خطاب حضور انور

خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ برطانیہ ۲۰۲۴ء

’’مسلمان بننا آسان نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اسلام کا نمونہ جب تک اپنے اندر پیدا نہ کرو مطمئن نہ ہو۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام )

انصار اللہ وہ تنظیم ہے، جماعت کا وہ حصہ ہے جو اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ چکا ہے اور اس لحاظ سے اس کی ذمہ داری ہے کہ باقی افراد جماعت کے لیے نمونہ بنیں

اپنے گھروں کے ماحول کو ایسا بناؤ جہاں محبت اور پیار نمایاں ہو

بہت سارے بچے اسی لیے بگڑتے ہیں کہ وہ گھروں کے ماحول سے بیزار ہوتے ہیں یا گھروں کے ماحول میں ان کو تسلی نہیں ملتی۔ گھر وں کے ماحول میں ان کو بے چینی مل رہی ہوتی ہے

مرد اپنی نسلوں کی اصلاح کے لیے، اپنی نسلوں کو بچانے کے لیے، اپنی نسلوں میں دین کی محبت پیدا کرنے کے لیے، اپنی نسلوں کو خدا تعالیٰ سے جوڑنے کے لیے، اپنی نسلوں میں جماعتی احترام اور تعلق پیدا کرنے کے لیے ایسے نمونے قائم کریں جو ایک مثال ہوں

بچوں کی تربیت کے لیے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک نسخہ بتایا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے لیے دعا کرواور نرمی کا سلوک کیا کرو اور نرمی اور پیار سے سمجھاؤ گے تو وہ بات سمجھیں گے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’میں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو۔‘‘ اور یہ آپس کے اختلافات ہی ہیں جس کی وجہ سے آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی جو حالت ہو رہی ہے کہ دشمن ان پر ہر طرف سے حملہ کر رہا ہے اور بظاہر غالب آ رہا ہے حالانکہ مومن کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ان کو غلبہ عطا فرمائے گا لیکن یہاں تو الٹی صورت نظر آ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں اتفاق نہیں، اتحاد نہیں

’’میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔ اول خدا کی توحید اختیار کرو۔ دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو۔ وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لیے کرامت ہو‘‘

’’میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر ہرگز پوشیدہ نہ رہے کہ انسان مال و دولت یا زن و فرزند کی محبت کے جوش اور نشے میں ایسا دیوانہ اور ازخودرفتہ نہ ہو جاوے کہ اس میں اور خدا تعالیٰ میں ایک حجاب پیدا ہو جاوے‘‘

’’اب سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کوپڑھو۔ اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے۔ اس نور کے آگے کوئی ظلمت نہ ٹھہر سکے گی‘‘

اگر ہم نے اپنی زندگیوں کو یہ چند باتیں جو میں نے کی ہیں ان کے مطابق ڈھال لیا تو ہم سمجھ لیں کہ ہم نے اپنی بیعت کے حق کو بھی پورا کیا اور انصار اللہ ہونے کا حق بھی ادا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ اس حق کو ادا کرنے کی ہر ایک کو توفیق عطا فرمائے

جب ہم نے اپنے آپ کو انصار اللہ کہا ہے اور نَحنُ اَنصارُ اللّٰہ کا نعرہ لگایا ہے تو ہمیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں ہونے کا حق اور انصار اللہ ہونے کا حق ادا کرنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس کی ہمیں توفیق عطا فرمائے

دورِ حاضر میں درپیش چیلنجز کے پیش نظر انصاراللہ کی ذمہ داریاں از روئے ارشادات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ برطانیہ 2024ء کے اختتامی اجلاس سےسیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز خطاب فرمودہ 29 ستمبر2024ء

(خطاب کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

آج ہمارے ساتھ اس اجتماع میں بیلجیم کے انصار بھی شامل ہیں جن کا اجتماع ہو رہا ہے اور شاید ایک آدھ جگہ اَور بھی ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے کہ اس اجتماع سے بھر پور فائدہ اٹھانے والے ہوں۔

ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں ترقی کے نام پر ہر قسم کی آزادی اور بے جا آزادی کو رواج دیا جا رہا ہے، آزادی کے نام پر لغو قسم کی حرکات کو بھی جائز قرار دیا جا رہا ہے ایسے میں

انصار اللہ کی ذمہ داریاں

پہلے سے بہت بڑھ جاتی ہیں کیونکہ

انصار اللہ وہ تنظیم ہے، جماعت کا وہ حصہ ہے جو اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ چکا ہے اور اس لحاظ سے اس کی ذمہ داری ہے کہ باقی افراد جماعت کے لیے نمونہ بنیں۔

پس اس بات کو سمجھتے ہوئے ان باتوں کو اپنانے، ان پر عمل کرنے اور اسے پھیلانے کی کوشش کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں اور جس کے پورا کرنے کے لیے ہم نے آپؑ کی بیعت کی ہے۔ ہم نے اپنے گھروں کے ماحول کو بھی ایسا بنانا ہے جہاں یہ پاک نمونے قائم ہوں۔ اپنے بیوی بچوں کے سامنے بھی ایسے نمونے قائم کرنے ہیں جو ان کے لیے ایک نمونہ ہوں اور اپنے معاشرے اور ماحول میں بھی وہ نمونے قائم کرنے ہیں جو معاشرے کی بھلائی اور بہتری کے لیے ایک راستہ دکھانے والے ہوں۔ پس اس لحاظ سے ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے جس کو سمجھنا چاہیے اور اس کے لیے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔ پس اگر ہم نے اپنے نمونے نہ دکھائے، اس عمر کو پہنچ کر جو ہماری انتہائی بلوغت کی عمر ہے اپنے وہ نمونے قائم نہ کیے جو دوسروں کے لیے مثال ہوں تو پھر ہم اپنی بیعت کا بھی حق ادا کرنے والے نہیں ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف جگہوں پر ہمیں نصائح فرمائی ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی بات سے لے کر بڑی باتوں تک ہر قسم کی نصیحتیں فرمائیں۔

اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض باتیں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں یہ نصیحت فرمائی کہ

اپنے گھروں کے ماحول کو ایسا بناؤ جہاں محبت اور پیار نمایاں ہو

کیونکہ گھر معاشرے کی وہ چھوٹی اکائی ہے جس میں اگر امن اور سلامتی ہو، پیار اور محبت ہو تو پھر وہی پیغام باہر لوگوں کو بھی پہنچتا ہے، وہی پیغام سارے گھر کے افراد کو بھی پہنچتا ہے اور وہ پھر آگے اس کو پہنچانے والے ہوتے ہیں۔

عورتوں سے حسن معاشرت کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑی نصیحت فرمائی ہے

اور ایک دفعہ لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے بڑے درد سے فرمایا کہ لوگ تو بلا وجہ عورتوں کو اپنی دشنام طرازی کا نشانہ بنا لیتے ہیں ان کو برا بھلا کہہ دیتے ہیں ان سے لڑائی جھگڑا بھی کر لیتے ہیں لیکن ایک موقع پر آپؑ اپنا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھااور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند‘‘ یعنی اونچی آواز جو ہے ’’دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے۔‘‘ اس میں غصہ شامل ہے اور ’’بایں ہمہ کوئی دلآزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا۔‘‘ اس کے علاوہ کوئی ایسی بات نہیں کی تھی جو سخت ہو صرف آواز اونچی تھی لیکن ’’اس کے بعد‘‘ فرماتے ہیں ’’میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع ا ورخضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الٰہی کا نتیجہ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 2ا یڈیشن 1984ء) شاید کوئی میرا چھپا ہوا ایسا گناہ ہے جس کی وجہ سے ایسے سخت الفاظ یا اونچی آواز میرے منہ سے نکل گئی۔

پس یہ وہ معیار ہے جو ہمیں اپنے گھروں میں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ چالیس سال کی عمر میں آپ انصار میں شامل ہو جاتے ہیں اور یہ عمر ایک ایسی ہے جو پوری بلوغت کی عمر ہے اور یہی عمر ایسی ہے جہاں بعض دفعہ انسان اپنے جذبات بھی قابو میں نہیں رکھتا جس کو خیال ہوتا ہے کہ میری عمر ایسی آ گئی ہے کہ میرا عزت اور احترام بھی زیادہ ہونا چاہیے۔ اگر بیوی کی طرف سے کوئی ایسی بات ہو جائے جو مزاج کے خلاف ہو تو بہت سارے معاملات ایسے آتے ہیں جہاں پتہ لگتا ہے کہ خاوند پھر بہت زیادہ سختی بیویوں پر شروع کر دیتے ہیں یا بیویوں کے جو قریبی رشتے ہیں ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں کہ جو پھر بیوی کو نامناسب لگتا ہے اور اس کی طبیعت پر اس کا منفی اثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے پھر ایک بے چینی اور بدمزگی گھر میں پیدا ہو جاتی ہے اور اس کا نتیجہ پھر یہ نکلتا ہے کہ بچوں پر بھی برا اثر پڑتا ہے بچوں کی تربیت پر برا اثر پڑتا ہے۔ بچے بعض دفعہ دیکھ لیتے ہیں کہ باپ کے نامناسب رویے کی وجہ سے ہماری ماں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے یا باپ ہماری ماں کے جذبات کا صحیح احترام نہیں کرتا اور خیال نہیں رکھتا یا ہمارا باپ اپنے رشتے داروں سے حسن سلوک نہیں کرتا۔ چاہے وہ رحمی رشتہ دار ہوں یا سسرالی رشتہ دار ہوں۔ پھر اس کا اثر بچوں پر پڑتا ہے اور وہ بھی پھر گھر کے ماحول سے بیزار ہوتے ہیں اور باہر جا کر سکون تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ باہر جاتے ہیں تو باہر کے ماحول میں پھر جیسا بھی ماحول میسر ہے ان کو مل جاتا ہے جس کی وجہ سے پھر برائیاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور

بہت سارے بچے اسی لیے بگڑتے ہیں کہ وہ گھروں کے ماحول سے بیزار ہوتے ہیں یا گھروں کے ماحول میں ان کو تسلی نہیں ملتی۔ گھر وں کے ماحول میں ان کو بے چینی مل رہی ہوتی ہے۔

پس اس لحاظ سے یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ

مرد اپنی نسلوں کی اصلاح کے لیے، اپنی نسلوں کو بچانے کے لیے، اپنی نسلوں میں دین کی محبت پیدا کرنے کے لیے، اپنی نسلوں کو خدا تعالیٰ سے جوڑنے کے لیے، اپنی نسلوں میں جماعتی احترام اور تعلق پیدا کرنے کے لیے ایسے نمونے قائم کریں جو ایک مثال ہوں۔

