متفرق مضامین

سموگ(SMOG) دھویں اوردھند کا امتزاج

(بشریٰ نذیر آفتاب بنت نذیر احمد خادم، سسکا ٹون، کینیڈا)

سموگ فضائی آلودگی کی ایک قسم ہے جو دھوئیں اور دھند کے ملنے سے بنتی ہے۔ گرمی کی شدت کم ہوتے ہی جہاں ایک طرف موسم میں خوشگوار تبدیلی رونما ہونے لگتی ہے تو دوسری جانب  بدلتے موسم سے کچھ علاقوں میں سموگ کی وجہ مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اکتوبرسے جنوری کےمہینوں  میں بہت سےشہراورقصبے سموگ یعنی دھویں اوردھند کےبادلوں کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ پاکستان میں دن بدن بڑھتی  فضائی اورماحولیاتی آلودگی نے نہ صرف کروڑوں لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنارکھی ہیں بلکہ جانوروں، پودوں اورفصلوں پر بھی اس کے منفی اثرات مترتب ہورہے ہیں۔

سموگ کیا ہے؟

سموگ دھند اور دھویں کے امتزاج سے وجود میں آتی ہے یعنی سموگ فضا میں موجود مختلف گیسوں، مٹی اور پانی کےبخارات سےمل کربنتی ہے۔ جس میں فیکٹریوں، گاڑیوں کے دھوئیں، لکڑی، کوئلہ اورفصلوں کی باقیات جلانےسے سلفرڈائی آکسائیڈ  SO2 نائٹروجن آکسائیڈ NO کی بڑی مقدار شامل ہوجاتی ہے۔ سموگ کی وجہ سے فضا میں اوزون کی مقدار خطرناک طور پر بڑھ جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ فضائی آلودگی تو ساراسال رہتی ہےتوپھرسموگ کا آغاز اکتوبر یا نومبر سے ہی کیوں ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان مہینوں میں ہوا میں نمی کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ اینٹوں کےبھٹوں، فیکٹریوں، گاڑیوں  اور دیگر ذرائع سے خارج ہونے والے دھوئیں کے یہ بادل کم درجہ حرارت کے باعث جم جاتے ہیں۔ جسے عام زبان میں سموگ کہا جاتا ہے۔ جب سورج کی کرنیں ان گیسوں اورفضا میں موجود کثیلے ذرات پرپڑتی ہیں تواس عمل سے یہ سموگ کی شکل اختیارکرکے فضا کو کثیلا کردیتے ہیں۔ جب کسی شہر یا قصبہ کو سموگ آگھیرے تو اس کےاثرات فوری طور پر محسوس کئےجاتے ہیں۔ ابتدا میں آپ کسی جلتی ہوئی چیز کی بو محسوس کریں گے۔ رفتہ رفتہ اس کےبادل اتنے گہرے ہوجاتے ہیں کہ گز، دو گز کے فاصلے پر کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ان حالات میں جہاں عوام الناس کی زندگی متاثر ہوتی ہے وہیں ان ملکوں کی معیشت کو بھی  بھاری نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ذرائع نقل وحمل اور کاروبارِ زندگی معطل ہوکر رہ جاتا ہے، معاشی سرگرمیاں محدود  ہوجاتی ہیں جبکہ حادثات کی شرح بہت بڑھ جاتی ہے۔

سموگ کی شدت میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔ سموگ سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا مستقل حصہ بن گئی ہے۔ 2023ء میں ایک کروڑ 30 لاکھ سےزیادہ آبادی والے شہر لاہور میں مصنوعی بارش برسائی گئی تھی۔ بارش سے سموگ کی جمی ہوئی تہہ سے لوگوں کوقدرت نجات ملتی ہے۔

سموگ سے پیدا ہونے والی بیماریاں اور نقصانات

سموگ سےمتاثرہ افراد میں گلے کی خارش، پھیپھڑوں میں انفیکشن، سانس کی بیماریاں، آنکھوں کی جلن، چھینکوں کا آنا، کھانسی اور بخار عام ہیں۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام لاہور کےنامہ نگار عمردرازننگیانہ اپنی 31؍اکتوبر2024ء کی رپورٹ میں بتاتےہیں:

”پاکستان کا شہر لاہور گذشتہ چند روز سے مسلسل دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرِفہرست یا پھر پہلے تین شہروں میں شمار ہو رہا ہے۔ شہر میں فضائی آلودگی یا سموگ کی سطح خطرناک حد تک زیادہ ہے اور پیر کے روز یہ ریکارڈ 700 اے کیو آئی سے تجاوز کر گئی تھی۔ اس سے قبل لاہور میں فضائی آلودگی کی سطح اس حد تک کبھی نہیں بڑھی۔ بدھ کے روز فضائی آلودگی کو ناپنے والا انڈیکس یعنی اے کیو آئی نیچے گر کر 200 کے لگ بھگ آ گیا تھا تاہم حکام کے مطابق اس کے دوبارہ بڑھنے کے امکانات موجود ہیں۔ حکام اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ سموگ کو بنانے والے عناصر فضا میں جوں کے توں موجود ہیں۔“

