مجھے لے کر روانہ ہو پڑا۔ اللہ کی قسم! مَیں نے عرب بھر میں ایسا شریف النفس کوئی انسان نہیں دیکھا۔ خاموشی سے اونٹ کی مہار پکڑ کے سفر میںچلنے لگ گیا۔ جب منزل پر پہنچتا تو اونٹ کو بٹھاتا اور خود ایک طرف ہو کر درخت کے نیچے جا کر لیٹ جاتا۔ پھر جب کوچ کا وقت آتا تو اونٹ کے پاس آ کر کجاوہ رکھتا اور ہٹ کر ایک طرف کو کھڑا ہو جاتا اور مجھے کہتا کہ سوار ہو جاؤ۔ جب میں سوار ہو چکتی اور اونٹ پر جم کر بیٹھ جاتی تو عثمان بن طلحہ آتا اور اونٹ کی مہار پکڑ کر چل پڑتا اور جب منزل آتی پھر ٹھہر جاتا۔ وہ اسی طریقے سے چلتا آیا یہاں تک کہ ہم مدینے پہنچ گئے۔ جب اس نے عمرو بن عوف کی بستی قبا دیکھی تو کہنے لگا کہ تیرا خاوند یہیں ٹھہرا ہو گا اور فی الواقعہ ابوسلمہؓ وہیں ٹھہرے ہوئے تھے چنانچہ اللہ کا نام لے کر میں اس بستی میں اتر پڑی اور عثمان بن طلحہ وہاں سے مکےلوٹ گیا۔ وہ اکثر کہا کرتا کہ میں نے کوئی ایسا خاندان نہیں دیکھا جسے قبول اسلام کے بعد اتنی تکالیف پیش آئی ہوں جتنی کہ ابو سلمہ کے خاندان کو پیش آئیں۔
(بحوالہ مظلوم صحابیات از حافظ محمد شہباز حسن، صفحہ 152-154، مکتبہ افکار اسلامی 2014ء)
آپ میں سے بہت ساری عورتیں دین کی خاطر یہاں آئی ہیں۔ کیا آپ کو کبھی ایسی مشکلات پیش آئی ہیں۔ یہ سفر انہوں نے دین کی خاطر کیا تھا اور آپ نے بھی یہاں آنے کا سفر دین کی خاطر کیا ہے۔ باوجود عہد دہرانے کے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا اس عہد کی ہم پابندی کر رہی ہیں۔
اسی طرح مرد کا نمونہ بھی ہے۔ اس نے اپنی شرافت کا بڑا اعلیٰ معیار قائم کیا حالانکہ مسلمان نہیں تھا اور اسی طرح ہر مرد کو عورت کی عزت اور تقدس کا خیال رکھنا چاہیے۔
خاوند کی قربانی پر صبر دکھانے کے ایک واقعہ کا ذکر
یوں ملتا ہے۔ ام اسحاق غنویہ بیان کرتی ہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئیں۔ ابھی تھوڑا سا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ ان کے بھائی نے کہا کہ وہ اپنا زادِ راہ مکہ میں ہی بھول آیا ہے۔ بہن سے کہا کہ وہ یہاں بیٹھ کر انتظار کریں تا کہ وہ اپنا زاد سفر لے آئے۔ بہن نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ میرا فاسق خاوند تجھے آنے نہیں دے گا۔ بھائی نے تسلی دی اور زاد سفر لینے چلا گیا۔ کہتی ہیں مجھے وہاں بیٹھے کئی دن گزر گئے لیکن بھائی نہیں آیا۔ اتفاقاً ایک دن وہاں سے ایک آدمی جسے میں جانتی تھی گزرا اس نے وہاں بیٹھنے کی وجہ پوچھی اور مَیں نے بتائی تو اس نے مجھے بتایا کہ تیرے بھائی کو تیرے خاوند نے قتل کر دیا ہے۔ ام اسحاق غنویہ فرماتی ہیں کہ میں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھتی ہوئی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔(بحوالہ مظلوم صحابیات از حافظ محمد شہباز حسن، صفحہ 160-161، مکتبہ افکار اسلامی 2014ء) اور آگے سفر شروع کر دیا۔
بھائی کی لاش پر جس نے اسلام کی خاطر قربانی کی تھی صبر دکھانے کے ایک واقعہ
کا یوں ذکر ملتا ہے: حضرت صفیہؓ نے حضرت زبیرؓ کے ساتھ ہجرت کی۔ غزوۂ احد میں جب مسلمانوں نے شکست کھائی تو وہ مدینہ سے نکلیں۔ صحابہ سے عتاب آمیز لہجہ میں کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر چل دیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آتے ہوئے دیکھا تو حضرت زبیرؓ کو بلا کر ارشاد کیا کہ حمزہ کی لاش نہ دیکھنے پائیں۔ کافروں نے ان کی لاش کا بہت بُرا حال کیا ہوا ہے۔ بہت زیادہ صدمہ ہوگا۔ حضرت زبیرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سنایا تو انہوں نے کہا کہ مَیں اپنے بھائی کا سارا ماجرا سن چکی ہوں۔ کافروں نے جو کچھ کیا ہے سب کچھ مجھے پتہ ہے لیکن خدا کی راہ میں یہ کوئی بڑی قربانی نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لاش دیکھنے کی اجازت دے دی۔ لاش پر گئیں۔ خون کا جوش تھا اور عزیز بھائی کے ٹکڑے بکھرے پڑے ہوئے تھے لیکن اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن کہہ کر چپ ہوگئیں اور مغفرت کی دعا مانگی۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابۃ جلد 8 صفحہ 214-215 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