ان کے گھروں میں ایک سکون ہو۔ یہ گھروں کا سکون جو ہے جب یہ حاصل ہو جائے گا تو پھر ہر طرف ایک امن اور سکون کی فضا انہیں نظر آئے گی۔ اور بچے پھر اس ماحول میں گھروں میں رہ کر اپنے ماں باپ سے زیادہ تعلق پیدا کرنے والے ہوں گے اور اپنی اصلاح کر کے پھر دین سے بھی جڑنے والے ہوں گے کیونکہ ان کو پتہ ہو گا کہ میرا باپ جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ دین کی تعلیم کے مطابق کر رہا ہے۔ پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو انصار کی عمر کو پہنچ کر پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ بیشک خدام الاحمدیہ کی بھی ذمہ داری ہے۔ ان کے بچے چھوٹے بچے ہوتے ہیں۔ خدام بھی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کریں تا کہ بچپن سے ہی گھروں کا پُرسکون ماحول نظر آئے لیکن انصار کی عمر کو پہنچ کر بچے بہت حد تک باشعور ہو جاتے ہیں بلکہ بالغ ہو جاتے ہیں اس لیے اس عمر کوپہنچ کے تو خاص طور پر اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ہمارے گھریلو ماحول نہایت پیار اور محبت والے ہوں اور پُرامن رہنے والے ہوں۔ پھر

بچوں کی تربیت کے لیے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک نسخہ بتایا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے لیے دعا کرواور نرمی کا سلوک کیا کرو اور نرمی اور پیار سے سمجھاؤ گے تو وہ بات سمجھیں گے

بھی اور ان کو یہ شکوہ بھی نہیں ہو گا کہ ہمارا باپ سختی کر رہا ہے یا ہمیں غلط باتوں پر بلا وجہ ڈانٹ ڈپٹ ہو رہی ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ تو ہوتی ہی غلط باتوں پر ہے، غلط باتوں پر بھی ڈانٹ ڈپٹ اگر ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو وہ بھی غلط چیز ہے۔ غلط بات ہی ہے جیسا کہ میں نے کہا اس پہ ڈانٹ ڈپٹ ہوتی ہے۔ اچھی باتوں پہ تو کوئی نہیں ڈانٹتا لیکن اس کا بھی اگر صحیح موقع پر نہیں ہو، صحیح طریقے سے نہ ہو تو بچوں پر برا اثر پڑتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ بلا وجہ کی ڈانٹ ڈپٹ نہ ہو۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’ہدایت اور تربیت حقیقی خدا تعالیٰ کا فعل ہے۔ سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پر اصرار کو حد سے گزار دینا یعنی بات بات پر بچوں کو روکنا اور ٹوکنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں اور ہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے۔ یہ ایک قسم کا شرک خفی ہے اس سے ہماری جماعت کو پرہیز کرنا چاہیے۔‘‘

آپؑ فرماتے ہیں ’’اس سے ہماری جماعت کو پرہیز کرنا چاہیے۔‘‘ فرمایا ’’ہم تو اپنے بچوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آداب تعلیم کی پابندی کراتے ہیں۔ بس اس سے زیادہ نہیں اورپھر اپنا پورا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں جیسا کسی میں سعادت کا تخم ہو گا وقت پر سرسبز ہو جائے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ5 ایڈیشن1984ء)

پھر آپؑ نے یہ بھی فرمایا کہ بچوں کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ میں اپنے بچوں کے لیے بہت دعا کرتا ہوں اور یہ تبھی ہو گا جب آپ لوگوں کو ہم سب کو اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا ہو گا اور دعا پر اتنا یقین ہو گا کہ ہم یہ سمجھیں گے کہ دعا کے بغیر ہمارا گزار ہ نہیں اور اپنی پانچ وقت کی نمازوں میں رقت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے، درد پیدا کرنے کی کوشش کریں گے، بچوں کے لیے خاص دعائیں کرنے کی کوشش کریں گے تا کہ ہماری نسلیں بھی بچ جائیں اور ہمیشہ دین کے ساتھ جڑی بھی رہیں اور خدا تعالیٰ سے تعلق بھی ان کا پختہ ہوتا چلا جائے۔

پھر ایک نصیحت آپؑ نے یہ بھی فرمائی کہ

نیکی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کرو اور بدی کرنے والوں کو معاف کر دو،

معافی کی عادت بھی ڈالو۔ بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ہاں ذرا ذرا سی بات پر جب جھگڑے ہو جاتے ہیں تو پھر انسان معاف نہیں کرتا اس کو دل میں رکھتا ہے اور دل میں رکھ کر پھر وہ بات بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ یہ چیز جو ہے یہ ناپسندیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے اور اسلام کی تعلیم میں اس کو بہت زیادہ ناپسند کیا گیا ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’سنو اور یاد رکھو کہ خدا اس طرز عمل کو پسند نہیں فرماتا۔ تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو اور محض خدا کے لیے رکھتے ہو نیکی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کرو اور بدی کرنے والوں کو معاف کرو۔‘‘

(روئداد جلسہ دعا، روحانی خزائن جلد15 صفحہ621)

