با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب (حصہ دوم۔ آخری)
آج کل کا دَور مشینی دَور ہے، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا دَور ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ماں اور باپ دونوں ہی جاب کرتے ہیں یا اگر والد جاب کرتا ہے تو والدہ کا دن کافی مصروف گزرتا ہے۔ اُن کے پاس بچوں کو دینے کے لیے وقت بہت کم ہوتا ہے۔ لیکن انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کے لیے وقت نکالیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ بچپن کا سکھایا ہوا پتھر پر نقش کی طرح ہوتا ہے تو وہ اصل وقت ہوتا ہے جب والدین کو اور خاص طور پر ماں کو وقت دینا چاہیے اوراپنے بچوں کو ادب و آداب سکھانے چاہئیں۔ بچے ذہین ہوتے ہیں، وہ چھوٹی چھوٹی باتیں اپنے گھر میں اپنے ارد گرد بہت نوٹ کرتے ہیں اور جب وہ اپنے والدین سے اُن کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو دونوں ماں باپ کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ وہ انہیں بیٹھ کر ان باتوں کا جواب دیں۔ اُن کو سکھائیں کہ بڑوں سے ’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب کرنا ہے۔ ’’تم‘‘ نہیں کہنا، چاہے وہ ماں باپ ہیں یا بڑے بہن ،بھائی۔ یہ ہمارا معاشرہ، ہماری ثقافت نہیں جہاں بڑے اور چھوٹے میں ادب آداب کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ مغربی ممالک میں بچوں کو سکول میں سکھایا جاتا ہے کہ آپ کے دل میں جو بات ہے کہہ دیں، آپ جو کچھ بھی کہنا چاہیں کہہ سکتے ہیں۔ اس لیے بچے کسی کا کوئی لحاظ نہیں کرتے اور جو اُن کے دل میں ہوتا ہے وہ کہہ دیتے ہیں۔بعض لوگ اس پر ہنس بھی دیتے ہیں اور یہ کہہ دیتے ہیں کہ جی بچے ہیں اور بچے تو مَن کے سچے ہوتے ہیں اس لیے وہ یہ بات کہہ رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ وہ اپنے دل کی بات ضرور کریں مگر ادب و احترام کے دائرہ میں رہ کر کہ بات گراں محسوس نہ ہو۔
آج کل ایک بات اَور دیکھی جاتی ہے کہ بعض اوقات والدین اور بچہ اپنی اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن آخر میں بچہ ہی اپنی بات منوا لیتا ہے اور ماں باپ بالآخر اس کی بات مان لیتے ہیں۔ بچے بعض دفعہ آپ کی اس بات کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے جو کام آپ اُن سے کروانا چاہتے ہیں اور جب آپ دو تین دفعہ اُسے کہتے ہیں تو وہ رونا، چلانا شروع کردیتا ہے اور آپ گھبرا کر اس وقت اُس کی بات مان لیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ابھی بچہ ہے خود ہی ٹھیک ہو جائے گا لیکن اکثر اوقات ایسا نہیں ہوتا۔ بلاشبہ چھوٹے بچہ کو والدین کی ہر وقت ضرورت ہوتی ہے اور اُس کے ناز نخرے بھی اُٹھاتے ہیں اس لیے بچہ کو لگتا ہے کہ اُس کے جو من میں آئے گا وہ اُسے کرنے کا حق دار ہے۔ بچپن سے اُس کی بات منوانے کی عادت اس قدر پختہ ہو جاتی ہے کہ وہ مستقبل میں والدین کی کوئی بات نہیں مانتا اور اپنی من مانی کرتا ہے جس سے والدین کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور بعض اوقات اس کے اثرات معاشرے پر بھی پڑتے ہیں۔ بچپن وہ وقت ہوتا ہے جب بچے میں بڑوں کی بات سننے ،ان کا احترام کرنے کی عادت ڈالی جا سکتی ہے۔