(الطبقات الکبری لابن سعد جلد8 صفحہ34 صفیۃ بنت عبد المطلب۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
ایک نوجوان لڑکی کی ایمانداری اور اللہ تعالیٰ کے خوف کا ایک اعلیٰ معیار
تھا اس بارے میں ایک واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے۔ حضرت اسلمؓ سے مروی ہے جو حضرت فاروق ؓکے آزاد کردہ تھے کہ بعض راتوں میں سے ایک رات مَیں امیر المومنین کے ساتھ مدینہ کے اطراف میں پھر رہا تھا۔ آپؓ نے ایک گھڑی کے لیے استراحت کی غرض سے ایک دیوار کی جانب سہارا لیا۔ آپؓ نے سنا کہ ایک بڑھیا اپنی بیٹی سے کہہ رہی ہے کہ اٹھ دودھ میں پانی ملا دے۔ لڑکی نے کہا آپ جانتی نہیں کہ امیر المومنین کے منادی نے یہ اعلان کیا ہے کہ زیادہ کرنے کے لیے دودھ میں پانی نہ ملایا جائے۔ ماں نے کہا کہ نہ اس وقت امیر المومنین موجود ہیں اور نہ اس کا منادی۔ بندوں میں سے کوئی دیکھ نہیں رہا۔ لڑکی نے کہا کہ خدا کی قسم! یہ بات تو ہمارے لیے مناسب نہیں ہے۔ سامنے تو ہم ان کی اطاعت کریں اور خلوت میں نافرمانی کریں۔ یہ تھے لڑکیوں کے معیار کہ صرف سامنے اطاعت نہیں کرنی۔ اگر حکم ہے اگر دین کو قبول کیا ہے تو پھر خلیفہ وقت کی باتوں کی ہمیشہ اطاعت کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت عمرؓ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا: اے اسلم! اس مکان پر نشان لگا دو۔ آپؓ دیوار کے کنارے بیٹھے سن رہے تھے۔ دوسرے دن آپؓ نے کسی کو بھیجا اور اس لڑکی کا رشتہ اپنے بیٹے عاصم سے کر دیا کہ ایسی نیک لڑکی جو ایمانداری کا اتنا خیال رکھتی ہے کہ خدا دیکھ رہا ہے ہمیں، اس لیے ہم نے کوئی برائی نہیں کرنی۔ اور پھر ان کی اولاد بھی ہوئی اور یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز اسی لڑکی کی اولاد میں سے تھے۔
(ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء (مترجم) از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جلد 3صفحہ281-282 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی )
اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اپنی زینت چھپانے اور پردے کا حکم دیا ہے اپنی نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ابھی تلاوت میں بھی آپ نے سنا ہے۔ اسی طرح اپنا حسن چھپانے کے لیے غیر مردوں کے سامنے نہ آنے کی ہدایت بھی دی ہے۔ یہ تفصیل سورہ نور کی آیت بتیس میں ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ عورت کو قید کرکے ہر نعمت سے محروم کر دیا جائے۔ جس طرح آجکل کے طالبان میں یہ مثال ہمیں نظر آتی ہے۔ اس آیت کی تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے جو کی ہے لکھا ہے کہ
’’اسلام ہر گز یہ حکم نہیں دیتا کہ عورتیں گھروں میں بند ہو کر بیٹھ جائیں اور نہ ابتدائے اسلام میں مسلمان عورتیں ایسا کرتی تھیں بلکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ سننے آتی تھیں۔ جنگوں میں شامل ہوتی تھیں زخمیوں کی مرہم پٹیاں کرتی تھیں سواری کرتی تھیں مردوں سے علوم سیکھتی اور سکھاتی تھیں۔‘‘مردوں سے علم سیکھتی بھی تھیں اور ان کو سکھاتی بھی تھیں۔ ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق تو یہاں تک ثابت ہے کہ آپؓ مردوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنایا کرتی تھیں بلکہ خود لڑائی کی بھی ایک دفعہ آپؓ نے کمان کی۔ غرض ان کو پوری عملی آزادی حاصل تھی صرف اس امر کا ان کو حکم تھا کہ اپنا سر گردن اور منہ کے وہ حصے جو سر اور گردن کے ساتھ وابستہ ہیں ان کو ڈھانپے رکھیں تاکہ وہ راستے جو گناہ پیدا کرتے ہیں بند رہیں اور اگر اس سے زیادہ احتیاط کر سکیں تو نقاب اوڑھ لیں لیکن یہ کہ گھروں میں بند رہیں اور تمام علمی اور تربیتی کاموں سے الگ رہیں یہ نہ اسلام کی تعلیم ہے اور نہ اس پر پہلے کبھی عمل ہو اہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ آپؐ امن کے زمانہ میں صحابہ کرامؓ سے ہمیشہ دوستانہ مقابلے کروایا کرتے تھے جن میں تیر انداز ی اور دوسرے فنون حرب اور قوت و طاقت کے مظاہر ے ہوتے تھے۔ ایک دفعہ اسی قسم کے کھیل آپؐ نے مسجد میں بھی کرائے اور حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ اگر دیکھنا چاہو تو میرے پیچھے کھڑے ہو کر کندھوں کے اوپر سے دیکھ لو۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپؐ کے پیچھے کھڑی ہو گئیں اور انہوں نے تمام جنگی کرتب دیکھے۔(بخاری کتاب العیدین) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام عورت کو فنون ِ حرب سے واقف رکھنا بھی ضروری قرار دیتا ہے۔‘‘ جنگی حربے استعمال کرنا سکھانا یہ بھی عورت کے لیے جائز ہے ’’تاکہ وقت پر وہ اپنی اور اپنے ملک کی حفاظت کر سکے۔ اگر اس کا دل تلوار کی چمک سے کانپ جاتا ہے یا بندوق اور توپ کی آواز سن کر اس کا خون خشک ہو جاتا ہے تو وہ اپنے بچوں کو خوشی سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت نہیں دے سکتی اور نہ دلیری سے خود ملک کے دفاع میں حصہ لے سکتی ہے۔ ہندوستان میں مغلیہ حکومت کی تباہی صرف عورت کی بزدلی اور مرد کی بے جا محبت کی وجہ سے ہوئی۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 303۔ایڈیشن۲۰۰۴ء)
یہاں اس ضمن میں یہ بھی وضاحت کر دوں۔ کچھ عرصہ ہوا مَیں نے کہا تھا کہ برقع پہننا اور نقاب لینا تو اسلام کا حکم نہیں ہے لیکن اسلام کا حکم چادر لینا ہے۔ یہ نہیں کہ صرف سر پہ ذرا ہلکا سا سکارف لے لیا اور عام کپڑے پہن کے باہر نکل گئے۔ نہیں! بلکہ
حکم یہ ہے کہ کپڑوں کے اوپر تم نے چادر اوڑھنی ہے جس سے سر بھی ڈھانکا ہو اور چہرے کا بھی کچھ حصہ ڈھانکا ہو اور سینہ بھی ڈھانکا ہو۔
یہ حکم ہے اور اس کے ساتھ پھر آزادی ہے کہ ٹھیک ہے تم باہر نکل کے سارے کام کرو۔ یہ نہیں کہ پردہ چھوڑ دو اور کہہ دو کہ مَیں نے کہہ دیا تھا کہ جی برقع لینا ضروری نہیںہے اس لیے ہلکا سا سکارف سر پہ لیا اور جائز ہو گیا۔ اس بات کی بھی وضاحت ہونی چاہیے۔
ساس بہو کی مثالیں
بہت دی جاتی ہیں۔ عموماً ساس بہو کے تعلقات مکمل طور پر پیار اور محبت کے نہ ہونے کی باتیں سامنے آتی ہیں تاہم ایسی مثالیں بھی ہیں اور آج بھی ایسی مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں جو آپس کے بڑے اچھے تعلقات ہیں لیکن
اس کی اعلیٰ ترین مثال ہمیں تاریخ اسلام میں حضرت فاطمہ ؓکی ملتی ہے۔
حضرت فاطمہ بنت اسدؓ جو حضرت علی ؓکی والدہ تھیں۔ حضرت علی ؓکی والدہ کا نام بھی فاطمہ تھا اور حضرت فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ساس تھیں۔ حضرت فاطمہؓ اپنی ساس کو حقیقی ماں تصور کرتی تھیں اور ان کی خدمت کرتی تھیں۔ حضرت فاطمہ ؓجب گھریلو امور سے فراغت پاتیں تو ان کی ضروریات کی تکمیل کرتیں۔ انہیں زیادہ کام نہ کرنے دیتیں۔ ان کو آرام پہنچانے کی کوشش کرتیں۔ ان کے کپڑے دھوتیں۔ انہیں کھانا کھلاتیں۔ ان کا بستر صاف کرتیں اور بچھاتیں اور اگر کوئی ان کے ذمہ ہوتا تو اس میں بھی ان کی مدد کرتیں۔
حضرت علی ؓکی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسدؓ کا خود بیان یہ ہے کہ جس قدر میری خدمت فاطمہ نے کی شاید ہی کسی بہو نے اپنی ساس کی اتنی خدمت کی ہو گی۔
انہوں نے مزید بیان کیا کہ