یعنی نیکی کرنے والوں کے ساتھ تو نیکی ہے ہی اگر نہیں کرو گے تو یہ تو بہت بڑی برائی ہے اور بہت بڑا گناہ ہے لیکن فرمایا کہ بدی کرنے والوں کو بھی معاف کر دو کیونکہ یہ بھی ایک نیکی ہے۔ جب ان کو معاف کرو گے تو یہ نیکی ہو گی۔ پس اس لحاظ سے ہمیشہ اپنے دلوں میں وسعت پیدا کریں اور اپنے سے برائی کرنے والوں سے بھی صرف نظر کریں اور جس حد تک ممکن ہو سوائے اس کے کہ کسی بہت بڑے نقصان کا احتمال ہو یا جماعتی نقصان ہو تا ہو تب اس کو سزا دینے کے لیے جو مناسب فورم ہے وہاں تو جا سکتے ہیں لیکن خود کبھی ایسی باتیں نہ کریں جس سے لڑائی جھگڑے کی صورتحال پیدا ہو اور معاشرے کا امن برباد ہو اور صرف معاشرے کا امن برباد نہیں ہو گا بلکہ ہمارے یہ نمونے دیکھ کر ہمارے بچوں پر بھی منفی اثر پڑے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میں تو جماعت کو باہم اتفاق و محبت سے رہنے کی نصیحت کرنے کے لیے آیا ہوں۔ فرمایا کہ دو ہی مسئلے ہیں میرے جن کو لے کر میں آیا ہوں۔ اول یہ کہ خدا کی توحید اختیار کرو۔ دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو۔ وہ نمونہ دکھاؤ جو دوسروں کے لیے ایک کرامت کا نمونہ ہو جائے۔ ایسی نظر ہو ایسا نمونہ ہو جو دوسروں کو مجبور کرے کہ واقعی ان لوگوں کا غیرمعمولی حوصلہ اور فعل ہے اور غیر معمولی اخلاق ہیں جس کی وجہ سے یہ آپس میں محبت رکھتے ہیں اور نہ صرف آپس میں محبت رکھتے ہیں بلکہ ہر انسان سے ایک محبت کا تعلق رکھنے والے ہیں۔

آپؑ نے ایک جگہ فرمایا کہ ’’جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلےبہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو۔ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وجود و احد رکھو ورنہ ہوا نکل جائے گی۔ نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لیے ہے کہ باہم اتحاد ہو۔ برقی طاقت کی طرح‘‘ یعنی بجلی جس طرح تاروں کے ذریعہ سے چلتی ہے اس طرح ’’ایک کی خیردوسرے میں سرایت کرے گی۔ اگر اختلاف ہو اتحاد نہ ہو تو پھر بے نصیب رہو گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دعا کرو۔ اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی ایسا ہی ہو۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے کہ اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو تو فرشتہ کی تو منظور ہوتی ہے۔ میں نصیحت کرتا ہوں‘‘ آپؑ فرماتے ہیں

’’میں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ48 ایڈیشن1984ء)

اور یہ آپس کے اختلافات ہی ہیں جن کی وجہ سے آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی جو حالت ہو رہی ہے کہ دشمن ان پر ہر طرف سے حملہ کر رہا ہے اور بظاہر غالب آ رہا ہے حالانکہ مومن کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ان کو غلبہ عطا فرمائے گا لیکن یہاں تو الٹی صورت نظر آ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں اتفاق نہیں، اتحاد نہیں۔

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس مقصد کے لیے آئے تھے اس کو پورا کرنے کے لیے ہم نے آپس میں بھی اتفاق اور اتحاد پیدا کرنا ہے اور معاشرے کو بھی اس کی تعلیم دینی ہے۔

آپؑ مزید فرماتے ہیں کہ

’’میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔ اول خدا کی توحید اختیار کرو۔ دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو۔ وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لیے کرامت ہو۔‘‘

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یہی دلیل تھی جو صحابہؓ میں پیدا ہوئی تھی کُنْتُمْ اَعْدَاءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ۔ (آل عمران:104) یاد رکھو تالیف ایک اعجاز ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’یاد رکھو جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ وہ مصیبت اور بلا میں ہے۔ اس کا انجام اچھا نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد2صفحہ48 ایڈیشن1984ء)

پس یہ بہت بڑی بات ہے، بہت بڑی تنبیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اور تمہارے درمیان الفت پیدا کرنے کے لیے اُس نے ایک دین قائم کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اسلام کی تعلیم بھیجی اور پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے اس دشمنی کو ختم کرنے کے لیے تمہیں ایک بنانے کے لیے تعلیم دی۔ اب تمہارا کام ہے کہ اس دشمنی کو کلیةً مٹا دو اور آپس میں محبت اور پیار پیدا کرو۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو بغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے‘‘ یعنی مہدی کے آنے کی علامت یہ ہے کہ جو اس کی جماعت میں شامل ہوں گے ان کا آپس کا بغض ختم ہو جائے گا تو تم نے جو مہدی کو منظور کیا ہے تو آپس کے جھگڑوں اور کینوں اور بغضوں کو دور کرنا پڑے گا۔ فرمایا کہ ’’کیا وہ علامت پوری نہ ہو گی؟ وہ ضرور ہو گی۔‘‘ اور فرمایا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ ’’میرے وجود سے انشاء اللہ ایک صالح جماعت پیداہو گی۔‘‘ پس اگر ہم نےحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صالح جماعت میں شامل ہونا ہے تو آپس کے بغضوں کو بھی دور کرنا ہو گا۔ فرمایا کہ ’’باہمی عداوت کا سبب کیا ہے؟ بخل ہے۔ رعونت ہے۔ خود پسندی ہے اور جذبات ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتےاور باہم محبت اور اخوت سے نہیں رہ سکتے۔ جو ایسے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں جب تک کہ عمدہ نمونہ نہ دکھائیں۔‘‘ وہ ظاہر میں تو یہ کہتے رہیں گے کہ ہم جماعت میں شامل ہیں لیکن حقیقت میں وہ اپنی زندگی تک ہی مہمان ہیں۔ چاہے وہ زندہ رہنے تک اپنے آپ کو احمدی ہونے کا دعویٰ کرتے رہیں جب تک کہ وہ عمدہ نمونہ دکھاکر اس تعلیم پر عمل نہ کریں وہ احمدی ہونے کا حق ادا نہیں کرتے جس کی تعلیم ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلامی تعلیم کی روشنی میں دی ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی نظر میں احمدی نہیں ہیں۔ فرمایا ’’مَیں کسی کے سبب سے اپنے اوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا۔ ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشاء کے موافق نہ ہو وہ خشک ٹہنی ہے۔ اس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ49،48 ایڈیشن1984ء)

