حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اردو زبان سیکھنے کی اہمیت

[واقفین نو میں سے]جامعہ احمدیہ میں آنے والوں کی تعداد جرمنی میں بھی اور یوکے میں بھی بہت کم ہے۔ ان دونوں جامعات میں یورپ کے دوسرے ملکوں سے بھی طالب علم آتے ہیں، اس طرح تو یہ تعداد اور بھی کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح امریکہ اور کینیڈا کے جامعات میں تعداد کم ہے۔

جماعتیں مبلغین اور مربیان کا مطالبہ کرتی ہیں تو پھر واقفینِ نَو کو جامعہ میں پڑھنے کے لئے تیار بھی کریں۔ کینیڈا اور امریکہ میں اس وقت پندرہ سال سے اوپر تقریباً آٹھ سو واقفینِ نَو ہیں۔ اگر ان کو تیار کیا جائے تو اگلے دو سال میں جامعات میں داخل ہونے والوں کی تعداد خاصی بڑھائی جا سکتی ہے۔ صرف مربی مبلغ کے لئے نہیں بلکہ جامعہ میں پڑھ کے، دینی علم حاصل کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کے مختلف زبانوں میں تراجم کے لئے بھی تیار کئے جا سکتے ہیں۔ ان کو جامعہ میں پڑھانے کے بعد مختلف زبانوں میں سپیشلائز بھی کرایا جا سکتا ہے۔ پھر جو جامعہ میں نہیں آ رہے، وہ بھی زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ کریں اور زبانیں سیکھنے والے کم از کم جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بھی فرمایا تھا اور یہ ضروری ہے کہ تین زبانیں اُن کو آنی چاہئیں۔ ایک تو اُن کی اپنی زبان ہو، دوسرے اردو ہو، تیسرے عربی ہو۔ عربی تو سیکھنی ہی ہے، قرآنِ کریم کی تفسیروں اور بہت سارے میسر لٹریچر کو سمجھنے کے لئے۔ اور پھر قرآن کریم کا ترجمہ کرتے ہوئے جب تک عربی نہ آتی ہو صحیح ترجمہ بھی نہیں ہو سکتا۔ اور اردو پڑھنا سیکھنا اس لئے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب سے ہی اس وقت دین کا صحیح فہم حاصل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ آپؑ کی تفسیریں، آپ کی کتب، آپ کی تحریرات ہی ایک سرمایہ ہیں اور ایک خزانہ ہیں جو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتی ہیں، جو صحیح اسلامی تعلیم دنیا کو بتا سکتی ہیں، جو حقیقی قرآنِ کریم کی تفسیر دنیا کو بتا سکتی ہیں۔ پس اردو زبان سیکھے بغیر بھی صحیح طرح زبانوں میں مہارت حاصل نہیں ہو سکتی۔ ایک وقت تھا کہ جماعت میں ترجمے کے لئے بہت دِقّت تھی، دِقّت تو اب بھی ہے لیکن یہ دِقّت اب کچھ حد تک مختلف ممالک کے جامعات کے جو لڑکے ہیں اُن سے کم ہو رہی ہے یا اس طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے۔ جامعہ احمدیہ کے مقالوں میں اردو سے ترجمے بھی کروائے جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب، حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بعض کتب، کے ترجمے کئے ہیں اور جو بھی طلباء کے سپروائزر تھے، اُن کے مطابق اچھے ہوئے ہیں۔ لیکن بہرحال اگر معیار بہت اعلیٰ نہیں بھی تو مزید پالش کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال ایک کوشش شروع ہوچکی ہے۔ لیکن یہ تو چند ایک طلباء ہیں جن کو دوچار کتابیں دے دی جاتی ہیں، ہمیں زیادہ سے زیادہ زبانوں کے ماہرین چاہئیں۔ اس طرف واقفینِ نَو کو بہت توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر جامعہ کے طلباء کے علاوہ کوئی کسی زبان میں مہارت حاصل کرتا ہے تو اُسے جیسا کہ مَیں نے کہا عربی اور اردو سیکھنے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔ اس کے بغیر وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا جس کے لئے زبان کی طرف توجہ ہے۔

(خطبہ جمعہ ۱۸؍جنوری ۲۰۱۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۸؍فروری ۲۰۱۳ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button