میری بہو جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ہے بہت زیادہ خدمت گزار ہے اور مجھے حقیقی ماں تصور کرتی ہے۔
(ماخوذ از سیرت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء از مسعود مفتی زاہد ملک صفحہ 127 علم و عرفان پبلشرز لاہور 2019ء)
اب یہ تو ساس بہو کی خدمت کا واقعہ ہے۔ اب
گھروں کوسنبھالنا عورتوں کا کام ہے
اور مردوں کا کام یہ ہے کہ باہر جائیں اور کمائی کریں اور باہر کے معاملات سنبھالیں۔ یہاں بعض دفعہ یہ سوال اٹھ جاتے ہیں کہ ہم نے دو گھنٹے کام کیا تو چار گھنٹے مرد بھی کام کرے، دو گھنٹے عورت بھی کام کرے۔ یہ چیزیں غلط ہیں۔
ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے اور جب ذمہ داریوں کا احساس ہو گا تو تبھی گھریلو امن قائم ہو گا اور آپس کے تعلقات بہتر ہوں گے اور بچوں کی صحیح تربیت ہو گی۔
مسلمان عورتوں کی جرأت و بہادری
کے بھی بہت سے واقعات تاریخ میں ملتے ہیں۔ چنانچہ حضرت خولہ بنت ازورؓکی شجاعت کا واقعہ تاریخ میں یوں ملتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے جب دیکھا کہ حضرت ضرارؓ قید ہو گئے ہیں ایک جنگ میں تو بہت غمگین اور پریشان ہوگئے۔ انہوں نے کئی دفعہ حملے کیے مگر ان کو چھڑا نہ سکے۔ حضرت ضرارؓ کی گرفتاری کی خبر جب حضرت خالدؓ کو پہنچی تو آپؓ بہت پریشان ہوئے اور ساتھیوں سے رومی لشکر کے متعلق معلومات لے کر حضرت ابوعبیدہؓ سے مشورہ کیا اور حملے کے متعلق رائے لی۔ اب رومی لشکر ایک ایسا لشکر تھا جس طرح یہی سمجھ لیں جس طرح آجکل امریکہ کی فوج کا مقابلہ ہے۔ حضرت ابوعبیدہ ؓنے فرمایا کہ دمشق کے محاصرےکا معقول انتظام کر کے آپ حملہ کر سکتے ہیں۔ کمانڈر کیونکہ اس وقت حضرت ابوعبیدہؓ تھے۔ حضرت خالدؓنے محاصرہ کا انتظام کرنے کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشمن کا تعاقب کیا اور ان کو ہدایت کی کہ جیسے ہی دشمن ملے اس پر اچانک حملہ کرنا۔ اگر ضرار کو ان لوگوں نے قتل نہ کیا ہو تو شاید ہم ضرار کو چھڑا لائیں گے اور اگر ضرار کو شہید کیا ہو تو بخدا! ہم ان سے بھرپور انتقام لیں گے۔ حضرت ضرارؓ ایسے فوجی تھے بڑی بہادری سے لڑا کرتے تھے اور ان کی اسلامی لشکر میں ایک پہچان تھی۔ بہرحال حضرت خالدؓنے کہا مجھے امید ہے کہ اللہ ہم کو ضرار کے متعلق صدمہ نہیں دے گا۔ اسی دوران حضرت خالدؓنے ایک شہسوار کو سرخ عمدہ گھوڑے پرسوار دیکھا جس کے ہاتھ میں لمبا چمکدار نیزہ تھا۔ اس سوار کی وضع قطع سے بہادری، دانائی اور جنگی مہارت نمایاں تھی۔ زرہ کے اوپر لباس پہن رکھا تھا۔ پورا بدن اور منہ چھپا ہوا تھا اور فوج کے آگے آگے تھا۔ حضرت خالدؓنے تمنا کی کہ کاش! مجھے معلوم ہو جائے کہ یہ شہسوار کون ہے۔ واللہ! یہ شخص نہایت دلیر اور بہادر معلوم ہوتا ہے۔ حضرت خالدؓکو سمجھ نہیں آ رہی تھی یہ بہادر شخص کون ہے جو ہمارے لشکر کے آگے آگے چل رہا ہے۔ سب لوگ اس کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔ لشکرِ اسلام جب کفار کے قریب پہنچا تو لوگوں نے اس شہسوار کو رومیوں پر ایسے حملہ کرتے دیکھا جس طرح بڑی بہادری سے باز چڑیوں پر جھپٹتا ہے۔ اس کا ایک حملہ ایسا تھا جس نے دشمن کے لشکر میں تہلکہ ڈال دیا اور مقتولین کے ڈھیر لگا دیے اور بڑھتے بڑھتے دشمن کے لشکر کے درمیان میں پہنچ گیا۔ وہ چونکہ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال چکا تھا اس لیے دوبارہ پلٹا اور کافروں کے لشکر کو چیرتا ہوا اندر گھستا چلا گیا۔ جو سامنے آیا اس کو ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا۔