پھر آپؑ نے فرمایا، ایک نصیحت یہ فرمائی کہ

دنیا کو مقصود بالذات نہ بناؤ بلکہ دین کو بناؤ

اور دنیا اس کے لیے بطور خادم اور مرکب ہے۔ وضاحت کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ مومن کو چاہیے کہ وہ جدو جہد سے کام کرے لیکن جس قدر مرتبہ مجھ سے ممکن ہے یہی کہوں گا یعنی بیشمار دفعہ بھی کہنا پڑے تو یہی کہوں گا کہ ’’دنیا کو مقصود بالذات نہ بنا لو۔ دین کو مقصود بالذات ٹھہراؤ اور دنیا اس کے لیے بطور خادم اور مرکب کے ہو۔‘‘ خادم کے طور پر ہو۔ دنیا کی چیزیں مل کر دین کی خادم بننے والی چیزیں بن جائیں۔ یہ اسباب جو ہیں یہ دین سے دور ہٹانے والے نہ ہوں بلکہ یہ دین کی خدمت کرنے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں ان سے فائدہ اٹھاؤ۔ فرمایا کہ ’’دولت مندوں سے بسا اوقات ایسے کام ہوتے ہیں کہ غریبوں اور مفلسوں کو وہ موقع نہیں ملتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں خلیفہ اول ؓنے‘‘ یعنی حضرت ابوبکر صدیقؓ  ’’جو بڑے ملک التّجار تھے مسلمان ہو کر لانظیر مدد کی اور آپؓ کو یہ مرتبہ ملا کہ صدیق کہلائے اور پہلے رفیق اور خلیفۂ اوّل ہوئے۔‘‘

(ملفوظاتجلد2صفحہ92ایڈیشن1984ء)

آپؑ فرماتے ہیں کہ یہ مقام حضرت خلیفہ اوّل کو اس لیے ملا کہ آپؓ نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو عہد کیا تھا اس کو پورا کیا اور اگر ہر شخص اس عہد کو پورا کرتا رہے گا تو اس کو بھی حفظِ مراتب کے طور پراللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نوازتا رہے گا۔ جو جو اس کا مقام ہے جیسا جیسا اس کی نیکیاں ہیں اس کے مطابق اللہ تعالیٰ ان کو نوازتا چلا جائے گا۔ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ بغیر نوازے چھوڑے۔

پھر ایک جگہ نصیحت کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ ’’جہنم کیا چیز ہے؟‘‘ فرمایا کہ ’’ایک جہنم تو وہ ہے جس کا مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے وعدہ دیا ہے اور دوسرےیہ زندگی بھی اگر خدا تعالیٰ کے لیے نہ ہو تو جہنم ہی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کو مقدم رکھو گے تو جنت ملے گی۔ نہیں تو جہنم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ ایسے انسان کا تکلیف سے بچانے اور آرام دینے کے لیے متولی نہیں ہوتا۔ یہ خیال مت کرو کہ کوئی ظاہری دولت یا حکومت، مال و عزت، اولاد کی کثرت کسی شخص کے لیے کوئی راحت یا اطمینان،سکینت کا موجب ہو جاتی ہے اور وہ دم نقد بہشت ہی ہوتا ہے ؟نہیں ہرگز نہیں۔ وہ اطمینان تسلی اوروہ تسکین جو بہشت کی انعامات میں سے ہیں ان باتوں سے نہیں ملتی وہ خدا ہی میں زندہ رہنے اور مرنے سے مل سکتی ہے جس کے لیے انبیاء علیہم السلام خصوصاً ابراہیم اور یعقوب علیہما السلام کی یہی وصیت تھی کہ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ۔ (البقرۃ:133)‘‘ کہ جب تک فرمانبرداری نہ ہو اس وقت تک مرنا نہیں۔ یعنی اپنے مرنے تک تم نے فرمانبردار رہنا ہے۔ فرمایا کہ ’’لذات دنیا تو ایک قسم کی ناپاک حرص پیدا کر کے طلب اور پیاس کو بڑھا دیتی ہیں۔ استسقاء کے مریض کی طرح پیاس نہیں بجھتی۔‘‘ جس کو پانی کی پیاس کا مرض ہوتا ہے اس کی پیاس نہیں بجھتی اس طرح اس کی بھی پیاس نہیں بجھتی دنیا کی۔ دنیا میں ڈوبتے چلے جاؤ گے تو دنیا کی لالچ اور لالچ کی طرف لے جاتی رہے گی اور ایک پیاس کے مریض کی طرح انسان یہی چاہے گا کہ میں دولت کو حاصل کرتا ہی چلا جاؤں۔ پانی کو پیتا ہی چلا جاؤں اور فرمایا کہ پیاس نہیں بجھتی ’’یہاں تک کہ ہلاک ہو جاتے ہیں‘‘ پس دولت کا بھی یہی حال ہے کہ انسان دولت کے پیچھے اپنے آپ کو ہلاک کر لیتا ہے۔ فرمایا کہ ’’یہ بےجا آرزؤں اور حسرتوں کی آگ بھی منجملہ اسی جہنم کی آگ کے ہے جو انسان کے دل کو راحت اور قرار نہیں لینے دیتی بلکہ اس کو ایک تذبذب اور اضطراب میں غلطان و پیچان رکھتی ہے۔ اس لیے میرے دوستوں کی نظر سے یہ امرہرگز پوشیدہ نہ رہے۔‘‘ فرماتے ہیں میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر پوشیدہ نہ رہے۔ فرمایا