آپ کے گھر میں اگر بزرگ بھی رہتے ہیں تو اپنے بچوں کو چاہے وہ چھوٹے ہیں یا نوجوان، بزرگوں کے پاس کچھ دیر بیٹھنے کا کہیں۔ بیشک ان ممالک میں بچوں کو اپنے بزرگوں کی پنجابی یا اردو صحیح طرح سے سمجھ نہیں آتی یا وہ اُن کی طرح بول نہیں سکتے پھر بھی آپ انہیں بتائیں کہ بزرگوں کا وجود کس قدر باعثِ برکت ہے۔ امتحان دینے سے پہلے، ڈرائیونگ لائسنس کے امتحان سے پہلے، نئی ملازمت کے شروع کرنے سے پہلے اُن کے پاس جائیں اُن سے دُعا کی درخواست کریں، بزرگوں کی دعائیں اُن کا نصیب بنا سکتی ہیں۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے۔‘‘ (جامع ترمذی)
یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض بچوں کی آواز والدین سے بات کرتے ہوئے بے ادبی کی حد تک بلند ہو جاتی ہے اور وہ ایسے بات کرنے میں ذرہ برابر بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ ماں باپ کسی چیز کے متعلق دو سے تین مرتبہ پوچھ لیں یا ماں یہی پوچھ لے کہ کہاں جارہی ہو، کب واپس آؤ گی تو بُرا منایا جاتا ہے کہ ہم سے یہ سوال کیوں کیا ہے۔ یہ بات بھی اب بہت عام ہوتی جارہی ہے کہ نوجوان بچے والدین پر حکم چلاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ماں باپ کو تو کچھ نہیں پتا، انہیں تو فون اور کمپیوٹر کا استعمال بھی نہیں آتا، امی کو کیا پتا کہ آج کل کیا فیشن چل رہا ہے ۔اس لیے ہم جو کہہ رہے ہیں وہی بات مانی جائے۔ ماں کا اگر دل چاہ رہا ہے کہ وہ تھوڑے سے گہرے رنگ کے کپڑے پہنے لیکن بیٹی کو پسند نہیں تو وہ ماں کو نہیں پہننے دے گی اور والدین اپنی اولاد کی محبت میں اُن کی ہر بات مانتے چلے جاتے ہیں، بلکہ اُن سے پوچھ کر ہی ہر کام کرتے ہیں۔ بچوں کی بات ماننے میں ہرج بھی نہیں لیکن انسان کو افراط و تفریط سے بچنا چاہیے، ہر کام میں میانہ روی ضروری ہے۔ اگر بچہ درست بات کر رہا ہے تو اس کی بات مان کر اُس کی حوصلہ افزائی کریں لیکن اگر غیرمناسب بات کر رہا ہے تو اُسے پیار سے سمجھائیں اور اپنے وقار کو قائم رکھیں۔
حضرت مسیح موعودؑ حفظ مراتب کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’گر حِفْظِ مَرَاتِبْ نَہ کُنِیْ زَنْدِیْقِیْ [اگر تُو لوگوں کے مرتبہ کا خیال نہیں رکھتا تو تُو بے دین ہے]‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۲۶،ایڈیشن۱۹۸۸ء)
جس طرح ریت کے ذروں میں موتی اپنی چمک اور اہمیت نہیں کھوتا اسی طرح مؤدب شخص انسانوں کے جم غفیر میں اپنی شناخت کو قائم و دائم رکھتا ہے۔ یہ بات صرف بچوں کو سمجھانے والی ہی نہیں بلکہ ہم سب کے لیے بھی ہے کہ دوسروں کی عزت کریں ان سے تعظیم سے پیش آئیں۔ ہم اپنا نمونہ دکھائیں گے تو ہماری آنے والی نسل ہم سے سیکھے گی۔ بچے مَن کے سچے اور کھرے ہوتے ہیں اگر انہیں ایک بات سمجھ آجائے تو وہ ضرور اُس پر عمل کرتے ہیں بس حکمت اور احسن طریق سے سمجھانا آپ کا کام ہے۔