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ شخص حضرت خالدؓ ہی ہو سکتے ہیں۔ رافع نے حیرانگی سے خالد سے پوچھا۔ رافع خالد کے ساتھ کھڑے تھے۔ یہ شخص کون ہے؟ جو لوگ دُور کھڑے ہیں وہ تو سمجھ رہے ہیں کہ آپ ہیں لیکن آپ تو یہاں کھڑے ہیں۔ یہ کون ہے؟ حضرت خالدؓ نے فرمایا مجھے معلوم نہیں میں خود حیران ہوں کہ یہ کون ہے۔ حضرت خالدؓ لشکر کے آگے کھڑے تھے کہ وہی سوار دوبارہ رومیوں کے لشکر سے نکلا۔ رومیوں کا کوئی بھی سپاہی اس کے مقابل نہیں آ رہا تھا اور یہ تنہا کئی آدمیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے رومیوں کے درمیان لڑ رہا تھا۔ اسی دوران حضرت خالدؓنے حملہ کر کے اسے کفارکے گھیرے سے نکالا اور یہ شخص لشکر اسلام میں پہنچ گیا۔ حضرت خالدؓنے اسے کہا تُو نے اپنے غصے کو اللہ کے دشمنوں پر نکالا ہے۔ بتاؤ کہ تم کون ہو؟ سوار نے کچھ نہیں بتایا پھر جنگ کے لیے تیار ہو گیا۔ حضرت خالدؓ نے فرمایا: اللہ کے بندے! تُو نے مجھے اور تمام مسلمانوں کو بےچینی میں ڈال دیا ہے۔ تُو اس قدر بے پروا ہے۔ کوئی جان کی پروا نہیں تجھے، لڑتا چلا جا رہا ہے۔ آخر تُو کون ہے؟ حضرت خالدؓ کے اصرار پر اس نے جواب دیا کہ میں نے نافرمانی کی وجہ سے اعراض نہیں کیا۔کسی نافرمانی کی وجہ سے میں اپنے آپ کو نہیں چھپا رہا ۔ یہ نہیں کہ میں نافرمان ہوں اس لیے تمہیں جواب نہیں دے رہا بلکہ مجھے شرم آتی ہے کیونکہ میں مرد نہیں ہوں ایک عورت ہوں۔ اگر جنگ کے طریقے نہ سیکھے ہوتے تو وہ عورت یہ جنگ اس بہادری سے کس طرح لڑ سکتی تھی۔ عورتیں بھی اس طرح بہادری کا نمونہ دکھاتی تھیں۔ کہنے لگی مجھے میرے دردِ دل نے اس میدان میں اتارا ہے۔ خالد نے پوچھاکہ کون سی عورت؟ اس عورت نے عرض کیا کہ ضرار کی بہن خولہ بنت ازور ہوں۔ بھائی کی گرفتاری کا پتہ لگا تو میں نے وہی کیا جو آپ نے دیکھا۔ حضرت خالدؓ نے یہ سن کر کہا کہ ہم سب کو متفقہ حملہ کرنا چاہیے۔ اللہ سے امید ہے کہ وہ ضرار کو قید سے رہائی دلا دے گا۔ حضرت خولہؓ نے کہا کہ مَیں بھی حملےمیں پیش پیش رہوں گی۔ پھر خالد نے بھر پور حملہ کیا۔ رومیوں کے پیر اُکھڑ گئے اور رومیوں کا لشکر تتر بتر ہو گیا۔ حضرت رافعؓ نے شجاعت کے جوہر دکھائے۔
مسلمان ایک بار بھرپور حملے کے لیے تیار ہوئے تھے کہ اچانک کفار کے لشکر سے کچھ سوار اس طرف تیزی سے امان مانگتے ہوئے آ گئے۔ ان میں سے کچھ لوگ ٹوٹ کے مسلمانوں کے پاس آئے کہ ہمیں امان دے دو۔ حضرت خالدؓ نے فرمایا ان کو امان دے دو اور فرمایا میرے پاس لے آؤ۔ پھر خالد نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم روم کی فوج کے لوگ ہیں اور حمص کے رہنے والے ہیں اور صلح چاہتے ہیں۔ حضرت خالدؓ نے فرمایا کہ صلح تو حمص پہنچ کرہی ہو گی۔ یہاں پرقبل از وقت ہم صلح نہیں کر سکتے البتہ تم کو امان ہے۔ جب اللہ فیصلہ کرے گا اور ہم غالب آئیں گے تب وہاں پر بات ہو گی۔ ہاں یہ بتاؤ کہ ہمارے ایک بہادر جس نے تمہارے سردار کے لڑکے کو قتل کیا تھا اس کے متعلق تمہیں کچھ معلوم ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا شاید آپ ان کے متعلق پوچھتے ہیں جو ننگے بدن تھے اور جنہوں نے ہمارے بہت سے آدمیوں کو مارا اور سردار کے بیٹے کو قتل کیا تھا۔ خالدنے فرمایا ہاں وہی ہے۔ انہوں نے کہا جس وقت وہ قید ہوئے اور وردان کے پاس پہنچے تو وردان نے جو رومیوں کی فوج کا سردار تھااس کو سو سواروں کی جمعیت میں حمص روانہ کیا تا کہ بادشاہ کے پاس پہنچایا جائے۔ یہ سن کر خالد بہت خوش ہوئے اور حضرت رافع ؓکو بلا کر فرمایا کہ تم راستوں کو اچھی طرح جانتے ہو۔ اپنی مرضی کے جوانوں کو لے کر حمص پہنچنے سے پہلے حضرت ضرار ؓکو چھڑاؤ اور اپنے رب کے ہاں اجر پاؤ۔ حضرت رافعؓ نے ایک سو جوانوں کو چن لیا اور ابھی جانے ہی والے تھے کہ حضرت خولہؓ نے منت سماجت کر کے حضرت خالدؓسے اس فوج کے ساتھ بھی جانے کی اجازت حاصل کر لی۔ اور سب لوگ حضرت رافع ؓکی سرکردگی میں حضرت ضرارؓ کی رہائی کے لیے حمص روانہ ہو گئے۔ حضرت رافعؓ تیزی سے چلے اور ایک مقام پر پہنچ کر آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ خوش ہو جاؤ کہ دشمن ابھی آگے نہیں گیا اور وہاں پر اپنے ایک دستے کو چھپا دیا۔ یہ لوگ اسی حالت میں تھے کہ غبار اڑتا ہوا دکھائی دیا۔ حضرت رافعؓ نے مسلمانوں کو چوکنا رہنے کا حکم دیا۔ مسلمان تیار بیٹھے تھے کہ رومی پہنچ گئے۔ حضرت ضرارؓ ان کی قید میں تھے اور درد بھرے لہجے میں اشعار پڑھ رہے تھے کہ اے مخبر! میری قوم اور خولہ کو یعنی میری بہن کو یہ خبرپہنچا دو کہ میں قیدی ہوں اور مشکوں میں بندھا ہوا ہوں۔ انہیں اپنی بہن کی جرأت اور بہادری کا بھی پتا تھا کہ میری بہن کو پتا چل گیا تو وہ یقینا ًآئے گی اور بغیر کسی خوف کے میری آزادی کی تدبیر کرے گی۔ شام کے کافر اور بےدین میرے گرد جمع ہیں اور تمام زرہ پہنے ہوئے ہیں۔ یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ اے دل! تُو غم و حسرت کی وجہ سے مر جا اور اے جوانمردی کے آنسو میرے رخسار پر بہ جا۔ افسوس کر رہے تھے اپنی حالت پر کہ مَیں قید ہوں اور یہ لوگ زرہ پہنے ہوئے آزاد ہیں۔ یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ حضرت خولہؓ نے زور سے آواز دی کہ تیری دعا قبول ہو گئی۔ اللہ کی مدد آ گئی۔ شعر کی آواز حضرت خولہ کو پہنچی تو انہوں نے وہیں سے زور سے چلا کر کہا کہ اللہ کی مدد آ گئی۔ میں تیری بہن خولہ ہوں اور یہ کہہ کر اس نے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا اور حملہ کر دیا اور مسلمان بھی تکبیرکہتے ہوئے حملہ آور ہوئے۔ مسلمانوں نے اس دستے پر قابو پا لیا۔ سب کو قتل کر دیا گیا۔ حضرت ضرارؓ کو اللہ تعالیٰ نے رہائی دلائی اور مالِ غنیمت مسلمانوں کو مل گیا۔ اس طرح حضرت خولہؓ نے اپنے ہاتھوں سے اپنے بھائی کی رسیاں کھول دیں، سلام کیا۔ حضرت ضرارؓ نے اپنی بہن کو شاباش دی اور خوش آمدید کہا اور خدا کا شکر ادا کیا۔
( فتوحات شام از فضل محمد یوسف زئی صفحہ 72تا77۔ دار الناشر لاہور 2012ء)
پھر
ایک خاتون کی بہادری اور صبر کا ذکر
یوں ملتا ہے۔ اس کا خاوند بیٹا اور بھائی شہید ہوئے لیکن وہ صبر کی چٹان بن کر رہی۔ حضرت خلادؓ کی والدہ حضرت ہند بنت عمرؓو، ان کی والدہ کا نام بھی عمرو تھا اور خاوند کا نام بھی۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ کی پھوپھی بھی تھیں۔ غزوۂ احد میں حضرت ہندؓ نے اپنے خاوند اپنے بیٹے اور اپنے بھائی کو شہادت کے بعد اونٹ پر لادا۔ پھر جب ان کے متعلق حکم ہوا تو انہیں واپس احد لوٹایا گیا اور وہ وہیں احد میں دفن کیے گئے۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابۃ جلد 2 صفحہ 287 خلاد بن عمرو بن الجموح۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
جب یہ پتہ لگا کہ شہید ہو گئے ہیں تو یہ تینوں کو پہلے مدینہ لانے کے لیے لے کر آئی تھیں لیکن واپس لے گئیں اور اس کی تفصیل بھی آگے بیان ہوئی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی مرضی تھی کہ احد کے شہداء احد میں ہی دفن ہوں۔
اس واقعہ کی تفصیل میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہ ؓغزوۂ احد کے بارے میں خبر لینے کے لیے مدینے کی عورتوں کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں۔ اس وقت تک پردے کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ جب آپؓ حرة کے مقام تک پہنچیں تو آپؓ کی ملاقات ہند بنت عمرو سے ہوئی جو کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓکی ہمشیرہ تھیں۔ حضرت ہندؓ اپنی اونٹنی کو ہانک رہی تھیں۔ اس اونٹنی پر آپ کے شوہر حضرت عمرو بن جموحؓ، بیٹے حضرت خلاد بن عمروؓ اور بھائی حضرت عبداللہ بن عمرو ؓکی نعشیں تھیں۔ جب حضرت عائشہؓ نے میدانِ جنگ کی خبر لینے کی کوشش کی حضرت عائشہؓ نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہیں کچھ خبر ہے کہ تم پیچھے لوگوں کو کس حال میں چھوڑ کے آئی ہو۔ اس پر حضرت ہندؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخیریت ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر مصیبت آسان ہے، جب آپ خیریت سے ہیں تو پھر کوئی ایسی بات نہیں۔ حضرت عائشہؓ نے ان سے پوچھا کہ اونٹنی پر کون کون ہیں؟ تب حضرت ہندؓنے بتایا کہ میرا بھائی ہے، میرا بیٹا خلاد ہے اور میرے شوہر عمرو بن جموح ۔ حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا کہ انہیں کہاں لیے جاتی ہو۔ انہوں نے عرض کیا کہ انہیں مدینہ میں دفن کرنے کے لیے لے جارہی ہوں۔ پھر وہ اونٹ کو ہانکنے لگیں لیکن اونٹ بیٹھ جاتا تھا۔ مدینہ کی طرف نہیں جا رہا تھا۔ بہت کوشش کی لیکن جب وہ واپس احد کی طرف لے جانے لگتیںتو کھڑا ہو جاتا، چل پڑتا۔ تو بہرحال یہ اونٹ کو لے کر پھر احد ہی پہنچ گئیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تھا کہ احد کے شہید وہیں دفن ہوں گے اور اس طرح انہوں نے اپنے خاوند، بھائی اور بیٹے کو وہاں لے جاکر دفن کیا اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کی کہ وہ شہید ہو گئے ہیں بلکہ ان کو یہ خوشی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں۔
(کتاب المغازی جلد1صفحہ 265-266 عالم الکتب بیروت 1984ء)
(سنن النسائی کتاب الجنائز باب این یدفن الشہید حدیث 2006)
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ احد کے دن جب لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دُور ہو گئے تو میں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سُلَیم ؓکو دیکھا کہ یہ دونوں اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے کپڑے سمیٹے ہوئے تھیں۔ پانی کی مشکیں اٹھائے ہوئے لا رہی تھیں اور ان کو زخمی لوگوں کے مونہوںمیں انڈیل دیتیں اور پھر لوٹ جاتیں اور مشکوں کو پھر سے بھرتیں اور ان کو پلانے کے لیے آتیں۔
(صحیح البخاری کتاب الجھاد و السیر باب غزو النساء و قتالھن مع الرجال2880)
حضرت ربیع بنت معوذؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم جہاد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوا کرتی تھیں۔ پانی پلاتی تھیں۔ زخمیوں کا علاج کرتی تھیں اور زخمی اور مقتولوں کو اٹھا کر مدینہ لاتی تھیں۔(صحیح البخاری کتاب الجھاد و السیر باب مداواۃ النساء الجرحی فی الغزو2882)یہ بھی کوئی معمولی کام نہیں۔
حضرت ام عطیہ انصاریہ سے روایت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شریک ہوئی۔ میں ان کے پیچھے ان کے پڑاؤ میں رہتی اور ان کے لیے کھانا بناتی اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی خدمت کرتی تھی۔
(صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب النساء الغازیات یرضخ لھن ولا یسہم…حدیث 4690)
حضرت ام عمارہؓ غزوۂ احد میں شریک ہوئیں اور نہایت پامردی سے لڑیں۔ جب تک مسلمان فتح یاب تھے وہ مشک میں پانی بھر کے لوگوں کو پلا رہی تھیں۔
اب عموماً ہم حضرت طلحہ ؓکا ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے احد میں بڑی بہادری دکھائی لیکن
حضرت ام عمارہؓ نے بھی بہادری کم نہیں دکھائی۔
لکھا ہے کہ جب شکست ہوئی، جو عارضی شکست تھی، جب جنگ کا پانسہ پلٹا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اور سینہ سپر ہو گئیں۔ کفار جب آپؐ پر بڑھتے تو تیر اور تلوار سے روکتی تھیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بیان فرماتے ہیں کہ مَیں نے احد میں ان کواپنےدائیں اور بائیں لڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کی گواہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دی ہے کہ حضرت ام عمارہؓ احد میںمیرے دائیں بائیں لڑ رہی تھیں۔ ابن قمئہ جب تیزی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا تو حضرت ام عمارہؓ نے بڑھ کر روکا۔ ان کے کندھے پر گہرا زخم آیا، اس نے ام عمارہ کو تلوار ماری جس سے گہرا زخم بھی آیا۔ اور حضرت ام عمارہؓ نے بھی اپنی تلوار سے ابن قمئہ پر حملہ کیا لیکن وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا اس لیے حملہ کارگر نہیں ہوا۔