’’میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر ہرگز پوشیدہ نہ رہے کہ انسان مال و دولت یا زن و فرزند کی محبت کے جوش اور نشے میں ایسا دیوانہ اور ازخودرفتہ نہ ہو جاوے کہ اس میں اور خدا تعالیٰ میں ایک حجاب پیدا ہو جاوے۔

مال اور اولاد اسی لیے تو فتنہ کہلاتی ہے۔ ان سے بھی انسان کے لیے ایک دوزخ تیار ہوتا ہے اور جب وہ ان سے الگ کیا جاتا ہے تو سخت بے چینی اور گھبراہٹ ظاہر کرتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد2صفحہ102،101۔ایڈیشن1984ء) یعنی اولاد اور مال سے جب انسان علیحدہ ہو جائے، نقصان پہنچے تو بڑا بے چین ہو جاتا ہے۔

پھر

قرآن کریم پڑھنے کی طرف نصیحت

کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ دن رات تم قرآن کریم کو پڑھو یہ حربہ اپنے ہاتھ میں لے لو کیونکہ تمہاری فتح اسی کے ذریعہ سے ہونی ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم کو پڑھو اس پر عمل کرو گے تو تمہاری فتح ہو گی۔

فرمایا: ’’اگر ہمارے پاس قرآن نہ ہوتا اور حدیثوں کے یہ مجموعے ہی مایہ ناز ایمان و اعتقاد ہوتے تو ہم قوموں کو شرمساری سے منہ بھی نہ دکھا سکتے۔‘‘ فرمایا کہ ’’مَیں نے قرآن کریم کے لفظ میں غور کی تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبر دست پیش گوئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے قابل کتاب ہو گی جبکہ اَور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی۔ اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لیے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لیے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہو گی اور دیگر کتابیں قطعاً چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی۔ فرقان کے بھی یہی معنے ہیں۔ یعنی یہی ایک کتاب حق وباطل میں فرق کرنے والی ٹھہرے گی اور کوئی حدیث کی یا او ر کوئی کتاب اس حیثیت اور پایہ کی نہ ہو گی۔ اس لیے

اب سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کوپڑھو۔

بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کریم کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی رات دن جھکا رہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری جماعت کو چاہیے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان ودل سے مصروف ہو جائیں اور حدیثوں کے شغل کو ترک کر یں۔ بڑے تاسّف کا مقام ہے کہ قرآن کریم کا وہ اعتنااورتدارس نہیں کیا جاتا‘‘ اس طرح نہیں پڑھا جاتا ’’جو احادیث کا کیا جاتا ہے۔

اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے۔ اس نور کے آگے کوئی ظلمت نہ ٹھہر سکے گی‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ122۔ ایڈیشن1984ء)

پس فرمایا کہ قرآن کریم کو اوّل فوقیت دو، حدیثوں کو اتنا اپنے اوپر سوار نہ کرو کہ حدیث میں یہ آیا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم پر غور کرو اس پر عمل کرو اس کی تشریح دیکھو اس کی تفسیر دیکھو اور ہاں دوسری جگہ یہ بھی فرمایا کہ جو حدیثیں قرآن کریم کی تائید کرتی ہیں اس کی تشریح کرتی ہیں ان کو مانو لیکن یہ کہنا کہ یہ حدیث میں آیا ہے اور اس کی سمجھ بھی تمہیں نہ آئے اور حدیث قرآن سے ٹکراتی ہے تو وہ حدیث قابل قبول نہیں ہے۔

پس اصل حقیقت اصل چیز قرآن کریم ہے۔ قرآن کریم کو پڑھنے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور خاص طور پر انصار کو اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے اور نہ صرف خود توجہ دینی چاہیے بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس طرف توجہ دلانی چاہیے تا کہ وہ بھی قرآن کریم پڑھیں اور اپنی حالتوں کو بہتر کریں۔

پھر

بیعت کی اہمیت کے بارے میں

آپؑ فرماتے ہیں۔ تم نے میرےسے بیعت کی ہے تو حقیقی بیعت کس طرح ہو سکتی ہے اور اگر حقیقی بیعت نہیں تو صرف پوست ہے۔ یہ صرف ایک shellہے جو تم نے اپنے اوپر اوڑھ لیا ہے، چڑھایا ہوا ہے۔ جس کے اندر تم چلے گئے ہو۔ اس کی حقیقت کچھ نہیں ہے۔ فرمایا کہ جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کو ٹٹولنا چاہیے کہ کیا میں چھلکا ہی ہوں یا مغز۔ صرف تمہارے اوپر shellہے، یا اس کے اندر گودا بھی ہے۔ خول چڑھا ہوا ہے یا اس کے اندر حقیقت میں وہ معرفت بھی ہے جو ایک بیعت کرنے والے کو حاصل ہونی چاہیے اور وہ مغز بھی ہے جو بیعت کرنے والے میں موجود ہونا چاہیے۔ اس کا اظہار اس کے ہر عمل سے ہونا چاہیے۔ فرمایا کہ جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان، محبت، اطاعت، بیعت، اعتقاد، مریدی، اسلام کا سچا مدعی کچھ نہیں۔ یہ سب باتیں ختم ہیں اگر مغز نہیں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد2 صفحہ167۔ ایڈیشن1984ء)