ترہب اصغر, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد سے اپنی رپورٹ میں کہتی ہیں: 9 ؍ نومبر 2023ء پاکستان کے صوبہ پنجاب میں رواں برس بھی موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی سموگ نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گذشتہ ہفتوں میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سموگ کی مقدار انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گئی۔ حالیہ ڈیٹا کے مطابق رواں ماہ لاہور شہر متعدد بار دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا۔ ماہرین کے مطابق سموگ کی صورتحال موسم سرما میں شدت اختیار کر جاتی ہے مگر درحقیقت یہ وہ آلودگی ہے جو سارا سال فضا میں موجود رہتی ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو میں دنیا بھر کے ممالک میں فضائی آلودگی کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق کے سنہ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں رہنے والے افراد کی متوقع اوسط عمر ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے باعث چار سال تک بڑھ سکتی ہے جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہو رہی ہے۔ دوسری جانب فضائی آلودگی کو جانچنے کے پیمانے ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) کے مطابق لاہور اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے شہریوں کی زندگی فضائی آلودگی کی وجہ سے سات سال کم ہو رہی ہے۔

سموگ انسانی صحت کے لیے کس حد تک خطرناک؟

نزلہ، کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو سموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں جبکہ سموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپھڑوں کا خراب ہونا یا کینسر۔ ڈاکٹروں کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس لیے جب سموگ بڑھ جائے تو انھیں گھروں میں ہی رہنا چاہیے۔

ماحولیات کے اُمور پر کام کرنے والے کارکن، وکیل اور ماہر رافع عالم نے بی بی سی سے گفتگو میں انڈیا میں ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دہلی میں تین سے 14 سال تک کے عمر کے بچوں پر ایک تحقیق کی گئی جس میں دیکھا گیا کہ سموگ ان کے پھیپڑوں پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے 48 فیصد بچوں کے پھیپھڑے کالے تھے یعنی بلیک لنگز۔اب آپ خود اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ فضائی آلودگی کی یہ قسم کس حد تک انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔(بی بی سی اردو ڈاٹ کام ،اسلام آباد،9؍نومبر 2023ء)

ترقی یافتہ ممالک نے اسموگ سے بچنے کے لیے مختلف قوانین بنارکھے ہیں تاکہ خطرناک دھوئیں کا سبب بننے والی اشیاءاور کارخانوں سے اس کے اخراج کو بڑی حد تک کم کیا جاسکے۔ جن ممالک میں اسموگ کی شرح بہت بڑھ چکی ہے اُنہیں چاہئے کہ وہ بھی ایسے مؤثر اقدامات اٹھائیں جو انہیں اس پریشانی سے نجات دلانے کا موجب بنیں۔

احتیاطی تدابیر

ماہرین اسموگ کے مضر اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے کچھ ایسی احتیاطی تدابیر بتاتے ہیں جن کو بروئے کار لانے سے اس کے بداثرات سے بڑی حد تک بچا جاسکتا ہے ۔

  • اپنے گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں۔
  • کھڑکیوں اور دروازوں کے جو حصے کھلے ہوں اُن پر گیلا کپڑا یا تولیہ رکھیں۔
  • گھر کی صفائی کے لیے جھاڑوکی بجائے گیلا کپڑا استعمال کریں۔
  • گھر کے باہر پانی کا چھڑکاؤ کرتے رہیں۔
  • بلاوجہ گھر سے باہر نہ نکلیں۔
  • گھر سے باہر نکلتے وقت ماسک کا استعمال کریں۔
  • آنکھوں کے چشمے استعمال کریں۔
  • کانٹیکٹ لینس کی بجائے نظر کی عینک زیادہ بہتر ہے۔
  • جب گھر واپس آئیں تو اپنے ہاتھ ، چہرے اور جسم کے کھلے حصوں کو صابن سے اچھی طرح دھولیں۔
  • اسموگ کے دوران ورزش سے پرہیز کریں۔
  • اگر آپ دمہ کے مریض ہیں تو اپنے پاس ان ہیلر(ٰInhaler) ضرور رکھیں۔
  • نظام تنفس میں خرابی کے مریض گنجان آباد علاقوں میں جانے سے گریز کریں۔
  • نیم گرم پانی اور قہوے کا استعمال زیادہ کردیں۔
  • زیاد ہ دھواں چھوڑنے والے جنریٹر اور گاڑوں کو ٹھیک کروائیں۔
  • کوڑا کرکٹ اور متعفن جگہوں کی باقاعدگی سے صفائی کریں اور ایسی جگہوں پر جراثیم کش سپرے کرتے رہیں۔

انسانی صحت قدرت کی طرف سے عطا کردہ بہت بڑی نعمت ہے جس کی قدر کرنا اور اُس کو برقرار رکھنے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ہماری اوّلین ترجیجات میں شامل ہونا چاہئے کیونکہ ایک صحت مند اور چاک وچوبند انسان نہ صرف بہت بہتر زندگی گزارسکتا ہے بلکہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے مفید وجود ثابت ہوتا ہے اورکسی بھی معاشرے کی تعمیر وترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button