وُسعتِ حوصلہ
عمر کو اپنے اس ماڈل پر بہت ناز تھا جو اس نے اسکول میں ہونے والے مقابلہ کے لیے بنایا تھا۔ اس کو یقین تھا کہ اس بار وہ مقابلہ ضرور جیتے گا۔ مقابلہ میں اول آنے پر اس کو 25نمبر دیے جانے تھے جس سے نہ صرف وہ یہ مقابلہ جیت جاتا بلکہ مجموعی نمبروں میں بھی وہ سب سے آگے نکل جاتا۔ وہ اس دن بہت خوش تھا اور خوش کیوں نہ ہوتا ؟ اس نےاس ماڈل پر دن رات محنت کی تھی اور جب وہ ماڈل اٹھائے ہوئے اسکول پہنچا تو سب طلبہ اس ماڈل سے بہت متاثر ہو رہے تھےاور تعریف کر رہے تھے۔ بعض یہ بھی کہہ رہے تھے کہ امسال تو تم ہی مقابلہ جیتو گے اور اس بار تمہیں کوئی نہیں ہرا سکے گا۔
مقابلہ کھانے کے وقفہ کے بعد منعقد کیا جانا تھا اور ابھی صرف دوسری کلاس چل رہی تھی۔ یعنی ابھی عمر کو دو کلاسوں اور وقفہ کے ختم ہونے کا انتظار کرنا تھا مگروہ اتنا خوش تھا کہ اس سے انتظار کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ دوسری کلاس کے اختتام پرجب گھنٹی بجی تو پہلی ٹیچر تو چلی گئیں مگر اگلے ٹیچر کلاس میں نہ آئے۔ یہ دیکھ کر جیسا کہ عام طور پر ہوا کرتا ہے بعض بچےموقع کا فائدہ اٹھاتےہوئے اپنی کرسیوں سے اٹھ گئے۔ اونچی اونچی آوازوں میں باتیں کرنے لگے۔
بچوں کو تو موقع چاہیےتھا کہ ان پر کوئی نگران نہ ہو۔ پس ایسا ہی ہوا اور وہی کلاس جس میں چند لمحات قبل نظم و ضبط نظر آرہا تھا، اب وہاں غلّہ منڈی کا سا ماحول ہو گیا۔ اتنےمیں یاسر نے اپنے بیگ سے بال نکالا اور کہاکہ چلو اس سے کھیلتے ہیں۔ اس نےزور سے بال کو فہیم کی طرف پھینکا۔ فہیم نے اس سے بھی زیادہ تیزی سے بال کو حارث کی طرف پھینک دیا۔ سب بچے میدان میں آگئے۔ عمر کی توجہ فوراً ساتھ پڑے ماڈلز کی طرف گئی اور اس کو خدشہ ہوا کہ کہیں بال میرےماڈل کونہ لگ جائے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حارث نے بال پھینکی اور سیدھی جا کر عمر کے ماڈل پر پڑی اور اس کا اوپر کا حصہ ٹکڑےٹکڑے ہو گیا۔
اچانک سب بچے خاموش ہو گئے اورکلاس میں سناٹا چھا گیا۔سب عمر اور حارث کی طرف دیکھنے لگے۔ سب ہی فکرمند تھے کہ اب عمر جواب میں حارث سے کیا سلوک کرے گا؟ بعض یہ بھی خیال کر رہے تھے کہ بات صرف ڈانٹ تک محدودنہیں رہے گی بلکہ ممکن ہے کہ کہیں ہاتھا پائی ہی نہ شروع ہو جائے۔ حارث نے بھی اپنا رُخ عمر کی طرف پھیر لیا اور اس کو شرمندہ نظروں سے دیکھنے لگا۔عمر کواندر ہی اندر شدید غصہ آرہا تھا۔ وہ اپنے ذہن میں الفاظ تلاش کررہا تھا جو وہ حارث کے لیے استعمال کرتا۔ مگر اچانک اس کو اپنے ابا کی گذشتہ روز کی بات یاد آگئی۔
ایک دن قبل جب عمر نے ماڈل مکمل کر لیا تو اس نے اپنے ابا سے درخواست کی کہ اگلے روز ماڈل سکول لے جانا ہے تو آپ گاڑی بہت آہستہ چلائیے گا۔ اس کے ابا نے کہا کہ کل تو تم نے اپنے چچازاد بھائی کے ساتھ جانا ہے۔ میں اس کو کہہ تو دوں گا مگر اگر غلطی سے تمہارے ماڈل کا کچھ نقصان ہوا تو تم غصہ مت کرنا۔ عمر یہ بات سن کر بہت حیران ہوا اور اپنے ابا سے پوچھنے لگا کہ یہ کیا بات ہوئی؟ اگر اُس کی وجہ سے میرے ماڈل کا نقصان ہوا تو ایسے میں تو مجھے بہت غصہ آئے گااور جائز بھی ہوگا۔ اس کے ابا نے کہا کہ دیکھو عمر اگر کوئی غلطی سے تمہارا نقصان کر دیتا ہے تو تمہیں حوصلہ دکھانا چاہیے اور صبر کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ تمہیں حوصلہ دکھانے پر اور صبر کرنے پر ضرور اجر دےگا۔ اور پھر جن لوگوں کے ساتھ تم غلطی کے باوجود اچھا سلوک کرو گے،تو وہ بھی تمہاری عزت کریں گے۔ عمر نے آگے سے کچھ نہیں کہا مگر اس کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی۔ وہ بس یہی سوچ رہا تھا کہ چاہے جو کچھ ہو میرے ماڈل کوکچھ نہیں ہونا چاہیے۔