(ماخوذ از السیرۃ النبویہ لابن ہشام باب شأن عاصم بن ثابت صفحہ 534 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت مصلح موعودؓ نے ان عورتوں کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ایک خطبہ میں بیان کیا کہ ایک عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ کیا مرد ہم سے زیادہ خدا تعالیٰ کے مقرب ہیں کہ وہ جہاد میں شامل ہوں اور ہم شامل نہ ہوں۔ ہم بھی جہاد میں شامل ہوا کریں گی۔ آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ چنانچہ وہ عورت ایک جنگ میں شریک ہوئی اور جب مالِ غنیمت تقسیم ہوا تو اس کو بھی باقاعدہ طور پر حصہ دیا گیا۔ بعض صحا بہؓ نے کہا کہ اِس کو حصہ دینے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، اِس کو بھی حصہ دیا جائے گا۔ چنانچہ اس عورت کو حصہ دیا گیا۔ پھر آپؐ کی یہ سنت ہو گئی کہ جب مرد جہاد پر جاتے تھے تو مرہم پٹی کے لیے عورتیں بھی ساتھ چلی جاتی تھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدکی جنگوں میں بھی عورتیں شامل ہوتی رہیں اور بعض جنگوں میں عورتوں نے کمان بھی کی۔ آپؓ نے حضرت عائشہ ؓکی مثال دی ہے کہ وہ کمان کر رہی تھیں قطع نظر اس کے کہ اس وقت کون صحیح تھا اور کون غلط لیکن بہرحال حضرت عائشہؓ کو فنونِ حرب سے واقفیت تھی تبھی کمان کی۔ (ماخوذ از قرونِ اولیٰ کی خواتین اور نامور صحابیات کے ایمان افروز واقعات، انوارالعلوم جلد21، صفحہ 617-618) اور بعد میں پھر بہرحال آپؓ کو یہ احساس بھی ہو گیا تھا کہ یہ جنگ غلط ہو رہی ہے اس لیے آپؓ نے صلح کے لیے بھی جھنڈا بلند کر دیا تھا۔
تو بہرحال اس زمانے میں عورتیں فنون جنگ سے بھی واقف تھیں۔ ہر کام سیکھا کرتی تھیں اور ان لوگوں میں بہادری تھی۔ گھر میں نہیں بیٹھی رہا کرتی تھیں۔
اِس زمانے کی جنگ قلم کا جہاد ہے، لٹریچر کی تقسیم کا جہاد ہے، تبلیغ کا جہاد ہے۔ پس عورتوں کا کام ہے کہ تبلیغ میں بھرپور حصہ لیں اور اس روحانی ہتھیار سے لیس ہوں جو تبلیغ کے لیے ضروری ہے۔ قرآن کریم کا علم حاصل کریں۔ دینی علم حاصل کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے علم حاصل کریں۔ حدیث سے علم حاصل کریں اور اپنے اعلیٰ نمونے دکھا کر اپنی حالتوں کو اسلام کی تعلیم کے مطابق بنائیں تبھی اسلام کی خدمت کر سکیں گی۔
پس یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ صرف دنیا کے پیچھے ہم نے چلنا ہے یا ہم نے اپنے عہد کو بھی پورا کرنا ہے اور
ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی بڑے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قربانیاں کرنی پڑتی ہیں
کجا یہ کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپ کہیں کہ ہم یہ کیوں کریں اور وہ کیوں کریں۔ قربانیاں کریں۔ اپنی حیا کا خیال رکھیں۔ اپنے لباس کا خیال رکھیں۔ دین کی تعلیم کا خیال رکھیں اور اپنے عہدوں کو نبھانے کی کوشش کریں۔ ہمیشہ یاد رکھیں اور اس میں کسی کمپلکس (complex) میں، کسی احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے ہمیں یہ دنیادار کیا کہیں گے۔
ہم نے ان دنیاداروں کو اپنے پیچھے چلانا ہے اور اپنی مثالوں سے ان شاءاللہ تعالیٰ اس ملک میں اسلام اور احمدیت کا جھنڈا لہرانا ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔
الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍ نومبر ۲۰۲۴ء