’’یاد رکھو کہ یہ سچی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مغز کے سوا چھلکے کی کچھ بھی قیمت نہیں۔ خوب یاد رکھو کہ معلوم نہیں موت کس وقت آ جاوے۔‘‘ اور خاص طور پر انصار کی عمر کو پہنچنے کے بعد کچھ پتہ نہیں ہوتا ’’لیکن یہ یقینی امر ہے کہ موت ضرور ہے۔‘‘ فرمایا ’’پس نرے دعویٰ پر ہرگز کفایت نہ کرو اور خوش نہ ہو جاؤ وہ ہرگز ہرگز فائدہ رساں چیزنہیں۔ جب تک انسان اپنے آپ پر بہت موتیں وارد نہ کرے اور بہت سی تبدیلیوں اور انقلابات میں سے ہو کر نہ نکلے وہ انسانیت کے اصل مقصد کو نہیں پا سکتا۔‘‘ فرمایا انسان کے معنی یہ ہیں کہ ’’انسان اصل میں اُنس سے لیا گیا ہے یعنی جس میں دو حقیقی اُنس ہوں۔ ایک اللہ تعالیٰ سے اور دوسرا بنی نوع کی ہمدردی سے۔‘‘ ایک اللہ تعالیٰ کی محبت، دوسری بنی نوع کی ہمدردی اور محبت۔ ’’جب یہ دونو اُنس اس میں پیدا ہوجاویں اس وقت انسان کہلاتا ہے اور یہی وہ بات ہے جو انسان کا مغز کہلاتی ہے۔‘‘ اگر یہ نہیں۔ اگر یہ دونوں باتیں اس میں نہیں ہیں تو انسان نہیں کہلا سکتا۔ کہنے کو تو انسان ہے لیکن حقیقی انسان نہیں ہے ’’اور اسی مقام پر انسان اولوالالباب کہلاتا ہے۔‘‘ حقیقی اور عقلمند انسان کہلا سکتا ہے۔ ’’جب تک یہ نہیں کچھ بھی نہیں۔ ہزار دعویٰ کر دکھاؤ مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک، اس کے نبی اور اس کےفرشتوں کے نزدیک ہیچ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ168،167ایڈیشن1984ء)

پھر آپؑ نے فرمایا کہ حقیقی مسلمان بننا ہے تو اپنی زندگی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ دکھانے کی کوشش کرو۔ وہی حالت پیدا کرو جو آپ نے پیدا کی اور جس کا اسوہ ہمارے سامنے قائم فرمایا ورنہ پھر ہم شیطان کے پیرو بن جائیں گے اگر یہ کوشش ہم نے نہ کی۔ پس

بہت خوف کا مقام ہے اور خاص طور پر انصار اللہ کے اوپر بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں ان کو تو بہت زیادہ خوف کرنا چاہیے اوربہت زیادہ کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی حالتوں کو ایسا کریں کہ کبھی شیطان کے پیرو نہ بن سکیں۔

آپؑ نے فرمایا کہ ’’سعادتِ عظمیٰ کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی راہ رکھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جاوے جیسا کہ اس آیت میں صاف فرما دیا ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ۔ (آل عمران:33) یعنی آؤ میری پیروی کرو تا کہ اللہ بھی تم کو دوست رکھے۔ اس کے یہ معنےنہیں ہیں کہ رسمی طور پر عبادت کرو۔ اگر حقیقتِ مذہب یہی ہے تو پھر نماز کیا چیز ہے۔‘‘ رسمی باتیں اگر ہیں تو پھر نماز کیا چیز ہے ’’اور روزہ کیا چیز ہے۔ خود ہی ایک بات سے رکے اور خود ہی کر لے۔‘‘ خود ہی اپنی تشریح کر لی کہ ہم اس وقت نماز پڑھیں گے یہ نماز ہے اور یہ روزہ ہے۔ نہیں۔ نمونہ ہمارے سامنے قائم ہے وہ دیکھنا ہو گا۔ فرمایا یعنی خود اپنی مرضی سے یہ کام کیا اور مرضی ہوئی تو نماز پڑھ لی مرضی ہوئی تو نہ پڑھی۔ مرضی ہوئی تو روزہ رکھا مرضی ہوئی تو نہ رکھا تو یہ تو کوئی بات نہیں۔ پھر مذہب کا کیا فائدہ ہے۔ فرمایا کہ اگر حقیقت مذہب یہی ہے تو پھر نماز کیا چیز ہے اور روزہ کیا چیز۔ اگر اپنی مرضی سے ہی کرنا ہے سب کچھ تو پھر نماز روزے کی تو کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ’’اسلام محض اس کا نام نہیں ہے۔ اسلام تو یہ ہے کہ بکرے کی طرح سر رکھ دے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا مرنا، میرا جینا، میری نماز، میری قربانیاں اللہ ہی کے لئے ہیں اور سب سے پہلے میں اپنی گردن رکھتا ہوں۔ یہ فخر اسلام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اوّلیت کا ہے۔ نہ ابراہیمؑ کو نہ کسی اور کو۔ یہ اسی کی طرف اشارہ ہے کُنْتُ نَبِیًّا وَاٰدَمُ بَیْنَ الْمَآءِ وَالطِّیْنِ۔اگرچہ آپؐ سب نبیوں کے بعد آئے مگر یہ صدا کہ میر امرنا اور میرا جینا اللہ تعالیٰ کے لیے ہے دوسرے کے منہ سے نہیں نکلی۔‘‘