چنانچہ یہ بات یاد آتے ہی، عمر حارث کو کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ اس نے ایک بار پھر حارث کی طرف غور سےدیکھا اور اس کو سمجھ آگئی کہ حارث اپنی غلطی پر بہت ہی شرمندہ ہے۔ عمر نے دھیمی آواز میں صرف اتنا کہا:’’تم سے غلطی ہوئی ہے، کوئی بات نہیں‘‘ اور واپس اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ سب بچے حیران تھے مگر کسی نے کچھ نہ کہا اور سب اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔اتنے میں ٹیچر بھی آگئی اور کلاس شروع ہوئی۔
عمر کو اپنے نقصان پر شدید تکلیف تھی مگر وہ برداشت کر رہا تھا۔ تا ہم اپنے ابا کی بات یاد کرتے ہوئے اس بات پر وہ بہت خوشی محسوس کر رہا تھا کہ اس نے حوصلہ دکھایا اور غصہ کا اظہار نہیں کیا۔ یہ بات اس کے اندر عجیب سی خوشی کے جذبات پیدا کر رہی تھی۔ مگر یہ دکھ ضرور تھا کہ اب ماڈل پر اس کو نمبر نہیں ملیں گے۔ کھانے کے وقفہ کی گھنٹی بجی تو وہ باہر کھانا کھانے چلا گیا۔ جب واپس آیا تو مقابلہ شروع ہو چکا تھا۔ سب بچے ماڈلز کے گرد جمع تھے اور ٹیچر جائزہ لے رہی تھی۔ عمر ماڈلز کے قریب نہیں گیا اور پیچھے جا کر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ اب اس کو پوزیشن نہیں ملے گی۔ بلکہ شائد ٹوٹا ہوا ماڈل دیکھ کر ٹیچر نمبر ہی نہ دے۔
کچھ ہی دیر بعد ٹیچر نے سب بچوں کو اشارہ کیا کہ وہ اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ جائیں، نتیجہ سنایا جائے گا۔ جب نتیجہ سنایا گیا تو عمریہ سن کر حیران رہ گیا کہ باوجود ٹوٹے ہوئے ماڈل کے عمر کو ہی اول پوزیشن دی گئی۔جب اس نےحیرانی سےاپنے ارد گرد دیکھنا شروع کیا تو سب بچے ہی مسکرا کر اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔عمر نے اپنے ماڈل کی طرف دیکھا تو وہ بالکل ٹھیک تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ کبھی بال لگا ہی نہیں۔ اس کو یقین نہیں آرہا تھا مگروہ خوش بھی بہت تھا۔ جب دوبارہ وقفہ ہوا تو اس نے اپنے قریب بیٹھے بچوں سےپوچھنا شروع کیا کہ آخر یہ کیا ماجرہ ہے؟ اس پر، حارث عمر کو بتانے لگا کہ آج جب میری وجہ سے تمہارے ماڈل کانقصان ہوا تو تم نےایسا صبر دکھایا کہ ہم سب حیران رہ گئے۔ ہم سب تمہارے وسعت حوصلہ کے قائل ہو گئے ہیں۔ چنانچہ جب وقفہ ہوا تو ہم نے مشورہ کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ ہم سب مل کر تمہارے ماڈل کو دوبارہ ٹھیک کریں گے۔چنانچہ سب نےہی اس میں حصہ ڈالا اور وقفہ ختم ہونے سے پہلے اس کو مکمل کر لیا۔ کوئی بھی طالب علم کھانے کے لیے باہر نہیں گیا۔ سب ہی مدد کرتے رہے۔
عمر کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے سب کا شکریہ ا دا کیا۔ وہ سوچنے لگا کہ واقعی اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور ان کی عزت کو قائم کرتا ہے۔اگر وہ حارث کو جھڑک دیتا تو اس کا کیا فائدہ ہوتا؟ مگر حوصلہ دکھانے کی وجہ سے نہ صرف اس کی پوزیشن آگئی بلکہ پوری کلاس کے دل میں اس کی عزت بھی بڑھ گئی۔عمر کو اپنے ابا کی بات اب مکمل طور پر سمجھ آگئی تھی۔
(م۔ط۔ بشیر)