اور فرمایا کہ ’’اب دنیا کی حالت کو دیکھو کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے عمل سے یہ دکھایا کہ میرا مرنا اور جینا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور یا اَب دنیامیں مسلمان موجود ہیں۔ کسی سے کہا جاوے کہ کیا تو مسلمان ہے؟ تو کہتاہے۔ الحمدللہ۔ جس کاکلمہ پڑھتا ہے اس کی زندگی کا اصول تو خدا کے لیے تھا مگر یہ دنیا کے لیے جیتا اور دنیا ہی کے لیے مرتا ہے۔‘‘ کہتے تو یہ ہیں کہ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں لیکن جس کے لیے کلمہ پڑھا محمد رسول اللہؐ کا وہ تو خدا کے لیے جیتے اور مرتے تھے لیکن عام انسان مسلمان کہلانے کے باوجود دنیا کے لیے مرتے اور جیتے ہیں۔ فرمایا ’’اس وقت تک کہ غرغرہ شروع ہو جاوےدنیا ہی اس کی مقصود،محبوب اور مطلوب رہتی ہے۔‘‘ موت تک یہی باتیں ہوتی ہیں کہ دنیا کس طرح کمائیں۔ ’’پھر کیونکرکہہ سکتا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتا ہوں۔‘‘

فرمایا ’’یہ بڑی غورطلب بات ہے اس کو سرسری نہ سمجھو۔‘‘ بڑی غورطلب بات ہے اس کو سرسری نہ سمجھو۔ مسلمان بننا بہت مشکل کام ہے اور جو اسوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا اس پر چلنا بہت مشکل کام ہے۔ اس کے لیے محنت کرنی پڑے گی۔ ’’اس کو سرسری نہ سمجھو۔

مسلمان بننا آسان نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اسلام کا نمونہ جب تک اپنے اندر پیدا نہ کرو مطمئن نہ ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد2صفحہ 187،186ایڈیشن1984ء)

پس یہ بہت اہم بات ہے، بہت ڈرانے والی بات ہے، بہت توجہ دلانے والی بات ہے اس کی طرف ہمیں توجہ رکھنی چاہیے۔

اگر ہم نے اپنی زندگیوں کو یہ چند باتیں جو میں نے کی ہیں اس کے مطابق ڈھال لیا تو ہم سمجھ لیں کہ ہم نے اپنی بیعت کے حق کو بھی پورا کیا اور انصار اللہ ہونے کا حق بھی ادا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ اس حق کو ادا کرنے کی ہر ایک کو توفیق عطا فرمائے۔

آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس اَور پڑھتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’تمام کامیابی ہماری معاشرت اور آخرت کے تعاون پر ہی موقوف ہو رہی ہے۔ کیا کوئی اکیلا انسان کسی کام دین یا دنیا کو انجام دے سکتا ہےہرگز نہیں۔ کوئی کام دینی ہو یا دنیوی بغیر معاونت باہمی کے چل ہی نہیں سکتا۔ ہریک گروہ کہ جس کا مدعا اور مقصد ایک ہی ہے مثل اعضاء یک دیگر ہےاور ممکن نہیں۔‘‘ مختلف اعضاء ہیں لیکن جسم ایک ہے۔ ’’جو کوئی فعل جو متعلق غرض مشترک اس گروہ کے ہے بغیر معاونت باہمی ان کی کے بخوبی و خوش اسلوبی ہوسکے۔‘‘ کوئی کام جو مشترک کام ہے بغیر باہمی معاونت کے ایک دوسرے کی مدد کرنے کے خوش اسلوبی سے سرانجام نہیں پا سکتا۔ پس آپس میں معاونت ضروری ہے۔ فرمایا کہ ’’بالخصوص جس قدر جلیل القدر کام ہیں اور جن کی علت غائی‘‘ جس کا آخری نتیجہ ’’کوئی فائدہ عظیمہ جمہوری ہے‘‘ یعنی بہت بڑا فائدہ جو پوری قوم کو ملنے والا ہے ’’وہ تو بجز جمہوری اعانت کے کسی طور پر انجام پذیر ہی نہیں ہو سکتے۔ ’’قوم کا فائدہ اٹھانے کے لیے پوری قوم کو اکٹھا ہو کے کام کرنا پڑے گا ’’اور صرف ایک ہی شخص اس کا متحمل ہرگزنہیں ہو سکتااور نہ کبھی ہوا۔ انبیاء علیہم السلام جو توکل اور تفویض اور تحمل اور مجاہدات افعال خیر میں سب سے بڑھ کر ہیں ان کو بھی بہ رعایت اسباب ظاہری مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہ (الصف:15) کہنا پڑا۔‘‘ انبیاء نے بہت سارے کام کیے ان کو اللہ تعالیٰ نے سپرد کیے ان سے وعدے بھی کیے لیکن انہوں نے بھی جماعت اکٹھی کی اور کہا کہ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہ۔ ’’خدا نے بھی اپنے قانون تشریح میں بہ تصدیق اپنے قانون قدرت کے تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی (المائدہ: 3) کا حکم فرمایا۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ دوم، روحانی خزائن جلد1صفحہ59)

پس

جب ہم نے اپنے آپ کو انصار اللہ کہا ہے اور نَحنُ اَنصارُ اللّٰہ کا نعرہ لگایا ہے تو ہمیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں ہونے کا حق اور انصار اللہ ہونے کا حق ادا کرنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس کی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔

اپنی حالتوں کو ہم تبدیل کرنے والے ہوں۔ اپنے بچوں کی حالتوں میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ اپنے گھروں کے ماحول کو پُرامن رکھنے والے ہوں۔ اپنے معاشرے کے ماحول کو پُرامن رکھنے والے ہوں اور آخر میں اس دنیا کو امن اور سلامتی کا پیغام پہنچانے والے ہوں اور اس دنیا کو ایک خدا کا ماننے والا بنانے والے ہوں اور دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہرانے والے ہوں اور دنیا کو آپؐ کے جھنڈے تلے لانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم ہمیشہ ایسے ہی انصار بن کر رہیں۔ آمین۔ اب دعا کر لیں۔ (دعا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button